تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت190 – 194
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (190) وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (191) فَإِنْ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (192) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنْ انتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ (193)الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (194) ﴾
” اور لڑو اللہ کی راه میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا(190) انہیں مارو جہاں بھی ان پر غلبہ پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکاﻻ ہے اور (سنو) فتنہ قتل سے زیاده سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے (191) اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے(192) ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے، اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ﻇالموں پر ہی ہے (193) حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے(194)
اللہ سبحانہ و تعالی نے مندرجہ بالا آیات میں مندرجہ ذیل باتوں کی وضاحت کی ہے:
- اللہ سبحانہ و تعالی نے پچھلی آیت میں حج کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد، ان آیات میں قتال کی تفصیلات بیان کی ہیں اور پھر حج کا ذکر کیا ہے: (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَة) "حج اور عمرہ کو پورا کرو” سورۃ البقرۃ (2: 196) حج کے بارے میں آخری آیات تک۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کئی آیات میں حج اور جہاد کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ فرمانے کے بعد (وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لاَ تَشْعُرُونَ (154) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الأَمْوالِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ( (157) "اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے(154) اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے (155) جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (156) ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں(157)” سورۃ البقرۃ (2: 157-154) حج اور عمرے کا ذکر کیا:(إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَر…) ترجمہ: "صفا اور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمره کرنے والے پر…” سورۃ البقرۃ (2: 158)
اسی طرح سورۃ الحج میں حج کی آیات بیان ہوئیں وَإِذْ بَوَّأْنَا ِلأَبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لاَ تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26) وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (28) ثُمَّ لِيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (29) ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمْ الأَنْعَامُ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنْ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (30)حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنْ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (31) ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (32) لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (33) وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرْ الْمُخْبِتِينَ (34) الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلاَةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (35) وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (36) لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرْ الْمُحْسِنِينَ (37)"اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا (26) اور لوگوں میں حج کی منادی کر دیجئے لوگ آپ کے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے (27) اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ (28) پھر وه اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں (29) یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کیے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے (30) اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی (31) یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت وحرمت کرے اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے یہ ہے (32) ان میں تمہارے لئے ایک مقرر وقت تک فائده ہے پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ ہے (33) اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے (34) انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں۔ انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں (35) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین، سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کردیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو (36) اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے!(37)” سورۃ الحج (22: 37 – 26) اس کے بعد اللہ تعالی نے قتال کی آیات بیان فرمائیں: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنْ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (38) أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنْ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأُمُورِ (41)"سن رکھو! یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے۔ کوئی خیانت کرنے واﻻ ناشکرا اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں (38) جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وه مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے (39) یہ وه ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا، صرف ان کےاس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وه مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں واﻻ بڑے غلبے واﻻ ہے (40) یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے(41)”سورۃ الحج (22: 41 – 38)
حج کی رسومات ادا کرتے ہوئے جو مشقت اٹھانی پڑتی ہے، خاص طور پر جب حاجی اپنے وطن سے دور اور حج کے مقامات کا سفر کرتے ہیں تو یہ مشقت جہاد میں جنگ کی مشقت سے ملتی جلتی ہے۔ یہ بات بہت سی آیات جن میں حج کا ذکر کیا گیا ہے ان میں حج اور جہادکے اکٹھے ذکر میں موجود حکمت کو واضح کر دیتی ہے۔ اور حج مقبول اور اللہ کی راہ میں شہادت کے ذریعے برے اعمال کا کفارہ، حج اور جہاد کے مابین اہم تعلق کو واضح کرتا ہے۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورتوں پر جہاد کی عدم فرضیت اور مردوں پر اس کی فرضیت کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا: (إن عليكن جهادا لا قتال فيه: حج إلى بيت الله الحرام) "تم عورتوں پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں قتال نہیں ہے: اللہ کے حرمت والے گھر کا حج” (بخاری 1423، 1728، احمد 6/165، ابن ماجہ2892 )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دسویں ہجری میں حج (حجۃالوداع) ادا کیا اور حج مکمل کرنے، اس کی رسومات مسلمانوں کو بتانے، اور مدینہ واپس آنے کے بعد پہلے کاموں میں سے ایک یہ کیا کہ اسامہ ( رضی اللہ عنہ) کے لشکر کو روم کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا جس کا مطلب ہے کہ حج کی ادائیگی سے مدینہ لوٹنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہلا عمل جہاد تھا۔ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ہجری کے بارہویں سال میں حج کیا۔ جب آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنا حج پورا کیا اور مدینہ واپس آئے تو آپ کا پہلا عمل فارسیوں اور روم کے خلاف فوج کو روانہ کرنا تھا اور جنگ یرموک ابھی جاری تھی کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا انتقال ہو گیا۔ اور پھر خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) نے عراق کی جنگ کے دوران حج کیا اور حج کی سعادت مکمل کرنے کے بعد، وہ لڑنے کے لئے واپس چلے گئے۔ عمر (رضی اللہ عنہ) نے ہجری کے چودھویں سال میں حج کیا اور اپنے حج کے دوران انہوں نے قادسیہ میں فارسیوں کے خلاف جنگ کے لئے مسلمانوں کو متحرک کیا۔ اسی طرح، خلفاء راشدین کے بعد بعض نیک خلفاء نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان میں سے کچھ ایک سال میں جنگ کرتے تھے اور دوسرے سال میں حج کرتے تھے گویا حج اور جہاد دونوں ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔
یہ اللہ کی کتاب میں مذکور حج ہے اور اللہ کی کتاب میں مذکور جہاد ہے۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت میں ، خلفاء راشدین اور ان خلفاء کی تاریخ میں،جنہوں نے ان کی تقلید کی ، باہمی جڑے ہوئے تھے۔ انکی حج کے لیے پیش قدمی اور دشمن سے لڑنے کے لیے انکی افواج کی پیش قدمی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ لیکن پھر ایسے لوگ آئے جو اللہ سبحانہ و تعالی کے اس قول کے مطابق تھے: (فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاَةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا) "پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا” سورۃ مریم (19: 59) لہذا انہوں نے اسلام کے احکام (حکم شرعی) کو الگ الگ کردیا۔ انہوں نے کسی حد تک عبادات سے متعلق دعوت کی اجازت دی لیکن خلافت اور جہاد سے متعلق دعوت پر مکمل خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے نماز کو خلافت سے اور حج پر جانے کو فوج کی پیش قدمی سے الگ کردیا۔ ان میں سے بعض نے جہاد کو مجروح کرنے اور پرامن جہاد کی بات کرکے اللہ کے دین میں حد سے تجاوز کرنے کی جسارت کی ، یہاں تک کہ وہ اپنی کانفرنسوں میں جہاد کو کالعدم قرار دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اللہ ان کو تباہ کرے ، وہ کیسے دھوکے میں ہیں۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کو اس طرح تقسیم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس میں سے بعض احکامات تو لے لئے جائیں اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔ عبادات کے احکامات کو معاملات کے احکامات سے الگ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اخلاقیات، مطعومات اور ملبوسات کو خلافت، خلیفہ کی بیعت اور مسلمانوں کی فوج کو لڑنے کے لیے متحرک کرنے سے الگ نہیں کیا جانا چاہئے۔ پڑوسیوں اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا جنگی پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات سے الگ نہیں ہے۔
یہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت میں اسی طرح ہے۔خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نیکی میں پیروی کرنے والوں نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ اللہ تبارک و تعالی ہمیں ان کے ساتھ جنت النعیم اور جنت الفردوس میں اکٹھا کرے۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالی کی خوشنودی حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا (وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُوْلَئِكَ رَفِيقًا) "اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں” سورۃ النساء (69:4)
2۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان لوگوں سے لڑیں جو ہم سے لڑتے ہیں۔ ان میں حربی کفار میں موجود وہ لوگ شامل ہیں جو ہم سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ہم سے لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتے جیسے کہ خواتین، بچے، بوڑھے، ان کے سکالر اور راہب۔ تاہم ، اگر وہ ہمارے خلاف لڑتے ہیں تو ہم ان کا بھی مقابلہ کریں گے۔ عمومی حکم (حکم شرعی) یہ ہے کہ ہم صرف ان دشمنوں سے لڑیں جو ہم سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں اپنی لڑائی میں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے ، اس طرح کہ ہم کسی بھی بچے یا بوڑھے یا عورت کو قتل نہیں کرتے اور ہم لڑائی میں اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرتے جیسے کہ غداری کرنا، درختوں کا کاٹنا وغیرہ سوائے اس کے کہ جنگی پالیسی میں شریعت کے حدود کے اندرجس کی ضرورت ہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوجوں کو لڑائی کے لئے بھیجتے ہوئے کہا کرتے تھے: (اغزوا في سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله، اغزوا ولا تَغُلُّوا ولا تغدروا ولا تُمَثِّلوا ولا تقتلوا الوليد ولا أصحاب الصوامع)"اللہ کی راہ میں لڑو ، اللہ سے کفر کرنے والوں کے خلاف لڑو ، ناحق سلوک نہ کرو ، غداری نہ کرو ، مسخ نہ کرو اور( کفار کی )خانقاہوں کے لوگوں کو قتل نہ کرو” (احمد 4/240, 5/532)
3۔ ( وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ) "اور لڑو اللہ کی راه میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں” یعنی کافروں کے خلاف اللہ کی راہ میں لڑو۔ یہ صرف ان لوگوں کے خلاف نہیں ہے جو لڑائی شروع کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ان لوگوں کے خلاف بھی ہے جو آپ کے خلاف جنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں ،کیونکہ جہاد کافروں کے خلاف لڑائی کا آغاز ہے۔ اور یہ دفاعی جنگ نہیں ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ہم صرف اسی وقت نہیں لڑتے جب وہ ہمارے خلاف لڑیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت یہ واضح کرتی ہے کہ جہاد کافروں کے خلاف جنگ کو شروع کرنا ہے تاکہ اسلام کو پھیلایا جائے، علاقوں کو فتح کیا جائے اور کلمۃ اللہ کو بلند کیا جائے۔
- ( قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنْ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً) ” ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہئے” سورۃ التوبہ (123:9)
- (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ) "ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے”سورۃ البقرۃ (2: 193)
- (قَاتِلُوا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ) "ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ﻻتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کرده شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں” سورۃ التوبہ (29:9)
اور بھی بہت سی آیات ہیں۔۔۔۔۔یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلام کو پھیلانے کے لئے کافروں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے:
- (اغزوا في سبيل الله قاتلوا من كفر بالله) "اللہ کی راہ میں لڑو ، اللہ سے کفر کرنے والوں کے خلاف لڑو” (احمد 4/240, 5/532)
- (ادعهم إلى ثلاث خصال فأيهن أجابوك فاقبل منهم)"ان کو تین اعمال کی دعوت دو، وہ جس کی بھی حامی بھر لیں، ان سے قبول کر لو” (مسلم 3261)
رسول اللہ کے دور اور خلفائے راشدین کے دور کی فتوحات اس بات کی گواہ ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کافروں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا گیا۔
آیت (وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ)"اور لڑو اللہ کی راه میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں” کا مفہوم یہ ہے: اللہ کی راہ میں ان کافروں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں یعنی کافروں کے جنگجوؤں سے اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ لہٰذا خواتین، بچوں، بوڑھوں، علماء اور خانقاہوں میں رہنے والے راہبوں سے جنگ نہ کرو جو تم سے لڑتے نہیں ہیں۔ اگر وہ لڑتے ہیں تو ان سے لڑو۔ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جسے قتل کیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :(ما كانت هذه لتقاتل) "یہ وہ عورت نہیں ہے جس کے ساتھ لڑائی ہونی چاہیے تھی” (ابو داؤد 2295 ، احمد 4/178 ، 3/488) اور آپ ﷺنے اس کے قتل کی توثیق نہیں کی۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لڑتی ہے تو پھر اسے قتل کرنے کی اجازت ہے۔
(وَلاَ تَعْتَدُوا) "حد سے تجاوز نہ کرو” کے معنی ہیں دشمن سے لڑنے میں شرعی احکامات کی خلاف ورزی نہ کرو ، لڑائی میں جو ممنوع ہے اس کا ارتکاب نہ کرو۔ اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی بھی حالت میں اپنے دشمن کے خلاف لڑائی کا آغاز نہ کریں۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ لڑائی کی اجازت صرف اس وقت دی گئی تھی جب اسلام کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے خلاف زیادتی کی گئی تھی ، پھر لڑائی کی شروعات خود کرنےکو ایک اور آیت کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا تھا ، یہ رائے مرجوح ہے کیونکہ ناسخ منسوخ کا قاعدہ اس وقت کے سوا لاگو نہیں ہونا چاہئے جب ہر پہلو میں تضاد موجود ہو۔ یہاں کوئی تضاد نہیں ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں کافروں کے خلاف لڑائی کا آغاز نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں لڑائی کی حدود کو پامال کرتے ہوئے حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ لہذا ہم اس سے زیادہ نہیں بڑھتے جو شریعت نے لڑائی میں اجازت دی ہے ، جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ آیت (وَلاَ تَعْتَدُوا)"حد سے تجاوز نہ کرو” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑائی کا آغاز نہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لڑائی میں شریعت کی حدود کی خلاف ورزی نہ کریں جیسے مُثلہ کرنا، بچوں کو قتل کرنا وغیرہ۔ لہذا ، لڑائی کی آیات کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور اس وجہ سے ناسخ و منسوخ کا قاعدہ یہاں لاگو نہیں ہوگا۔
4۔ اللہ کی راہ میں لڑائی اللہ کے کلمے کو سب سے بلند کرنے کی جدوجہد ہے۔ اور یہ کسی فائدے یا مشہوری یا دکھاوے کے لئے نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بہادری کو ظاہر کرنے یا دکھاوے کی خاطر لڑتا ہے۔۔۔۔۔ روایت میں آتا ہے کہ (سئل النبي عن الرجل يقاتل شجاعة ويقاتل حمية ويقاتل رياء، أي ذلك في سبيل الله؟ فقال: من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله) "رسول اللہ ﷺسے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی ہمت کو ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ، یا اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے فخر اور عزت کے مارے ، یا دکھاوے کے لئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ، "جو شخص اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑے وہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔” (بخاری 120 ، 2599 ، مسلم 3525)۔
جو شخص دکھاوے کے لئے یا حب الوطنی کی خاطر یا دنیاوی مفاد کے لئے لڑتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں نہیں لڑ رہا۔ لہذا جہاد میں نیت دیکھی جاتی ہے جو دوسری عبادات کی طرح ہے۔ نیت کا درست ہونا ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا (أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمْ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ) "کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہرنہیں کیا کہ تم سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟” سورۃ آل عمران (142:3)
5۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی بہت ساری آیات اور رسول ﷺ کی احادیث لڑائی اور جنگی پالیسی کے امور کو واضح کرتی ہیں۔ مندرجہ ذیل آیت میں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ،(وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ َْخْرَجُوكُمْ) "انہیں مارو جہاں بھی ان پر غلبہ پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکاﻻ ہے” سورۃ البقرۃ (191:2) اللہ سبحانہ وتعالی نے لڑائی کے امور میں دو چیزوں کی وضاحت کی ہے:
- حربی کفار کے خلاف کسی بھی جگہ لڑائی کی جاسکتی ہے سوائے ایک جگہ کے جس کا تذکرہ اس آیت میں موجود ہے (عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) "(ان سے مت لڑنا) مسجد الحرام میں” مسجد الحرام میں لڑنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ بھی وہاں ہم سے نہ لڑیں، اگر وہ لڑتے ہیں تو ہم بھی وہاں لڑیں گے جیسے کہ اس کی وضاحت بعد میں کی گئی ہے۔ (وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ) "انہیں مارو جہاں بھی ان پر غلبہ پاؤ” یعنی انہیں ان تمام جگہوں پر قتل کروجہاں تم انہیں پاؤ۔ جیسا کہ لفظ (حَيْثُ) "جہاں کہیں بھی” جگہ کی صفت ہے ( ظرف مكان)۔
- کفار کے جنگجوؤں کو ان تمام جگہوں سے نکالنا فرض ہے جہاں سے انہوں نے مسلمانوں کو بے دخل کیا ہے۔ اور ان کو وہاں رہنے کی اجازت دینا درست نہیں۔ اس اجازت کی بابت کیے گئے تمام معاہدے باطل تصور ہوں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا (وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ) "اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکاﻻ ہے” اور فرمایا (وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ) "انہیں مارو جہاں بھی ان پر غلبہ پاؤ” یعنی جہاں بھی ان کو پاؤ۔ لفظ (الثقف) کا مطلب ہے 🙁 الوجود على وجه الأخذ والغلبة) بالا دستی اور غلبے کے لحاظ سے موجودگی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: )وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ) "اور فتنہ قتل سے زیاده سخت ہے” لفظ "فتنہ” کا لغوی مطلب ہے سونے کو آگ کے ذریعہ پگھلانا تاکہ اس کی نجاست کو دور کیا جائے۔ اس کے بعد اس کا استعمال مومنوں کو پیش آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کے بارے میں کیا جانے لگا جیسے مومنوں کو اذیت پہنچانا، ان کو دین سے دور کرنا، اللہ کے راستے سے روکنا اور ان میں شرک پھیلانا وغیرہ۔ اسی مناسبت سے ، یہاں اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے اہلِ ایمان کو یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کافروں کے خلاف لڑنے سے دریغ نہ کریں ، کیونکہ وہ ہر طرح کی اذیتیں دے کر ان کے دین میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فتنہ، قتل سے زیادہ سخت ہے اور انہوں نے مومنوں کو بار بار قتل کیا ہے ، تاکہ ان پر فتنہ برپا کیا جاسکے ، لہذا مومنین ان کے خلاف لڑنے میں بغیر کسی نرمی کے سرگرم ہوں۔
6۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے مومنین کو واضح کیا کہ وہ مسجد الحرام میں کافروں کے خلاف جنگ نہ کریں جب تک کہ وہ وہاں مومنین کے خلاف جنگ نہ کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا (وَلاَ تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ) "اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے” حمزہ اور الکسائی نے آیت کی تلاوت یوں کی (ولا تقتلوهم… حتى يقتلوكم… فإن قتلوكم…) یعنی حرف "الف” کے بغیر (یعنی انہوں نے تلاوت کی کہ "ان کو قتل نہ کرنا .. جب تک کہ وہ آپ کو قتل نہیں کریں … اگر وہ آپ کو مار ڈالیں تو…)۔ بقیہ سات تلاوت کنندگان نے حرف ” الف ” کے ساتھ تلاوت کی۔
جہاں تک (ولا تقتلوهم) "ان کو قتل مت کرو” (الف کے بغیر) کی تلاوت کی بات ہے تویہ قتل اور لڑائی کی ممانعت ہے ، کیوں کہ قتل لڑے بغیر نہیں ہوتا ہے۔ جہاں تک دوسری تلاوت کے بات ہے ، (ولا تقاتلوهم) "ان سے لڑو نہیں” ،تو اس میں لڑائی کی ممانعت ہے ، چاہے قتل ہو یا نہ ہو۔
لہذا پہلی تلاوت سے دو معنی نکلتے ہیں لڑنا اور قتل کرنا جبکہ دوسری تلاوت سے ایک ہی محکم معنی نکلتا ہے یعنی لڑنا. دونوں تلاوت متواتر ہیں۔ محکم کو غیر غیر محکم پر ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہاں لڑائی کی ممانعت ہے ، چاہے قتل ہو یا نہ ہو یعنی مسجد حرام میں محض لڑائی کی بھی ممانعت ہے، جب تک کہ کافر ہمارے خلاف لڑنا شروع نہ کردیں ، اس صورت میں ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔
جہاں تک تعلق ہے جو فتح مکہ کے دن لڑائی کے کچھ واقعات میں ہوا تھا اور ان لوگوں کا قتل جن سے رسول اللہ ﷺ نے تحفظ کا ذمہ اٹھا لیا تھا کیونکہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا، رسول اللہ ﷺ انہیں قتل کرنے کے لئے مکہ سے باہر نہیں لے کر گئے تھے۔ یہ خاص حکم کی وجہ سے تھا جس کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کو دن کے وقت میں ایک گھنٹہ تک قتال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا (إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ) "جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اسی دن سے اللہ نے اس بستی کو ایک مقدس مقام بنایا ہے۔ تو یہ قیامت تک اللہ کے فرمان کے ذریعہ ایک حرم ہے۔ اس میں لڑنا مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی جائز نہیں تھا ، اور یہ میرے لئے دن کے وقت صرف ایک گھنٹہ کے لئے جائز بنایا گیا تھا۔ تو یہ (یعنی مکہ) قیامت تک اللہ کے فرمان کے ذریعہ ایک حرم ہے۔” یعنی اس ممانعت میں کافروں کے خلاف ہماری لڑائی شامل نہیں ہے ، اگر انہوں نے حرم میں مومنین کے ساتھ لڑائی شروع کی ہو۔ تاہم اگر انھوں نے حرم میں لڑائی چھوڑ دی اور توبہ کرلی تو اللہ سبحانہ وتعالی نہایت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا 🙁فَإِنْ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) "اور اگر وہ باز آ گئے تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔
7۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کے خلاف لڑنے کا حکم دیا ہے تاکہ انہوں نے مومنین کو جس فتنے میں مبتلا کر رکھا ہے اس کو ختم کرسکیں یعنی شرک، اللہ کی راہ سے روکنا ، مومنین کو اذیت دینا اور ان کو دین سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ لہذا ، یہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ دین صرف اللہ کا نہ ہو جائے۔ اگر کافر اپنے شرک ، کفر اور اللہ سبحانہ وتعالی کہ دین سے روکنے سے باز آجائیں تو مسلمان ان سے لڑنا چھوڑ دیں گے ، کیونکہ لڑائی صرف ظالموں کے خلاف ہے۔ اگر وہ اپنا کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جائیں تو پھر وہ ظالم نہیں تصور کیے جائیں گے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ) "ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے” یعنی جب تک کہ وہ شرک کرنے ، اللہ کے راستے سے روکنے اور مومنین کو ان کے دین سے دور کرنے کے لئے اذیتیں دینے سے باز نہ آئیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا )وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ) ترجمہ: "اور [یہاں تک] کہ دین اللہ ہی کا ہو جائے” یعنی اس وقت تک جب تک کہ دین شرک سے پاک ہوکر صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے نہ ہوجائے اس کی وجہ لفظ "اللہ” سے پہلےحرف "لام” کی موجودگی ہے جو مکمل طور پر اللہ کی بالادستی کا مفہوم دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے یہاں اس طرح ذکر نہیں کیا )وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ)"اور [یہاں تک] کہ دین، پورے کا پورا، اللہ ہی کا ہو جائے” جیسا کہ سورۃ الانفال (38:8) میں مذکور ہے.وہ آیت تمام کفار سے متعلق ہے، اُس آیت اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الأَوَّلِينَ (38) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنْ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (39) "آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے (38) اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ فساد نہ رہے۔ اور دین، پورے کا پورا، اللہ ہی کا ہو جائے پھر اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان اعمال کو خوب دیکھتا ہے (39) سورۃ الانفال ( 38،39:8)
سورۃ البقرۃکی آیت عرب کے مشرکین سے متعلق ہے یعنی کفار کا ایک حصہ جبکہ سورۃ الانفال کی آیت تمام کفار سے متعلق ہے لہذا لفظ (كلُّه) "پورے کا پورا” سورۃ الانفال کی آیت میں مناسب ہے (الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ) "دین، پورے کا پورا، اللہ ہی کا ہو جائے" برخلاف سورۃ البقرۃ کی آیت کے) الدِّينُ لِلَّهِ) "دین اللہ ہی کا ہو جائے"۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا (فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ) ” زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے” ظلم کرنے والوں (ظالموں) کو سزا دینا حقیقت میں جارحیت نہیں ہے۔ تاہم ، جارحیت کا لفظ استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جیسا کہ اللہ کے قول میں ہے (فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ) "جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی گئی ہے” سورۃ البقرۃ (194:2) یعنی برائی اور حد سے بڑھنے کی سزا کو سرکشی کا نام دیا گیا ہے۔
ختم شد