جس دور میں مسلمانوں میں حکمرانی کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ وحی تھی…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
جس دور میں مسلمانوں میں حکمرانی کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ وحی تھی، مسلمانوں بہادر، تخلیقی، ناقابل تسخیر، دشمنوں پر غلبہ پانے والے اور اسلام کے نفاذ کے لیے نئے نئے علاقے کھولنے والے ہوا کرتے تھے۔ وہ خطرات سے نہیں گھبراتے نہیں کرتے تھے ، ہار تسلیم نہیں کرتے تھے اور دین کے معاملے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے اور نہ ہی اس پر کسی بھی قسم کی مصالحت کرتے تھے۔ ان کے مضبوط، اصولی اور غیر متزلزل موقف کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکل کرتے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل وہ تصور ہے جس کے حوالے سے موجودہ نسل کے اذہان میں ایک الجھن ہے، جبکہ یہ وہ نسل ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے عظیم چیلنج کا سامنا کررہی ہے۔ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کا تصور مکمل طور پر واضح نہ ہو تو صبر، استقامت اور بہادری کے ساتھ تاریخ کے دھارے کو مسلمانوں کے حق میں موڑنے کی جدوجہد کمزور پڑجائے گی اور ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ شاید یہ ناقابلِ حصول امر ہے ۔ اگر توکل کا تصور واضح نہ ہو تو ایمان والوں پربے عملی، تذبذب، ہچکچاہٹ اور غیر ضروری احتیاط غالب آجاتی ہےاور نتیجتاًوہ مادی وسائل اور زمینی حقائق سے مرعوب و مغلوب ہوجاتے ہیں۔
توکل کے تصور کی سمجھ نہ ہو تو جوش و جذبے سر دپڑ جاتے ہیں اور جو کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے وہ حاصل کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر توکل کے تصور کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھ کر اس کو مضبوطی سے نہیں تھاما جائے گا تو مسلمان یہ سمجھنے لگیں گے کہ وہ مقصد کو حاصل کرنے سے قاصر اور انہیں یہ محسوس ہونے لگے گا کہ ان کی طاقت انتہائی محدود ہے وہ اتنا ہی حاصل کر سکتے ہیں جتنا کہ دوسری اقوام انہیں اجازت دیں ۔ مسلمان اپنی عظمت رفتہ بحال نہیں کرسکتے، اپنے دین کو غالب نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکل کرکے آگے بڑھیں۔ یقیناً عظیم مہمات ،جیسا کہ ایک ایسے وقت میں اسلامی طرز زندگی کی بحالی کی دعوت پیش کرنا جب جابر حکمرانوں کا سامنا ہو یا نُصرۃ کے حصول کی کوشش کرنا ، پر پیش قدمی نہیں کی جاسکتی اگر مسلمان اپنی طاقت کو صرف انسانی پیمانوں پر جانچیں گے۔ اگر ایک مسلمان انسانی طاقت کو سمجھ کر صرف اس کے مطابق ہی عمل کرتا ہے تو مشکل کام تو دور کی بات عام اور آسان کام بھی پہاڑ لگنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کے تصور کو صحیح سمجھا ہو تو مسلمان اپنی جسمانی اور مادی صلاحیتوں سے بہت زیادہ حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طاقت تو لامحدود ہے۔
یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہ واحد ذات ہے جن پر بھروسہ کیا جانا چاہیے اور جو بھروسہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور اس بنیاد پر اس کے بندوں کو چاہیے کہ وہ ہر عمل اس کے احکامات کے مطابق ہی ادا کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ واحد "الخالق” ہے جس نے تمام کائنات کو عدم سے وجود بخشا جس میں ناقابل شمار کہکشائیں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی واحد "القوی” اور” المقتدر” ہے اور جو کچھ انہوں نے تخلیق کیا ہے اس کے تمام معاملات ان ہی کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ "المحیی” (زندگی دینے والا) اور "الممیت” (موت دینے والا) ہے ، اور صرف وہ ہی زندگی دیتا ہے اور ایک مخصوص وقت پر زندگی ختم کردیتا ہے۔ ایک بھی زندہ شے ایسی نہیں جو اپنے وقت سے پہلے موت کا شکار ہوجائے چاہے اس نے بزدلی یا بہادری کی زندگی گزاری ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ "الرازق” اور "الوھاب” ہے اور صرف وہی ہر ایک زندہ شے کو رزق دیتا ہے، اسی کی مرضی سے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ رزق ملتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ کنجوس ہے یا وہ سخی ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی "المعز”(عزت دینے والا)، "المذل”(ذلت دینے والا) اور "الفاتح”(کامیابی دینے والا) ہے جس نے اسلامی امت کو اس کے دشمنوں پر کامیابیاں دیں اور ان کے ہاتھوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور دین اسلام کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا۔
اور یقیناً یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے جس نے اپنے متقی بندوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے جن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُن معاملات میں ان کی مدد فرمائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً "اور جو کوئی اللہ سے ڈرے(تقوی) تو اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کردے گا"(الطلاق 65:2)۔ لہٰذا جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے یعنی جس چیز کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ حکم دیتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے اور جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےمنع فرمایا وہ اس سے باز رہتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی ہر مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کردے گا اور اس کی وہاں سے مدد فرمائے گا جہاں سے وہ توقع بھی رکھتا تھا یا جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا، يعلم أنه من عند الله، وأن الله هو الذي يعطي ويمنع ” اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب کوئی جانتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا ہے تو دیتا ہے ، اور اگر چاہتا ہے تو محروم کردیتا ہے "۔ اور عبد اللہ ابن عباسؓ نے فرمایا، نجاته من كل كرب في الدنيا والآخرة ” دنیا اور آخرت کی تمام پریشانیوں سے اس کے نجات کا راستہ "۔ لہٰذا خلافت کے داعیوں اور ان کے لیے جنہوں نے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینی ہے ، ان دونوں کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی ہراس کام میں جو وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے کریں گے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی مدد کریں گے۔
ایک توکل کرنے والا مسلمان جانتے بوجھتے جان و مال کا خطرہ اٹھاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سوائے اللہ کے کوئی اس مدد نہیں کرسکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ "اور جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا تو وہ (اللہ) اس کے لیے کافی ہوگا”(الطلاق 65:3)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل ایمان والے میں بہادری کے جذبے کو پیدا کرتا ہے اور ناامیدی، منفی سوچ اور بے بسی کے احساس سے آزاد کردیتا ہے۔ یہ تصور مسلمان کی بصیرت میں وسعت پیدا کرتا ہے اور تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو متحرک کرتا ہے۔ وہ جو حقیقی معنوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کس حکم پر عمل کیا جاسکتا ہے اور کس حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اسے کوئی نہ کوئی رستہ مل ہی جاتا ہے اور وہ اللہ کے حکم پر عمل کرلیتا ہے۔ اور وہ جو توکل کے تصور کو سمجھتا ہے یہ نہیں دیکھتا ہے کہ جس عمل سے اللہ نے منع فرمایا ہے اس سے بچا جاسکتا ہے یا نہیں بچا جا سکتا۔ وہ جو حقیقی معنوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کی راہ میں وہ کسی انسان کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا۔ امام احمد سے روایت ہے کہ ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اُن سےفرمایا ، يَا غُلَامُ إِنِّي مُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُف” اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور(تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں "۔
صرف یہی نہیں کہ وہ ذات صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی ہے جو بھروسہ کرنے کا حق رکھتی ہے، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنے کا خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور یہ کہ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے۔ اللہ پر توکل قران کی آیت سے ثابت شدہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، إِنْ يَنْصُرْكُمْ اللَّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلْ الْمُؤْمِنُونَ" اور اللہ تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں "(آل عمران 3:160)۔ السعدی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ، على الله توكلوا لا على غيره، لأنه قد علم أنه هو الناصر وحده، فالاعتماد عليه توحيد محصل للمقصود، والاعتماد على غيره شرك غير نافع لصاحبه، ” اللہ پر بھروسہ کریں اور کسی پر نہیں ، کیوں کہ بندہ جانتا ہے کہ وہ واحد مددگار ہے ، اس پر بھروسہ کرنا مطلوبہ انجام کی توحید ہے ، اور دوسروں پر انحصار کرنا شرک اوراس کے لیے بیکار ہے جو ایسا کرتا ہے "۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ " کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو وہی ہمارا کارساز ہے۔ اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے "(التوبۃ 9:51)۔ البغوی نے اپنی تفسیر میں کہا، ھو مولانا، "وہ ہماری حفاظت کرنے والا ہے”، اور یہ کہ وہ ناصرنا و حافظنا "وہ ہمارا مددگار ہے اور ہمارا محافظ ہے”۔ اور ابن کثیر نے کہاکہ، سیدنا و ملجؤنا "ہمارا آقا اور محافظ”ہے۔ لہٰذا خلافت کے داعیوں اور وہ جن کے ہاتھ میں نصرہ ہے، دونوں کو امید اور بہادری اور ایمان کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے، یہاں تک کہ ان کی توانائی اور کوشش سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دے اور متحرک لوگوں میں توانائی بھر دے۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے: اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ "(اونٹ کو) باندھو اور توکل (اللہ کی ذات پر ) کرو "(الترمذی)۔ تو یہ حدیث توکل کو مسترد یا محدود نہیں کرتی بلکہ یہ اس بات کی جانب توجہ دلاتی ہے کہ اسباب کو بھی اختیار کرنا ہے۔ یہ بدو کو سمجھانے کا ایک طریقہ تھا جب اس نے یہ سمجھا کہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ وجوہات اور اثرات سے بیگانہ ہوجانا ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ توکل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وجوہات اور اثرات سے بے گانہ ہوجائیں۔ لہٰذا ایک مسلمان مادی وسائل و اسباب پر غورکرتا ہے، انہیں بروئے کار لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن وہ بہت بڑے نتیجے کی امید رکھتا ہے کیونکہ اس نے صرف مادی وسائل و اسباب پر ہی بھروسہ نہیں کیا تھا بلکہ سب سے طاقتور ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کیا تھا۔
تو آئیں کہ ہم خود کو ایک انتہائی طاقتور اسلحہ، توکل علی اللہ، سے لیس کرلیں۔ آئیں کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد میں اسے ڈھال اور تلوار دونوں صورتوں میں استعمال کریں ۔ ہمیں اپنے سفر کی طوالت پر نظر نہیں رکھنی بلکہ اس راہ پر اس یقین کے ساتھ چلتے چلے جانا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے اس مقصد کے حصول میں آسانی پیدا فرمائیں گے۔ ہماری راہ میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں سے ہمیں گھبرانا نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان رکاوٹوں کو عبور کرنے میں ہماری اس طرح سے مدد فرمائیں گے جس کے متعلق ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور کفار حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ” اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم کررہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں”
(ھود 11:123)۔
ختم شد