تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت194 – 195
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
﴿ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرة: 194). وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(البقرة: 195)﴾
"حرمت کا مہینہ حرمت کےمہینے کے مقابل ہے اور حرمتوں کو توڑنے کا بدلہ حرمتوں کو توڑنا ہے ، پس جو تم پر زیادتی کرےتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے تم پر زیادتی کی اور الله سے ڈرو اور جان لو کہ الله پرہیزگاروں کے ساتھ ہے (194) اورالله کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کواپنے ہاتھوں (جہاد چھوڑکر)ہلاکت میں نہ ڈالو او رنیکی کرو بے شک الله نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے " (195)
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان آیات میں مندرجہ ذیل کی وضاحت کی:
1۔ جب اللہ نے کفار سے مسجد الحرام میں لڑنے پر مومنین کی گرانی کو دور کر دیا، تو اللہ نے ان آیات میں حرمت کے مہینوں کے دوران کفار سے لڑنے پر گرانی کو بھی دور کر دیا، جب وہ ان سے لڑیں۔ صلحِ حدیبیہ میں مسلمانوں نے اگلے سال ذوالقعدہ کے مہینے میں عمرہ کرنے کو قبول کیا۔ یہ وہ مہینہ تھا جس میں حدیبیہ کے معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ یوں وہ عمرہ کیا گیا جس کو عمرۂ قضا کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ معاہدے کےتحت ہونے والا متبادل عمرہ تھا۔مسلمانوں کا خیال تھا کہ کفار معاہدہ توڑ کرحرم میں مسلمانوں سے لڑ پڑیں گے تاکہ مسلمانوں کو داخلے سے روک سکیں، اور اس حرمت والے مہینے میں مسلمان حرم میں لڑنے سے ہچکچا رہے تھے کیونکہ یہ ایک حرمت والامہینہ تھا۔لہٰذا اللہ نے انہیں اس آیت میں سکھایا کہ، الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ " حرمت کا مہینہ حرمت کےمہینے کے مقابل ہے اور حرمتوں کو توڑنے کا بدلہ حرمتوں کو توڑنا ہے ” یعنی اگر وہ تم سے لڑیں تو پھر تم بھی ان سے لڑو۔لفظ "قصاص” سزا کے معاملے میں برابری کا معنی رکھتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ حرمت والے مہینے میں جنگ نہیں کرتے تھے، ماسوائے کہ دشمن جنگ مسلط کرے۔اگر مسلمانوں پر حملہ نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس مہینے میں پرامن رہتے جیسا کہ احمد نے جابرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ حرمت والے مہینے میں جنگ شروع نہ کرتے ماسوائے کہ دشمن جنگ شروع کر دیتا یا پہلے سے جاری جنگ حرمت والے مہینے میں داخل ہو جاتی۔ لہٰذا جب حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ تک حضرت عثمانؓ کے قتل کی خبر پہنچی، جنھیں عمرہ کے رستے میں حائل رکاوٹ کے سدِباب کیلئے قریش کی طرف بھیجا گیا تھا، تو صحابہؓ نے درخت کے نیچے مشرکین سے لڑنے کیلئے نبی ؐ کی بیعت کی اور ان کی تعداد ایک ہزار چارسو تھی۔یہ حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ ) میں ہوا، اور جب آپؐ تک یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانؓ کو قتل نہیں کیا گیاتو آپ جنگ سے پیچھے ہٹ گئے۔
اسی طرح فتح مکہ اور جنگِ ہوازن کے بعد حنین کے دن کچھ باقی ماندہ شکست خوردہ کفار نے طائف میں پناہ لی۔رسول اللہ ﷺ نے ان کا پیچھا کیا، گھراؤ کیا اور منجنیق سے حملہ کیا۔جب ذوالقعدہ کا مہینہ شروع ہوا، توگھیراؤ جاری رہا اور رسول اللہ ﷺ نے حرمت کے مہینے کی وجہ سے گھیراؤ ختم نہیں کیا۔یہ جنگ جاری رہی اوررسول اللہ ﷺ نے صرف اسے کھولنے کی مشکل اور مسلمانوں کی شہادتوں کے وجہ سے گھیراؤ ختم کیا۔لہٰذا آپ ؐ اس محاصرے کے 14 دن بعد واپس مکہ آئے جس کی تصدیق دونوں صحیحین (بغاری و مسلم) نے حضرت انسؓ سے کی۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان،فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ " پھر جو تم پر زیادتی کرےتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے تم پر زیادتی کی "، یہ اس پر زور دے رہا ہےجو آیت میں پہلے کہا گیا، الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ " حرمت کا مہینہ حرمت کےمہینے کے مقابل ہے اور حرمتوں کو توڑنے کا بدلہ حرمتوں کو توڑنا ہے "لیکن یہ اضافی معنی کے ساتھ ہے۔ کیونکہ آیت کے شروع میں یہ حرمت والے مہینے میں ان سے جنگ کی اجازت کی طرف اشارہ کرتا ہے، اگر وہ تم سے لڑیں۔اور یہ کہنا، " اور حرمتوں کو توڑنے کا بدلہ حرمتوں کو توڑنا ہے ” سزا میں برابری کا معنی دیتا ہے، لیکن یہ معنی مسجد الحرام کیلئے مخصوص ہے۔
جبکہ آیت کے آخر میں، فَمَنْ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ " پھر جو تم پر زیادتی کرےتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی کہ اس نے تم پر زیادتی کی " عمومی معنی میں آیا ہے جوشرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے تمام زیادتیوںکی سزاؤں کے متعلق ہے جن میں برابری سے تجاوز نہیں ہوتا چاہیے۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ قول (فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ) "اس پر زیادتی کرو”استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہےجس کا مطلب ہے "اس کی زیادتی پر اسے سزا دو”۔ یہ اس لیے کہ زیادتی کی سزا کو حقیقت میں زیادتی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
پھر اللہ سبحان وتعالیٰ نے آیت کا اختتام مومنین کے دلوں کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کیا کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ ان کی مدد و نصرت کیلئے ان کے ساتھ ہے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ” اور جان لو کہ الله پرہیزگاروں کے ساتھ ہے "۔
2۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جہاد اور اس پر خرچ کرنے کو ختم کر کے اپنے آپ کوہلاکت میں نہ ڈالیں۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب جہاد پر خرچ کرنا ہے،جیسا کہ ان آیات کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے جن میں خرچ کرنے کا ذکر(فِي سَبِيلِ اللَّه) "اللہ کی راہ میں” کے الفاظ کے ساتھ آیا ہےاور اس کی وضاحت حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کی۔
ابو داؤد اور دیگر نے اسلم ابی عمران سے روایت کیا جس نے کہا: ہم قسطنطنیہ میں تھے اور روم کی ایک بڑی فوج آ گئی۔مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن کی صفوں کو توڑ دیا، تو کچھ لوگوں نے کہا، "یہ اپنے آپ کو تباہی میں ڈال رہاہے”۔ ابو ایوب انصاریؓ کھڑےہوئے اور کہا، "اے لوگو! تم اس آیت (195-2)کا یہ مطلب نکال رہے ہوجبکہ یہ ، انصار کے لوگوں، یعنی ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی۔جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے دین کو عزت دی اور اس کے حامی بڑھ گئے، تو ہم میں کچھ نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چھپ کر یہ کہا: "ہم نے اپنا مال کھو دیا اور اللہ نے اپنےدین کو عزت دی اور اس کے حمایتی بڑھے، اگر ہم اپنے مال کیلئے کام کریں تو ہم وہ واپس حاصل کر سکتے ہیں جو ہم نے کھو دیا۔ لہٰذا اللہ نے اپنے نبی پر وحی بھیجی جس نے ہماری بات کا جواب دیا، " اورالله کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کواپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو”۔توتباہی جہاد چھوڑ کر مال ومتاع کے حصول کے پیچھے لگنا ہے۔لہٰذا تباہی جہاد پر خرچ سے پیچھے ہٹنا ہے اور "اللہ کی راہ میں خرچ کرنا” کا مطلب جہاد پر خرچ کرنا ہے۔
لفظ التَّهْلُكَةِ کا مصدر هُلْك ہے۔( تفعلة) کی طرز کے مصدر اس مشہور لفظ کے علاوہ عربوں کی زبان میں موجود نہیں۔سِیبَوَیہ نے الفاظ ‘تضُرّة’ اور تسُرّة روایت کیے جو مصدر الضرر سے لیے گئےجس کا مطلب نقصان ہےاور السرور جس کامطلب خوشی ہے۔
پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ آیت کا اختتام اس حکم پر کرتے ہیں کہ وہ جو جہاد پر خرچ کر سکتے ہیں انھیں چاہیے کہ جہاد پر بہترین میں سے خرچ کریں، یعنی اپنے بہترین مال میں سے یعنی خرچ کرنے میں عمومی طور پر اچھے ہوں۔اللہ خیر کے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کو جزائے خیر دیتا ہے۔جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں، خیر ان کو آ پہنچتی ہے۔
وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
" او رنیکی کرو بے شک الله نیکی کرنے والوں کو
دوست رکھتا ہے”
ختم شد