سوال و جواب: امریکا – چین تجارتی معاہدہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
امریکا کے صدر نے کہا:”چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پہلے حصے پر دستخط ہوسکتے ہیں”۔ اور پھر کچھ ہی دنوں بعد یہ اعلان کیا گیا کہ 15 جنوری کو اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا:”میں صدارتی انتخابات کے بعد چین کے ساتھ معاہدے کے دوسرے حصے کو بھی مکمل کرنا چاہوں گا تا کہ کئی مہینوں سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کو ختم کیا جاسکے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ہنگامہ خیزی کی صورتحال ہے اور عالمی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔۔۔”( بوابة العين، 10 جنوری 2020) ۔ اور چین کی وزارتِ تجارت نے سرکاری سطح پر اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ” تجارتی معاہدے کے پہلے حصے پر دستخط کرنے کے لیے نائب صدر لیو ہی واشنگٹن جائیں گے۔ دستخط کرنے کے حوالے سے چین کی جانب سے یہ پہلا بیان تھا، جس کے متعلق ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس پر دستخط ہونے کے بعد چین کا دورہ کرے گا تا کہ دوسرے حصے پر مذاکرات شروع ہو سکیں۔۔۔”( ٹریڈ کیپٹن، 10 جنوری 2020)۔ کیا موجودہ صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ختم ہوگئی ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب اور امریکا-چین تجارتی جنگ کی اصل بنیاد سمجھنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل امور کا پہلے جائزہ لیں گے:
پہلی بات: اس مسئلے کا پسِ منظر:
1۔ چین کے حوالے سے امریکا کی پالیسی کا مشاہدہ کرنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ امریکا یوریشیا (یورپ اور ایشیا) کے خطے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ چین اُس سے آگے نکل جائے کیونکہ یوریشیا ایک اہم خطہ ہے جس کے متعلق امریکا نے مضبوط خارجہ پالیسی بنائی ہے تا کہ اس پر اپنی بالادستی کو یقینی بناسکے اور یہ پالیسی آج کے دن تک امریکی اداروں کے مفادات کی نگہبانی کررہی ہے ۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے چین کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کی ساخت پر امریکا میں سیاسی رائے دو حصوں میں تقسیم رہی ہے:
پہلی رائے: یہ ہے کہ امریکا کے قائم کردہ عالمی نظام میں چین کو بھی ایک حصہ دار بنایا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس سے رابطے استوار کیے جائیں اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
دوسری رائے: یہ ہے کہ چین کی نیت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور اس نے بالا آخر ایک مخالف قوت بننا ہے جو مغرب کے قائم کردہ بین الاقوامی نظام کے خلاف کھڑا ہوگا جس کی قیادت امریکا کررہا ہے۔
بیسوی صدی کی نوے کی دہائی کے وسط میں امریکا کی خارجہ پالیسی بنانے والی اسٹبلیشمنٹ اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ چین کو ایک مدمقابل قوت قرار دیا جائے اور چین کی اُبھرتی قوت کو محدود کرنے کی پالیسیاں اختیار کیں جائیں۔ڈیموکریٹک کلنٹن اور اوباما کے دور میں چین کو محدود کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی، اور ری پبلیکن بش جونیئر اور ٹرمپ کے دور میں چین کو محدود کرنے کے لیے زیادہ جارحانہ پالیسی اختیار کی گئی۔ ٹرمپ نے چین کے خلاف کھلی تجارتی جنگ کی راہ اختیار کی اور اس حوالے سے حرکت میں آیا۔(فائنینشل ٹائمز)۔
2۔ چین کو محدود کرنے کی امریکی پالیسی کے دو اہداف تھے: پہلا یہ کہ چین کو علاقائی طاقت بننے سے روکا جائے، اور دوسرا یہ کہ مغرب کے قائم کردہ بین الاقوامی نظام کو تبدیل کرنے سےچین کو روکا جائے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے امریکا نے کئی اقدامات اٹھائے جن میں تبت، مشرقی ترکستان اور ہانک گانگ میں انسانی حقوق کا معاملہ۔۔۔، شمالی کوریا کے ایٹمی بحران اور ساوتھ چائنا سی میں چین کو مصروف رکھنا۔۔۔۔ایشیا پیسیفک میں چین کی فوجی خواہشات اور طاقت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کو استعمال کرنا۔۔۔۔جدید ترین ٹیکنالوجیز تک چین کی رسائی کو محدود کرنا۔۔۔۔ اور چین کے ون روڈ ون بیلٹ کے منصوبے سے پیچھے ہٹ جانا شامل ہے۔ امریکا کی سیاسی اسٹیبلیشمنٹ نے چین کو محدود کرنے کی پالیسی کو چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھا ۔ لیکن 2008 کے عالمی مالیاتی بحران اور افغانستان و عراق میں امریکا کی تباہ کن جنگوں نے امریکا کو یہ احساس دلایا کہ چین کو صرف محدود رکھنے کی پالیسی کافی نہیں ہے اور اس نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا۔ اوباما کی حکمت عملی ، جو Pivot to Asia کے نام سے مشہور ہوئی، کا ہدف یہ تھا کہ یورپ سے فوجی سازوسامان اور سپاہیوں کو ایشیا اور پیسیفک کے خطے میں منتقل کیا جائے اور چین کی فوجی صلاحیتوں کا مقابلہ کیا جائے۔ ٹرمپ نے چین کی معیشت کو براہ راست نشانہ بنانا شروع کیا اور ا س کی حکومت نے چین کو "کرنسی میں ہیرا پھیری” کرنے والا ملک قرار دیا اور بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کردی۔ اس عمل نے بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام میں چین کو محدود کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا(بی بی سی)۔
دوسری بات: امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ:
1۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ امریکا نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کی تا کہ چین کی ابھرتی طاقت کو پھیلنے سے روکا جائے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں تجارتی خسارے کی وجہ سے تیزی آئی۔ امریکا چین سے 558 ارب ڈالر کی اشیاء اور خدمات درآمد کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں چین امریکا سے صرف 179 ارب ڈالر کی اشیاء اور خدمات درآمد کرتا ہے(Office of the United States Trade Representative)۔ لیکن کچھ ہی عرصہ قبل ان کے درمیان اتفاق نظر آیا جس کا مقصد اپنے اپنے مفادات کو حاصل کرنا ہے۔
2۔ حالیہ مہینوں میں امریکا اور چین ایک جزوی تجارتی معاہدے پر متفق ہوئے ہیں ، "جو کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان بڑھنے والی تجارتی جنگ کو ختم کرے گی جو پچھلے سال سے جاری ہے۔ ٹرمپ نے پہلے کہا تھا کہ تجارتی معاہدے کا پہلا حصہ مکمل معاہدے کے 60 فیصد کا احاطہ کرے گا، اور اس بات سے یہ خیال کیا گیا کہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر درآمدی ٹیکسز کم کرنے کے جواب میں چین مزید امریکی زرعی مصنوعات خریدے گا۔۔۔”(العربی الجدید، 5 جنوری 2020)۔ العربیہ نیٹ نے 15 دسمبر 2019 کو یہ رپورٹ شائع کی کہ:” دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں تجارتی جنگ شروع ہونے کے 21 ماہ بعد ، امریکا چین کےساتھ تجارتی معاہدے کے پہلے حصے پر متفق ہوگیا ہے لیکن اس پر دستخط جنوری سے پہلے نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت امریکا نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ 120 ارب ڈالر مالیت کی چینی مصنوعات پر 15 فیصد کے ٹیکس کو نصف کرےگا لیکن 250 ارب ڈالر مالیت کی چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس برقرار رکھے گا۔ اور امریکا نے مزید 160 ارب ڈالر مالیت کی چینی مصنوعات پر 15 فیصد کی ٹیوٹی لگانے کے منصوبے کو ملتوی کردیا جس پر آج سے عمل درآمد شروع ہونا تھا جس میں کھلونے اور سمارٹ فون شامل ہیں۔ بیجنگ نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ اگلے دو سال کے عرصے میں مزید امریکی مصنوعات اور خدمات درآمد کرے گا جن کی کم از کم مالیت 200 ارب ڈالر ہوگی۔ چین نے کچھ امریکی اشیاء پر مزید ٹیکس لاگو کرنے کے عمل کو ملتوی کردیا جس پر آج سے عمل درآمد شروع ہونا تھا جس میں امریکی کاروں پر 25 فیصد اور سپیر پارٹس پر 5 فیصد کسٹم ڈیوٹی شامل تھی۔ چین نے واضح کیا کہ وہ 126 ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کے نفاذ کو التوا میں رکھے گا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ امریکی زرعی مصنوعات کی خریداری میں اضافہ کرے گا جس کی مالیت سالانہ 50 ارب ڈالر تک ہو گی”۔ ٹرمپ اس بات کا بہت خواہش مند رہا ہے کہ امریکی زرعی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرے کیونکہ اس سال 2020 میں وہ صدارتی انتخاب لڑنے جارہا ہے اور بھاری قرضوں تلے دبے ہوئے کسانوں کی ووٹوں سے محروم نہیں ہونا چاہتا جن کے پاس بہت زیادہ برآمدی منڈیاں موجود نہیں ہیں۔ اس سے پہلے البیان نیوز ویب سائٹ نے یہ خبر شائع کی تھی کہ: "چین کی وزارت تجارت نے جمعہ کو یہ بیان دیا: معاہدے نے دوطرفہ برابری اور عزت کے اصول کو سامنے رکھا ، اور اس میں نو باب ہیں: دیپاچہ، دانشورانہ املاک کے حقوق، ٹیکنالوجی کا تبادلہ، خوراک اور زرعی اشیاء، مالیاتی سہولیات، شرح تبادلہ اور ان میں شفافیت، تجارت میں پھیلاؤ، دوطرفہ تشخیص اور تنازعات کا تصفیہ، اور آخری شرائط”(البیان نیوز، 13 دسمبر 2019)۔
3۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی جنگ کے حوالے سے یہ معاہدے ان دو ممالک کے درمیان معاشی تناؤ کو ختم کردیں گے کیونکہ چین کو قابو میں کرنے کے لیے تجارتی جنگ اصل ہدف نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور کارفرما ہے جو کہ امریکا کی معیشت اور اس کی بین الاقوامی ترجیحات کے لیے زیادہ خطرناک اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ چین پانچوی نسل (ففتھ جنریشن) کی ٹیکنالوجی، آگے آنے والی وائر لیس کمیو نیکیشن اور سب سے اہم مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اس وقت سب سے آگے ہے۔ امریکا کے ڈیفنس انوویشن بورڈ، جس میں سابق ایلفابیٹ چیئرمین ایرک شمٹ ، لِنکڈاِن کے بانی رِیڈ ہافمین اور مصنف اور ایسپن انسٹی ٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو والٹر اسحاق سن شامل ہیں، نے لکھا:”اگلی دہائی میں فائیو-جی (5G) کا لیڈر ہزاروں ارب ڈالر کمائے گا، وائر لیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں وسیع پیمانے پر ملازمتیں پیدا ہوں گی۔۔۔۔جو ملک فائیو-جی کا مالک ہو گا وہ ان میں سے کئی ایجادات کا مالک ہوگا اور پوری دنیا کے لیے پیمانے قائم کرے گا۔ اوراس بات کا امکان کم ہے کہ وہ ملک امریکا ہوگا”(ZDNet)۔
4۔ ففتھ جنریشن "فائیو-جی” انتہائی تیز ٹیکنالوجی ہے۔ محققین نے بتایا ہے کہ فائیو-جی کے ذریعے کمیونیکیشن کی رفتار جانچی گئی جس نے ریکارڈ رفتار حاصل کی: ایک ٹیرا بائیٹ فی سیکنڈ، یہ رفتار موجودہ نظام سے 200 گنا زیادہ تیز ہے۔ برطانیہ میں یونیورسٹی آف سرے کے فائیو-جی سینٹر میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ایک مکمل فلم سے 100 گنا زیادہ بڑی فائل کو صرف تین سیکنڈ میں ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ یہ رفتار فور-جی کی ڈاون لوڈ سپیڈ سے 65 گنا زیادہ تیز ہے۔ اس سال 50 سے 100 ارب آلات انٹر نیٹ سے منسلک ہونے کی توقع ہے، لہٰذا ایک نئی اور مختلف فریکونسی بینڈ کی ضرورت ہے جو انٹر نیٹ سے جڑنے والے آلا ت کی روزبروز بڑھتی ضروریات کو پورا کرسکے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے فائیو-جی تکنیکی طور پر کس طرح کام کرتا ہے تو ایک ٹیکنالوجی جس کا نام "میمو” ہے جس کا مطلب ہے "ملٹی پل ان پُٹ ملٹی پل آوٹ پُٹ”، فائیو-جی نیٹ ورک میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔” میمو”ٹیکنالوجی کئی چھوٹے اینٹینے استعمال کرے گی تا کہ معلومات کو انفرادی سطح پر منتقل کیا جاسکے۔ سام سنگ نے ڈیٹا ڈاون لوڈ کی زبردست رفتار کے لیے اس ٹیکنالوجی پر انحصار کیا ، اور فائیو-جی نیٹ ورکس اس سے بھی زیادہ نشر کرنے والے اسٹیشن استعمال کرے گا”(العرب 13 جولائی 2017)۔
5۔ 2017 میں شمٹ نے ورلڈ اکنامک فورم پر یہ انکشاف کیا کہ”زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ چین مصنوعی ذہانت کی تعمیر میں امریکا سے آگے نکل جائے گا "(ورلڈ اکنامک فورم)۔ مصنوعی ذہانت کا اظہار ان چیزوں میں ہوتا ہے:
- مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس کا استعمال تا کہ صارف کی مشکلات کو تیزی سے سمجھا جاسکے اور اسے زیادہ بہتر جوابات دیے جائیں۔
- مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑے بڑے ڈیٹا بیس سے اہم معلومات کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تا کہ نظام الاوقات schedulingکو بہتر کیا جاسکے۔
ماہرین نے اگلے چند سال کے دوران مصنوعی ذہانت میں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور دلچسپی کا عندیہ دیا ہے، اور ڈیلوئٹ (Deloitte) نے اندازہ لگایا ہے کہ 2021 تک مصنوعی ذہانت اور مشینوں میں 57.6ارب ڈالر تک خرچ کیےجائیں گے جو کہ 2017 میں خرچ ہونے والی رقم سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ 6۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ ٹرمپ نے کھلے عام "ہواوے” (Huawei) کی مخالفت کی جو کہ تکنیکی طور پر فائیو-جی ٹیکنالوجی بنانے میں سب سے زیادہ قابلیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے کئی مواقعوں پر کہا ہے کہ اس چینی کمپنی سے خطرہ ہے۔ ٹرمپ نےنیٹو کے اجلاس میں کہا تھا کہ، "میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سیکیورٹی رسک ہے بلکہ یہ سیکیورٹی خطرہ ہے”(بزنس اِن سائڈر)۔ اس وجہ سے امریکا نے کئی مغربی ممالک(اٹلی، برطانیہ، جرمنی وغیرہ) کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ملکوں میں فائیو-جی کی بولی کے عمل سے یا اس کی تنصیب سے "ہواوے” کو الگ کردیں، اور امریکا یہ کام سیکیورٹی خلاف ورزیوں کا جھوٹا الزام لگا کر کررہا ہے۔ امریکا نے کینیڈا سے کہا کہ وہ ہواوے کے چیف فائنینشل آفیسر مینگ وینزہو کو اس بنیاد پر گرفتار کرے کہ اس نے مبینہ طور پر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکا یہ چاہتا ہے کہ چینی فائیو-جی نیٹ ورک پر پابندی عائد کردی جائے، اور ٹرمپ نے کی چین کو سلیکون چپس کی فروخت بھی روک دی ہے۔
7۔ چین 2025 کے منصوبے کے تحت ٹیکنالوجی میں خودانحصاری حاصل کرنے کے لیے بہت عرصے سے کام کررہا ہے، لیکن جس طرح امریکا نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں کے خلاف کام کیا ہے، اس کی وجہ سے چین نے اس شعبے میں مکمل خود انحصاری حاصل کرنے کی کوششوں میں اضافہ کردیا ہے۔ چین نے 2022 تک اپنا اپریٹنگ سسٹم بنا نے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، اور امریکی کمپنیوں آئی بی ایم، مائیکرو سافٹ، ڈیل اور دیگر امریکی کمپنیوں پر اس کے دروازے بند کردیے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے خود سے سیلی کون چپس بنانے کے منصوبے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین نے ہزاروں تائیوانی چپ انجینئرز کی تنخواہوں کو دوگنا کردیا ہے جنہیں وہ پچھلے کئی سال سے چین منتقل کررہا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ پانچ سے سات سال کے عرصے میں چین چپ کی صنعت میں خود انحصاری حاصل کرلے گا۔ ان منصوبوں پر چل کر بیجنگ مصنوعی ذہانت پر مبنی معیشت سے بڑے پیمانے پر دولت کمائے گا۔
8۔ امریکا فائیو-جی اور مصنوعی ذہانت کے نظام میں چین کی صلاحیت کو محدود کرنے کی بھر پور کوشش کررہا ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی آج اتنی ہی اہم ہے جتنی کبھی بھاپ کا انجن ، بجلی اور سیلیکون چپ تھی۔ یہ ٹیکنالوجیز اب پیداوار اور معاشی بڑھوتی کے انجن ہیں۔ لہٰذا موجودہ تجارتی جنگ محض تجارتی جنگ نہیں جس کا مقصد امریکا اور چین کے درمیان پیدا ہونے والے تجارتی عدم توازن کو ٹھیک کرنا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ایک ٹیکنالوجی کی جنگ ہے، خصوصاً فائیو-جی، اور موجودہ اعدادوشمار کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ دنیا میں ایک سے زیادہ ٹیکنالوجی پر مبنی نظام رائج ہوجائے گا: ایک مغرب کا نظام جس کی قیادت امریکا کررہا ہے اور دوسرا نظام پوری دنیا کے لیے ہوگا جس کی قیادت چین کرے گا۔ اور اگر چین کا ٹیکنالوجیکل نظام یوریشیا میں بالادست ہوجاتا ہے تو اس خطے میں امریکی ترجیحات پر چین کے حملوں کا خطرہ لازمی بڑھ جائے گا۔
لہٰذا امریکا-چین تجارتی معاہدہ ، چاہے وہ مکمل بھی ہوجائے، اور آنے والے سالوں میں اس کے تمام حصوں پر دستخط بھی ہوجائیں جیسا کہ ٹرمپ نے کہا:”اس کی انتظامیہ جلد ہی امریکا-چین تجارتی معاہدے کے دوسرے حصے پر بات چیت شروع کرے گی لیکن وہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے بعد اس معاہدے کو مکمل کرے گا۔۔۔( بوابة العين 10 جنوری 2020)۔ لہٰذا اگر اس معاہدے پر اس کے آخری حصے پر بھی دستخط ہوجائیں تو بھی اس بات کا امکان ہے کہ ایسا محض وقتی جنگ بندی جیسا ہی ہوگا، خصوصاً ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں، کیونکہ امریکا چین کو اپنے مدمقابل نہیں دیکھنا چاہتا ،خواہ چین اسے قبول ہی کیوں نہ کرلے کیونکہ امریکا کا تکبر اسے یہ قبول کرنے سے روکتا ہے!!
17 جمادی الاول 1441 ہجری
12 جنوری 2020 عیسوی
ختم شد