اسلام میں محصن (شادی شدہ) زانی کی سزا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال :
السلام علیکم، میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، امید کرتا ہو کہ آپ اس کا جواب دیں گے۔
محصن (شادی شدہ )زانی کے لیے موت کی سزا کے حوالے سےپوچھنا تھا کہ کیا یہ اسلامی فقہ میں قطعی ہے؟ کچھ علماء ہیں جیسا کہ شیخ ابو زہرا جو اسے حدود کی سزا کی طور پر نہیں دیکھتے۔ اس موقف کی حمایت شیخ مصطفیٰ زرقا بھی کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سزا تعزیر کے تحت آتی ہے۔ آپ اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جزاک اللہ خیر اً
جواب :
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
آپ محصن (شادی شدہ) زانی کی سزا کے متعلق پوچھ رہے ہیں کہ آیا یہ سزا اسلامی فقہ میں قطعی ہے؟ کیا اس کا تعلق حدود کی سزاوں سے ہے، یا یہ کہ اس کا تعلق حدود سے نہیں بلکہ تعزیر سے ہے جیسا کہ آج کے کچھ علماء اسے تعزیر کی سزا سمجھتے ہیں؟
آپ کے سوا ل کا جواب یہ ہے:
1۔ محصن (شادی شدہ) زانی کو پتھر مار نے(سنگسار) کے ذریعے موت کی سزا کا تعلق عقائد سے نہیں بلکہ شرعی احکام سے ہے۔ تمام دیگر شرعی احکامات کی طرح اس حکم کے لیے بھی دلیل کا قطعی ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ غلبۂ ظن کی بنیاد پر حکم شرعی کواختیار کرنا کافی ہے اور یہ اصول اسلامی فقہ کا مشہور ومعروف اصول ہے۔ ۔۔لہٰذا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس سزا کی دلیل قطعی ہے یا غیر قطعی (ظنی) ہے لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس سزا کی ایک شرعی دلیل ہو، اور شرع میں کئی درست دلائل موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ محصن زانی کی سزا پتھر مار کر(سنگسار) قتل کرنا ہے جیسا کہ نیچے بیان کیا گیا ہے۔
لہٰذا ہمیں ان لوگوں کی باتیں نہیں سننی چاہیے جو وقت کے ساتھ چلنا اور مغربی ثقافت کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے، چاہے وہ یہ عمل حقیقت کے دباؤ کے پیش نظر کرتے ہوں یا مغربی کفار کو کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہوں۔ ۔۔2۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ موجودہ دور کے کچھ علماء دلائل (دلیل کی جمع) سے صحیح اسلامی احکامات کو اخذ کرنے کے لیے درست طریقہ کار کی پیروی نہیں کررہے، لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا اسلامی حکم تلاش کیا جائے جو موجودہ حالات اور مغربی ثقافت نے دنیا میں لوگوں پر بین الاقوامی قوانین کے نام پر جو کچھ لاگو کیا ہے، اور انسانی حقوق کے کنونشنز اور دیگر قوانین کے مطابق ہو۔۔۔یہ طریقہ کار درست نہیں ہے کیونکہ جس چیز کی تلاش ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم ہے نہ کہ کوئی بھی حکم، اور نہ ہی ایسا حکم جو دنیا میں رائج مروجہ قوانین سے مطابقت رکھتا ہو۔ ۔۔ ذمہ داری یہ ہے کہ شرعی دلائل سے حکم شرعی معلوم کیا جائے، اسے نافذ کیا جائے اور اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے اور اسے پوری دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہ پوری انسانیت کے لیے ایک درست حکم ہوتا ہے کیونکہ اس حکم کودینے والا انسانوں کا خالق ہے جو ان کے حالات سے باخبر ہے، أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ” بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے "(الملک،67:14 )، أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ” دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔ یہ اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے "(الاعراف، 7:54)۔
3۔ محصن زانی کی سزا پتھر مار کر(سنگسار) قتل کرنا اور غیر محصن (غیر شادی شدہ) زانی کی سزا سو کوڑے ہے، یہ حدود کے تحت دی جانے والی اسلامی سزائیں ہیں۔ ہم نے کتاب”نظامِ عقوبات ” میں زنا کی حد کے حوالے سے کافی تفصیلات اور وضاحت پیش کی ہے اور میں اسی کتاب کے کے ایک حصے”زنا کی حد” سے کچھ پیش کرتا ہو: کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ محصن اور غیر محصن مرد اور عورت زانی کی سزا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق 100 کوڑےہے: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ ” بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو دُرے مارو، اور اللہ (کے حکم) میں تمہیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے "(النور، 24:2)۔
وہ یہ کہتے ہیں کہ اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کتاب اللہ کے یقینی اور قطعی حکم کو ایک فرد ِواحد کی روایت (خبر آحد) پر چھوڑا نہیں جاسکتا جہاں غلطی کی گنجائش موجود ہے اور اس طرح سنت کے ذریعے کتاب اللہ کو مسترد کرنے کا ذریعہ مہیا ہوتا ہے، جس کی اجازت نہیں ہے۔
وہ جو دلائل کا جائزہ لیتے ہیں وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ فرمان ایک عمومی حکم ہے، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ ” بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو دُرے(کوڑے) مارو "(النور24:2)۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ لفظ ‘زانی’ (مرد) اور ‘زانیہ'(عورت) ان الفاظ میں سے ہے جو عمومیت کے لحاظ سے استعمال ہوتے ہیں، لہٰذا اس میں محصن اور غیر محصن دونوں شامل ہیں۔ جب حدیث آئی جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا، واغد يا أُنيْس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها "اے انیس، کل اُس عورت کے پاس جاؤ۔ اگر وہ جرم تسلیم کرلیتی ہے تو اسے سنگسار کرد و”، اور یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ماعزکو سنگسار کیا یہ پوچھنے کے بعد کہ کیا وہ شادی شدہ ہے، اور رسول اللہﷺ نے غامدیہ کو سنگسار کیا اور اس کے علاوہ بھی متعدد صحیح احادیث اس حوالے سے موجود ہیں۔ تو اس طرح حدیث نے آیت کو مخصوص کردیا ۔ لہٰذا ان احادیث نے آیت کے” عمومی” معنوں کو محصن (شادی شدہ )کے علاوہ افراد کے لیے”مخصوص "کردیا اور آیت کے معنی سے محصن کو خارج کردیا۔ اسی طرح ان احادیث نےقرآن کی آیت کو منسوخ نہیں بلکہ آیت کے عمومی معنوں کو مخصوص کردیا۔قرآن کی آیت کو سنت کے ذریعے مخصوص کرنے کی اجازت ہے اور یہ معاملہ کئی آیات میں پیش آیا ہے کہ جہاں آیت عمومی معنوں کے ساتھ نازل ہوئی اور حدیث نے اسے مخصوص کردیا۔ صحابہؓ ، تابعین اور ان کے بعد کئی نسلوں تک مختلف علاقوں میں دین کا علم رکھنے والے افراد یہی موقف رکھتے تھے کہ غیر محصن (غیر شادی شدہ) زانی کی سزا 100 کوڑے جبکہ محصن (شادی شدہ) زانی کی سزا سنگسار کے ذریعے موت ہے۔ یہ موقف اس لیے اختیار کیا گیا کہ رسول اللہﷺ نے ماعز کو سنگساری کی سزا دی اور جابر بن عبداللہ ؓکی روایت کے مطابق”ایک مرد نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا، لہٰذا محمدﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے کوڑے مارے گئے، پھر اس نے بتایا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے، تو آپﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے سنگسار کیا گیا”۔
حکم شرعی، جس کی طرف شرعی دلائل یعنی قرآن و سنت اشارہ کرتے ہیں،یہ ہے کہ قرآن کے مطابق غیر محصن زانی کی سزا 100 کوڑے مارنا ہےاور سنت کے مطابق اسے ایک سال کے لیے جلا وطن بھی کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن جلاوطنی کی سزا دینا لازمی نہیں ہے البتہ اس کی اجازت ہے۔ اس بات کا فیصلہ امام(حکمران) پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو غیر محصن زانی کو کوڑے مارے اور جلا وطن بھی کرے اور اگر چاہے تو صرف کوڑے مارے لیکن جلا وطن نہ کرے۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسے کوڑے مارے بغیر جلاوطن کردیا جائے کیونکہ فرض سزا کوڑے مارنا ہے۔
جہاں تک محصن (شادی شدہ )زانی کی سزا کا تعلق ہے تو رسول اللہﷺ کے مطابق اُس پر اُس وقت تک پتھر مارے جائیں گے جب تک کہ اس کی موت واقع نہ ہوجائے۔ رسول اللہﷺ کی سنت نے قرآنی آیت کے عمومی حکم کو مخصوص کردیا۔ اس بات کی اجازت ہے کہ محصن زانی کو پہلے کوڑے ماریں جائیں اور پھر سنگسار کیا جائے۔ اس بات کی بھی اجازت ہے کہ اسے کوڑے مارے بغیر صرف سنگسار کیا جائے۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسے صرف کوڑے مارے جائیں کیونکہ فرض سزا سنگسار کرنا ہے۔
خلاصہ یہ ہے: محصن زانی (شادی شدہ بدکار) کی سزا سنگسار کر کے موت ہے جس کی دلیل رسول اللہﷺ کی سنت ہے جس کا ذکر دو صحیحات اور کئی دیگر احادیث کی کتب میں آیا ہے۔یہ سزا حد ود کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے اور اس کا تعلق تعزیر سے نہیں ہے۔ جہاں تک محصن زانی کی سزا کے دلائل (دلیل کی جمع) کا تعلق ہے تو اس حوالے سے کئی احادیث موجود ہیں۔ ابو ہریرہ اور زید بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک بدو آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا، "اے اللہ کے رسول، میں آپ سے اللہ کے واسطے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ صرف کتاب اللہ کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔ دوسرے فریق ، جو اس بدو سے زیادہ علم رکھتا تھا، نے بھی کہا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کتاب اللہ کی بنیاد پر کریں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، بولو۔ اس نے کہا، میرا بیٹا اس شخص کا ملازم تھا اور اُس نے اِس شخص کی بیوی کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے کی سزا سنگسار کرنا ہے، لہٰذا میں نے اسے سو بھیڑوں اور نومولود بھیڑوں کی صورت میں تاوان دیا ۔ پھر میں نے اہلِ علم سے پوچھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا 100 کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اس (عورت)کے لیے سنگساری کی سزا ہے۔ رسول اللہﷺ نے جواب دیا، والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله، الوليدة والغنم ردّ، وعلى ابنك جلد مائة، وتغريب عام، واغدُ يا أنيس – لرجل من أسلم – إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها، قال: فغدا عليها فاعترفت فأمر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجمت"جس ذات کے قبضے میں میری جان ہے، یقیناً میں کتاب اللہ کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا۔ بھیڑیں اور نومولود بھیڑیں واپس کی جائیں اور تمہارے بیٹے کے لیے 100 کوڑے اور ایک سال کی جلاطنی کی سزا ہے۔ اے انیس(آپﷺ نے قبیلہ اسلم کے فرد سے کہا)اس شخص کی بیوی کے پاس کل جاؤ اور اگر وہ جرم تسلیم کرتی ہے تو اسے سنگسار کردو۔ وہ شخص اس عورت کے پاس گیا اور عورت نے جرم تسلیم کیا لہٰذا رسول اللہﷺ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اسے سنگسار کیا گیا”۔اس طرح رسول اللہﷺ نے محصن زانیہ کوسنگسار کرنے کا حکم دیا اور اسے کوڑے نہیں مارے۔ شعبی سے روایت ہے کہ جب علیؓ نے ایک عورت کو سنگسار کیا تو اس سے قبل جمعرات کو اسے کوڑے مارے اور جمعہ کو اسے سنگسار کیا اور کہا، میں نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے مارے اور رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق سنگسار کیا۔ عبادۃ بن صامت نے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، خذوا عني، خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلاً البكر بالبكر جلد مائة ونفي سنة، والثيب بالثيب جلد مائة والرجم ” مجھ سے سیکھ لو، سیکھ لو مجھ سے(شرع کی باتیں)،اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے ایک راہ نکالی جب ‘بكر’(غیر شادی شدہ)زنا کرےتو ‘بكر’ (غیر شادی شدہ)کو سو کوڑے لگاؤ اور ایک سال کے لئے علاقے سے باہر کر دو اور اگر‘ثيب’(شادی شدہ) ‘ثيب’ (شادی شدہ) سے زنا کرے ، تو ثيب کو سو کوڑے لگاؤ پھر پتھروں سے مارڈالو "۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے کہا کہ محصن زانی کی سزا کوڑے اور سنگسار کرنا ہے، اور علیؓ نے محصن زانیہ کو کوڑے مارے اور سنگسار کیا۔ جابر بن سمرہؓ نے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے ماعز کو سنگسار کیا اور کوڑے مارنے کا ذکر نہیں کیا۔ بخاری نے سلیمان بن بریدہؓ سے روایت کی کہ پیغمبرﷺ نے غامدیہ کو سنگسار کیا ۔اور کوڑے مارنے کا ذکر نہیں کیا۔ مسلم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جہینہ کی عورت کے متعلق حکم جاری کیا، لہٰذا اس کے کپڑے اس کے گرد مضبوطی سے باندھ دیے گئے اور پھر اسے سنگسار کیا گیا، اور اس روایت میں بھی کوڑے مارنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے زانی و زانیہ کو سنگسار کیا مگر کوڑے نہیں مارے، اور آپﷺ نے فرمایا،الثيب بالثيب جلد مائة والرجم"اگرثيب(شادی شدہ ) ثیب (شادی شدہ ) سے زنا کرے ، تو ثيب کو سو کوڑے لگاؤ پھر پتھروں سے مارڈالو "۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنگساری فرض ہے جبکہ کوڑے مارنے کی اجازت ہے اور اس معاملے کو خلیفہ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ کوڑوں کی سزا دے یا نہ دے۔ محصن زانی کی "حد” کوڑے لگانے کے ساتھ سنگساری ہے اگر احادیث کو جمع کیا جائے۔ کسی نے بھی سمرہ کی حدیث کے متعلق یہ نہیں کہا کہ آپﷺ نے ماعز کو کوڑے نہیں مارے بلکہ خود کو سنگساری تک محدود رکھا لہٰذا یہ حدیث عبادہ بن صامت کی حدیث کو ختم کردیتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ، الثيب بالثيب جلد مائة والرجم ” اگرثيب(شادی شدہ) ثیب (شادی شدہ) سے زنا کرے ، تو ثيب کو سو کوڑے لگاؤ پھر پتھروں سے مارڈالو "۔ کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ماعز کی حدیث عبادہ کی حدیث کے بعد آئی ہے۔ ان دو حدیثوں سے متعلق اس طرح کے کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں ، کوڑوں کا ذکر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس حکم کو چھوڑ دیا گیا یا ختم کردیا گیا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہ ہونا کہ یہ دو احادیث ایک دوسرے کے آگے پیچھے آئی ہیں،اس بحث کو ختم کردیتا ہے کہ پہلی حدیث سے اخذ ہونے والا حکم ختم ہوگیا، اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت ملتا ہے جس کی وجہ سے ایک حدیث کو دوسری حدیث پر ترجیح دی جائے۔ حدیث میں سنگسار کرنے کے علاوہ جب کوڑے مارنےکا ذکر کیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی اجازت ہے لیکن اس سزا کو دینا فرض نہیں ہے۔ احادیث کو جمع کرنے سے حکم یہ نکلتا ہے کہ سنگسار کرنا فرض ہے اور جو اس سے زائد ہے اس پر عمل کرنا خلیفہ کی مرضی سے مشروط ہے۔)۔ کتاب "نظامِ عقوبات "سے اقتباس ختم ہوا۔
اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر جاننے والا ہے اور وہ تمام تر سمجھ رکھتا ہے۔
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابوالرَشتہ
12 محرم 1441 ہجری،
بمطابق 11 ستمبر 2019 عیسوی
ختم شد