مظلوم مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنے کے حوالے سے مسلم دنیا کے حکمرانوں اور امتِ مسلمہ کے…
بسم الله الرحمن الرحيم
مظلوم مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنے کے حوالے سے مسلم دنیا کے حکمرانوں اور امتِ مسلمہ کے درمیان موجود خلیج بالکل واضح ہے۔ امتِ مسلمہ ایغور، روہنگیا، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والےمسلسل وحشیانہ مظالم پر شدید اضطراب اور پریشانی کا شکار ہے۔ امّت دین کی بنیاد پر بھائی چارے کے تصور سے جڑی ہوئی ہے اور اسی لیے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن مسلم دنیا کے موجودہ حکمران مظلوم مسلمانوں کی مشکلات اور مصائب کو اپنی تکلیف نہیں سمجھتے۔ یہ حکمران ان مظلوموں کو غیر ملکی کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کی قومی ریاست کی سرحدوں سے باہر بستے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حکمران مظلوم مسلمانوں کی خاطر جارح اور ظالم اقوام کے ساتھ اپنے معاشی لین دین میں کسی بھی قسم کمی برداشت نہیں کرنا چاہتے۔
لہٰذا اس امرکے باوجود کہ مقبوضہ کشمیر میں سخت مظالم ڈھائے جارہے ہیں، عرب ریاستوں نے بھارت کے ساتھ اب بھی معاشی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اب کشمیر کے مسئلے کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ جیسے یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران اس معاملےپر بین الاقوامی فورمز پر اقلیتوں کو بہتر ماحول فراہم نہ کیے جانے کے حوالے سے احتجاج کررہے ہیں اور "کشمیر ہماری شہہ رگ ہے "کے بیانیے سے خاموشی سے دستبردار ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے چین کے ساتھ معاشی تعلقات کو برقرار رکھا ہوا ہے اور چینی حکومت کے ہاتھوں ایغور مسلمانوں پر ہونے والے بدترین مظالم پر ایسے خاموشی اختیار کررکھی ہے جیسے کچھ ہوہی نہیں رہا۔ پاکستان کے حکمران میانمار (برما) کو جے ایف-17 جنگی طیارے فروخت کرنے کے وعدے پر قائم ہیں جبکہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے۔
امت اور اس پر مسلط حکمرانوں کے درمیان موجود خلیج واضح ہے اور وہ وسیع بھی ہوتی جارہی ہے کیونکہ امت میں اپنے عظیم دین اسلام کے حوالے سے آگاہی اور محبت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور وہ جان گئی ہے کہ ان کی شاندار تاریخ کا تسلسل 1924 میں خلافت کے خاتمے کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے۔ امت موجودہ حکمرانوں کو چھوڑتی چلی جارہی ہے جو ابھی تک استعماری طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں اور امت کو قومی ریاستوں میں بانٹ کر” تقسیم کرو اور حکمرانی کرو”divide and rule کے استعماری اصول پر قائم و دائم ہیں۔ امت وحدت اور ایک ریاست تلے جمع ہونے کی بات کرتی ہے جبکہ یہ حکمران ابھی تک مسلم قومی ریاستوں کے درمیان تعاون کی بحث میں ہی پھنسے ہوئے ہیں جس نے واضح طور پر مسلمانوں کوتقریباً ایک صدی سے سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں دیا ہے۔
ایک ایسی ریاست کا قیام ہی ہماری صورتحال کو تبدیل اور امت اور حکمرانوں کے درمیان خلیج کو پاٹ سکے گا جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرے۔ مسلمانوں کی شناخت کا تعین ان کی نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ خلافت تمام مسلمانوں کی ریاست ہوتی ہےچاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں کیونکہ اس کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے د ور میں صرف اسلام ہی ہمارے مفادات کا تعین کرتا تھا اور اسی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے مظلوم مسلمانوں کی پکار کا جواب دیا گیا تھا۔ محمد بن قاسمؒ ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کے خاتمے کے لیے فارس سے فوج سمیت آئے۔ اور صلاح الدین ایوبیؒ، جو کہ نسلاً کرد تھے، شام میں مسجدِالاقصیٰ کی آزادی کے لیے مصر سے فوج لے کر آئے ۔
ان شاء اللہ، نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے بعد مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کے درمیان خلیج کی باتیں ماضی کا افسوس ناک باب بن جائیں گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
ختم شد