خلیفہ بننے کے لیے درکار شرائط میں "اہلیت” کا مطلب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
میرا ایک سوال ہے: اس کا تعلق کتاب اسلامی شخصیہ جلد 1 صفحہ 20 (عربی اشاعت) پر درج خلیفہ بننے کے لیے درکار سات شرائط میں سے ایک "اہلیت” سے ہے۔ یہاں پر ‘اہلیت’ کے معنوں کی وضاحت کی گئی ہے یہاں تک کہ بات اس نقطہ پر پہنچتی ہے:
"اس کے علاوہ یہ بات خلافت کے عقد کی لازمی شرائط میں سے نہیں ہے کہ خلیفہ بہادر ہو، یا گہری بصیرت رکھتا ہو تا کہ وہ معاشرے کے امور کی نگہبانی اور ان کے مفادات کو پورا کرسکے”۔
میرا سوال یہ ہے : کیا بہادری اور گہری بصیرت خلیفہ کی اہلیت کی شرائط میں شامل نہیں ہونی چاہیے؟
جواب:
وعلیم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کتاب میں درج کیا گیا متن یہ ہے: "اس کے علاوہ یہ بات خلافت کے عقد کی لازمی شرائط میں سے نہیں ہے کہ خلیفہ بہادر ہو، یا گہری بصیرت رکھتا ہو تا کہ وہ معاشرے کے امور کی نگہبانی اور ان کے مفادات کو پورا کرسکے”۔ ایسا اس لیے کہا ں گیا کیونکہ اس معاملے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ، اور اس طرح یہ خصوصیات حکم شرعی کے تحت نہیں آتیں کہ اسے عقدcontract کا حصہ بنایا جائے۔ اگرچہ خلیفہ کا بہادر اور گہری بصیرت کا حامل ہونا قابل ترجیح خصوصیات ہیں۔ جیسا کہ آپ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ عقد کے لیے کسی شرط کا لازمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر امت نے ایک شخص کو خلیفہ منتخب کرلیا اور خلیفہ عقد کی لازمی شرائط میں سے صرف ایک شرط پر پورا نہ اترتا ہو تو اس کی خلافت خود بخود باطل ہوجاتی ہے۔ اب اگر ان دو خصوصیات کو دیکھا جائے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے ، تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ شرائط عقد کی ان شرائط میں سے نہیں کہ جن کو پورا کیے بغیر عقد مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امت نے ایک ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کرلیا جس میں یہ دو شرائط موجود نہ ہو تو ا س کے نتیجے میں اس کی خلافت باطل نہیں ہوتی۔ یہ فرق اس وجہ سے ہے کیونکہ شرعی دلائل اس بات کی جانب اشارہ نہیں کرتے۔ لیکن یقیناً یہ دو خصوصیت قابل ترجیح خصوصیات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب خلیفہ کو منتخب کیا جارہا ہو تو امت ان دو خصوصیات کو بھی لازمی مدنظر رکھے۔ امت کے لیے لازمی ہے کہ وہ خلیفہ کو منتخب کرتے وقت پوری توجہ اس معاملے پر مرکوز رکھے تا کہ وہ شخص خلیفہ منتخب ہو جو نہ صرف لازمی شرائط پر پورا اترتا ہو بلکہ جتنی بھی قابل ترجیح شرائط ہیں وہ ان پر بھی زیادہ سے زیادہ پورا اترتا ہو، اور اسی میں ہماری بہتری اور طاقت ہے۔
جہاں تک "اہلیت” کی خصوصیت کا تعلق ہے تو یہ لازمی شرائط میں سے ایک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ لازمی اہل ہو تا کہ وہ خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرسکے، اور یہاں "اہلیت” کو واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ تو کوئی بھی ایسا معاملہ جس کی وجہ سے خلیفہ خلافت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ اہلیت کی لازمی شرط پر پورا نہیں اترتا۔ "اہلیت” کی شرط اس لیے لازمی ہے کہ خلیفہ کی واحد ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شریعت کے احکام کو نافذ کرے۔ اسی وجہ سے یہ لازمی ہے کہ اس میں یہ اہلیت موجود ہو کہ وہ احکامات دے سکے، ان کا جائزہ لے سکے اور اس بات کو یقینی بناسکے کہ وہ لوگ جن کو اس نے حکم دیا ہے وہ اس حکم کو نافذ بھی کررہے ہوں۔ اسی طرح اگر وہ احکامات دینے میں ناکام رہتا ہے یا ان پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہتا ہے تو وہ خلافت کے عقد کو پورا نہیں کرسکتا جس کے لیے اسے تعینات کیا گیا ہے یعنی کہ احکام شریعت کا نفاذ۔
تو اہلیت کی غیر موجودگی میں خلافت کا عقد باطل ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اگر خلیفہ نسیان (بھولنے ) کے مرض میں مبتلا ہوجائے یا کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے جس سے نکلنے میں طویل عرصہ لگتا ہے یا کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے جو اتنے طویل عرصے تک چلتا ہے کہ جس سے ریاست کے امور متاثر ہونا شروع ہوجائیں اس حد تک کہ خلیفہ اپنے امور خود انجام نہ دے سکے اور اپنے احکامات کا جائزہ نہ لے سکے جو اس نے دوسروں کو جاری کیے ہوں، تو اس قسم کی کسی بھی صورت میں مظالم کی عدالت خلیفہ کی صورتحال کو جاننے کے لیے کارروائی شروع کرے گی اور حقیقت حال جاننے کے بعد خلیفہ کے منصب کو خالی قرار دے گی۔
جہاں تک قابل ترجیح شرائط پر پورا نہ اترنے کی بات ہے تو اس کے نتیجے میں خلافت کا عقد باطل نہیں ہوتا۔
لہٰذا خلیفہ کا بہادر ہونا، یا جنگی صلاحیتوں میں ماہر ہونا، یا وسیع معلومات رکھنا، یا اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونا، ان میں سے کوئی بھی بات عقد کے لیے لازمی شرط نہیں بنتی، لہٰذا ان کی غیر موجودگی خلافت کے عقد کو باطل نہیں کرتے کیونکہ ان کو لازمی شرط قرار دینے کے حوالے سے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی غیر موجودگی خلیفہ کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں رکاوٹ بھی نہیں بنتے۔ جنگ کی صورت میں خلیفہ کسی بھی بہادر فرد کو اس کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے، اور اگر معاملہ ایسا ہے کہ جس میں اعلیٰ تعلیم یاہتی افرادکی رائے کی ضرورت ہے تو خلیفہ ان امور کے ماہرین سے رجوع کرسکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ امت کی ترجیح ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کرنا ہونا چاہیے جس میں عقد کے لیے درکار لازمی شرائط اور قابل ترجیح شرائط دونوں ہی موجود ہوں۔ لیکن امت کیسی ایسےشخص کو منتخب کر لیتی ہے جس میں عقد کےلازمی شرائط تو پائی جاتی ہوں مگر قابل ترجیح شرائط پر وہ پورا نہ اترتا ہو تو اس صورت میں بھی اس کی خلافت برقرار رہے گی جب تک وہ لازمی شرائط پر پورا اترتا رہے گا کیونکہ شرعی دلائل اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
27 محرم 1436 ہجری
20 نومبر 2014
ختم شد