یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا "شایان شان” طریقہافواج پاکستان کے شیروں نے خلافت کا جھنڈا سرینگر پر لہرانا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پریس ریلیز
16 جنوری 2020 کو باجوہ-عمران حکومت کےیومِ یکجہتی کشمیر "زبردست طریقے” سے منانے کے اعلان پر عوام میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ الٹا اس اعلان پر حکومت کو عوام کی جانب سے طنز و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا، جو قطعی طور حیرت انگیز نہیں ہے۔ یقیناً 5 فروری 2020 ، بروز یوم یکجہتی کشمیر، اس بات کو چھ ماہ ہوجائیں گے جب ہندو ریاست نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے قبضے میں کرنے کے عمل کی ابتداء کی تا کہ وہ کشمیر کو پورے کا پورا ہڑپ کرجائے اور اس پورے عمل کے دوران باجوہ-عمران حکومت اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ ہندو ریاست کی جارحیت کے خلاف پاکستان کی جانب سے کسی بھی قسم کا عسکری جواب نہ دیا جائے۔ باجوہ-عمران حکومت نےمجرمانہ طور پر کشمیری مزاحمت کو فراہم کی جانے والی ہر قسم کی عملی مدد کو "دہشتگردی” قرار دے دیا ہے جبکہ ہندو ریاست بے رحم چینی حکومت، جس نے ایغور مسلمانوں کے خاتمے کی مہم شروع کررکھی ہے، کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کردیا ہے جہاں 80 لاکھ سے زائد لوگ قید ہیں، جن پر 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں، 13 ہزار نوجوان گرفتار ہیں اور ایسے قوانین نافذ کیے گئے ہیں تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے اور کشمیری مسلمانوں کو "انتہا پسندی سے پاک کرنے” کی مہم چلائی جارہی ہے۔ باجوہ-عمران حکومت زبانی جمع خرچ، بے سود اقدامات اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ہندو ریاست کو بھر پور وقت فراہم کررہی ہے تا کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی فوجی گرفت مضبوط کرلے جبکہ سات دہائیوں سے اس کی فوج بہادر مسلم مجاہدین کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے جنہیں پاکستان کے مخلص لوگوں کی بھر پور مدد حاصل تھی۔ اور مجرم باجوہ-عمران حکومت نے افواج پاکستان کے شیروں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں جنہوں نے 27 فروری 2019 کوہندو ریاست کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہماری افواج یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ ہندو ریاست کو مقبوضہ کشمیر سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیں بلکہ اسے تاریخ کی بدترین اور شرمناک ترین شکست سے دوچار کردیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
یقیناً ہم پر جو سب سے بڑا بوجھ ہے وہ باجوہ-عمران حکومت ہے ، جو ہمیں ہر جانب سے کچل رہی ہے۔ اور یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس حکومت سے نجات حاصل کی جائے۔ بے شمار وسائل اور نوجوان آبادی رکھنے کے باوجود اس حکومت نے ہم پر کفر قوانین اور آئی ایم ایف کے مطالبات نافذکر کے ہمیں غریب، مسکین اور لاچار بنا دیا ہے۔ اور اگرچہ ہمارے پاس قابل اور طاقتور فوج ہے جو ہر وقت اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہے، ہمیں ٹرمپ کی ہدایت پر "تحمل” کے مظاہرے کے ذریعے اپنے گھٹیا دشمن کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یقیناً باجوہ-عمران حکومت کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کو چھوڑ کر کفر قوانین کی بنیاد پر حکمرانی کرنےنے ہماری زبردست صلاحیت کو مفلوج کردیا ہے۔ کفریہ قوانین کی بنیاد پر حکمرانی کی وجہ سے ہم برصغیر پاک و ہند کی قیادت کا مقام حاصل کرنے سے قاصر ہیں، وہ مقام جو صدیوں تک ہمارے آباؤ اجداد کے پاس رہا اور جس کی وجہ سے برصغیر نے ایسی شاندار اور بے مثال ترقی ، خوشحالی اور تحفظ کا دور دیکھا جو اسلامی حکومت سے پہلے کبھی اس نے نہ دیکھا تھا اور اِسلامی حکومت کے خاتمے کے بعد سے برصغیر اُس شاندار دور سے محروم چلا آرہا ہے۔ لہٰذا اب نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کے شباب کے ساتھ شامل ہوجائیں جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دے رکھی ہے۔ اور ہمیں افواج پاکستان کے شیروں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ مشہور فقیہ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے والی جماعت حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ سرینگر اور مسجد الاقصی پر خلافت کا جھنڈا لہرایا جا سکے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ” توتم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم تو غالب ہو۔ اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم نہیں کرے گا "(محمد، 47:35)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
ختم شد
سلطان محمد الفاتح نے رسول اللہ ﷺ کی قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت کو پورا کرنے کا شرف حاصل