مسلمانوں کے امور میں مغربی مداخلت ، چاہے یہ ایسے حملے کے بعد ہوجس کا مسلمان حکمرانوں کی طرف سے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلمانوں کے امور میں مغربی مداخلت ، چاہے یہ ایسے حملے کے بعد ہوجس کا مسلمان حکمرانوں کی طرف سے کوئی عملی جواب نہ دیا گیا ہو یا یہ مداخلت محدود جنگ کے بعد ہو ، دونوں صورتوں میں مسلمانوں کو کبھی اپنا حق واپس نہیں مل سکا۔ اس حقیقت کا ثبوت مغرب کا ردعمل ہے جو ہندو ریاست کے اس اقدام پر سامنے آیا جو ہندو ریاست نے مقبوضہ کشمیر پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے یہودی وجود کی نقالی میں اٹھایا ہے ۔ 5 اگست 2019 کومودی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے عمل کو مغرب نے سرسری نظر سے دیکھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندو حاکمیت کے زیر اثر علاقوں میں مقبوضہ کشمیر واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ مودی نے اپنے انتہا پسند ہندو وٹروں کو متاثر کرنے کے لیے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں ایک محدود خودمختاری حاصل تھی۔ کئی دہائیوں سے اس علاقے کو یہ حق حاصل تھا کہ اس کا اپنا آئین اور جھنڈا ہو، اور باہر کے لوگوں پر یہاں جائیداد خریدنے پر پابندی تھی۔ اس آئینی شق کے خاتمے کے بعد باہر کے لوگ یہاں جائیدادیں خرید سکیں گے اور اس طرح مقبوضہ کشمیر کی آبادی میں زبردست تبدیلی لانے کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔
مودی نے سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا، مواصلات کےتمام ذرائع کو بند کردیا ، لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کردی اور قوت کے استعمال کی دھمکی دی جس پر اس نے عمل بھی کیا۔ اور جب مودی یہ سب کچھ کررہا تھا تو مغرب خاموشی سے یہ سب دیکھتا رہا۔ مغربی ممالک کے سردار، امریکا، نے اعلان کیا کہ بھارت کے اقدامات اس کے "اندرونی معاملات” کا حصہ ہیں، اور اس کے ساتھ خبردار کیا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ نہ کیا جائے جو درحقیقت پاکستان کے لیے ایک انتباہ تھا کیونکہ پاکستان کے لوگ اس صورتحال پر شدید غم وغصے کے عالم میں تھے اور مودی کے خلاف فوجوں کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ لہٰذا مقبوضہ کشمیر پر ہندو ریاست کے خلاف مغرب کا موقف اور رویہ ویسا ہی تھا جیسا کہ وہ یہودی وجود کے متعلق اپناتاہے جب یہودی وجود فلسطین میں زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے یہودی آبادکاری کے منصوبوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔ یقیناً مغربی ممالک ، جن کی صلیبی فطرت نے دور جدید میں بھی کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ، یہودی وجود اور ہندو ریاست کے قدرتی اتحادی اور حمایتی ہیں۔
اگرچہ پاکستان کی قیادت نے اسی ناکام روایتی طریقہ کار کو اپنایا ہے یعنی اقوام متحدہ سے اپیلیں کرنا جوکہ خود ایک استعماری آلہ کار ہے، لیکن پاکستان کے لوگوں کا موقف اس سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے فوجی قوت کا مقابلہ فوجی قوت سے کرنے کا مطالبہ کیا اور اس وقت مسئلہ کشمیر پر افواجِ پاکستان کو حرکت میں لانے کی رائے ایک عوامی رائے بن چکی ہے۔ افواجِ پاکستان کو حرکت میں لانے کے مطالبے کا عوامی رائے عامہ بن جانا ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ رائے عامہ اس امرکا اظہار ہے کہ مسلمانوں کے امور کومغربی استعماری اداروں پر انحصار کیے بغیر مسلمانوں کی طاقت کے ذریعے ہی حل کیا جائے۔ اس رائے عامہ کا بننا اس واحد سیاسی نظام کی جانب بڑھنے کے حوالے سے بھی ایک اہم پیش رفت ہے جو غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کو مسترد اور امت کے وسائل پر بھروسہ کرتا ہے، اور وہ ہے امت کی ڈھال خلافت ۔ یہ صرف خلافت ہی ہو گی جو ہمارے زبردست وسائل کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے متحرک کرے گی۔ اور یہ صرف خلافت ہی ہو گی جو موجودہ مسلم ممالک کو ایک واحد اور دنیا کی سب سے باوسائل ریاست کی شکل میں ضم کردے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا﴾ "جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، بے شک عزت تو سب اللہ ہی کی ہے”(النساء 4:139)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ختم شد