سوال و جواب: اہلِ طاقت سے نُصرت طلب کرنا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1۔ زیاد ولویل کے سوال:
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ شیخ عطاء،
میرا سوال نصرت طلب کرنے سے متعلق ہے: حزب نے متعدد بار یہ درج کیا کہ جب مکہ کے معاشرے نے جواب نہ دیا تو رسول اللہ ﷺدیگر قبائل سے نصرت طلب کرنے گئے۔
جو درج کیا گیا مجھے اس پر کچھ تحفظات ہیں، اور دیگر لوگوں کو بھی جنھوں نے حزب اور دیگر ذرائع سے اس بارے میں پڑھا کہ نبی ﷺ نے مشرکین کو اسلام کی طرف دعوت دی۔کیا وہ انھیں نصرت دینے کی طرف بلا رہے تھے یا اسلام کی طرف بلا رہے تھے، یاپہلے اسلام کی طرف اور پھر نصرت دینے کی طرف؟
اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ قبائل کے سردار مسلمان ہو گئے، تو کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ وہ قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہو گئے؟اور کیا یہ ممکن ہے کہ نبی ﷺ ان کے اسلام قبول کرنے کو رد کر دیں(اس بنا پر کہ انہوں نے نصرت نہیں دی)، وغیرہ؟
2۔ کامل صالح کے سوال:
کیا نبی ﷺ نے کفار سے ان کی کفر کی حالت میں نصرت طلب کی یا انھیں پہلے مسلمان ہونے کا کہا؟
۔ کیا ایک کافر سے نصرت طلب کرنا جائز ہے؟
یہ لگتا ہے کہ میرا سوال واضح نہیں ہے، لہٰذا میں اس کی وضاحت کرتا ہوں:۔
کیا نبی ﷺ نے ان سے نصرت طلب کی جب وہ کفر کی حالت میں تھے یا ان پر پہلے مسلمان ہونے کی شرط عائد کی ، اس سے پہلے کہ وہ نصرت دیتے، یا آپ ﷺکا مقصد فقط نصرت کا حصول تھا، چاہے وہ مسلمان ہو جائیں یا نہ ہوں۔
3۔ فوزی ابراھیم الشوہا کے سوال:
کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو طائف اور عرب قبائل سے ہی نصرت لینے کا حکم دیا، یاحکم صرف نصرت کا حصول تھا اور مضبوط قبائل کا تعین رسول اللہ ﷺ نے خود کیا؟
وہ اہلِ طاقت لوگ جن سے رسول اللہ ﷺ نے نصرت مانگی، طاقت کے حامل سیاسی قائدین تھے؟ یا وہ فوجی کمانڈر تھے؟ یعنی ان سے نصرت مدینہ میں ان کی سیاسی قدوقامت کی وجہ سے مانگی گئی یا فوجی طاقت کی وجہ سے؟
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کے سوالات ایک جیسے ہیں لہٰذا میں ایک ہی جواب دوں گا انشاءاللہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر ہی عمل کرتے تھے، جیسا کہ ہم نے کتاب”اسلامی شخصیت جلد 3″ میں "رسول ﷺ کے اعمال” کے باب میں درج کیا:”رسول ﷺ کے اعمال 3 اقسام کے ہیں:
تیسری قسم: وہ اعمال جو نہ تو نبی ﷺ کی انسانی فطرت سے متعلق ہیں اورنہ ان (نبی ﷺ) کیلئے مخصوص ہیں، یعنی دیگر تمام اعمال، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ہمیں ان میں نبی ﷺ کی پیروی کا حکم ہے، اور کوئی اختلاف نہیں کہ وہ شرعی دلائل ہیں، بالکل جیسے آپ ﷺ کے اقوال اور اقرار، لہٰذا ہمیں ان اعمال کے مطابق ہی عمل کرنا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے یہ اعمال ایسے ہی سرانجام دیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ…) "بے شک تمھارے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے”۔(الاحزاب 21) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، (…إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ…) ” بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچتا ہے "۔(یونس 15)۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، (…قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي…) ” آپ (ﷺ)فرمادیجئیے کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے "۔(الاعراف: 203)
اور اس کی عمومیت صریح، واضح اور ظاہر ہے، لہٰذا س میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو رسول ﷺ نے کیے، اسی طرح جیسے اس میں ان کے اقوال اور اقرار شامل ہیں۔لہٰذا،ان تمام اعمال میں رسول ﷺ کی اتباع تمام مسلمانوں کیلئے لازم ہے، جو ان کے ساتھ مخصوص نہیں اور نہ ہی ان کی فطرت سے متعلق ہیں، کیونکہ رسول ﷺ نازل کردہ وحی کے علاوہ کسی پر عمل نہیں کرتے ۔لیکن رسول ﷺ کی اتباع کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ہر عمل پر عمل کرنا فرض ہے، بلکہ اس کا مطلب عمل کے لحاظ سے اس کی پیروی کرنا فرض ہے۔لہٰذا اگر ایک عمل واجب ہے تو اس پر عمل واجب ہے، اگر ایک عمل مندوب ہے تو اس پر عمل مندوب ہے اور اگر ایک عمل مباح ہے تو اس کو کرنا مباح ہے۔لہٰذا اتباع اس حیثیت سے واجب ہے کہ جس حیثیت سے حکم کیا گیا ہے اور یہ رسول ﷺ کے زبانی حکم پر عمل کرنے کی طرح ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، (…فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)” سوجو لوگ الله تعالیٰ کے حکم کی (جو کہ بواسطہ رسولﷺ کے پہنچا ہے) مخالفت کرتے ہیں ان کو اس سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر (دنیا میں) کوئی آفت (نہ) آن پڑے یا ان پر (آخرت میں) کوئی دردناک عذاب نازل (نہ) ہو جائے”۔(النور 63)۔ جو کہ رسول ﷺ کے اطاعت کی فرضیت پر دلیل ہے ، کہ جس چیزکا وہ حکم دیں،لیکن یہ آیت رسول اللہ ﷺ نے جو بھی حکم دیا ہے اس کو لازماً اداکرنے کی طرف دلالت نہیں کرتی بلکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حکم کواس طرح سے ادا کیا جائے کہ جس طرح یہ حکم دیا گیا ۔ لہٰذا اگر انھوں نےفرضیت کے ساتھ حکم دیا، تو عمل کی ادائیگی فرض ہے، اور اگر انھوں نے مستحب طور پر حکم دیا تو عمل کی ادائیگی مستحب ہے اور اگر انھوں نے اجازت کے طور پر حکم دیا تو عمل کی ادائیگی جائزہے، پس آپ ﷺ کے افعال کی اطاعت اس طرح سے فرض ہے۔۔۔)
2۔ لہٰذا رسول ﷺ کا نصرت کا حصول اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہی حکم سےتھا، جو معاشرے سے تفاعل کے دور کے آخر میں تھاجب نبوت کے دسویں سال میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف دشمنی بڑھ گئی۔
- عيون الأثر میں درج ہے: "قتادہ نے کہا: خدیجہؓ ہجرت سے 3 سال پہلے مکہ میں وفات پا گئیں۔ وہ رسول ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائی تھیں، پھر کہا۔۔۔پھر خدیجہ بنت خویلدؓ اور ابو طالب ایک ہی سال میں وفات پائے؛ دو غمگین واقعات رسول ﷺ پر آن پڑے: خدیجہؓ اور ابو طالب کی وفات۔خدیجہؓ اسلام میں ایک وفادار مددگار اوررسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے والی تھیں۔ انھوں (قتادہ) نے کہا: زيادبكائی نے ابنِ اسحاق سے روایت کیا:خدیجہ اور ابو طالب ایک سال میں وفات پائے اور یہ نبی ﷺ پر وحی کا دسواں سال تھا، اور نبیﷺ کی مدینہ میں ہجرت سے 3 سال قبل تھا۔ابنِ قتیبہ نے ذکر کیا کہ خدیجہ ابوطالب کی وفات سے 3 دن بعد وفات پائیں۔بیھقی نے بھی یہی ذکر کیا۔” اختتام
- واقدی نے بیان کیا: "خدیجہ کی وفات ابوطالب کی وفات کے 35 راتوں بعد ہوئی، اور اس کے الٹ بھی کہا گیا، لہٰذا جب ابوطالب فوت ہوئےتو قریش نے رسول ﷺ سے ایسے برے طریقے سے برتاؤ اور بے عزتی کرنی شروع کر دی جس کی ہمت ان میں ان کے چچا کی زندگی میں نہ تھی۔ ایک دن قریش کے ایک بے وقوف نوجوان نے رسول ﷺ کے سر پر مٹی ڈال دی، رسول اللہ ﷺ گھر گئے، اس حال میں کہ ان کا سر مٹی سے اَٹا ہوا تھا۔ ان کی ایک بیٹی اسے صاف کرتے ہوئے روتی رہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«لا تبك يَا بُنَيَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ مَانِعٌ أَبَاكِ» وَيَقُولُ بَيْنَ ذَلِكَ: «مَا نَالَتْ مِنِّي قُرَيْشٌ شَيْئاً أَكْرَهُهُ حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ»مت رو بیٹی، اللہ تمھارے باپ کی حفاظت کرے گا”۔ ساتھ ساتھ یہ فرماتے جا رہے تھے: قریش نے میرے ساتھ کبھی ناپسندیدہ سلوک نہیں کیا جب تک کہ ابوطالب فوت نہیں ہو گئے”۔3۔ ان مشکل حالات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول کو دو بڑے واقعات سے نوازا – اسراء والمعراج اور دعوت کی حفاظت اور ریاست کے قیام کیلئے قبائل کے اہلِ طاقت سے نصرت مانگنے کی اجازت۔الاسراء والمعراج ابھی ہمارا موضوع نہیں۔جہاں تک نصرت کا تعلق ہے تو اس کا آغاز طائف سے ہواجنھوں نے جواب نہیں دیا، بلکہ انھوں نےآپ ﷺ کے پیچھے اوباش لگا دیے۔ اس کے بعد نصرت کا کام جاری رہا۔
رسول اللہ ﷺ طاقت اور حفاظت رکھنے والے لوگوں سے نصرت مانگتے تھے، یعنی بڑے ،مضبوط قبائل کے سرداروں سے، نہ کہ چھوٹے (قبائل) سے،اور نصرت طلب کرنے سے پہلے وہ انھیں اسلام کی طرف بلاتے تھے۔ اگر وہ قبول کرتے تو آپ ﷺ نصرت طلب کرتے جو واضح اور براہِ راست طور پرایک ایسی ریاست کے قیام کیلئے ہوتی تھی جو اللہ کے نازل کردہ سے حکومت کرے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے، اور یہی وجہ تھی کہ کچھ نے شرط لگائی کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حکومت ان کی ہو گی اور دیگر نے شرط لگائی کہ وہ عربوں سے تو لڑیں گے مگر فارس سے نہیں۔ مزید تفصیلات یوں ہیں۔
ابنِ کثیرکی کتاب السیرۃ النبوی 2/155
- الحافظ ابو نعیم نے عبداللہ بن أجلح اور يحيى بن سعيد اموی سے روایت کیا،جنھوں نے محمد بن سائب کلبی سے،انھوں نے ابو صالح سے،انھوں نے ابنِ عباس سے روایت کیا کہ عباس نے کہا:”رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا،”میں آپ اور آپ کے بھائی کے پاس کوئی حفاظت نہیں پاتا۔ لہٰذا کیا آپ میرے ساتھ بازار چلو گے تاکہ میں فوراً لوگوں کے قبائل کا حال جان سکوں”۔ (بازار) وہ جگہ تھی جہاں عرب اکٹھے ہوتے تھے۔۔۔ ابنِ عباس بیان کرتے ہیں : لہٰذا میں(عباسؓ) نے کہا: "یہ کندہ ہے، اور یہ یمن سے سفر کرنے والوں میں بہترین (قبیلہ) ہیں، اور یہ بکر بن وائل کا ڈیرہ ہے اور یہ بنی عامر بن صعصعہ ، تو خود فیصلہ کر لیں۔ عباسؓ نے کہا:وہ کندہ سے شروع ہوئے اور کہا:”تم کون سے قبیلے سے ہو؟” انھوں نےکہا:یمن کے لوگوں سے۔ آپ ﷺنے کہا: "کون سےیمن سے؟” انھوں نے کہا:”کندہ سے”،آپ ﷺنے کہا:”کندہ کے کس خاندان سے؟”انھوں نے کہا:”بنی عمر بن معاویہ”۔آپ ﷺنے کہا:”کیا تم خیر کی بات سننا چاہو گے؟”انھوں نے کہا:وہ کیا بات ہے؟ آپ ﷺنے کہا: «تشهدون أن لا إله إلا الله وتقيمون الصلاة وتؤمنون بما جاء من عند الله»"کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نماز ادا کرواس پر ایمان لاؤ جو اللہ کی طرف سے آیا ہے”۔ عبداللہ بن الأجلح نے کہا: "تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر ہم تمھیں تمھارے معاملے (دین) پر بیعت دے دیں پھر اللہ تمھیں تمھارے دشمنوں پر غلبہ عطا کرے، تو کیا تمھارے بعد حکمرانی ہماری ہو گی؟” نبی ﷺ نے جواب دیا،«إن الملك لله يجعله حيث يشاء»"یہ اللہ کا معاملہ ہے وہ جسے چاہے دے”۔انھوں (بنو کندہ)نے کہا: "ہمیں تمھارا معاملہ (دین) نہیں چاہیے”۔
- علیؓ نے کہا: "پھر ہم ایک معزز محفل میں پہنچے جہاں اعلیٰ مرتبے اور نفاست کے کئی بڑے لوگ بیٹھے تھے۔ ابو بکرؓ ان کے پاس گئے اور ان سے ملے۔ علیؓ نے کہا :ابو بکرؓ ہمیشہ اچھے اعمال میں پہل کرنے والے تھے۔ ابو بکرؓ نے ان سے کہا:تم لوگ کہاں سے ہو؟ انھوں نے کہا:بنو شعبان بن ثعلبة کے قبیلے سے۔ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی طرف مڑے اور کہا:”میرے والدین آپ پر قربان جائیں!ان کے قبیلے میں ان سے زیادہ معزز کوئی نہیں!” ان میں مفروق بن عمرو،هانئ بن قبيصہ،مثنىٰ بن حارثة اور نعمان بن شریک شامل تھے۔ ان میں سے ابو بکر کے قریب ترین مفروق بن عمرو تھا جو ان کے قبیلے کا سب سے زبردست مقرر تھا۔اس کے بالوں کی دو لڑیاں تھیں جو اس کے سینے تک آتی تھیں اور وہ ابو بکرؓ کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔مفروق نے کہا:کیا تم قریش سے نہیں؟ابو بکرؓ نے کہا:اگر تمھیں بتادیا جائے کہ قریش میں موجود اللہ کے رسول یہی ہیں ،تو پھر؟ مفروق نے کہا: یہ خبر ہم تک پہنچ چکی ہے۔پھر وہ رسول اللہﷺ کی طرف مڑا اور کہا:اے ہمارے قریشی بھائی! تم کس چیز کی طرف بلا رہے ہو؟رسول اللہ ﷺ آگے آ کر بیٹھ گئے اورابو بکرؓ کھڑے ہو کر آپ ﷺ پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا:«أدعوكم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأني رسول الله، وأن تؤووني وتنصروني حتى أؤدي عن الله الذي أمرني به، فإن قريشا قد تظاهرت على أمر الله، وكذبت رسوله، واستغنت بالباطل عن الحق، والله هو الغني الحميد…»…"میں تمھیں اس شہادت کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اور میں اس کا رسول ہوں۔اور یہ کہ تم مجھے حفاظت اور نصرت دوتاکہ میں وہ پیغام پہنچا دوں جس کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔بے شک قریش اللہ کے دین کے خلاف ہو گئے ہیں؛ انھوں نے اس کے رسول پر جھوٹ باندھا اورحق کے مقابلے میں باطل پر اطمینان کیا،لیکن اللہ الغنی اورتمام حمد کے لائق ہے۔۔۔”
اس پر مفروق نے مزید پوچھا:”تم ہمیں مزید کس چیز کی دعوت دے رہے ہو اے قریشی بھائی؟ اللہ کی قسم یہ اہلِ زمین کا قول نہیں،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم اسےضرور پہچان لیتے۔” پھر رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:(إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي، يعظكم لعلكم تذكرون)”بے شک الله تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہل قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں اور کھلی برائی اور مطلق برائی اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں الله تعالیٰ تم کو اس لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو "۔(النحل90)
مفروق نے کہا: "اے قریشی!اللہ کی قسم تم بہترین اخلاق اور خوبصورت ترین اعمال کی دعوت دے رہےہو۔بے شک وہ قوم جو تمھیں ٹھکرا دے اور تمھارے خلاف دوسروں کی حمایت کرے وہ جھوٹوں کا ٹولا ہے”۔
مفروق نے پھرهانئ بن قبيصة کو اس گفتگو میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے ھانی کو یہ کہ کر متعارف کروایا،” یہ هانئ بن قبيصہ ہیں۔یہ ہمارے بڑے اور ہمارے دینی معاملات کے سرپرست ہیں”۔پھر ھانی نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”ہمارے پیچھے گھروں میں لوگ ہیں جویہ ناپسند کریں گے کہ ہم ان سے مشورہ کیے بغیر کوئی معاہدہ کر لیں۔لہٰذا آپ بھی واپس جائیں اور ہم بھی واپس جاتے ہیں۔۔۔”ھانی نے پھرمثنىٰ بن حارثہ کو گفتگو میں شامل کرنا چاہا۔ اس نے مثنیٰ کو یہ کہہ کر متعارف کروایا،”یہ مثنىٰ بن حارثہ ہیں۔یہ ہمارے بڑے اورہمارے فوجی معاملات کے سرپرست ہیں”۔رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے مثنیٰ نے کہا،”قریشی بھائی!میں نے آپ کی بات سنی ہے۔مجھے آپ کی بات پسند آئی کیونکہ یہ میرے دل کو لگی ہے۔لیکن آپ کو میرا جواب بھی وہی ہو گا جوهانئ بن قبيصہ نے دیا، ہم دو ملکوں کی سرحدوں کے درمیان رہتے ہیں۔ یہ یمامہ ہے اور دوسراسماوہ ہے”۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا،«وما هذان الصريان؟»"تم کن دو ملکوں کی سرحدوں پر رہتے ہو؟”
اس نے جواب دیا،”ہمارے ایک طرف زمین ہے،اونچی پہاڑیاں اور عرب کے پہاڑ ہیں جبکہ دوسری طرف فارس کی زمین اور کسرٰی کے دریا ہیں۔کسرٰی نے ہمیں اس شرط پروہاں رہنے کی اجازت دی کہ ہم کچھ نیا نہ شروع کر دیں اور کسی نئی تحریک شروع کرنے والے کا ساتھ نہ دیں۔اس کا قوی امکان ہے کہ فارس کے بادشاہ وہ پسند نہیں کریں گے جس کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو۔عربوں کی زمین میں یہ رائج ہے کہ غلطی کرنے والے کو معاف کر دیا جائے اور اس کے جواز کو قبول کیا جائے؛ فارس کی زمین میں یہ رائج ہے کہ غلطی کرنے والے کومعافی نہیں ملتی اور نہ ہی اس کا جواز قبول کیا جاتا ہے۔لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں اور عربوں کے خلاف آپ کی مدد کریں، تو یہ ذمہ داری ہم قبول کر سکتے ہیں (لیکن ہم فارس کی مخالفت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے)”۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا، «ما أسأتم الرد إذ أفصحتم بالصدق، إنه لا يقوم بدين الله إلا من حاطه من جميع جوانبه»"تمھارا جواب برا نہیں کیونکہ تم نے سچی بات کی،لیکن اللہ کے دین کو وہی لوگ محکم کر سکتے ہیں جو اسے ہر جانب سےمحفوظ رکھیں”۔
سیرت ابنِ ہشام 289/2: (نبی ﷺ کا قبیلہ عامر بن صعصعہ سے نصرت طلب کرنا):۔
ابنِ اسحاق نے کہا: زھری نے مجھے بتایا کہ "نبی ﷺ (قبیلہ) عامر بن صعصعہ کے پاس آئے اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان سے حفاظت مانگی۔ ان میں سے ایک شخص جس کا نام بیحرہ بن فراس تھا، ابنِ ہشام کے مطابق فراس بن عبداللہ بن سلمہ (الخیر) ابن قشیر بن کعب بن ربیہ بن عامر بن صعصعہ تھا،آپ ﷺ کو مخاطب کر کے بولا:”اللہ کی قسم میں عربوں پر غالب آ جاؤں گا اگر میں صرف اس قریشی نوجوان کے ساتھ مل جاؤں۔ اگر ہم اس معاملے میں تمھاری مدد کریں اور پھر اللہ تمھیں تمھارے مخالفین پر فتح دے دے، تو کیا تم اپنے بعد اپنا معاملہ (اتھارٹی) ہمیں دے دو گے؟” «اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:الْأَمْرُ إلَى اللّهِ يَضَعُهُ حَيْثُ يَشَاءُ»"یہ اللہ کا معاملہ ہے، وہ جسے چاہے دے”۔
یہ نبی ﷺ کا جواب تھا۔ لہٰذا بنو عامر بن صعصعہ نے یہ کہہ کر انکار کیا،”ہم تمھاری طرف آنے والے ہر خطرے کے سامنے اپنی گردنیں رکھیں اور جب اللہ تمھیں کامیابی دے تو یہ معاملہ کسی اور کے پاس چلا جائے؟ نہیں، ہمیں تمھارے معاملے کی ضرورت نہیں”۔
آخرکار، عقبہ کی دوسری بیعت آئی اور یہ واضح تھا کہ یہ بیعت ان مسلمانوں نے دی جن کو اسلام سکھانے کیلئے مصعب نے کچھ وقت لگایا۔پھر ہی عقبہ کی دوسری بیعت ہوئی،ہجرت ہوئی اورریاست کا قیام ہوا۔مزید وضاحت کیلئے:
- سیرت ابنِ ہشام میں مذکورہے، اور حدائق الانورمیں اور سیرت کی دیگر کتابوں میں بیان کیا گیاکہ،
"حج کےموسم میں مصعب (مدینہ سے)مکہ واپس لوٹے ،اور انصار میں سے کچھ مسلمان تھے جو اپنے قبیلے کے کچھ مشرکین کے ساتھ حج کرنے آئے تھے۔انھوں نے ایام تشریق (قربانی کے بعد 3 دن) میں رات کے وقت نبی ﷺ سے عقبہ کے مقام پر ایک پہاڑی پرملاقات کی حامی بھری، جب اللہ نے ان کو عزت دینے، اپنے نبی ﷺ کی مدد کرنے اور اسلام کو مضبوط کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔کعب بن مالک نے کہا:”پھر ہم حج کرنے کی غر ض سے باہر نکلے، ہماری ایامِ تشریق میں عقبہ کے مقام پر نبی ﷺ سے ملاقات طے ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا: جب ہم نے حج کی رسومات مکمل کر لیں اور وہ رات آ پہنچی جس پر نبی ﷺ سے ملنے کا وعدہ تھا۔۔۔ ہم اس رات اپنے خیموں میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہی سوئے یہاں تک کہ جب ایک تہائی رات گزر گئی؛ ہم انتہائی خاموشی سے نبی ﷺ سے ملاقات کیلئے نکلےیہاں تک کہ عقبہ کے قریب راستہ ختم ہوا۔ ہم 73 مرد اور 2 عورتیں تھے۔۔۔ اس نے کہا: ہم اکٹھے ہو کرگھاٹی میں رسول اللہ ﷺکا انتطار کر رہے تھے۔۔۔ اس نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے کلام کیا، آپ ﷺنے قرآن کی تلاوت کی اور اللہ کی طرف بلایا اور اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی اور پھر کہا:«أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ تَمْنَعُونِي مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ»"کیا تم اس چیز پرمیری بیعت کرنے کو تیار ہوکہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے عورتوں بچوں کی کرتے ہو۔”۔ براء بن معرور نے ان کا ہاتھ تھاما اور کہا،”جی ہاں !اللہ کی قسم ،جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا،ہم ہر اس چیز سے آپ کی حفاظت کریں گےجس سے ہم اپنی(یا اپنی عورتوں کی) حفاظت کرتے ہیں۔اے اللہ کے رسول،ہم پر بھروسہ رکھیں،ہم شدید جنگجو ہیں اور جنگ میں قابلِ اعتماد ہیں؛ یہ صفت ہمیں اپنے آباؤاجداد سے ملی ہے”۔ پھرابوھیثم بن تیھان نے بات کاٹے ہوئے کہا،”اے اللہ کے رسول،ہمارے دوسرے لوگوں سے تعلقات ہیں(اس کا مطلب یہود تھا) اور ہم ان سے دشمنی مول لے رہے ہیں۔ اگر ہم یہ کر لیں اور اللہ آپ کو طاقت اور فتح عنایت کر دے، تو ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے لوگوں کے پاس واپس چلے جائیں گے؟”«فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ قَالَ: بَلْ الدَّمَ الدَّمَ، وَالْهَدْمَ الْهَدْمَ، أَنَا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مِنِّي، أُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُمْ، وَأُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُمْ…»نبی ﷺ مسکرائے اور فرمایا: "تمھارا خون میرا خون ہے،میری قبر تمھاری قبر کے ساتھ ہی ہے،تم مجھ میں سے ہو اور میں تم میں سے ہوں۔میں اس سے لڑوں گا جس سے تم لڑو گےاور اس سے صلح کروں گا جس سے تم صلح کرو گے۔۔۔”۔
ابن اسحاق نے کہا:عبادہ بن ولید بن عبادہ بن الصامت نے مجھے بتایا،جنھیں ان کے والد ولید نے ،انھیں اس کے دادا عبادہ بن صامت نے بتایا جو ایک سردار تھے،کہ:بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْعَةَ الْحَرْبِ – وَكَانَ عُبَادَةُ مِنْ الِاثْنَيْ عَشَرَ الَّذِينَ بَايَعُوهُ فِي الْعَقَبَةِ الْأُولَى عَلَى بَيْعَةِ النِّسَاءِ – عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي عُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَمَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَيْنَمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ…"ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی جو جنگ کی بیعت تھی- اور عبادہ ان 12 لوگوں میں تھے جنھوں نے عقبہ اولیٰ میں بیعت النساء کے موقع پر بھی آپﷺ کی بیعت کی تھی –(جنگ کی بیعت) اس امر پرتھی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے،آسانی میں اور مشکل میں،پسندیدگی میں اور ناپسندیدگی میں،اور ہم دوسرے مسلمانوں پر خود کو ترجیح نہیں دیں گے،اور اہلِ اختیار سے تنازع نہیں کریں گے،اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں گے،اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔۔۔” اختتام۔
4۔ لہٰذا عقبہ کی دوسری بیعت ہوئی ،یعنی اسلام کے بعدنصرت کی بیعت ، اس کے بعد کہ اسلام مدینہ میں پھیل گیا تھا، جس کے بعد ہجرت ہوئی اور پھر ریاست کا قیام ہوا۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کو نبوت کے دسویں سال نصرت مانگنے کا حکم ہوا یعنی عقبہ کی بیعت سے 3 سال قبل،کیونکہ اطاعت کی یہ دوسری بیعت نبوت کے تیرھویں سال حج کے موسم میں ہوئی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نصرت مانگنے کے اعمال نبی ﷺ پر وحی کیے گئے،یعنی قبائل میں اہلِ نصرت کی تلاش اور ان سے نصرت مانگنا۔ لہٰذا جب مصعب بن عمیر نے انھیں مدینہ کے متعلق آگاہ کیا اور 73 مرد اور 2 عورتوں نے آ کر بیعتِ عقبہ ثانی پر بیعت دی ۔نبی ﷺ نے جائزہ لیاکہ مدینہ ان کو نصرت دینے کے معیار پر پورا اترتا تھا تاکہ ریاست کو قائم کیا جائے اور اسلام اور مسلمانوں کو عظمت بخشی جائے۔اس کے باوجود، رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت نہیں کی جب تک اللہ نے انھیں دارہجرۃ دکھا نہیں دیا اور ہجرت کی اجازت نہیں دے دی، جیسا کہ بخاری میں درج ہے: "ابنِ شہاب نے کہا: عروہ بن زبیر نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا، نبی ﷺ کی زوجہ نے کہا : جب میں اس عمر کو پہنچی کہ چیزیں یاد رکھ سکتی تھی، تو اس وقت سے میں نے اپنے والدین کو اسلام کے درست عقیدے کے مطابق عبادت کرتے پایا۔ایک دن ایسانہیں گزرا جب رسول اللہ ﷺ صبح اور شام دونوں اوقات میں ہمیں ملنے نہ آئے ہوں۔اس وقت رسول اللہ ﷺ مکہ میں ہی تھے اور اپنے اصحاب سے کہتے تھے،«إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ»"مجھے تمھاری ہجرت کی جگہ دکھا دی گئی ہے۔ اس میں کھجور کے درخت ہیں جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہیں”۔
لہٰذا جب نبی ﷺ نے یہ ذکر کیا تو کچھ صحابہؓ مدینہ ہجرت کر گئے،اور کچھ جو حبشہ ہجرت کر گئے تھے وہ مدینہ آ گئے۔ جب ابو بکرؓ نے ہجرت کی تیاری کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا، «عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي»"انتظار کرو، کہ مجھے ہجرت کی اجازت ملنے کی امید ہے”۔ ابو بکرؓ نے کہا، "میرے والد آپ ؐ پر قربان، کیا آپ کو واقعی امید ہے؟” رسول اللہ ﷺ نے اثبات میں جواب دیا۔۔۔ابنِ ہشام نے روایت کیا کہ عائشہ ؓنے کہا:’ایک دن جب ہم دوپہر کو اپنے گھر بیٹھے تھے، کسی نے ابو بکر سے کہا،”وہ (دیکھو) رسول اللہ ﷺ،اپنا سر اور چہرے کا ایک حصہ کپڑے سے ڈھانپے ایسے وقت پر آ رہے ہیں جب وہ کبھی نہیں آتے”۔ ابو بکر ؓنے کہا،”میرے والد اور والدہ آپؐ پر قربان (یا نبی)! نقیناً کوئی اہم معاملہ آپ کو اس وقت یہاں لے آیا ہے”۔نبی ﷺ آئے اور داخل ہونے کی اجازت چاہی جو دے دی گئی۔نبی ﷺ داخل ہوئے اور ابو بکر ؓسے کہا،«أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ»"جو آپ کے ساتھ ہیں، انھیں باہرجانے کے لیے کہو”۔ابو بکرؓ نے جواب دیا،”(یہاں کوئی اجنبی نہیں) یہ آپ کا خاندان ہے۔ میرے والد آپ پر قربان اے اللہ کے رسول!” نبی ﷺ نے کہا،«فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ»”مجھے (مکہ سے) جانے کا حکم ہوا ہے”۔ ابوبکرؓ نے کہا،”کیامیں آپ کے ساتھ جاؤں گا اے اللہ کے رسول،میرے والد آپ پر قربان!” نبی ﷺ نے کہا،«نَعَمْ» "ہاں”۔
خلاصہ :رسول اللہ ﷺ نے نصرت اس وقت مانگنی شروع کی جب اللہ نے انھیں اجازت دی، یعنی وحی کے ذریعے (اللہ کے فرشتے جبرائیل کے ذریعے)
- رسول اللہ ﷺ جس سے نصرت مانگتے تھے، انھیں پہلے اسلام کی طرف بلاتے تھے اور اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو ان سے نصرت طلب کرتے تھے۔
- رسول اللہ ﷺ نصرت صرف قابلیت رکھنے والے اہلِ نصرت سے ہی طلب کرتے تھے، جس وجہ سے وہ صرف مضبوط قبائل ہی کے پاس جاتے تھے، کمزور کے پاس نہیں۔وہ محل وقوع کے اعتبار سے مشہورومضبوط شہروں سے ہی نصرت مانگتے تھے، نہ کہ عرب بدوؤں کے چھوٹے گاؤں سے، یعنی وہ ان کے پاس گئے جن میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کر کےاللہ کے نازل کردہ کو قائم کرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی قابلیت تھی،اور یہ ان کو واضح کر دیا جاتا تھا؛ لہٰذا کچھ نے یہ شرط رکھی کہ نبی ﷺ کے بعد حکمرانی انھیں دی جائے،اور دیگر نے شرط رکھی کہ وہ عرب سے تو لڑیں گے مگر فارس سے نہیں، وغیرہ۔۔۔
مجھے امید ہے کہ یہ جواب تینوں بھائیوں کے سوالات کے لیے کافی ہو گا، اور اللہ بہترین جاننے والا اور سمجھ والا ہے۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
22 محرم 1441 ہجری
2019/09/21 عیسوی
ختم شد