سوال و جواب: انبیاء اور صحابہ کے کردار وں پر مبنی فلموں میں کام کرنے اور دیکھنے سے متعلق حکم
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: (منجانب: ابو عافیہ بقاوی)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یا شیخ!
ایسی فلمیں یا ڈرامے دیکھنے سے متعلق کیا حکم ہے، جن میں انبیاء اور صحابہ کی کردار کَشی کی گئی ہو؟
جواب:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
فلمیں اور ڈرامے اپنی موجودہ حقیقت میں شرع کے مطابق جائز نہیں کیونکہ وہ جھوٹ، اختلاط اور ستر کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ غیر محرم مرد ان میں شوہر اور محرم کا کردار ادا کرتے ہیں اور پھر خواتین کا ستر ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا یکے بعد دیگرے شرعیت کے احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ لہٰذا شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ فلمیں اور ڈرامے جائز نہیں۔ جو امر اس سے بھی کہیں زیادہ خلافِ شرع ہو جاتا ہے وہ صحابہ کے کرداروں کو ادا کرنا ہے، پھر سب سے زیادہ اورکبیرہ ترین گناہ ہوتا ہے جب ایک عام شخص انبیاء اور رسولوں کا کردار کرتا ہے، وہ بھی بغیر کسی شرم یا خوفِ خدا کے! ہم نے پہلے 23/09/2009 کو ایک سوال کا جواب دیا تھا، اسے آپ کے فائدے کیلئے یہاں بیان کرتے ہیں:
"جہاں تک ڈراموں اور کردار کرنے کا تعلق ہے، تو ان میں شریعت کی بیشتر خلاف ورزیاں شامل ہیں:
ا۔ ان میں جھوٹ شامل ہے کیونکہ ایک شخص کوئی اور شخص ہونے کا اظہار کرتا ہے اور ایسے بولتا ہے جیسے وہ کوئی اور شخص ہو جس کا وہ کردار ادا کر رہا ہے۔ لہٰذا وہ وہی کہتا ہے جو اس کے کردار کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے اس کیلئے اسے قسم ہی کیوں نہ کھانی پڑے کیونکہ اس کے کردار نے قسم کھائی، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر اس کے کردار نے طلاق دی تو اس کے اپنے ہونٹوں سے طلاق وارد ہوتی ہے، لہٰذا اسے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قیامت کے روز اس کے ادا کیے گئے جھوٹے الفاظ پر اس کا احتساب ہو گا، چاہے وہ مذاق میں ہی کہے۔
ب۔ اس میں کسی شرعی حجت کے بغیر مرد اور عورتوں میں اختلاط شامل ہے کیونکہ مرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں۔
ج۔ ستر کا اظہار -چونکہ غیر محرم مرد شوہروں اور محارم کا کردار ادا کرتے ہیں، جس میں ستر کا نہ ڈھانپنا شامل ہے جو کہ خواتین کو غیر محارم کے سامنے چھپانا چاہیے، اور جو کچھ ستر ڈھانپنے کے علاوہ ہے جیسے مرد اور عورت کے درمیان تعلقات ، یعنی غیر محرم مرد شوہر اور محرم کا کردار ادا کرتے ہیں۔
شریعت کی ان عظیم روگردانیوں سے واضح ہے اور جو ان سے بھی عظیم تر ہیں اور سخت ترین شرعی حکم عدولی ہے، جب انبیاء کے کردار ادا کیے جاتے ہیں۔ انبیاء اللہ سبحان وتعالیٰ کی طرف سے نبوت اور وحی سے چنے جاتے ہیں اور یہ مقام صرف ان ہی کا ہے، کسی اور انسان کا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کسی عام انسان کی طرف سے نبی یا رسول کا کردار اس وحی پر حملہ ہے، اور نبی کو اس کے مقامِ برحق دینے میں ناکامی ہے اور اس کے پیغام کو اس عزت سے محروم کرنا ہے جو اس کا حق ہے اور یہ رسول اور اس کے لائے پیغام کے ساتھ عظیم ظلم ہے۔ یہ شریعت کی دیگر روگردانیوں کے علاوہ ہے جن میں مرد اور عورت باہمی تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ وغیرہ۔
لہٰذا یہ فلمیں اور ڈرامے جائز نہیں۔ جہاں تک اس معاملے پر خلافت کے پالیسی کا تعلق ہے جب وہ انشاءاللہ قائم ہو گی ، وہ ایسے کردار اور ڈراموں کی اجازت نہیں دے گی جن میں شریعت سے روگردانی ہو۔ جہاں تک اس کی تفصیلات کا تعلق ہے اور اس وقت اس طرح کے معالات سے متعلق یہ کیسے ہو گا، یہ اسی وقت بیان کیا جائے گا انشاء اللہ۔””
مجھے امید ہے کہ یہ آپ کے سوال کا تسلی بخش جواب ہو گا، اور اللہ بہترین جاننے والا ہے۔
نوٹ:
وہ تمام بھائی اور بہنیں جنہوں نے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں دیکھنے سے متعلق سوال کے جواب پر رائے دی اور کہا کہ جواب کردار ادا کرنے سے متعلق تھا نہ کہ دیکھنے سے متعلق، میں کہوں گا: میں نے صرف سوال میں درج کردار ادا کرنے کی حرمت پر جواب دیا ہے "یعنی لوگوں کو انبیاء اور صحابہ کے کردار ادا کر کے دکھانا”اور میں نے کہا کہ یہ جائز نہیں اور جب ریاست قائم ہو گی تو اسے روک دے گی۔ میں نے ایسے ڈرامے یا فلمیں دیکھنے پر جواب نہیں دیا، لیکن میں نے یہ معاملہ سوال کرنے والے کے اجتہاد پر چھوڑ دیا یا وہ کسی قابلِ بھروسہ مجتہد کے اجتہاد کی تقلید کر لیں۔ دوسرے الفاظ میں، اس معاملے پر میں نے کوئی رائے نہیں دی۔
امید ہے کہ معاملہ واضح ہے۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ
28 ربیع الثانی، 1441 ہجری
25/12/2019 CE
ختم شد