تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت196
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
﴿ وَ أَتِمُّواْ ٱلۡحَجَّ وَٱلۡعُمۡرَةَ لِلَّهِۚ فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِۖ وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡىُ مَحِلَّهُ ۥۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ بِهِۦۤ أَذً۬ى مِّن رَّأۡسِهِۦ فَفِدۡيَةٌ۬ مِّن صِيَامٍ أَوۡ صَدَقَةٍ أَوۡ نُسُكٍ۬ۚ فَإِذَآ أَمِنتُمۡ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِۚ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ۬ فِى ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ تِلۡكَ عَشَرَةٌ۬كَامِلَةٌ۬ۗ ذَٲلِكَ لِمَن لَّمۡ يَكُنۡ أَهۡلُهُ ۥحَاضِرِى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ﴾
(البقرة: 196)
" اور حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے پورا پورا اَدا کرو، ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو، (اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرو)۔ اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو روزوں یا صدقے یا قربانی کا فدیہ دے ۔پھر جب تم امن حاصل کرلو تو جو شخص حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی اُٹھائے، وہ جو قربانی میسر ہو( اللہ کے حضور پیش کرے) ہاں اگر کسی کے پاس اس کی طاقت نہ ہو تو وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے اور سات (روزے) اس وقت جب تم ( گھروں کو) لوٹ جاؤ۔اس طرح یہ کل دس روزے ہوں گے۔یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں۔اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔" (196)
اللہ تعالیٰ نےان آیات کریمہ میں مندرجہ ذیل چند باتیں بیان فرمائی ہیں:
1 – جو کوئی حج یا عمرہ کی ادائیگی شروع کرے(یعنی اس کے لیے احرام باندھ لے) تو اس پر اسے مکمل کرنا لازم ہے، یعنی تمام شرائط اور ارکان کے ساتھ اسے پورا کرنا ،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ہے: "خذوا عنی مناسککم””مجھ سے حج کے افعال سیکھو)”مسلم: 2286، نسائي: 3012، أبو داوود: 1680، أحمد: 3/218، 366 (“۔
یہاں آیت میں امر طلب پر دلالت کرتا ہے، نیز یہ طلب حتمی ہے ،اس کا قرینہ آیت کا یہ حصہ ہے: ﴿فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِ﴾"ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو "چونکہ عدم ادائیگی پر ہَدْی ِ(قربانی) لازم کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پورا پورا ادا کرنے کی طلب جولفظ﴿أَتِمُّواْ﴾کے ذریعے کی گئی ہے،طلبِ جازم ،یعنی حتمی طلب ہے، اس بنا پر جو حج یا عمرہ کو ایک دفعہ شروع کردے تو اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔
مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہاں احصار (بندش) کی حالت کو مستثنیٰ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ:﴿فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِ﴾"ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو ” اور اِحصار لُغت میں بمعنی مطلقاً منع کیے جانے اور روکے جانے کے ہے، مطلقاً یعنی خواہ دشمن کی وجہ سے ہو یا بیماری وغیر ہ سے ،البتہ آگے اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ﴿فَإِذَآ أَمِنتُمۡ﴾ ذکر کیا ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں اِحصار دُشمن کی طرف سے روکے جانے کے معنی میں ہے،کیونکہ امن لُغت میں خوف کا متضاد ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ آیت کریمہ حدیبیہ کے سال نازل ہوئی، (جب مشرکین نے آپ ﷺ اورآپ کے صحابہ کو مکہ جانے سے روکے رکھا تھا)چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں احصار سے مراد دشمن کی طرف سے رکاوٹ ک موجود ہونا ہے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ اعتبار لفظ کے عموم کاہوتا ہے نہ کہ خاص سبب کا۔ چنانچہ بندش دشمن کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، اور بیماری وغیر ہ کی وجہ سے بھی،تو اس کی دو وجوہات ہیں:
ا – یہ صحیح ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم generalityکا ہوتا ہے ، خاص سبب کا نہیں، مگر عموم اسی موضوع میں ہوتا ہے کہ جس کے متعلق نص وارد ہوئی ہے، اُصول فقہ کے مطابق ایسا ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حُدَیبِیہ میں قریش کی طرف سے رسولُ اللہ ﷺ کا احصار اور کسی بھی زمانے میں کسی بھی دشمن کی طرف سے احصار میں اسی عموم کا اعتبار کیا جائے گا۔
ب –یہاں آیت میں بذاتِ خود احصار کے حوالے سے عموم نہیں،کیونکہ ﴿فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ﴾ فعل مثبت Positive verb ہے، اور فعل مثبت میں عموم نہیں ہوتا ،ہاں مطلق ہوتا ہے،تو جس موقع کے لیے یہ آیا ہے، یعنی دشمن کی طرف سے بندش، وہاں یہ مطلق طور پر جاری ہوگا، یعنی دشمن کی طرف سے کسی بھی بندش کی صورت میں ، یہی وجہ ہے کہ احصار دشمن کی طرف سے عمرہ یا حج کی تکمیل سے روک جانا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے مرض کے باعث حج کی تکمیل سے روکے جانے کے بارے میں کچھ احادیث آئی ہیں، لیکن وہ احصار کے واقعے سے مختلف ہیں۔ چنانچہ ترمذی ؒ نے حسن اسناد کے ساتھ حجاج بن عمرو سے نقل کیا ہے(من كسر أو عرج فعليه الحج من قابل)” جس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہوجائے تو اس پر آئندہ سال حج فرض ہے” اسی طرح ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب سے،جب انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! میں حج کرنا چاہتی ہو مگر میں بیمار ہوں،” آپﷺ کا فرمانا” حج کرو اور یہ شرط رکھو کہ میرے حلال ہونے کی جگہ وہی ہے جہاں میں روکی جاؤں۔” یعنی احرام باندھنے والاجب اپنے احرام میں کوئی شرط رکھے پھر اس کو کوئی مرض درپیش ہوجائے، تو اس کے لیے احرام کھولنا جائز ہوگا، اور جو ذمہ داری دشمن کی وجہ سے حج مکمل نہ کرنے والے پر آتی ہے ، وہ اس پر نہیں۔
یہ دونوں حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ بیماری کے باعث حج کی تکمیل سے رہ جانا احصار نہیں کہلاتا، نہ اس پر احصار کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔ بلکہ اگر حاجی کسی بیماری کے سبب حج مکمل نہ کرپائے، تو وہ وہیں احرام کھول دے جہاں اسے رکنا پڑا ہے، اور آئندہ سال حج کرے، اس میں احصار کی طرح قربانی نہیں۔
اس بنا پر احصار دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے،کسی اور وجہ سے نہیں۔2 – جب احصار (بندش) ہو جائے تو قربانی کرنے سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔اور قربانی جو اس کو میسر ہو،جیسے کہ اللہ تعالی ٰ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے: ﴿فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِ﴾” پس جو قربانی تمہیں میسر ہو۔” کیونکہ اِسْتَیسَرَ اور تَیَسَّرَ ہم معنی ہیں۔ اور ﴿ٱلۡهَدۡىِ﴾مصدر ہے، اور اس کے معنی مفعول کے ہیں، یعنی وہ جانور جس کی قربانی کی جاتی ہے۔اونٹنی ہو یا گائے اور بکری جو بھی حاجی کے لیے میسر ہو۔ بڑی قربانی میں اور زیادہ فضیلت ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے۔
اور احرام کھولنے سے پہلے ذبح کا واجب ہونا اللہ تعالیٰ کے اس قول سے لیا جاتا ہے :﴿وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡىُ مَحِلَّهُ﴾” اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈا ؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔”سر منڈانا احرام کھولنے سے کنایہ ہے،یعنی حاجی جس نے احرام باندھا ہوا ہے، احصار کی صورت میں اس پر احرام کھولنے سے پہلے قربانی ذبح کرنا لازم ہے، جو اس کو میسر ہو۔ اس بات کا قرینہ ہے کہ جانور کوذبح کرنااحرام کھولنے سے پہلے واجب ہے،اس کا قرینہ سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان مسلمانوں کے بارے میں جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر ذبح کرنے میں پس و پیش کا مظاہر ہ کیا تھا، فرمایاتھا” ہلاک ہوئے۔” یہ ایسا وصف مفہم ہے جو احرام کھولنے سے پہلے قربانی ذبح کرنےکی طلب کوطلبِ جازم بتلاتا ہے۔
قربانی ذبح کرنے کی جگہ حرم ہے، یہ اللہ تعالی ٰ کے اس قول سے اخذ ہوتا ہے:﴿وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡىُ مَحِلَّهُ﴾” اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔” اور اپنی جگہ حرم کو کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ذَٲلِكَ وَمَن يُعَظِّمۡ شَعَـٰٓٮِٕرَٱللَّهِ فَإِنَّهَامِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ (٣٢) لَكُمۡ فِيہَامَنَـٰفِعُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ۬ مُّسَمًّ۬ى ثُمَّ مَحِلُّهَآإِلَى ٱلۡبَيۡتِ ٱلۡعَتِيقِ (٣٣) ﴾ (الحج/32-33. )”یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ تمہیں ایک معین وقت تک ان ( جانوروں ) سے فوائد حاصل کرنے کا حق ہے، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ اُسی قدیم گھر (یعنی خانہ کعبہ) کے آس پاس ہے۔” قدیم گھر کعبہ شریف ہے، یہاں اس سے مجازاً پورا حرم مراد ہے،جزء کا اطلاق کل پر کیا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿سُبۡحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسۡرَىٰ بِعَبۡدِهِۦ لَيۡلاً۬ مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكۡنَا حَوۡلَهُ﴾"( الإسراء:1 )” پاک ہے وہ ذات جواپنے بندےکو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی،جس کے ماحول میں ہم نے برکتیں نازل کی ہیں۔”اس آیت میں مسجد حرام کا اطلاق مجازاً حرم پر کیا ہے ،یہ بھی جزو کے کُل پر اطلاق کے قبیل سے ہے، اور مراد پورا حرم ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو حرم سے لے جایا گیا تھا مسجد حرام کے اندر سے نہیں، اور قدیم گھرسے بھی یہاں اسی طرح مجازاً پورا حرم مراد ہے۔ یعنی یہاں بھی جزو بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔
اس بات کی تائید کہ حرم سارا کا سارا قربان گاہ ہے، رسول اللہ ﷺ کے قول سے بھی ہوتی ہے،” میں نے یہاں قربانی کی ہے اور سارا منیٰ قربان گاہ ہے سو تم اپنی اپنی جگہوں میں ذبح کرو۔” مکہ کے سب راستے طریق اور قربان گاہ ہیں۔” (ابوداؤد،حاکم )لیکن یہاں حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺکا ہدی لے کر جانا اور وہیں ذبح کرنے کا سوال ہوسکتا ہے ، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حدیبیہ زمین حل میں حدود حرم پر واقع علاقہ ہے، یعنی حرم سے باہر ہے ۔ (توگویا حرم میں ذبح کرنا لازم نہیں )اس کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے:
1 – کفار قریش نےاُس سال رسول اللہ ﷺ کو قربانی سمیت عمرہ سے روکا تھا، ان کو حدیبیہ میں قربانیاں کرنی پڑیں، کیونکہ دشمن نے ان کو بھی روکا اور ان کی قربانیوں کو بھی حرم میں پہنچنے سے روک دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلالت کرتا ہے: ﴿هُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوکُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِٱلۡحَرَامِ وَٱلۡهَدۡىَ مَعۡكُوفًاأَن يَبۡلُغَ مَحِلَّهُ ﴾ (الفتح:25 )” یہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا، اور قربانی کے جانوروں کو جو ٹھہرے ہوئے کھڑے تھے، اپنی جگہ پہنچنے سے روک دیا۔” یعنی قربانیاں قربان گاہ میں پہنچنے سے روک کر ذبح کی جگہ نہیں پہنچنے دیا گیا تاکہ وہاں ذبح کردی جاتیں، یعنی رسول اللہ ﷺ نےحدیبیہ میں ،جہاں آپ کو روکا گیا، وہیں قربانیوں کو ذبح کیا ، کیونکہ دشمنوں کی طرف سے رکاوٹ کی وجہ سے قربانیاں حرم نہیں پہنچ سکتی تھیں جو ان کو ذبح کرنے کی جگہ ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جانور ذبح کرنے کا مقام حرم ہے ، سوائے اس کے کہ دشمن رکاوٹ ڈالے، اس صورت میں جہاں روکا جائے،وہیں ذبح کیاجائے گا۔
ب- جیساکہ سیرۃ ابنِ ہشام میں ابنِ اسحاق سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺکے گھر یعنی خیمے حل میں نصب کیے گئے تھے، آپ نماز پڑھنے کے لیےزمین ِحرم میں تشریف لے جاتے تھے، کیونکہ حدیبیہ حل اور حرم کی عین سرحد پر واقع ہے۔اسی طرح زُہری نے روایت کی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حرم میں قربانی کی ، بالخصوص رسول اللہ ﷺ حدیبیہ میں ہوتے ہوئے نمازیں حرم میں پڑھتے تھے، یعنی حل سے حرم میں جاکر نماز پڑھ آتے تھے، اس حالت میں یقینا رسول اللہ ﷺ نے حرم میں ہی ذبح کیا ہوگا،کیونکہ جگہ بالکل ہی قریب اور متصل تھی، چنانچہ حرم کے اندر ذبح کرنا آسان تھا۔
اس بنا پر جانوروں کی قربانی حرم میں کی گئی، اور آیت میں ﴿ وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡىُ مَحِلَّهُ﴾” اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔” اپنی جگہ سے مراد حرم ہے۔
4 – ﴿فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ بِهِۦۤ أَذً۬ى مِّن رَّأۡسِهِۦ فَفِدۡيَةٌ۬ مِّن صِيَامٍ أَوۡ صَدَقَةٍ أَوۡ نُسُكٍ۬ۚ﴾
کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بے شک نبی ﷺ میرے پاس سے گذرے جبکہ میں حدیبیہ میں تھا، میں احرام کی حالت میں تھا اور ابھی مکہ میں داخل نہیں ہوا تھا،میں ہانڈی کے نیچے آگ سلگا رہا تھا، اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، تو آپ ﷺ نے مجھے کہا: ان کیڑوں سے تکلیف ہوتی ہے؟ میں نے عرض کی : ہاں! تو فرمایا : اپنا سر منڈاؤ اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلاؤ، فرق تین صاع ہوتے ہیں ۔ یا تین دن روزے رکھو،یا پھر ایک قربانی کرو۔” یعنی کوئی بکری ذبح کرو۔ بخاری ؒ کی روایت میں ہے((أن رسول اللهﷺ قال له: ما كنت أرى أن الجهد بدّل بك هذا أما نجد شاة؟ فقال: لا. قال: صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع من طعام واحلق رأسك))” رسول اللہ ﷺ نے مجھ سےفرمایا: مجھے نہیں پتہ تھا کہ تکلیف اور مشقت کی وجہ سے تمہاری یہ حالت ہوئی ہوگی ، کوئی بکری ہے آپ کے پاس؟ میں نے کہا: نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : تین دن روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ، ہر مسکین کے لیے آدھا صاع کھانا ،پھر سر منڈاؤ۔”
تو جیسے آیت اور حدیث نے بتایا ہے ،کوئی بیمار ہو یا سر میں زخم ،جوئیں یا درد وغیرہ ہونے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلاء ہو، تو اِن جیسے اُمور کی وجہ سے ﴿لَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ﴾"اپنے سر نہ منڈاؤ۔” میں اس کے لیے تخصیص ہوجاتی ہے،یعنی ایسے آدمی کےلیے سرمُنڈانا اور فدیہ دینا جائز ہے، جو اختیاری طور پر تین دن کے روزے رکھنےیا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا بکری کی قربانی ہے، جو اس کو میسر ہو۔ اور یہاں کئی چیزوں کے درمیان اختیار دینا وجوب کا قرینہ ہے،جیسا کہ اُصول فقہ میں ہے۔
5 – پھر اللہ تعالیٰ امن کے ساتھ یعنی بغیر احصار کے حج ِتمتع کرنے والے کے لیے حکم شرعی بیان فرماتا ہے،تمتع یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص حج کے مہینوں میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھ لے، پھر عمرہ ادا کرے،عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ احرام کھول کر یوم ِتَروِیَہ تک انتظار کرتار ہے، ذی الحجہ کا آٹھواں دن یوم ِتَروِیَہ کہلاتا ہے۔ پھر وہ مکہ سے حج کے لیےاحرام باندھتا ہے،اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ اس شخص کو مُتَمتِع کہا جاتا ہے، اس کے لیے حکم شرعی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ متعہ کی سہولت دیے جانے کی قربانی کرے ، جو اس کو میسر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿فَإِذَآ أَمِنتُمۡ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡىِ﴾سے یہی مراد ہے،یعنی ” پھر جب تم امن حاصل کرلو تو جو شخص حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی اُٹھائے، تووہ جو قربانی میسر ہو( اللہ کے حضور پیش کرے)۔ اگر کسی کے پاس اس کی طاقت نہ ہو کہ وہ حج کے دنوں میں قربانی ذبح کردے تو اس پرلازم ہے کہ وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے۔مثلاً وہ ذی الحجہ کے ساتویں ،آٹھویں اور نویں کو روزے رکھے، یا ایام التشریق میں رکھے، جیسا کہ امام بخاری اور محدثین کی ایک جماعت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے ، وہ فرماتی ہیں:” آپ ﷺ نے ایامِ تشریق میں روزے کی اجازت کسی کو نہیں دی، سوائے اس متمتع حاجی کے جس کے بس میں قربانی نہ ہو۔”
امام مالک نے زُھری سے حدیث روایت کی ہے کہ”رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن حذافہ کو بھیجا ، انہوں نے ایامِ تشریق(عید کے بعد والے دن) میں اعلان کرکے کہا : یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں ، سوائے اس شخص کے جس پر قربانی کے روزے باقی ہوں”، پھرجب وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آئے تب سات دن مزید روزے رکھے گا جس کا مجموعہ دس دن کامل بنتے ہیں(تفسیر طبری 250/2)۔ امام بخاری کی روایت میں یہی آیا ہے ، اس آیت ﴿وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ ﴾کی تفسیر میں بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب تم اپنے شہروں میں واپس چلے جاؤ(طبری نے اسے اپنی تفسیر میں بیان کیا اور بخاری نے اپنی صحیح میں اس کی تخریج نہیں کی ہے) یہ تمام تر تفصیلات آیت کے اس حصے کے مطابق ہیں جس میں آیا ہے کہ﴿فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ۬ فِى ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ تِلۡكَ عَشَرَةٌ۬ كَامِلَةٌ۬﴾ ” ہاں اگر کسی کے پاس اس کی طاقت نہ ہو تو وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے اور سات (روزے) اس وقت جب تم (گھروں کو) لوٹ جاؤ۔ اس طرح یہ کل دس روزے ہوں گے، یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں "۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قول﴿تِلۡكَ عَشَرَةٌ۬ كَامِلَةٌ۬﴾التباس (کنفیوژن)کے ازالہ کے لیے ہیں، التباس اللہ سبحانہ کے اس قول ﴿فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ۬ فِى ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡ﴾ سے پیدا ہوسکتا ہے،جس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہےکہ تین دن کے روزے حج میں یا سات روزے گھر واپسی آنے پر رکھو۔ کیونکہ واؤ(اور) کا ایک معنی اَوْ( یا) بھی آتا ہے،تو جب کہا جائے جالس زیداً و عُمَراً ” زید و عمر کے پاس بیٹھو”اس صورت میں آپ دونوں کے ساتھ بیٹھ جائیں یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ، تویہ اس حکم پر عمل سمجھا جائے گا،(لیکن آیت میں تین اور سات روزوں کے درمیان اختیار کی بات نہیں) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول ﴿تِلۡكَ عَشَرَةٌ۬ كَامِلَةٌ۬﴾ سے آیت کے اس پچھلے حصے کا مقصد بیان کیا ہے،یعنی یہ کہ ﴿ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ۬ فِى ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ ﴾ سے پورے دس دن مراد ہیں۔
یہ حکم اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ ہو، اگر وہ وہیں ہوں تو پھر معاملہ مختلف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی ٰ کے اس قول میں ہے،﴿ذَٲلِكَ لِمَن لَّمۡ يَكُنۡ أَهۡلُهُ ۥحَاضِرِى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ﴾ "یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں”۔
﴿ذَٲلِكَ﴾اشارہ کے لیے ہے اور اس سے﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ﴾ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،یا ﴿فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ۬ فِى ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡ﴾کی طرف ، البتہ یہ ہے کہ﴿ذَٲلِكَ﴾ کے بعد ﴿مَن﴾ سے پہلے لام لگایا گیا ہے ،جس کی وجہ سے ترجیح اس کو ہے کہ﴿ذَٲلِكَ﴾سے اشارہ﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ﴾کی طرف ہو ۔کیونکہ اگر یہ اشارہ روزوں کی طرف ہوتا جوقربانی نہ پانے کی صورت میں متمتع پر واجب ہوتےہیں، تو لام کے بجائے (علیٰ) لگتا،یعنی آیت ایسی ہوتی کہ (ذلك علىٰ من لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام) کیونکہ لھم اور علیھم میں فرق ہے، تو لِمَنْ کے مناسب یہ ہے کہ حج تمتع کرنے یا نہ کرنے میں اختیار دیا جائے۔ ( کیونکہ لِمَنْ کی صورت میں معنی یہ بنتے ہیں کہ : یہ اس کے لیے ہے جس۔۔۔۔) اور عَلَیھِمْ کی مناسبت اس بات سے ہے کہ جہاں کسی ذمہ داری کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں کوئی کام کرنا پڑے۔ اب معنی یہ ہوں گے کہ جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس ہوں ،تو اُن کے لیے حج تمتع کرنا جائز نہیں۔ یعنی ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ حج کے مہینوں میں پہلےعمرہ کا احرام باندھ لیں اور عمرہ مکمل کرنے پر احرام کھول دیں ،پھر اس کے بعد حج کے لیے دوبارہ احرام باندھ لیں، بلکہ جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس ہوں تویا تو وہ احج کے مہینے میں حج قِران کا احرام باندھ لیں،یا حج مفرد کریں ۔حج ِقِران اس طرح ہوتا ہے کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام نہ کھولیں،بلکہ برابر اسی احرام کے ساتھ حج کے افعال ادا کرنا شروع کریں، پھر حج مکمل کرنے پر کھول دیں،(گویا حج قران میں عمرہ اور حج کو ایک ہی احرام میں اکٹھا کرکے ادا کرسکتے ہیں) اور حج مفرد یعنی عمرہ کے بغیر حج ۔ اگر وہ فقط عمرہ کرنا چاہیں تو حج کے مہینے کے علاوہ مہینوں میں جتنے چاہیں عمرے ادا کرسکتے ہیں ۔
6 – مسجد حرام کے پاس رہنے والے کون ہیں؟ تو حاضر کے معنی مقیم کے ہیں ،آیت میں حاضر کی نسبت مسجد حرام کی طرف کی گئی ہے، یعنی مسجد حرام کے مقیم، مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کبھی مسجد حرام بول کر زمین حرم مراد لیا جاتا ہے،اللہ تعالٰ کا قول ہے﴿سُبۡحَـٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسۡرَىٰ بِعَبۡدِهِۦ لَيۡلاً۬ مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكۡنَا حَوۡلَهُ﴾ (الاسراء:1) پاک ہے وہ ذات جواپنے بندےکو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی،جس کے ماحول میں ہم نے برکتیں نازل کی ہیں۔”حالانکہ رسول اللہﷺ کو حرم سے لےجایا گیا تھا، مسجد حرام سے نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ﴿حَاضِرِى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ﴾کی تفسیر میں یہی کہا ہے، یعنی اہل حرم۔
اہل کےحاضر ہونے کا مطلب خود حاجی کا وہاں ہونا ہے ، لیکن یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ غالباً آدمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہی رہتا ہے۔
اس لیے اب معنی یہ ہوں گے کہ: غیر اہل حرم میں سے جو حج تمتع ادا کرے ، کیونکہ اہل حرم حج تمتع نہیں کرسکتے ، تو اُس پر واجب ہے کہ وہ ایک قربانی کرے، اگرقربانی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن حج کے دنوں میں روزے رکھے گا اور اپنے گھر آکر سات دن مزید روزے رکھے گا۔
آخر میں آیت کے اختتام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ تقویٰ کا حکم دیتا ہے،کہ اللہ تعالیٰ کا ہر امر اسی نہج پر بجالایا جائے جیسے اس نے حکم دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ہر نہی سے اسی طرح پرہیز کیا جائے جیسے کہ نہی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور اس کے عذاب سے نجات پائے گا، ورنہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے،آگے یہی فرمایا ہے: ﴿وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ﴾
"اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ اپنے عذاب میں شدید ہے"۔
ختم شد