بصیرت سے عاری باجوہ-عمران حکومت آئی ایم ایف کی استعماری پالیسیوں کے ذریعے ہماری معیشت کا گلا گھونٹ کر اسے بے جان لاشے میں تبدیل کررہی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے پاکستان کے مسلمانو! پچھلے بارہ سال کی بلند ترین مہنگائی کی شرح نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنوری 2020ء میں مہنگائی کی عمومی شرح 14.5فیصد تھی جبکہ غذائی اجناس میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس مہنگائی نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے؛ ہمارے خون پسینے کی کمائی ہمارے ہاتھوں سے یوں نکلتی جارہی ہے جیسے ریت مٹھی سے پھسلتی ہے۔ ہماری تکلیفیں اس سطح تک پہنچ گئی ہیں کہ ہم بِلبلا اٹھے ہیں۔لیکن 3 فروری 2020 ءکو وزیر اعظم عمران خان کے لیے آئی ایم ایف کے منتخب کردہ مشیر برائے مالیات و محصولات، ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا، "قوم دیکھے گی کہ جلد ہی قیمتیں گرنا شروع ہوجائیں گی”۔بے شک حکومت ہمارے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے تا کہ ہم استعماری آلہ کار ادارے، آئی ایم ایف، کے ساتھ حکومت کے مسلسل تعاون کی مخالفت نہ کریں جس نے دنیا بھر میں وسائل سے مالامال ممالک کی معیشتوں کو برباد کیا ہے۔
حکومت نے آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کے مطالبے پر عمل کیا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو تیزی سے کم کر دیا جس کی وجہ سے جنوری 2020 ءمیں ایک ڈ الر 154.2روپے کا ہوگیا، اور ہم سب بے پناہ مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب گئے۔ حکومت نے ہماری کرنسی کو کمزور کیا، ہماری معیشت کی سمت کو تبدیل کیا تاکہ ڈالر کی صورت میں زرِمبادلہ کمایا جائے جس کا مقصد قرض دینے والے استعماری اداروں کی سودکی قسطوں کوادا کرنا تھا۔ لیکن روپے کی قوت ِخرید کو کم کرنے کی وجہ سے ہراُس چیز کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوگیا جو ہم روپوں میں خریدتے ہیں۔ روپے کی قدر کمزور کرنے سے وہ اہم درآمدات بھی مہنگی ہوگئیں جو ہماری زراعت ، صنعت اور ٹرانسپورٹ کے لیے درکار ہیں ۔ اور روپے کی قدر کو کمزور کرنے سے حاصل کردہ قرضے مزید مہنگے ہوگئے اور یوں پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں یک دم اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک نے شرح سودمیں اضافہ کردیا جس کے نتیجے میں سود کی قسطوں میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا جبکہ پہلے ہی ہمارے بجٹ کا ایک تہائی حصہ قرضوں پر بننے والے سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہورہا ہے جبکہ قرض کی اصل رقم اس کے علاوہ ہے۔
توانائی کے شعبے کے حوالے سے آئی ایم ایف کی احکامات کے سامنے ہتھیار ڈالتےہوئے ،حکومت نے جولائی اور ستمبر 2019 کے درمیانی عرصے میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کیا۔ حکومت نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تا کہ توانائی کے شعبے سے منسلک نجی کمپنیوں کا منافع متاثر نہ ہو۔توانائی کے وسائل کی نجکاری کے نتیجے میں ریاست اس شعبے سے حاصل ہونے والی زبردست دولت (محاصل)سے محروم ہوجاتی ہے اور یہ ریاست کے ہاتھوں سے نکل کر نجی ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ ان نجی سرمایہ کاروں کو ان کی سرمایہ کاری پر منافع کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ریاست کا اپنے معاملات چلانے کے لیے سودی قرضے پر انحصار مزید بڑھ جاتا ہے۔ اور چونکہ ٹرانسپورٹ اور پیداواری عمل کے لیے توانائی لازمی طور پر درکارہے، تو توانائی کی قیمت میں اضافے سے ہماری ضرورت کی کئی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہماری تکالیف مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ استعماریوں کو کسی تعطل اور رکاوٹ کے بغیرسودی ادئیگیاں ہوتی رہیں، حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور زرتلافی (سبسڈِی) کو ختم کیا، اور اس طرح ضروریاتِ زندگی کی کئی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ اس حکومت نے انتہائی بے رحمی سے تیل پر ٹیکس اس طرح سے لاگو کیا کہ بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ اس حکومت نے بلا تفریق پوری معیشت پر ظالمانہ سرمایہ دارانہ ٹیکس نافذ کیے اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس کے نتیجے میں عوام اپنی بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ اس طرح یہ حکومت ہماری معیشت کا گلا گھونٹ کر اسے ایک بے جان لاشے میں تبدیل کررہی ہے،ہمارے بازار ویران ہیں ، ہمارے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں اور ہمارے نوجوان روزگار کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے اور مایوس نگاہوں کے ساتھ سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے نظر آرہے ہیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو! بصیرت سے عاری باجوہ-عمران حکومت ،ہماری تکلیف کو متکبرانہ انداز سے نظر انداز کرتے ہوئے، ہمارے بچوں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ تک چھین لینا چاہتی ہے محض اس لیے کہ استعماری مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے جو ہماری دم توڑتی معیشت پر گِدھوں کی طرح منڈلارہے ہیں، ایک کے بعد ایک سودی قرضے دے رہے ہیں تاکہ ہماری تکلیفوں کے گرداب کو مزید گہرا بنادیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم کبھی بھی اس دنیا اور آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم پر ایسے حکمران حکمرانی کرتے رہیں گے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت سے رہنمائی نہیں لیتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى " اور جو میری نصیحت(قرآن) سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"(طہ 20:124)۔صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے تحت ہی مضبوط اور مستحکم کرنسی کا اجرا ہوگا کیونکہ وہ سونے اور چاندی کی بنیادپر جاری کی جائے گی،جس سے مسلسل مہنگائی کا مسئلہ جڑ سے ختم ہو جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے 4.25گرام کے سونے کے دینار اور 2.975گرام کے چاندی کے درھم کو ریاست کی کرنسی کے طور پر برقرار رکھا ،اور شرع نے مالیاتی احکامات صرف سونے اور چاندی سے مربوط کیے جیسا کہ دیت اور زکوٰۃ کا نصاب وغیرہ۔ سونے اور چاندی کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کی اپنی ایک حقیقی قدر ہوتی ہے جس سے اس کرنسی کو استحکام ملتا ہے۔ یہ صرف خلافت ہی ہوگی جو ہماری کرنسی کو سونے اور چاندی کی بنیاد پر جاری کرے گی، سونے اور چاندی کے ذخائر جمع کرے گی، ان ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے بارٹر (چیز کے بدلے چیز کی ) تجارت کوبروئے کارلائے گی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے سونے اور چاندی کے استعمال پر اصرار کرے گی، اوریوں بین الاقوامی تجارت پر مغربی استحصالی کرنسیوں کی گرفت کا خاتمہ کرے گی۔
ریاستِ خلافت کاحکمران جو صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر حکمرانی کرے گا، توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں اسلام کے احکامات نافذ کرے گا جس کی رُو سے یہ وسائل عوامی ملکیت ہیں ، جن کے امور کا انتظام ریاست کرتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان وسائل سے صرف چند لوگ فائدہ نہ اٹھائیں ، جیسا کہ ان کی نجکاری کے بعد ہوتا ہے، بلکہ پورا معاشرہ ان سے مستفید ہو۔ حکمران ایسا اس لیے کرے گا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،» الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ« "تمام مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ(توانائی)”(احمد)۔ یقیناً ہمارے علاقوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کوئلہ، گیس، شمسی توانائی، تیل، سونے اور تانبے جیسے عوامی وسائل سے مالا مال کیا ہے ، جو ہمیں اس قابل بناسکتا ہے کہ ہم اپنے پیروں پر پوری استقامت اور قوت سے کھڑے ہوں اور سودی قرضوں کے لامتناہی سلسلے سے نجات حاصل کر یں ۔ ہمارے عظیم دین میں محاصل (ٹیکس) ان لوگوں سے لیے جاتے ہیں جو معاشی طور پر انہیں ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جیسا کہ زکوٰۃ ان لوگوں سے وصول کی جاتی ہے جن کا مالِ تجارت نصاب سے زیادہ ہوتا ہے اور خراج ان سےلیا جاتا ہے جو زرعی زمینوں کے مالک ہوتے ہیں۔ پھر ان محاصل کو ہمارے غریب اور مقروض افراد پر خرچ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلام کی بنیاد پر ہونے والی حکمرانی ہمیں نچوڑے بغیر محاصل جمع کرے گی اور ایک مضبوط اور سرگرم معیشت کو یقینی بنائے گی جیسا کہ اس سے قبل صدیوں تک کیا جاتا رہا، جس کی ایک مثال برصغیر ہند تھا جو اسلام کی حکمرانی تلے دنیا کی کُل دولت کا 23 فیصد پیدا کرتا تھا ا ور اورنگ زیبؒ کی حکمرانی کے دور میں یہ 27 فیصد تک چلا گیا ۔ اور اسلام نے استعماری طاقتوں
سے قرض لینے کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسا اسلام نے صرف سود کی وجہ سے ہی نہیں کیا بلکہ استعماریوں سے قرض لینے کی صورت میں کفار کو ہمارے معاملات پر بالادستی حاصل ہوتی ہے ،جس سے ہمیں شدید نقصان پہنچتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، »لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ«"نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان برداشت کرو”(موطا امام مالک، ابنِ ماجہ)۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
اُٹھو اور حزب التحریر کے ساتھ مل کر ہر جگہ اور ہر موقع پر خلافت کے قیام کی آواز بلند کر کے اس بصیرت سے عاری قیادت کے ہاتھوں پہنچنے والی مصیبتوں کا خاتمہ کردو۔ اُٹھو اور افواج میں موجود ہمارے شیروں سے یہ مطالبہ کرو کہ وہ حزبُ التّـحریر کو نُصرہ فراہم کریں ، جوقابلِ قدر فقیہ عطا بن خلیل ابوالرَشتہ کی قیادت میں خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے،تا کہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کا عملی طور پر آغاز ہو۔ صرف اور صرف نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے بعد ہی ہم ایسی قیادت پر خوش ہوسکیں گے جو ہمارے وسائل، ہماری ملکیت، ہمارے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اسلام کے ذریعے کرے گی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔(یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے”(الروم:5-4)۔
حزب التحریر
ولایہ پاکستان
20 جمادی الثانی 1441 ہجری
14 فروری 2020ء
ختم شد