سوال و جواب: اوپیک پلس(OPEC+) معاہدے کے پسِ پردہ عوامل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
ریاض ویب سائٹ نے 9جولائی 2019کو یہ شائع کیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ منگل کو OPEC کے دیگر پیداواری ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں، جسے "ویانا اتحاد ” (Vienna Alliance) کا نام دیا جا رہا ہے، کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ OPEC کی جگہ ایک نیا ادارہ قائم ہو گیا ہے؟ کیا سعودی عرب کی اس اتحاد میں دلچسپی کی وجوہات داخلی ہیں یا خارجی؟ اور اس اتحاد میں اس کی اصل دلچسپی کیا ہے؟ یہ اتحاد کب تک قائم رہنے کا امکان ہے؟ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب:
جواب دینے سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت ضروری ہو گی۔
اولًا: اس معاہدے کی حقیقت:
14 ملکی OPEC ممالک نے2جولائی 2019کو ویانا میں اپنے وزارتی اجلاس میں روس سمیت تیل کے 10 بڑے پیداواری ممالک کے ساتھ میثاقِ تعاون کی منظوری دی ہے اور اس معاہدے کو "ویانا اتحاد یا اوپیک پلس (OPEC +) ” کا نام دیا ہے جس پر اگلے سال موسمِ خزاں میں روسی صدر کے سعودی دورے کے موقعے پر دستخط ہونا ہے۔ ان 24ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کے ڈھائی سالہ معاہدے میں مزید 9 ماہ کے اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ 2014 میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کے بعد روس اور سعودی عرب کے درمیان گذشتہ تین سالوں کے دوران بڑھتے ہوئے تعلقات کا نتیجہ ہیں جب تیل کی قیمتیں 147ڈالر فی بیرل کی حد کو چھونے کے بعد2016 کے اوائل میں27 ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھیں۔ تب ان تعلقات کا مقصد تیل کی رسد کی حد بندی کے ذریعے تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرناتھا۔ اس عرصے میں، سعودی عرب نے روس کے ساتھ اس معاہدے میں اوپیک ممالک کی نمائندگی کی جس کے بعد اوپیک ممالک نے تیل کی یومیہ پیداوار میں 12 لاکھ بیرل جبکہ روس نے یومیہ 3 لاکھ بیرل کی کمی کی، جس سے قیمتوں میں کمی رک گئی اور قیمت 55 ڈالر فی بیرل تک بڑھ گئی۔ اور اس میں گذشتہ دو سالوں میں اضافے کا رجحان رہا ہے جو تیل پیداواری ممالک کے لئے تسلی بخش تھا۔
اس نئے اتحاد کے بعد اوپیک ممالک کے ساتھ قازقستان، میکسیکو، آذربائجان اور روس جیسے اہم پیداواری ممالک کا اضافہ ہوا ہے، جو تیل کا 47فیصد سے زیادہ حصہ پیداکر رہے ہیں۔ ان ممالک کی شمولیت سے قبل اوپیک ممالک کی مجموعی پیداوار عالمی پیداوار کا ایک تہائی تھی۔ اس امر کے علاوہ عملاً کچھ دوسرے عوامل بھی اس معاہدے پر اثر انداز ہونگے جیسے:
(الف) اس معاہدے نے اوپیک کو ختم نہیں کیا بلکہ اوپیک کے ساتھ دیگر ممالک، جن میں روس قابلِ ذکر ہے، اس اتحاد کا حصہ بنے ہیں۔ مگر یہ اوپیک کا قائم مقام نہیں ہے۔ نہ ہی اس سے اوپیک چارٹر ختم ہوگا۔ بلکہ نئے شامل ہونے والے ممالک اوپیک پلس کا حصہ بنیں گے اور اس رضاکارانہ معاہدے سے جب چاہیں باہر آ سکتے ہیں۔
(ب) یہ معاہدہ تیل کی عالمی منڈی میں جنم لینے والی ایک نئی حقیقت کی وجہ سے تیل پیداکرنے والے ممالک پر مسلط ہوا ہے، اور وہ ہے امریکی شیل تیل (Shale Oil)۔ جس کی پیداوار میں ماضی میں کمی زیادتی ہوتی رہی ہے اور اس میں 2025 تک کسی استحکام کا امکان نہیں ہے۔ چنانچہ اس معاہدے کا تب تک باقی رہنے کا قوی امکان ہے جب تک شیل آ ئل کی قیمت مستحکم نہیں ہوتی اور منڈی پر اس کے اثرات واضح نہ ہو جائیں۔
(ج) اس معاہدے میں اوپیک ممالک میں سے امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت سعودی عرب کا کردا اہم ترین رہا ہے جو کہ امریکی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتی۔ چنانچہ اس معاہدے میں امریکہ کا کردار یقینی ہے۔ سعودی عرب کا روس سے معاہدہ بھی امریکی پالیسی کے اثرات کا نتیجہ ہے۔
ثانیاً: اس معاہدے کے محرکات:
۱۔ 2014 میں قیمتوں کے زوال کے بعد سے تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی رسد کو کنٹرول کر کے اس کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے پیداواری ممالک کے درمیان تعاون ناگزیر بن چکا ہے، یہ قانونِ طلب و رسد کے عین مطابق ہے۔ پچھلی دہائیوں میں یہ کام اوپیک ممالک کے ذریعے ہوتا تھا، لیکن اب روس دنیا میں ایک بڑا پیداواری ملک بن کر سامنے آیا ہے جو یومیہ ایک کروڑ دس لاکھ بیرل تیل تیار کرتا ہے جو کہ مجموعی پیداوار کا دس فیصد ہے۔ روس اوپیک پر نظر رکھا کرتا تھا۔ اگر اوپیک اپنی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتوں کو بڑھاتا تو روس اپنی پیداوار بڑھا کر اضافہ شدہ قیمتوں کا فائدہ اٹھاتا، کیونکہ وہ اوپیک کی قراردادوں کا پابند نہیں تھا۔ یہ بات امریکہ کے لئے ناگوار تھی۔ خاص کر ان حالات میں جب وہ روس پر پابندیاں لاگو کیے ہوئے ہے۔ چنانچہ امریکہ نے سعودی عرب کو جو اوپیک کا سب سے بڑا اور اہم پیداواری ملک ہے، یہ کام سونپا کہ وہ روس اور اوپیک کے درمیان ایک نئے اتحاد کی راہیں ہموار کرے تاکہ روس کی پیداوار کو اوپیک کے ذریعے سے کنٹرول کیا جا سکے۔
۲۔ اس تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی روس تعلقات میں 2014 کے بعد سے بہتری آئی اور4 اکتوبر2017 کو شاہ سلمان ماسکو گیا جو کسی سعودی فرمانروا کا پہلا دورۂ روس تھا۔روسی صدر اور سعودی شہزادے کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں، روس سعودیہ کے ساتھ مستقبل میں ہتھیاروں کے معاہدے کرنے کا بھی متمنی تھا۔ اور اس طرح سعودی عرب اور روس کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ سب امریکی ایجنٹ سلمان اور اس کے بیٹے کے دور میں ہوا۔ یہ کوششیں30نومبر2016 کو روس سمیت11 ممالک اور اوپیک کے درمیان ایک معاہدے کی صورت میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں جس کے بعد اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں 12 لاکھ بیرل جبکہ روس اور دیگر ممالک نے 5 لاکھ 60 ہزار بیرل یومیہ کی کمی کی۔ صرف روس نے 3 لاکھ بیرل یومیہ کمی کی ہے۔اس معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے اس سے قبل سعودی عرب نے اپنی پیداوار بڑھانے کی دھمکی بھی دی تھی، جس سے روس کو قیمتوں میں کمی اور تیل کے ضائع ہونے کا اندیشہ تھا۔ اور اس سے روس کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا، لہذا اس دھمکی نے اسے مذاکرات پر راغب کیا۔
۳۔ اس معاہدے سے تیل کی قیمتوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور معاہدے کے فورًا بعد ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ مگر یہ معاہدہ محض 6 ماہ کا تھا، بعد میں اس کی مدت بڑھانے پر طویل بحث ہوئی۔ اب جبکہ تیل کی قیمتوں میں بہتری آئی تھی، تو روس اپنے معاشی اہداف کی تکمیل کے لئے پیداوار بڑھانے کا خواہاں ہے جبکہ سعودی عرب اب بھی پیداوار میں کمی چاہتا ہے۔ وقتاً فوقتاً سعودی عرب پیداوار بڑھانے کا عندیہ دیتا رہتا ہے اور یہ دھمکی روس کو اپنی خواہش سے پیچھے ہٹانے کے لیے کارگر رہی ہے۔ اصحابِ نظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ نے سعودی عرب کوتیل کی پیداوار بڑھانے کا کہا تاکہ روس اس معاہدے کوجاری رکھے۔ روس امریکہ کی اس چال کی وجہ سے پیداوار کی کمی پر راضی ہو گیا۔ مثلاً: ہفتے کو ڈانلڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹ کیا کہ انھوں نے شاہ سلمان سے بات کی ہے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے تیل کی پیداوار 20لاکھ بیرل تک بڑھا دیں اور شاہ سلمان اس پر راضی ہیں۔ (العربی الجدید ۱/۷/۲۰۱۸)
۴۔ روس کا تیل کی پیداوار میں کمی سے ناخوش ہونا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ العین کی ۵/۶/۲۰۱۹ کی خبر کے مطابق روس کی کمپنی روزنیفٹ Rosneft) )کے CEO ایگور سیچن (Igor Sechin) نے کہا ہے کہ "(اس کا)ادارہ تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے کی توسیع کی صورت میں حکومت سے کسی زر تلافی نقصان کے مطالبے کا سوچ رہا ہے۔ سیچن نے روس کے معاہدے پر سوال بھی اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے امریکہ کے پاس اپنی پیداوار بڑھا کر روس کی بازاری حصہ داری پر قابض ہونے کا موقع ہوگا۔” بالفاظِ دیگر روس اس معاہدے کو اپنے مفاد میں نہیں دیکھ رہا، بلکہ اس کا معاہدہ جاری رکھنے کی وجہ سعودی عرب کی پیداوار بڑھا کر قیمتیں بہت زیادہ گھٹادینے کا اندیشہ ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں سعودی عرب روس کے لئے زیادہ پیداوار کے باوجود معاشی فوائد کا حصول ناممکن بنا دے گا۔ اور اس کا نتیجہ روس کے لئے نقصان دہ ہوگا کیونکہ روس کے آدھے بجٹ کا انحصار تیل پر ہے۔ تو اس کا معاہدے کا فریق بننا اس کی مجبوری ہے۔ اور اس کا تیل کی قیمتوں کو بڑھانا امریکی شیل آئل کی طلب میں اضافے کا باعث بنے گا جس سے امریکی تیل کمپنیوں کو وسعت ملے گی۔ لہذا سعودی عرب روس کے سر پر لٹکی امریکی تلوار ہے جس کے ذریعے امریکہ جب چاہے روس کی تیل پیداوار کو گھٹا سکتا ہے۔
۵۔ امریکہ کے لئے تیل کی پیداوار میں کمی کی کیا اہمیت ہے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کا امریکہ ماضی سے کافی مختلف ہے جہاں شیل آئل اب ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔اور اس کی پیداوار میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ قرضوں تلے دبی امریکی معیشت کے لئے نہایت اہم ہے۔اور اس کی پیداوار اور قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ حالات پر منحصر ہے۔ اور امریکہ نے سعودی عرب کو مارکیٹ حالات کو سازگار بنانے کے لئےاوپیک کی پیداوار کم کرنے کا کام دیا ہے۔ اس سے ایک طرف شیل آئل کو مارکیٹ حصہ داری حاصل کرنے کا موقع ملے گا تو دوسری طرف تیل کی قیمتیں اونچی رہیں گی۔ اور یہ دونوں چیزیں شیل آئل کی پیداوار کے لئے معاشی طور پر معاون ہوں گی۔ شیل آئل کو کامیاب ہونے کے لئے اس کی قیمت کو 69 ڈالر فی بیرل ہونا چاہیئے، لیکن ٹیکنالوجی میں بہتری سے اب اس کی قیمت اس سے بھی کم ہو گئی ہے۔ امریکہ شیل آئل کو تیل کی منڈی میں پرتری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ رہا ہے۔
۶۔ Carrot and stickکی پالیسی کے تحت قیمت گھٹانے یا پیداوار بڑھانے کی سعودی دھمکی دراصل stick ہے، جبکہ روس کی مشرقِ وسطٰی میں رسائی کا جھانسا دراصل carrot ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا 2017میں ماسکو کا دورہ کسی سعودی بادشاہ کا روس کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ سعودی عرب نے بھی روسی صدر کو اس بار موسمِ خزاں میں اپنے ملک دورے کی دعوت دی ہے جو کہ دوسری مرتبہ کسی روسی صدر کا دورہ سعودی عرب ہوگا۔ 29جون 2019 کو اوساکا، جاپان میں منعقدہ جی۔20 اجلاس میں شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد روسی صدر پیوٹن نے ویانا معاہدے پر دستخط کا سب سے پہلے اعلان کیا۔ ]روسی صدر نے سعودی ولی عہد کو یہ بھی کہا تھا کہ وہ "دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون پر بات کرنا چاہتے ہیں”۔ پیوٹن نے مزید کہا کہ "اوپیک پلس کے تحت اسٹریٹجک شراکت داری سے تیل کی مارکیٹ میں توازن قائم کرنے کے ساتھ تیل کی طلب کو دیکھتے ہوئے پیداوار کو گھٹانے یا بڑھانے کا موقع ملے گا، جس سے predictability پیدا ہوگی اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔” پیوٹن نے اعلان کیا کہ ” یہ معاہدہ اپنی موجودہ شکل اور مقدار پر آئندہ بھی جاری رہے گا”۔ عربی انڈیپنڈنٹ29جون 2019]۔ روس اس دھوکے میں ہے کہ اسے سعودی عرب سمیت اوپیک ممالک اور تیل کی منڈی میں رسائی حاصل ہو گی۔ روس کے ذہن میں اس غلط سوچ کو پیدا کرنے کے لئے امریکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاہدے سے ناخوش ہے۔ (بارڈوف(Bordoff)، جو اوباما حکومت میں مشیرِ توانائی رہاہے نے کہا کہ ” اس سے پہلے امریکہ تمام اہم اوپیک ممالک کے ساتھ گفت و شنید کرتا رہا ہے، تو اب ایک ایسے ملک کو معاہدے میں شامل کرنے کی کیا ضرورت تھی ،جو امریکہ کا حریف رہا ہے۔”) امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے جب اس سال کے اوائل میں پوچھا گیا کہ کیا روس تیل سفارتکاری کے ذریعے مشرقِ وسطی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے تو اس نے کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ ولادیمر پیوٹن کی یہ کوششیں ناکام ہونگی۔”
۷۔ اس معاہدے کی یہ حقیقت اور محرکات ہیں۔ مگر اس معاہدے کا دیرپا قائم رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ روس ہمیشہ پیداواری پابندیوں سے دور بھاگتا ہے تاکہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کا زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ خاص طور پر مستقبل قریب میں تجارتی جنگ کے تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہونے، وینزویلا، لیبیا اور ایران کی تیل کی پیداوار میں توازن قائم ہونے اور مارکیٹ پر اس کے اثرات مرتب ہونے کے بعد روس کا ان پابندیوں کی پاسداری کرنا کافی مشکل ہو جائےگا۔ مزید بر آں روس کے تیل کے ذخائر موجودہ پیداواری رفتار کے مطابق 20 سال میں ختم ہونے والے ہیں، نتیجتاًروس جلد ان ذخائر سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش شروع کردے گا، الّا یہ کہ کوئی نئے ذخائر دریافت ہوں۔ مگر پھر بھی یہ معاہدہ 2025تک ، جب تک کہ امریکہ میں تیل کی پیداوار میں توازن قائم نہیں ہوجاتا، قائم رہنے کا قوی امکان ہے ۔ تب اس وقت کے حقائق پر روس تیل کے حوالے سے اپنی پالیسی تیار کرے گا جو آج کافی غیر یقینی ہیں۔
۸۔ آخر میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ امریکہ کی پسِ پردہ رہتے ہوئے روس کو سعودی عرب کے ذریعے تیل پیداوار بڑھانے کی دھمکی دینے، مشرقِ وسطی میں رسائی کا جھانسہ دینے، اور روس کو اوپیک پلس (OPEC +) میثاق میں دھکیلنے کی پالیسی دراصل امریکہ کی ایک دوسری پالیسی کی کامیابی کا امکان بڑھاتی ہے۔ وہ ہے روس کو پابندیوں اور دھمکیوں کے زور پر چین کے خلاف کرنا۔ اوپیک پلس منصوبے کی کامیابی امریکہ کو روس کے خلاف پریشر بڑھانے کا موقع دے گی۔ اس کے لئے امریکہ روس کو کچھ اور جھانسے بھی دے گا۔ جب تک روس چین کے خلاف امریکی غلامی قبول نہ کر لے۔ اور اس کے لئے امریکہ نے کوششیں شروع کردی ہیں۔ چنانچہ G-20 اجلاس کی سائڈلائنز پر روس سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ Medium-Range میزائل معاہدے میں امریکہ کی شمولیت چاہتا ہے تو اسے چین کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ روس اس معاہدے کو کافی اہمیت دیتا ہے اس لئے وہ چین کو شامل ہونے کے لئے زور دے گا جس سے دونوں ممالک کے درمیان بحران کا اندیشہ ہے۔ یہ روس کو امریکہ کے قریب کرے گا۔ اس سب کے لئے، حالیہ "ویانا اتحاد” دراصل روس کے خلاف امریکی جال ہے۔
۹۔ خلاصہ یہ کہ مسلمان حکمرانوں نے ہماری دولت کو کافر استعماری ممالک کی باہمی سیاسی کشمکش کی دہلیز پر ڈال دیا ہے۔ اگر ان ممالک کا مفاد تیل پیداوار میں کمی کا تقاضا کرتا ہو تو یہ سر تسلیم خم کر دیں گے اور اگر ان کا مفاد پیداوار بڑھانے میں ہو تو یہ تب بھی حکم کی بجا آوری کریں گے۔ اگر ان کا مفاد ہماری دولت کو کوڑیوں کے مول لینے میں ہو، تو یہ حکمران اس ذلت کو قبول کر لینگے۔ اور اگر ان کا مفاد اس دولت کو ان حکمرانوں کی کرسیاں بچانے کے بہانے مفت ہتھیانے میں ہوا، جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا، تو یہ اس کو بھی بخوشی قبول کر لینگے۔ لہذا ان حکمرانوں کا حال اس دنیا میں ایسا ہے جیسے صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ [البقرة: ١٧١] (بہرے ہیں، گونگے ہیں اور اندھے ہیں، یہ سمجھتے نہیں ہیں) اور آخرت میں بھی ان کا یہی حال ہوگا۔ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً [الإسراء:٧٢] "جو کوئی اس دنیا میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ بھٹکا رہے گا”۔
٩ ذيقعد ١٤٤٠ ہجری
12/07/2019 CE
ختم شد