تفسیر سورۃ البقرۃ : آیت197- 199
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوْمَاتٌ ج فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ط وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوىٰ ط وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ (197)لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ ج فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198)ثُمَّ أَفِیْضُوامِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ط إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ(البقرة: 199)﴾
" حج کے چند متعین مہینے ہیں۔ چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں ( اِحرام باندھ کر) اپنے اوپر حج لازم کرلے تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے ، نہ کوئی گناہ، نہ کوئی جھگڑا۔ اور تم جو کوئی نیک کام کروگے ، اللہ اسے جان لے گا۔ اور (حج کے سفر میں ) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو، اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے، اور اے عقل والو! میری نافرمانی سے ڈرتے رہو۔ تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعے) اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو۔ پھر جب تم عرفات سے روانہ ہو تو مشعر حرام کے پاس( جو مزدلفہ میں واقع ہے) اللہ کا ذکر کرو، اور اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے، جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے، اس کے علاوہ ( یہ بات بھی یاد رکھو کہ ) تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں اور اللہ سے مغفرت مانگو۔ بیشک اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے۔ " (197 – 199)
حزب التحریر کے امیر شیخ خلیل بن عطاء ابو الرشتہ نے ان آیات کریمہ کی تفسیر یوں کی ہے۔
ان آیات کریمہ میں اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:
1 – (الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوْمَاتٌ)یہ مہینے حج کے لیے سبب ہیں، چنانچہ حج کے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں حج جائز نہیں،یہ مہینے شوال، ذو القعدہ اور ذو الحجہ کے نو دن ہیں، اور ان میں عیدالاضحیٰ کی رات بھی داخل ہے۔ ( عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما، جمہور صحابہ و تابعین کا قول یہ ہے کہ یہ مہینے: شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں، صحیحین کی شرط کے مطابق یہ صحیح حدیث ہے، مستدرک میں بھی موجود ہے)، اور ذی الحجہ کے دس دنوں میں دسواں دن داخل نہیں،یہی راجح قول ہے، اس کا بیان آگے ہوگا،ان شاء اللہ۔تو ہم کیوں کہتے ہیں کہ حج صرف حج کے مہینوں میں ہی جائز ہے، اس کے علاوہ میں نہیں؟ تو یہ اس لیے کہ(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوْمَاتٌ) یعنی حج کا وقت متعین مہینے ہے،نحویین (Grammarians) کا بھی یہی مذہب ہے، لہذاسال کے مہینوں میں سے ان مہینوں کی تخصیص کی جاچکی اور یہی حج کے لیے سبب ہیں،جیسے نماز کے اوقات نمازوں کےفرض ہونے کے اسباب ہیں، یا جیسے ماہِ رمضان کا آنا روزہ فرض ہونے کا سبب ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے: ((من السنۃ ان لا یحرم بالحج الا فی اشھر الحج))” سنت میں سے یہ بھی ہے کہ حج کے لیے صرف اشہرِ حج یعنی حج کے مہینوں میں احرام باندھا جائے۔” صحابی کا یہ کہنا کہ ” فلاں کام سُنَّہ میں سے ہے” مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے، بالخصوص ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی بات، جنہیں تَرجمَانُ القرآن کہا جاتا ہے۔
اور ہم کیوں کہتے ہیں کہ حج کے مہینوں کا اختتام دسویں ذی الحج کی رات سمیت نو ذی الحج کے دن پر ہوتا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نو ذی الحج عرفات کا دن ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں” حج عرفات ہے، جو کوئی لیلۃُ الجَمعِ کو فجر کی نماز سے پہلے عرفات پہنچے،تو اس کا حج مکمل ہوگیا۔” اورابو داؤد ؒ کی روایت میں ہے ” جو کوئی طلوعِ فجر سے پہلے عرفات پہنچ جائےتو اس نے حج پالیا۔” اسی طرح دار قُطنِی کی روایت میں ہے ” حج عرفہ ہے ، حج عرفہ ہے۔” اس کا مطلب ہے،کہ جو عرفات نہ جاسکے اور بقر عید کی فجر تک وہ عرفات میں وقوف نہ کرے تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ لیلۃ الجمع سے مراد مُزدَلِفہ ہے۔
اور چونکہ حج کے مہینے حج کا سبب ہیں اور یہ کہ دسویں کی فجر تک کے دورانیے میں عرفات رہ جانےکی وجہ سے حج رہ جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ حج کے مہینے یوم النحر(عید کے دن )کی فجر طلوع ہونے پر ختم ہوجاتے ہیں۔
2 –( فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ) یعنی” جو شخص اپنے اوپر حج لازم کرے یعنی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ لے تو اس پر رفث، فسوق اور جدال حرام ہوجاتا ہے۔(رَفَثٌ )کے معنی ہمبستری کرنے کے ہیں،یا اپنی بیوی کے ساتھ اس کا تذکرہ،اور وہ تمام امور جو جماع کے لوازم میں سے ہیں،وغیرہ تمام فحش باتیں۔
(فسوق )کے معنی معاصی اور معاصی کے اسباب کے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا” مسلمان کو گالی دینا فسوق ہے۔”
(جدال )کے معنی لڑنا جھگڑنا اور ہم سفر ساتھیوں یا دیگر حاجیوں کے ساتھ بحث و تکرار کرنا، اس حد تک کہ ان کو ناراض کردے اور غصہ دلائے ، شور شرابہ اور تنازع کھڑا ہوجائے۔( ضرورت کے مطابق اور مناسب طریقے سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا جدال میں سے نہیں)۔
ہم نے اس کو کیوں حرام کہا؟ تواس کی وجہ اللہ سبحانہ کا یہ قول ہے 🙁فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ)ان امور سے منع کیاہے ،نیز اس کے بعد اللہ سبحانہ فرماتے ہیں(وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ) اس منطوق کا مفہومِ اشارہ یہ ہے کہ سابقہ اُمور،خیر میں سے نہیں ۔یعنی یہ اُمور ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔ اس کے ساتھ ان میں سے بعض اُمور جیسے فسوق وصف ِمفہم ہے، جس یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے نہی قطعی ہے،چنانچہ یہ بھی نہی جازم (حتمی ممانعت ) کا قرینہ ہے۔ اس طرح ان امور سے نہی ،حتمی نہی ہے اور یہ کہ حج میں ان کا ارتکاب کرنا حرام ہے۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ اُمور یا ان میں سے اکثر حرام ہی ہیں، خواہ حج میں ہو یا حج کے علاوہ ، تو خاص کر ان اُمور کو حرام ٹھہرانے کی کیا وجہ ہے،مثلاً فسوق؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حج کے دوران ان افعال کا گناہ بڑھ جاتا ہے،اور اس کے جرم ہونے میں شدت آجاتی ہے،ایک اور جگہ بھی یہی انداز اختیار کیا گیا ہے،(ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم)” اور جو چاہے اس میں گمراہی کو ظلم کے ساتھ،اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے”حالانکہ ظلم کے ساتھ گمراہی پر حج میں بھی دردناک عذاب ہے اور حج کے علاوہ بھی۔یا جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول(مِنْھَا اَرٌبَعَۃٌ حُرُمٌ ج ذٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ ج فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ "ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے ، پس ان میں اپنے اوپر ظلم مت کرو” (التوبہ:36) حالانکہ ظلم تو اشہر حرام اور اس کے علاوہ تمام مہینوں میں بھی حرام ہے، پس یہاں اس کی تخصیص اس لیے کی گئی تاکہ ان مہینوں میں اس کے گناہ عظیم ہونے کو بیان کیا جائے۔
3 –(وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوىٰ ط وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ (197)
بخاریؒؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، کہ یمن کے کچھ لوگ حج کے لیے روانہ ہوتے وقت اپنے ساتھ کوئی توشہ نہیں لائے تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے حج کریں گے،لیکن پھر لوگوں سے مانگنے پر مجبور ہوئے، چنانچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی،یہاں زاد اپنے حقیقی معنوں میں ہے، یعنی سفر کے لیے کھانے پینے کا سامان اور توشہ تیار کرنا۔
جب اللہ تعالیٰ نے سفر کے لیے توشہ کا ذکر کیاتو اس مادی توشہ کے ساتھ ایک اور ضروری توشہ کی آگاہی بھی دی جو بہترین توشہ ہے، لیکن یہاں مجازی معنوں میں اس کو توشہ کہا گیا ہے، یعنی تمہارے لیے بہترین معاون تقویٰ ہے،تقویٰ کے شرعی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی اطاعت۔تو یہ اللہ سبحانہ کی طرف سے اس کی بات کی طرف رہنمائی ہے کہ حج کرنے والا شخص مادی توشہ ضرور لے کر جائے تاکہ سفر میں کام آئے اورحج میں لوگوں سے نہ مانگنا پڑے،لیکن اس مادی توشہ ،طعام اور خرچ، کے ساتھ وہ بہترین توشہ بھی شامل کرے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے، یعنی اللہ کی اطاعت اور اس سے خوف ،اس کے اوامر کی بجا آوری اور اس کے نواہی سے گریز و اجتناب کرنا۔
پھر اللہ تعالیٰ تمام صاحبانِ عقل و دانش سے خطاب کے ساتھ اس آیت کریمہ کا اختتام فرماتے ہیں، کہ اللہ سے ڈرو۔ اور عقلمندوں کو اس لیے خطاب کیا کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو خیر و شر کے درمیان فرق کرسکتے ہیں، اللہ کی رحمت اور اس کی پکڑ میں تمیز کرسکتے ہیں، نیز وہ جانتے ہیں کہ کونسی چیز ان کی زندگی کے لیےنفع بخش ہے، اور کونسی ضرر رساں ہے؟ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے دور رہتے ہیں، اور طاعات کے ذریعے اس کا قرب پا لیتے ہیں، نتیجتاً متقین میں سے ہوجاتے ہیں۔
4 – اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ تجارت کے کام یا جو تجارت کے حکم میں ہو ، مثلاً اپنا جانور یا اپنی گاڑی کسی کو اُجرت پر دینا،حج کے مہینوں میں صاحب احرام کے لیے یہ سب جائز ہیں،اس سے اس کا حج باطل نہیں ہوتا ،بشرطیکہ اس نے حج کی نیت کی ہو اور اللہ سبحانہ کے لیے حج کا احرام باندھ لیا ہو،نیز حج کو تمام شرائط و ارکان کے ساتھ ادا کردیا ہو۔
یہ نہ کہاجائے کہ حج عبادت ہے اور عبادت کے لیے نیت شرط ہوتی ہے، اس لیے جب کوئی حج کی نیت کرے یعنی حج کا احرام باندھ لے تو اس کے لیے حج کے علاوہ دوسرے کا م سر انجام دینا جائز نہیں، جیسے کوئی نماز کی نیت باندھ لے ، تو اس کے لیے نماز کے علاوہ دیگر کام کرنا جائز نہیں ہوتے۔اس لیے کہ عبادات میں قیاس نہیں کیا جاتا ، بلکہ عبادات کے بارے میں آنے والی نص کے مطابق عمل ہی اصل ہے، اور اس کی پابندی وہیں پر ضروری ہے جس جگہ یہ وارد ہوئی ہے، اس بنا پر حج کو نماز پر قیاس نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ نماز کی نیت باندھنے کے بعد نماز کے دوران کوئی اور کام جائز نہیں ہوتا ، گویا اس حالت میں یہ وقت تنگ ہے، جبکہ حج کا وقت احرام کے بعد بھی وسیع وقت ہے، جس میں حج کے افعال کےعلاوہ دیگر افعال کی بھی گنجائش ہوتی ہے، اَشہُرِ حج کی یہی حقیقت ہے، جو مناسک حج کے لیے لازمی دورانیہ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ حج کے دنوں میں تجارت حلال ہونے کے حوالے سے قرآن مجید میں اسی آیت میں نص بھی وارد ہے، (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ) یعنی کہ اپنے پروردگار سے رزق مانگو ،جیسے تجارت میں نفع وغیرہ۔
اور سنت میں بھی ایسا آیا ہے، جیسے امام احمد بن حنبل ؒ نے ابو امامہ التیمی سے روایت کی ہے۔ قال قلت لابن عمر انا نکری فھل لنا من الحج ؟ قال : الستم تلبون؟ الستم تطوفون بالبیت؟ الستم تطوفون بین الصفا و المروۃ؟ الستم ۔۔۔۔ الستم ؟ قلت بلیٰ قال: ان رجلاً سال النبیﷺ عما سالت فلم یدرِ ما یرد علیہ حتیٰ نزلت الآیۃ۔ فدعاہ فتلاہ علیہ حین نزلت وقال : انتم الحجاج۔” ابو امامہ التیمیؒ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ہم تو کرایہ کش ہوکر آتے ہیں تو ہمارا بھی حج ہوگا؟ تو انہوں نے کہا: آپ لوگ تلبیہ نہیں پڑھتے ہو؟ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے ہو؟ صفا اور مروہ میں پھیرے نہیں لگاتے ہو؟ یہ یہ کام نہیں کرتے ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک آدمی نےنبی پاک ﷺ یہی پوچھا جو آپ نے پوچھا ہے تو آپ ﷺ کو اس کا جواب معلوم نہیں تھا، تا آنکہ آیت نازل ہوئی، پھر آنحضرت ﷺ نے اس آدمی کو بلایا اور یہ آیت اسے پڑھ کر سنائی، اور کہا: تم حاجی ہو۔5 – اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حاجی عرفات سے اتر کرمزدلفہ آئیں تو وہ مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اور انہیں چاہیے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے انہیں ملی ہے،تو وہ حج جیسے عظیم فریضہ کی ادائیگی اور حج کے احکامات سیکھ لینے پر اللہ کا حمد بیان کریں، جبکہ وہ اس سے پہلے یعنی جاہلیت کے زمانے میں گمراہی پر تھے اور بنا ہدایت کے حج کیا کرتے تھے، اور اللہ کے ساتھ شرک بھی کرتے تھے۔(وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198))” اور اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے، جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے”
(فَإِذَاأَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ )یعنی جب تم عرفات سے اُمنڈ آؤ۔ یہ فاض المآءُ سے ہے ، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب پانی گرتا ہوا بہہ جائے، اور بہت زیادہ ہو۔اور یہاں (عَرَفَاتٍ)عرفہ کی جمع(Plural) نہیں، بلکہ عرفہ اور عرفات کے ایک ہی معنی ہیں، یہ حج میں ایک مشہور جگہ کا نام ہے، جمع کو نام بنایا گیا ہے، اس لیے اس کو دوبارہ جمع نہیں بنایا جاسکتا، اس کا واحد بھی نہیں، یعنی عرفات میں ایسے اجزاء نہیں، جن میں کا ہر ہر جزو عرفہ کہلاتا ہو، اور پھر عرفات اس کی جمع بنائی گئی ہو، نہیں ایسا نہیں بلکہ عرفہ اور عرفات دونوں کے ایک ہی معنی ہیں، اور یہ اس معروف ومشہور جگہ کا نام ہے، اس میں تاء تائے تانیث نہیں ،اس لیے یہ منصرف ہے۔ (یعنی تنوین اور جر اس کے آخر میں آسکتے ہیں) (وَإِنْ كُنتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (198))یعنی رسول اللہ ﷺ کے ہدایت لے کر تمہاری طرف آمد سے پہلے اور حج وغیرہ جیسے شرعی احکامات کے بیان سے قبل تم گمراہوں میں سے تھے۔(الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ)یہ سارا کا سارامزدلفہ ہے، جیسا کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہے،مزدلفہ کو جمع بھی کہتے ہیں۔
6 – اور آخری آیت میں اللہ سبحانہ مسلمانوں خواہ قریشی ہوں یا غیر قریشی، کو حکم دیتے ہیں کہ ان کی روانگی عرفات سے مزدلفہ کی طرف ہو، یعنی وقوف عرفات میں ہو مزدلفہ میں نہیں، اس میں قریش کی ایک عادت کو ختم کیا گیا ہے ، جاہلیت کے زمانے میں قریش کی یہ عادت تھی کہ وہ مزدلفہ وقوف کیا کرتے تھے، باقی لوگوں کی طرح عرفات میں کھڑے نہیں ہوتے تھے، قریش جاہلیت کے زمانے میں عرفات میں اس لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے ، کیونکہ وہ حرم سے باہر واقع ہے، بلکہ مزدلفہ میں کھڑے ہوتے تھے، کیونکہ وہ حرم کی حدود میں واقع ہے۔ اور وہ کہا کرتے تھے، کہ ہم بیت اللہ الحرام کے باشندے ہیں سو ہم حرم سے نہیں نکلیں گے، اور حمس بھی کہلاتےتھےا لغرض صرف قریش خاص کر مزدلفہ میں کھڑے ہوتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قریش اور تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ عرفات میں جہاں اور لوگ کھڑے ہوتے ہیں، وہیں تم بھی کھڑے ہو، اور اپنی گزشتہ خطاؤں پر اللہ سے مغفرت مانگو، کہ تم غلط طریقے سے حج کیا کرتے تھے، اور اللہ سبحانہ اپنے مخلص بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان پر مہربان ہے۔بخاری ؒ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، وہ فرماتی ہیں: قریش اور جو لوگ ان کے دین پر تھے، مزدلفہ میں کھڑے ہوتے تھے،ان کو حمس کہا جاتا تھا، باقی سارے عرب عرفات میں کھڑے ہوتے تھے، پھر جب اسلام آیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کو حکم کیا کہ عرفات چلے جائیں اور وہیں وقوف کریں اور وہاں سے اتر کرآئیں، اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اس کا ذکر ہے کہ(ثُمَّ أَفِیْضُوامِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ) اس کے مطابق( ثُمَّ)کے ذریعے(وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الْأَلْبَابِ) پر عطف کیا گیا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں معنوی اعتبار سے تقدیم و تاخیر ہے، اس آیت کےمعنی کی ترتیب یوں بنتی ہے: اپنے ساتھ توشہ لے کر جایا کرو، کیونکہ بہترین توشہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! مجھ سے ڈرو، پھر جہاں سے لوگ اُتر کر آتے ہیں یعنی عرفات سے، تم بھی وہیں سے اُتر کر آؤ ،مزدلفہ سے نہیں۔ جیسا کہ قریش جاہلیت میں مزدلفہ میں کھڑ ے ہوتے تھے، پس جب تم عرفات سے آجاؤ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرچکو تب مزدلفہ جاؤ اور مشعر حرام یعنی مزدلفہ کے پاس اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت تمہیں دی اس پر اس کی حمد و ثناء بیان کرو، کیونکہ اس سے پہلے تم گمراہی میں پڑے تھے، اور ہدایت سے کوسوں دور تھے۔
یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ : جو چیز (ثُمَّ)کے بعد ذکر ہووہ واقع میں پہلے کیسے ہوسکتا ہے؟ یعنی(ثُمَّ) کے مابعد والی چیز واقع میں اس سے پہلے ذکر شدہ چیز سے بھی پہلے ہوجائے؟ (اور وہ پہلے والی چیزمزدلفہ میں اللہ کا ذکر کرنا ہے، جو گزشتہ آیت میں ثُمَّ سے پہلے ذکر ہے۔)
ہم جانتے ہیں کہ (ثُمَّ)افعال میں تاخیر سمیت ترتیب پر دلالت کرتا ہے، یعنی(ثُمَّ) کےبعد جو کچھ ذکر ہوتا ہے، اس کا نمبر (ثُمَّ) سے پہلے ذکر شدہ چیز کے بعد آتا ہے، جس میں کچھ مہلت بھی ہوتی ہے۔ پس گزشتہ آیت(فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ) میں یہ ہے کہ مزدلفہ کے پاس اللہ کو یاد کرو،جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاجی مزدلفہ پہنچ کر ذکر کریں۔
اور اس آخری آیت میں(ثُمَّ أَفِیْضُوامِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ) آیا ہے(ثُمَّ) کو پڑھتے ہی جو معنی سمجھ میں آتے ہیں وہ یہ کہ : اس حال میں کہ تم مزدلفہ پہنچ گئے ہو اور اللہ کو یاد کرنے اور صبح کی نماز کے بعد منی ٰ چلو ، اس کے معنی تو یہی بنتے ہیں کہ مزدلفہ سے منیٰ چلو۔ اس بنا پر آیت کے معنی کس طرح اسباب نزول کے مطابق کیے جاسکتے ہیں ؟ شان نزول کی روایات میں یہ واضح ہے کہ تمہاری روانگی عرفات سے ہو، نہ کہ مزدلفہ سے ، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ (ثُمَّ) کا مابعد اس کے ماقبل کے بعد واقع ہوتا ہے ، نہ کہ اس سے پہلے؟
تو اس سوال کے جواب میں دو وجہیں ہیں:
أ ۔ بلاشبہ بخاری و مسلم نے اس آیت کے نزول کے حوالے سے جو احادیث روایت کی ہیں ان سے اس بات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے کہ (ثُمَّ أَفِیْضُوامِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ)کےمعنی یہی ہیں کہ عرفات سے روانگی ہو، مزدلفہ سے نہیں۔
ب۔ بیشک(ثُمَّ) کے وہی معنی ہیں جو سوال میں ذکر کیے گئے ہیں،یعنی ترتیب مع التاخیر اور یہ کہ اس کا مابعد اس کے ماقبل کے بعد واقع ہوتا ہے، لیکن (ثُمَّ) کے صرف یہی معنی نہیں ہوتے ہیں، بلکہ یہ اس کے علاوہ بھی استعمال کیاجاتا ہے، اس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کا مابعد وقوع میں پہلے نمبر پر ہو،اگر چہ یہ عربی زبان میں قلیل ہے۔جیسے عرب کہتے ہیں: ( اعجبنی ماصنعت الیوم ثم ما صنعت امس اعجب) "آج جو تم نے کیا مجھے پسند آیا ،پھر جو کل تم نے کیا تھا وہ اس سے زیادہ پسند آیا۔” یہاں ( ثم) لا کر ” جو کل تم نے کیا تھا” کا عطف "آج جو تم نے کیا” پر ہے، یعنی لا حق کا عطف سابق پر ہے ، جبکہ واقعاتی ترتیب میں یہ ایک دوسرے کے پیچھے نہیں، تو ایسے مواقع پر بھی اس کو استعمال کیا جاتا ہے، مگر مشہور یہ ہے کہ لاحق سابق کے بعد واقع ہو، اس لیے اس دوسرے طریقے پر اس کو استعمال کرتے وقت قرینہ ضروری ہوتا ہے۔اور اس طور پر اس کے استعما ل سے مراد ایک ایسے امر کو منظر عام پر لانا اور نمایاں کرنا ہوتا ہے، جس پر توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ ایک فصیح عربی کی جانب سے الفاظ کے استعمال میں ترتیب کا اختلاف کسی خاص غرض کے لیے ہوتا ہے ، بلاوجہ نہیں ہوتا۔
عربوں کے سابق قول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں (ثم) کے غیر مشہور معنی میں استعمال کاقرینہ پایا جاتا ہے، یعنی اس کا ما بعد اس کے ماقبل سے پہلے ہے، اس پر(ثم )کے بعد لفظ (اَمس ِ) اور( ثم )سے پہلے لفظ (الیوم) کاواضح استعمال دلالت کرتا ہے۔
جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے جس کو عربوں کے اس قول میں نمایا ں کرنا مقصود ہے،تو وہ یہ ہے کہ آج کے کیے ہوئے کام کی قیمت کو گھٹایا جائے ، بظاہر تو یہ اس کے کل والے کام کی تعریف لگتی ہے، مگر حقیقت میں مخاطب کی توانائیوں کی مذمت ہے، کیونکہ اس کا کام آگے بڑھنے کے بجائے کل والے کام سے بھی کم ہوا، اس بنا پر آج کا کام کل کے کام سے ادنیٰ اور کم مقدار کا ہوا۔اب ہم دیکھیں گے کہ آیت کریمہ میں اس بات کا کیا قرینہ ہےکہ یہاں (ثُمَّ) غیر مشہور معنی میں استعمال کیا گیا ہے، تو یہ قرینہ سببِ نزول ہے، جس کو بخاریؒ اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور اس سے جو بات نمایاں کرنا مقصود ہے، وہ قریش کی اس عادت قبیحہ کا ابطال ہے کہ وہ مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے،عرفات نہیں جاتے تھے، تو گویا اللہ سبحانہ نے جب سابقہ آیت کریمہ میں ان کا عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہونے کا ذکر کیا ،تو ایک دفعہ پھر ان کو نصیحت کی کہ عرفات سے مزدلفہ روانگی قریش پر اسی طرح ہی فرض ہے جیسا کہ دیگر لوگوں پر فرض ہے۔
ختم شد