سوال و جواب: "سوائے دعا کےکوئی بھی چیزتقدیر ِ الٰہی (قضاء) کو نہیں پلٹ سکتی” اس حدیث کو کیسے سمجھیں ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
ہماری تبنی کردہ کتاب "التفکیر الاسلامی” میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ دعا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم یا کسی بھی چیز میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے مقررکردہ ہمارے انجام (قدر) اور ہماری قسمت (تقدیر) کونہیں پلٹ سکتی۔ تاہم قرآن و سنت میں ایسی نصوص موجود ہیں جو میرے خیال میں اس مفہوم کے منافی ہیں۔ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:«لَا يَرُدُّ الَقَضَاءَإِلَّا الدُّعَاءُ»"سوائے دعا کےکوئی بھی چیزتقدیر ِ الٰہی (قضاء) کو نہیں پلٹ سکتی۔”
اور بھی بہت ساری حدیثیں موجود ہیں جن کے یہی معنی ہیں ، اور وہ ثابت کرتی ہیں کہ دعاتقدیر کو بدل دیتی ہے۔لہٰذا قرآن و سنت میں موجود نصوص اور ہماری کتاب میں موجود مفہوم کو کیسےسمجھا جائے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اجرعطا فرمائے۔
جواب:
میرے خیال میں آپ جس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ "التفکیر الاسلامی” میں نہیں بلکہ کتاب” الفکر الاسلامی” (اسلامی فکر) میں بیان کی گئی ہے، اور یہ سوال میں ایک غلطی ہے۔ نیز سوال میں ایک اور غلطی یہ ہے کہ "یہ کتاب ہماری تبنی (اپنائی ہوئی) کتابوں میں سے ایک ہے”۔یہ کتاب ہماری تبنی کی ہوئی کتابوں میں سےنہیں ہے اور اس کا تذکرہ انتظامی فائل میں درج ہے "وہ غیرتبنی کتابیں جو حزب التحریر نے شائع کی ہیں ، چاہےاُن پرامیر کا نام ہو ، یا کسی اوررکن کا نام ہو ،انہیں حلقات میں نہیں پڑھایا جاتا ” ، اور پھر ان کتابوں میں اِس کتاب کا تذکرہ کیا گیا ہے: "۔۔۔الفکر الاسلامی”۔بہرحال ، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ آپ اس کتاب میں بیان کردہ اس جملے کا ذکر کررہے ہیں: "لیکن یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ جو کچھ بھی اللہ کے علم میں ہےدعا اسے نہیں بدل سکتی،اللہ کی قضاءکو نہیں ٹال سکتی ، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ کو نہیں بدل سکتی،اور کوئی چیز اس کے سبب کےبغیر نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو امر اللہ کے علم میں ہے وہ لازمی پورا ہوکر رہتا ہے،اور اللہ کی قضاء لازمی پورا ہوتی ہے ، اگر یہ دعاسے پلٹ جائے تو یہ قضاء نہیں ہوگی ، اور یہ کہ قدر اللہ ہی کی طرف سے مقرر ہوتی ہے،لہٰذا ، یہ دعاسے نہیں بدل سکتی”۔آپ کہتے ہیں کہ یہ بیان اس حدیث«إِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ»،” دعائیں تقدیر ِ الٰہی (قضاء) کوپلٹ دیتی ہیں۔” سے متصادم ہے۔ایک اور روایت میں ہے«لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ»،”کوئی بھی چیز قدر کو نہیں بدل سکتی سوائے دعا کے۔”آپ کا سوال ہے کہ اس تضادکو کیسےسمجھیں ؟
اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں ، میں کچھ متعلقہ امور کا ذکر کروں گا۔
1- اسلام میں دعاء کی اہمیت اور اس سے مستفیدہو نے سے متعلق آیات اور احادیث موجود ہیں ، جیسا کہ:
– اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾”اور تمہارے رب نے فرمایا ہے: تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے”(الغافر: 60 )۔
ـ حاکم نے اپنے مستدرک میں ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الدُّعَاءِ»،"اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دعا سے زیادہ کوئی چیز اتنی عزیز نہیں ہے”۔ احمد نے اپنی مسند میں ابو سعید سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّل لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَهَا قَالُوا إِذاً نُكْثِرُ قَالَ اللَّهُ أَكْثَرُ»،” ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے کہ جو اللہ کو ایسے الفاظ کے ساتھ پکارے کہ جس میں کوئی گناہ یا خونی رشتے منقطع کرنے کی بات نہ ہو تو اللہ اسے تین چیزوں میں سے ایک عطا کرے گا: یا تو وہ اس کی مانگی ہوئی چیز جلد ہی عطا کر دے گا ، یا آخرت کے لیے اس کا اجر ذخیرہ کردے گا ، یا اس سے کوئی برائی دور کردے گا جو اس کی مانگی ہوئی دعا کےبرابر ہو”،انہوں نے کہا، "پھر ہمیں کثرت سے دُعائیں مانگنی چاہئے”، آپﷺ نے فرمایا ، "اللہ سب سے کثرت والاہے” اسے حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں ابو سعیدؒ سے روایت کیا ہے۔
ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کا وفادار بندہ اس سے دعا ئیں مانگتا رہے اور اپنی دعاؤں کو بڑھاتارہے ، اور یہ کہ اس کی دعاؤں کی قبولیت تین میں سے ایک صورت میں ہے جیسے مسند احمد میں ہے۔ اور یہ قبولیت لوحِ محفوظ میں درج ہے۔ازل سے جو کچھ بھی ہوتا رہاہے وہ ہمیشہ سے درج ہے جیسا کہ ذیل میں قدرکے دلائل سے ظاہر ہے ۔
2- اگر کسی مسئلے کے بارے میں قطعی ثبوت دلیل موجود ہو جو کسی خاص حکم کی طرف اشارہ کرتی ہواور اسی معاملے پر صحیح بیان (سند) کے ساتھ غیرقطعی دلیل موجود ہو جوکسی اور حکم کی نشاندہی کرتی ہو جس میں قطعی دلیل سے متصادم ہونے کا شبہ پیدا ہوتا ہو ، تو اس صورت میں دونوں شواہد کوآپس میں جوڑ اجاتا ہے ، کیونکہ ان دونوں شواہدکو ملا دینااس بات سے اولیٰ ہے کہ کسی ایک کو نظر انداز کردیا جائے۔ اگر شواہد کو ملا ناممکن نہیں ہو تو قطعی ثبوت کو لیا جاتا ہے ، اور غیرقطعی ثبوت کو درایتاً(معنی کے لحاظ سے) مسترد کردیا جاتا ہے کیونکہ اس کی سند (روایت) صحیح ہے، لیکن اگر اس کی سند ضعیف ہو، تو اسے اس کی کمزوری کی وجہ سے ترک کردیاجاتا ہے۔
3- تقدیر الٰہی کے ثبوت (قدر) سے:
-اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً﴾"اور اللہ کا حکم پورا ہوکر رہے گا”(الاحزاب: 38)، یہاں” قدر” سے مراد وہ فیصلہ ہے جوابدی طور پرہو چکا ہے اور” مقدور "سے مراد وہ فیصلہ ہےجولازمی ہوکر رہےگا ۔اور فرمایا:﴿وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّمَاءِ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ﴾” اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی، مگروہ واضح کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے "(یونس: 61 )، اور فرمایا :﴿عَالِمِ الْغَيْبِ لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلا فِي الأَرْضِ وَلا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْبَرُ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِين ﴾"اللہ سبحانہ و تعالیٰ غیب کا جاننے والا ہے، اس سے نہ آسمانوں میں ذرّہ بھر کوئی چیزچھپ سکتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی (چیز ہے) اور نہ بڑی مگر روشن کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (لکھی ہوئی) ہے "(سورۃ سبا : 3 )، اور فرمایا،﴿مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴾"کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری زندگیوں میں مگر وہ ایک کتاب میں (یعنی لوحِ محفوظ میں جو اللہ کے علمِ قدیم کا مرتبہ ہے) اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں (موجود) ہوتی ہے، بیشک یہ (علمِ محیط و کامل) اللہ پر بہت ہی آسان ہے "(سورۃ الحدید : 22 )۔
– نیزقدر کے معاملے یا لوحِ محفوظ کے متعلق احادیث موجود ہیں ، بشمول:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے کہا:«جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لاَقٍ » "قلم اس کے لکھنے کے بعد خشک ہو گیا ہےکہ جس سےتمہارا واسطہ پڑے گا”(بخاری)؛ یعنی ، ہر چیز کہ جس سے آپ کا سامنا ہوگا ہمیشہ کے لئے لکھ دی گئی ہے۔
سیدنا عمر ؓ کی حدیث،کہ جس میں حضرت جبرائیلؑ نے آکر اسلام اور ایمان کے بارے میں پوچھا، حدیث میں ہے: "مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں "، آپﷺ نے جواب دیا ،:« أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ »"وہ یہ ہے کہ آپ اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخری دن اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونےپر یقین رکھیں”(مسلم)، یعنی یہ ماننا کہ سب کچھ پیدا کرنے سے پہلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اچھے اور برے کا فیصلہ کردیا ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا ، رسول اللہﷺ نےفرمایا:« لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ»"کسی بندے کا اس وقت تک ایمان نہیں جب تک کے وہ القدر اور اس کے اچھے اور برے ہونے پرایمان نہ لے آئے ، یہاں تک کے اسے پتہ ہو کہ جو مصیبت اس پر نازل ہوئی ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا تھا ،اور یہ کہ جس مصیبت سے بچ گیا ہے وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی ۔”(ترمذی)
ابی عباس عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھا کہ جب آپﷺ نے فرمایا : «يا غُلاَمُ، إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتْ الأَقْلامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ»، "اے لڑکے! میں تمہیں کچھ معاملات میں ہدایت کرتا ہوں۔ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی سے ڈرتے رہو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ اس کے احکامات کی حفاظت کرو ، وہ ہمیشہ تمہارےساتھ رہے گا۔ اگر تم کچھ مانگو، تو صرف اسی سے مانگو۔ اور اگر مدد کی ضرورت ہو، تو صرف اللہ سے مدد کی دعا کرو۔ اور یاد رکھو کہ اگر سارے لوگ بھی تمہارے فائدے کے لیے جمع ہوجائیں تو وہ تمہیں اس کے سوا کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گےکہ جس کا اللہ نے پہلے ہی فیصلہ کیا ہوا تھا۔ اور اگر یہ سب تمہیں نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائیں تو ، وہ تمہیں اس کے سوا کسی اور چیز سے تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے جسے اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا تھا۔ قلم اٹھایا جا چکا ہے اور سیاہی خشک ہو چکی ہے۔”(ترمذی)
4– اب ہم اُن دونوں احادیث پربات کریں گے کہ دعاقضا و قدر کو پلٹ دیتی ہے:
– حاکم نےمستدرک میں ابن عباس ؓاورثوبان ؓسے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ»،"دعا قضا کوپلٹ دیتی ہے”۔ایک اور روایت میں حاکم نے عبد اللہ ابن ابی زیدؓ اورثوبانؓ کے ذریعے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ»،”سوائے دعا کےکوئی بھی چیزقدر کو نہیں پلٹ سکتی”۔ حاکم نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن شیخین نے اسے بیان نہیں کیا۔
5۔ قدر کے متعلق جوکچھ نصوص میں بیان کیا گیا خاص طور پر وہ آیات جن کے معنی قطعی ہیں، تو ان پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زمین و آسمان میں ایسی کوئی چیزنہیں سوائے جسے اللہ نے قدر کر دیا اور اسے اپنے پاس تحریر کردیا۔ اورکچھ واقع نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے پہلے لکھ دیا ہے اور جو اس کے پاس تحریر ہے۔ جو پہلے لکھ دیا گیا وہ لازمی ہو کر رہے گا اور وہ ناگزیر ہے، یعنی قدر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
جن دو احادیث کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ سمجھ میں آتا ہےکہ دعا قضاء یا قدر کو پلٹ دیتی ہے۔ دونوں احادیث کا معنی ایک ہی ہے، پس یہاں شبھہ ہے جو قطعی ثبوت آیات سے متصادم ہے ۔ اورجیسا کہ اوپر بیان کیا گیا تھا، کہ اگر ممکن ہو،تو پہلے ان دو احادیث کو قطعی ثبوت آیات کے ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے گی؛ ورنہ حدیث کو درایتاً(معنی کے لحاظ سے) مسترد کردیا جائے گا۔
6۔ لہٰذا اس معاملے کو سمجھنے کے بعد میں اللہ کی توفیق سے یہ کہتا ہوں:
ا-یہ حدیث: «لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ»،”سوائے دعا کےکوئی بھی چیزقدر کو نہیں پلٹ سکتی”، اس کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ اللہ جو لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے اسے وہاں سے ہٹا دیتے ہیں، لہٰذا یہ حدیث درایتاً یعنی اپنے معنوں کے لحاظ سے مسترد ہو گی کیونکہ قدر یا قضاء لوح محفوظ میں لکھا گیا ہوا ہے اور وہ لازمی طور پر ہو کر رہے گی اور کوئی اسے روک نہیں سکتا، یعنی لوح محفوظ سے اسے نہیں نکالا جاسکتا؛ اس لیے یہ حدیث درایتاً یعنی معنوں کے لحاظ سے مسترد کی جائے گی اگر اسے قطعی ثبوت آیت کے ساتھ جوڑا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا قدر پر جو قطعی ثبوت ہے اسے اختیار کیا جائے گا، یعنی قدر لازمی ہو کر رہتی ہے اور اسے روکا یا التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ لیکن حدیث کے معنوں کو مسترد کرنے سے پہلے یہ کوشش کرنا لازمی ہے کہ قطعی اور غیر قطعی تمام شواہد کو جوڑنے کی کوشش کی جائے، اگران میں مطابقت ہو سکتی ہو کیونکہ تمام دلائل پر عمل بہتر ہے بجائے اس کے کہ کسی ایک کو مسترد کردیا جائے۔ ب- اصول فقہ کے مطابق، جب قرینہ اس قسم کا ہے کہ حقیقی معنی اختیار نہ کیا جاسکتا ہو، اور وہ قرینہ یہ ہے کہ یہاں پر قدر کے متعلق قطعی ثبوت آیات موجود ہیں، تو پھر اگر زبان کے لحاظ سے ممکن ہو تو حدیث میں بیان کیے گئے قدر کے استعاری یا مجازی یا کنایتاً معنی مراد لیے جائیں گا۔ اور یہ یہاں پر ایسا کرناممکن ہے؛ لفظ قدر یا قضاء حدیث میں مجازی طور پر استعمال ہوا ہے اور اس کو اس کے نتائج سے سمجھا جاسکتا ہے یعنی کہ اس کے اثرات سے ؛ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں قدر سے مراد کسی عمل یا واقع کے اثرات ہیں، پس یہاں دعا کو وجہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن مقصد مُسبب کو بیان کرنا ہے۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھتے ہیں: اگر آپ کہتے ہیں بارش نےزمین کو زندہ کیا۔ یہاں آپ نے بارش کو وجہ کے طو رپرذکر کیا جبکہ مراد اس کا نتیجہ تھا یعنی فصل یا درخت۔ تو حدیث میں بھی قدر کا تذکرہ کیا گیا لیکن اصل مقصد مجازی معنی میں بات کو بیان کرنا تھا یعنی کہ اس کا اثریا نتیجہ، یعنی قدر یا قضاء تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس کا اثر یا نتیجہ تبدیل ہو گیا۔ ایک اور مثال سے اس بات کو سمجھتے ہیں: اگر ایک مسلمان کسی قدر یا قضاء کا شکار ہوتا ہے جیسا کہ وہ بیمار ہوجاتا ہے، یا اس کا بچہ اس سے چھن جاتا ہے، یا کاروبار یا تجارت میں نقصان اٹھاتا ہے وغیرہ وغیرہ، تو پھر دعا اس کے اثرات کو تبدیل کردیتی ہے، جیسا کہ حسن بن علیؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا: کہ رسول اللہﷺ نے وتر کے نماز میں اداکرنے کے لیے یہ الفاظ سکھائے: «اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ… وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ…» ” اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کر جن کی آپ نے رہنمائی فرمائی۔۔۔۔۔ اور مجھے اس شر سے بچا جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے "۔ ایک ایمان والا جب دعا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پکارتا ہے اور قضاء کے شر سے بچنے کے لیے دعائیں کرتا ہے تو اللہ اس کے اثرات کو اس پر نرم کردیتے ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے میں اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کو صبر عطا فرماتے ہیں۔ پھر اللہ اس بات کے باوجود کہ اس پر قضاء آچکی ہے ،اس کی زندگی کو آسان کردیتے ہیں۔ یعنی اللہ اس پر قضاء کو آسان کردیتے ہیں اور اس کے اثرات کو نرم کردیتے ہیں۔ تو یہ ایسے ہے کہ دعا نے مجازی طور پر قضا کو ٹال دیا۔ اللہ نے اس قضاء کا سامنا کرنے میں بندے کی مدد کی اور اسے صبر عطا فرمایا۔ کتنے لوگ ہیں جو مصائب سے دوچار ہوتے ہیں اور کمزور ہوجاتے ہیں؟ اور کتنے لوگ ہیں جو شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زبانیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ذکر سے تر ہوتی ہیں،پس بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے تا کہ وہ اسے مصیبتوں کے برے اثرات اور ان کے نتائج سے محفوظ رکھے، تو اسے صبر دیا جاتا ہے اور اس کے معاملات سیدھے ہوجاتے ہیں، جیسا کہ اس کی دعا نے مجازی طور پر مشکل کو ٹال دیا ہو۔
لہٰذا قدر ناگزیر ہے اور ہو کر رہے گی لیکن مسلمان کی دعا اس کے اثرات کو اس پر سے ٹال دے گی یعنی اس کے اثرات کی سختی کم ہوجائے گی اور اس کی مدد کی جائے گی کہ وہ اس صورتحال سے نکل جائے اور اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے اسے صبر دیا جائے گا، اور مشکل کی شدت کو کم کردیا جائے گا اور پھر وہ زندگی سے ایسے لطف اندوز ہوگا جیسے کہ اس پر کوئی مشکل کبھی آئی ہی نہ ہو۔ جو کچھ لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے، اللہ نے اس کا حکم دیا اور اللہ ہمیشہ سے اسے جانتا ہے۔ یعنی یہ لکھ دیا گیا ہوا ہے کہ اللہ کے غلاموں پر مشکل آئے گی، اور پھر اللہ کا بندہ اللہ کو دعا کے ذریعے پکارے گا کہ اس مشکل کے شر سے اسے بچایا جائے۔ اللہ اس کی دعا کا جواب دے گااور اس صورتحال سے نکلنے میں اس کی مدد کرے گا، اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے اسے صبر عطا فرمائے گا جیسا کہ مجازی طور پر اس پر کوئی مشکل پڑی ہی نہیں ہے۔
اس طریقے سے اس حدیث کو سمجھنا چاہیے۔ میری رائے میں یہ فہم درست ترین ہے، باقی اللہ سبحانہ و تعالیٰ جاننے والا اور سب سے زیادہ حکمت والا ہے۔
7- مزید معلومات کے لیے میں درج ذیل کہوں گا:
ا۔ میری کتاب (التيسير في أصول التفسير)میں یہ لکھاہے:
] دعا کا جواب دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قسمت تبدیل ہوجائے یا جو لوح محفوظ میں میں لکھا ہے یا جس سے اللہ باخبر ہیں وہ تبدیل ہوجائے، یعنی اللہ کے جواب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بندے کی دعا کے متعلق نہیں جانتے اور یہ کہ اللہ اس کا جواب دیں گے، اور اسے لوح محفوظ میں نہیں لکھا گیا، بلکہ اللہ جانتے ہیں اور ہمیشہ سے یہ سب لکھا ہوا تھا۔ قدر اللہ کا علم ہے جو کہ وہ ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہ اس میں ہمیشہ سے لکھا ہوا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں کہ کوئی اس سے دعا کرے گا۔ اگر اللہ اس کا جواب دیتے ہیں ، تو یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کوئی یہ اور یہ دعا کرے گا اور فلاں اورفلاں طریقے سے دعا پوری ہو گی۔ دعا کوئی ایسی نئی چیز نہیں کہ جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ پہلے نہیں جانتے تھے یا یہ کہ وہ لوح محفوظ میں نہیں لکھی ہوئی تھی، یا یہ کہ اس کا جواب کیا ہوگا۔ بلکہ جو کچھ ہونا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہوا ہے۔ اللہ ہر اَن دیکھی چیز کو جانتا ہے یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا بندہ کیا کہے گا اور کیا کرے گا، اور ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے۔ بندے کی جانب سے جو دعا کی جاتی ہے اللہ اس سے باخبر ہوتے ہیں اور اسے بالکل ویسے ہی لکھا ہوا ہوتاہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا جواب بھی پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ دعا اور اس کا جواب اللہ کے علم سے بالاتر نہیں بلکہ پہلے سے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ ہر نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی شے کو جانتا ہے،﴿لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ﴾ "(وہ پروردگار) غیب کا جاننے والا (ہے) ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں (نہ) آسمانوں میں اور نہ زمین میں”(صبا:3)۔
ب- أبو محمد حسين بغوی شافعی (المتوفی 516 ہجری) کی شرح السُنۃ میں بیان کیا گیا ہے : عبدالواحد بن احمدملیحی نے ۔۔۔ عبد الله بن ابو جعد نے ثوبان سے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ۔۔۔»،”سوائے دعا کےکوئی بھی چیزقدر کو نہیں پلٹ سکتی”۔۔۔۔ میں(بغوی)یہ کہتا ہوں: أبو حاتم سجستانی نے بیان کیا:جو دعا کرتا رہتا ہے وہ قضاء کو ایسے قبول کرے گا جیسے اس پر سے ٹال دی گئی ہو۔
پ- أبو الحسن نور الدين ملا هروی قاری (متوفی:1014 ہجری)نے اپنی کتاب "مرقاۃ مفاتیح شرح مشكاة مصابیح ” میں بیان کیا ہے: «لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ»،”سوائے دعا کےکوئی بھی چیزقدر کو نہیں پلٹ سکتی”۔۔۔۔قضاء ایک طے شدہ امر ہے۔۔۔اور قضاء کو روکنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے ایسے آسان کردیتا ہے جیسا کہ اسے بھیجا ہی نہ گیا ہو۔۔۔[میں امید کرتا ہو کہ یہ جواب کافی ہوگا، اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
16 ربیع الاول 1441 ہجری
13 نومبر 2019 عیسوی
ختم شد