کثیرالملکی اشتراک(Multilateralism) ریاستی خودمختاری پر حملہ ہے اور اسلام سے متصادم ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: انجینئر معیز، پاکستان
کثیرالملکی اشتراک (Multilateralism) کی سوچ کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سوچ مختلف ریاستوں کی قومی پالیسیوں کو اس انداز میں مربوط کرتی ہے جوکم از کم تصوراتی طور پر ایک ایسی عالمی حاکمیت کو جنم دے گی جس سے تمام ریاستیں فائدہ حاصل کریں گی۔ کثیرالملکی شریک اداروں Multilateral institutionsکے ذریعے قومیں اپنے مفادات کی اس انداز میں ترجمانی کریں گی جو دیگر ریاستوں کے مفادات کے ساتھ موافقت رکھتا ہو تاکہ ایک متفقہ عالمی نظم و نسق ابھرے جو تمام ریاستوں کے حالات کی بہتری کیلئے کام کرے۔ یہ سوچ دوطرفہ معاہدوں کی سوچ کے خلاف ابھری جو دنیا میں معروف تھی، جہاں ریاستیں ایک وسیع عالمی اتفاق consensusکی بنیاد پر خارجہ پالیسی بنانے کی بجائے ایک ریاست دوسری ریاست سے انفرادی اور مخصوص انداز میں خارجہ پالیسی تعلقات بنانا مفید سمجھتی تھی۔ لہٰذا کثیرالملکی اشتراک کیلئے متفقہ رائے لازمی امر ہے، اور یہاں سے کثیرالملکی اشتراک کا ملکی خودمختاری سے پہلا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ فطری طور پر کثیرالملکی اشتراک یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس میں حصہ دار ممالک اپنے قومی مفادات پر لچک دکھاتے ہوئے عالمی متفقہ رائے کے حق میں اپنے مفادات کا تشریح کریں۔ دوسرے الفاظ میں ریاستوں کو عمومی عالمی اتفاق کو ملحوظِ خاطر رکھنے کیلئےاپنے قومی مفادات کی تشریح کرتے ہوئے اپنی خودمختاری پر کچھ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے اس اشتراک میں شریک ممالک کی ثقافت، معاشرت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔لہٰذا کثیرالملکی مشترکہ حاکمیت Multilateral governanceکی روح عمومی عالمی اتفاق ہے۔ اس امر سے نکلنے والا ایک سوال یہ ہے کہ قومی اور عالمی اہمیت کے متعدد معاملات پر متفقہ رائے کیسے قائم ہو گی؟ اس مقصد کیلئے عالمی طاقتوں نے جدید کثیرالملکی مشترکہ ادارے قائم کیے جن کےبارے میں یہ سوچ دی گئی کہ ان اداروں کے ذریعے دنیا کے معاملات کو چلانے سے متعلق اتفاقِ رائے قائم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف اس سوچ پر بنایا گیا کہ یہ ادارہ عالمی سطح پر مالیاتی استحکام قائم رکھنے کے ذریعے عالمی تجارت میں مدد دے گا۔ عالمی بینک اس سوچ پر بنایا گیا کہ یہ ادارہ دنیا میں ترقیاتی ایجنڈا لے کر چلے گا اور اقوامِ متحدہ اس سوچ پر بنائی گئی کہ یہ ادارہ دنیا میں سیاسی تنازعات کو حل کرنے میں مدد دے گا۔
لیکن "عمومی اتفاق” consensusکی اصطلاح گمراہ کن ہے۔ اس کے مطابق تمام ریاستوں کی حقیقی مشاورت اور اس مشاورت میں شمولیت کا حقیقی طریقہ موجود ہونا چاہیے۔ لیکن سچ چھپ نہیں سکتا ۔ جب ان کثیرالملکی مشترکہ اداروں کے فیصلہ سازی سے متعلق ڈھانچے سامنے آئے، تو لفظ "عمومی اتفاق” کا مطلب کثیرالملکی اشتراک میں یہ نکلا کہ یہ وہ اتفاق ہے جوعالمی طاقتوں کی درجہ بندی کے مطابق ان ہی کی ترجمانی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف میں ووٹ کا حصہ ممبر ریاستوں کی معیشت کے حجم اور فنڈ میں ان کے مالی چندے کے مطابق ہے، جو دراصل آئی ایم ایف کے فیصلوں میں امریکہ کو ویٹو کی طاقت دیتا ہے کیونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور فنڈ کا سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ میں ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممبران ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس دور کی عالمی طاقتیں ہی اثر ورسوخ کی حامل اور سیاسی طور پر بھاری ہیں۔
لہٰذا کثیرالملکی اشتراک (Multilateralism) فطری انداز میں عالمی اتفاق بنانے کیلئے کم اور عالمی طاقتوں کے دنیا کے معاملات اور عالمی حاکمیت سے متعلق پہلے سے طے شدہ اتفاق کو ترویج دینے اور نافذ کرنے کیلئے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیامیں قائم ہونے والا ورلڈ آرڈراس کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی دنیا کو اکثر لبرل ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اقدار مغربی تہذیب سے لی گئی تھیں، اگرچہ اس نئے عالمی نظام کے قیام کے وقت دنیا میں اس کے متبادل آئیڈیالوجی موجود تھیں جو مغربی تہذیب کی مدِ مقابل تھیں ۔ اس سے کثیرالملکی اشتراک کے بارے میں مزید سمجھ ملتی ہے کہ یہ دراصل مغربی تہذیب و ثقافت کو غالب کرنے کا مغربی منصوبہ ہے جس میں کثیرالملکی اداروں کے ذریعے سیاست، اقتصادیات اور انسانی معاشروں کی تنظیم کے مغربی افکار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس نے مغرب کو اپنی اقدار کو عالمی بنانے میں مدد دی اور کثیرالملکی اشتراک کے ذریعے ریاستیں اس امر پر مجبور ہوئیں کہ اپنے ملکی مفادات کی تشریح اس عالمی متفقہ آرا کے مطابق کریں جس کی تشکیل خالصتاًمغربی ثقافت ،مغربی اقدار اور قومی مفادات کے متعلق مغربی نقطہ نظر پر کی گئی ہے۔ اس سے مغربی ریاستوں، خصوصاً امریکہ کو دیگر ریاستوں کے معاملات پر زبردست طاقت اور اثرورسوخ مل گیا کیونکہ اب دنیا کی زیادہ ترریاستیں اپنے قومی مفادات کو اس عالمی اتفاق سے جوڑ کر دیکھنے لگیں جس کی وہ حکم عدولی نہیں کر سکتی تھیں ۔
کثیرالملکی اشتراک کو اکثر ایک سیاسی امر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو سیاسی اقدامات تک محدود ہے، جبکہ اصل میں یہ ریاست کے اعمال کوعالمی اتفاق کے مطابق ایک خاص انداز میں ڈھالتا ہے جس سے سیاسی اعمال جنم لیتے ہیں، لیکن اس کا ثقافت پر بھی اتنا ہی اثر ہے جتنا سیاست پر ہے۔ یہ اس کثیرالملکی اشتراک کا ریاستی اور معاشرتی خودمختاری پر ایک اور حملہ ہے جہاں قومی مفادات کی کسی بھی ایسی تعبیرکو رد کر دیا جاتا ہے کہ جو مغربی کلچرکے علاوہ کسی اورکلچر سے نکلی ہو۔ اس کی واضح مثال توہینِ رسالت کا معاملہ ہے جسے مذہبی معاشرے مذہبی تقدس کی پامالی کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ مغرب اسے خالصتاًآزادیٔ رائے کی نظر سے دیکھتا ہے اور متعدد کثیرالملکی اداروں کے ذریعے اپنے "آزادی رائے” کے نظریے کو توہینِ رسالت کے معاملے میں معیار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پس کثیرالملکی اشتراک مقامی اور اصل ثقافتوں پر حملہ کرتا ہے تاکہ وہ ثقافت ریاست کی پالیسی کی بحث سے الگ ہو جائے اور اس طرح معاشرے اپنے کلچر کی روشنی میں ملکی مفادات طے کرنے کے حق اور خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے موجود پروگرام کو ہی دیکھ لیں۔ پاکستان کیلئے اور عموماً دنیا کیلئے آئی ایم ایف کے نسخے ایسی پالیسیاں ہیں جن کی جڑیں ترقی کیلئے فری مارکیٹ کے متعلق نیولبرل معاشی نقطۂ نظر میں پیوست ہیں۔ قرضوں کے انتظام سے لے کر شرح مبادلہ تک اور شعبہ توانائی سے لے کر زراعت تک، اس نقطۂ نظر کے مطابق منڈی کا اتارچڑھاؤ معیشت کے کسی بھی شعبے میں وسائل مختص کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور منڈی یا مارکیٹ سے متعلق اصلاحات کے ذریعے مارکیٹ کو آزاد کر دینا ہی ابھرتی معیشتوں کیلئے ترقی کا واحد راستہ ہے۔ بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب سرمایہ دارانہ اشرافیہ کی یہی نظریاتی سوچ ہے، خصوصاً امریکہ اور برطانیہ میں، اور جسے بدنامِ زمانہ واشنگٹن اتفاقِ رائے “Washington Consensus” کہا جاتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف نے بطور کثیرالملکی ادارے کے پاکستان جیسے مسلم ملک میں، جس کی مضبوط اسلامی ثقافت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو رد کرتی ہے، اس میں بھی واشنگٹن اتفاقِ رائے کی پالیسیاں نافذ کروا دیں۔ لہٰذا آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو ایسے نقطہ نظر سے چلانےپر اصرار کرتا ہے جو پاکستانی عوام کے عقائد اور نظریات کےخلاف ہے ۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام میں سودی قرضوں کی قطعی ممانعت ہے اور پاکستان میں یہ ادراک ہے کہ ملکی و غیر ملکی سودی قرضوں کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے جبکہ آئی ایم ایف صرف پاکستان کو قرضہ دینے والوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ اس ادراک کی وجہ سے کہ اسلام پبلک اور نجی شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے سودی قرضوں سے منع کرتا ہے، پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کے خلاف ایک بھرپور مخالفت پیدا ہوئی ۔ اس کے باوجود کثیرالملکی اشتراک نے پاکستانی ریاست کو مجبور کیا کہ وہ ایسی پالیسیوں کو قبول کرے جو پاکستانی معاشرے کے عقائد کے برخلاف ہیں۔ یہ کثیرالملکی اشتراک کا خودمختاری پر سب سے بڑا حملہ ہے جہاں کثیرالملکی اشتراک عوام اور ریاست کے درمیان فطری ربط کو کمزور کر کے ریاست کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عوام کی بجائے عالمی اشرافیہ کے تصورات، عقائد اور معیار پر مبنی پالیسیاں اپنائے جو بالآخر عوام کو ان کے معاملات پر کنٹرول سے بےدخل کر دیتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا حالیہ پروگرام اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)، جو پیسے کی غیرقانونی ترسیل پر نظر رکھتا ہے، کے ساتھ مسئلے مسائل کثیرالملکی اشتراک کے ایک اور انداز سے پردہ اٹھاتے ہیں؛ یعنی اس کا اندازِ زبردستی ۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے ادارے کے قیام کا مقصد دنیا میں مالی استحکام کو فروغ دینا تھا، اس نے ترقی پذیر ممالک کی بڑی منڈیوں میں مالیاتی مارکیٹ کے مفادات کی چوکیداری کا کام شروع کر دیا ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں اور عالمی بینک و ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے دیگر کثیرالملکی اداروں کے ساتھ مل کر جب آئی ایم ایف ایک ملک کی معیشت اور مالیاتی انتظام کو عدم اعتماد کی سند دیتا ہے تو اس کا مطلب عالمی سرمائے تک اس ملک کی پہنچ کو کم کرنا اور عالمی تجارت میں روڑے اٹکانا ہے۔ اس طرح کی زبردستی اکثر کثیرالملکی اشتراک کے سامنے کمزور ملک کو گھٹنے ٹیکنے اور معاشی خودمختاری کو کثیرالملکی اداروں کے سامنے قربان کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے بعد اس ملک کا معاشی انتظام ان اداروں کے پاس چلا جاتا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں کثیرالملکی اشتراک نے اقتصادی، فوجی اور سفارتی پابندیوں کے ذریعے زبردستی کا انداز استعمال کیا جو اکثر عالمی طاقتیں عالمی معاشرے کے نام پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ کثیرالملکی اشتراک کی یہی زبردستی کی صفت ہی ہے جسے اکثر جدید استعماریت کہا جاتا ہے، کثیرالملکی اشتراک اس جدید استعماریت کا سب سے کارآمد ہتھیار ہے۔
اسلام کثیرالملکی اشتراک کو خودمختاری پر حملے کی وجہ سے صراحتاً رد کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلام کے علاوہ کسی اور کے سامنے مطیع بننے سے منع فرمایا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ﴿وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ "اور اللہ نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کفار کو اپنے معاملات میں غلبہ فراہم کریں ” (النساء، 4:141)۔ لہٰذا اسلام مسلمانوں کو ایسے اداروں اور معاملات میں داخل ہونے سے روکتا ہے جہاں خودمختاری کسی اور کے پاس ہو یا مسلمانوں کو دوسری اقوام کو خودمختاری میں شریک کرنا پڑے۔ علاوہ ازیں اسلام کا خودمختاری پر ایک جامع نظریاتی نقطہ نظر ہے۔ جہاں اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کے معاملات مسلم حکمران ہی طے کریں، یعنی صرف مسلمان ہی ریاست میں حکمرانی کے عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں، وہاں اسلام یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ حکمرانی صرف اور صرف اللہ کے نازل کردہ احکامات سے ہی ہو سکتی ہے، لہٰذا اختیار تو مسلمانوں کے پاس ہے لیکن حاکمیتِ اعلیٰ شریعت کے پاس ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا﴾ "کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جواس چیز پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں جوآپ پر نازل کی گئی ہے اور جو چیز آپ سےپہلے نازل کی گئی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا فیصلہ شیطان سے کرائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اسے نہ مانیں اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دورجا ڈالے” (النساء4:60)۔ لہٰذا اسلام مغرب اور دوسری اقوام کے مقابلے میں خودمختاری کے بارے میں ایک بالکل مختلف اور منفرد تصور دیتا ہے۔ جہاں مغرب خودمختاری کو عوام کی مرضی پر منحصر کرتا ہے جس کا عملی مظہر نمائندہ ادارے جیسے پارلیمنٹ ہوتے ہیں، وہاں اسلام اس خودمختاری کو قانونِ الہٰی پر منحصر کرتا ہے جس کا عملی مظہر خلیفہ ہوتا ہے جو صرف قانونِ الہٰی کو ریاستی قانون کے طور پر نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ خودمختاری کی جانب اس طرح کا نظریاتی طرزِعمل عوام کی دیکھ بھال پر ریاستی معاملات میں کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ غیرملکی ریاستوں یا اداروں سے اختیار بانٹے بغیر یا غیر ملکی طاقت کے آگے جھکے بغیر بھی اسلام کا خودمختاری کا تصور حقیقت نہیں بنتا جب تک کہ حکمرانی خالصتاً اسلام سے نہ ہو۔ یہ امر اسلام اور اسلامی ریاست کو کثیرالملکی اشتراک کا مزید گہرا دشمن بناتا ہے کیونکہ اسلام کا کثیرالملکی اشتراک سے اختلاف صرف یہ نہیں کہ معاملات کا سیاسی کنٹرول دوسرے ریاستوں یا اداروں کے پاس چلا جاتا ہے بلکہ اسلام غیر اسلامی بنیادوں پر قائم اقدار، افکار اور حل کی بنیاد پر عالمی اتفاق کو سختی سے رد کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست عالمی اتفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتی، بلکہ یہ اس اتفاق کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتی ہے۔ اپنے مفادات کو اس قائم شدہ عالمی اتفاق کے مطابق ڈھالنے اور نتیجاً اس کے سامنے جھکنے کی بجائے اسلامی ریاست اسے اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ عالمی سطح پر اسلامی ریاست کو کسی غیر طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے سے بچاتے ہوئے خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور دوسرے ریاستوں سے تعلقات دوطرفہ معاہدوں استوار کرتی ہے جو نسبتاً لچکدار ہوتے ہیں اور ریاست کے یہ معاہدے مخصوص اور اسلام کی اُن حدود کے اندر ہوتے ہیں جو اسلام نے اسلامی ریاست کیلئے دوسری ریاستوں سے تعلقات کے معاملے میں متعین کی ہیں۔اسلام کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں پر ایک اور تشویش بھی ہے۔ ریاستِ خلافت کی خارجہ پالیسی کا مقصد تمام انسانیت تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ ریاستِ خلافت اس مقصد کو غیرملکی معاشروں کو اسلام کے پیغام کی طرف دعوت سے پورا کرتی ہے جس کا طریقہ ان معاشروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے ریاست کے اختیار کے نیچے لانا ہے۔ اس سے ان معاشروں کو اسلام کے نیچے زندگی گزارنے اور تجربے اور فکر کی بنیاد پر اسلام کے پیغام کی حقانیت کو پہچاننے کا موقع ملتا ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی ادارے اسلام کی اس بنیادی خارجہ پالیسی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جس کا مقصد غیر ملکی معاشروں کو اسلام کی دعوت کے ذریعے اسلام کے اقتدار میں لانا ہے۔ کیونکہ ایسا ادارہ موجودہ دنیا کی ریاستوں کو قانونی جواز فراہم کر دے گا اور ریاستِ خلافت کی کسی بین الاقوامی ادارے میں شمولیت صرف ان کے قانونی جواز کو مضبوطی دے گی، جبکہ ریاستِ خلافت کی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی تقاضا کرتی ہے کہ ایسے تمام ریاستی ڈھانچوں اور غیر اسلامی بنیادوں پر استوار اداروں سے عالمی سطح اور ملکی سطح پر قانونی جواز چھین لیا جائے۔ یہاں اسلام کثیرالملکی اشتراک کے بارے میں ایک مختلف سوچ دیتا ہے جو دراصل نہ صرف ملکی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے بلکہ یہ اشتراک ویسٹ فیلین westphalianخودمختاری کی حفاظت کا یقین دلاتا ہے۔
اسلام کا دنیا کے بارے میں تصور اس بنیاد پر ہے کہ تمام انسانیت کے معاملات کو ایک حکومت کے نیچے چلایا جائے۔ دنیا نے صدیوں تک اس ماڈل کی عظیم کامیابی دیکھی جب ریاستِ خلافت کی حکومت تین برِاعظموں تک جا پہنچی اور ایک متنوع اور کثیر آبادی پر شرعی قوانین کے ذریعے حکومت کی گئی۔ اس پالیسی کے تسلسل اور اسلامی نظام کی برتری نے مل کرکروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا اور دنیا کی آبادی میں ایک اطمینان اور انصاف کی فضا قائم کی۔ کثیرالملکی اشتراک، جو عالمی حکمرانی کو متعدد دائرہ اختیارات اور زبردستی کے سمجھوتے کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے چلانے کی کوشش کرتا ہے اور کمزور نتائج دیتا ہے، کے مقابلے میں اسلام کا انسانی معاملات کو ایک حکومت تلے چلانے کا ماڈل زیادہ مؤثر اور طاقتور ہے کیونکہ اس سے درست نتائج اورمؤثر عالمی حاکمیت جنم لیتے ہیں۔ یہی وہ ملکی اور عالمی حکومت کا بہترین ماڈل ہے جس پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہیے، اس کی دعوت دینی چاہیے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
﴿أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾
” بھلا وہ نہیں جانتا جس نے (سب کو) پیدا کیا وہ بڑا باریک بین خبردار ہے” (الملک67:14)
ختم شد