سوال و جواب: انتظامی قوانین،بشمول ٹریفک قوانین اور اس سےمتعلق حکم شرعی
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:
منجانب: یوسف آیش زین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے شیخ! اللہ آپ کو صحت مند اور اپنی رحمت میں رکھے، اور آپ کو اور ہمیں نبوت کے نقشِ قدم پر ریاستِ خلافت کی اسلامی حکومت عطا فرمائے۔
ہمارے ملک میں کئی ٹریفک حادثے ہوئے جن میں کئی جانیں بھی گئیں۔ ہمیں ہدایت کی گئی کہ ڈرائیور اور سواریوں کے حفاظت کے پیشِ نظر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین نہ تو اسلامی ہیں نہ ہی ان کی کوئی اسلامی نصوص سے بنیاد ہے، کیونکہ ہم پر نافذتمام قوانین غیر اسلامی ہیں، بشمول ٹریفک قوانین کے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ قوانین شریعت پر مبنی ہیں اور ان کی خلاف ورزی جائز نہیں اور اسی سے یہ بحث شروع ہوئی۔
کیا ان ممالک میں جن میں حکومت اسلام کے علاوہ کی جا رہی ہے، ان ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ناجائز ہے، چاہے مسلم ممالک ہوں یا غیر مسلم؟ کیا ان کے لیے دلائل ہیں؟ جزاک اللہ۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آغاز میں، میں آپ کی دعا کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ خیر سے آپ کو جزا دے اور تمام مسلمانوں کو فتح اور طاقت بخشے۔باذنِ اللہ ،آپ کے سوال سے متعلق، وضاحت کچھ یوں ہے:1۔ قانون کی تعریف ہے: "احکامات کا مجموعہ جو اہلِ اقتدار لوگوں پر باہمی تعلقات میں عمل درآمد کیلئے نافذ کرتے ہیں”۔ اس کا مطلب ہے کہ حکمران یا ریاست کچھ قوانین لیتی ہے اور انہیں اختیار کرتی ہے اور حکم دیتی ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے اور یہ قوانین، حکمران یا ریاست کے جانب سے اختیار ہونے کے بعد، شہریوں پر لازم ہو جاتے ہیں۔
2۔ ان قوانین کو لاگو کرنا شریعت میں جائز ہے اور یہ خلیفہ کے ذریعے سے ہوتا ہے کیونکہ شریعت نے قوانین کو اختیار کرنے اور لوگوں کو اس پر چلانے کا اختیار خلیفہ کو دیا ہے۔ ہم نے یہ معاملہ اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور میں "مقدمۂ دستور” جلد اول، دفعہ 36 میں سے کچھ بیان کرنا چاہوں گا جو خلیفہ کے اختیارات سے متعلق ہے:ا۔ خلیفہ ہی ان احکامات کی تبنی کرتا ہے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہیں اور یہ تبنی کتاب و سُنت سے صحیح اجتہا د کے ذریعے مستنبط کردہ احکامات کی ہو تی ہے تا کہ یہ احکامات قوانین بن جائیں پھر ان پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے اور ان کی مخالفت جائز نہیں۔
پیراگراف (ا) کی دلیل اجماع صحابہ ہے۔ قانون کا لفظ ایک اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں،وہ حکم جو
سلطان (صاحبِ اختیار) صادر کرتا ہے تاکہ لوگ اس کے مطابق چلیں۔ قانون کی یہ تعریف بھی کی جاتی ہے کہ”ان قواعد کا مجموعہ کہ جن پرحکمران لوگوں کو اپنے باہمی تعلقات میں پیروی کرنے پر مجبورکرتا ہے“۔ یعنی سلطان نے جب کچھ متعین احکامات دئیے تو یہ احکامات قانون کہلاتے ہیں، جن کی پابندی لوگوں پر لازم ہے۔ اگر سلطان نے ان کا حکم نہیں دیا تو پھر وہ قانون نہیں اس لئے وہ لوگوں پر لازم بھی نہیں۔ مسلمان تو شرعی احکامات کی پیروی کرتے ہیں اللہ کے اوا مرونواہی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں نہ کہ سلطان (صاحب اقتدار)کے اوراِمردنواہی کے مطابق، اس لئے وہ جس چیز کے پابند ہیں وہ احکام شرعیہ ہیں سلطان کے اوامر نہیں۔ تا ہم ان شرعی احکامات میں صحابہ کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ بعض نے شرعی نصوص سے جو کچھ سمجھا دوسروں نے اسی شرعی نص سے کچھ اور سمجھا اور ہر ایک اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق عمل بھی کر تا رہا اور ہر ایک کی سمجھ اور اس کا فہم اس کے لیے اللہ کا حکم تھا۔ لیکن بعض شرعی احکامات ایسے ہیں کہ امت کے معاملات کے دیکھ بھا ل کے تقاضے کی وجہ سے تمام مسلمانوں کا ان کے متعلق ایک رائے پر متفق ہونا لازمی ہے،ان احکامات میں ہر کوئی اپنی رائے اور اجتہاد کے مطابق نہیں چل سکتا اور عملی طور پربھی ایسا ہوا ۔ مالِ غنیمت کے بارے میں ابو بکرؓ کی رائے تھی کہ اسے مسلمانوں کے مابین مساوی طور پر تقسیم کیا جائے کیونکہ حقوق میں تمام مسلمان برابر ہیں۔ جبکہ عمر ؓ کی رائے تھی کہ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کی اور جس نے آپ ﷺکے ساتھ ہو کر اسلام کے لیے لڑا ئی کی، دونوں کو کیسے برابر سمجھا جائے، یا فقیر اور مالدار کو کس طرح برابر حصّہ دیا جائے بلکہ اسلام میں سبقت اور فقیری اور مالداری کو مدِنظر رکھ کر تقسیم کرنا چاہیے۔ لیکن ابو بکرؓ چونکہ خلیفہ تھے انہوں نے اپنی رائے پر عمل کرنے کا حکم دیا یعنی مال کو مساوی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی تبنی کی،اس مسئلے میں تما م مسلمانوں نے ان کی اتباع کی اورقاضیوں اور والیوں نے بھی اسی رائے کے مطابق فیصلے کیے اور عمر ؓ نے اس رائے پر سر جھکایا اور ابو بکرؓ کی رائے کو ہی اختیار کیا۔ اور جب عمر ؓ خلیفہ بنے تو اپنی رائے کے مطابق مالِ غنیمت کو افضلیت کی بنیا د پر تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ مسلمانوں نے آپؓ کی پیروی کی اور قاضیوں اور والیوں نے بھی آپ کی رائے پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ مسلمانوں پر خلیفہ کے تبنی شدہ رائے کی اطاعت واجب ہے خواہ یہ ان کے اجتہاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ان کو اپنی آراء اور اجتہادات کو ترک کرنا پڑے گا۔ یہ تبنی کردہ احکامات قوانین ہوں گے۔ اس لئے صرف خلیفہ ہی قوانین کا اجراء کر سکتا ہے اس کے علاوہ کسی کو اس کا اختیار نہیں۔) اختتام اقتباس
3۔ خلیفہ کی جانب سے لاگو کیے گئے احکامات دو اقسام کے ہوتے ہیں:
ا۔ وہ جو شرعی احکامات ہوتے ہیں جنھیں خلیفہ اختیار کرتا ہے اور لوگوں پر لاگو کرتا ہے مثلاً معاملات، سزاؤں سے متعلق احکامات۔ اس قسم کے احکامات پر عملدرآمد شہریوں کیلئے دو وجوہات کی بنا پر ضروری ہے: اولاً کہ یہ شرعی احکامات ہیں اور دوئم کہ شرعی حاکم کی اطاعت کی فرضیت کی وجہ سے۔
ب۔ دوسری قسم: خلیفہ کی جانب سے وہ انتظامی معاملات ، جو وہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کیلئے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مفاد میں کرتا ہے، جیسے ٹریفک قوانین۔ شہریوں پر اس قسم کے احکامات کی اتباع ضروری ہے کیونکہ شرعی حاکم کی اطاعت فرض ہے جیسے پہلے بیان ہوا۔
4۔ جہاں تک اس غیرشرعی حاکم کا تعلق ہے جو انسان کے بنائے قوانین سے حکومت کرتا ہے، شریعت میں اس کی اطاعت واجب نہیں اور اس کے قوانین مسلمانوں کیلئے واجب الاطاعت نہیں کیونکہ اس کے پاس مسلمانوں کی جانب سے اطاعت کا حق نہیں۔ آج کے دور میں غیر شرعی حاکم کی جانب سے جاری کیے گئے قوانین کی تین اقسام ہیں:
ا۔ وہ قوانین جو شرعی قوانین سے لیے گئے جیسے "گھریلو قوانین” جن میں نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ اسلامی فقہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان قوانین کی پیروی اس وقت تک ہے جب تک یہ شریعت کے مطابق ہیں کیونکہ ان پر عمل دراصل شرعی احکامات پر عمل ہے۔
ب۔ وہ قوانین جو شریعت سے متصادم ہیں جیسے بہت سے قوانین جو سود، زنا، شراب نوشی، غیرشرعی خریدوفروخت کی اجازت دیتے ہیں، زمین اور اس کی تقسیم سے متعلق قوانین، اقتصادی زندگی اور تعلیم سے متعلق قوانین وغیرہ۔ یہ قوانین اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ کے ذریعے حکمرانی کے زمرے میں آتے ہیں جو حرام ہے۔ ان قوانین پر چلنا مسلمانوں کیلئے جائز نہیں۔ یہ ان کیلئے سختی سے ممنوع ہیں اور انہیں ان قوانین کو تبدیل کر کے شرعی قوانین کے مطابق بنانے کی لازمی کوشش کرنی چاہیے۔
ج۔ انتظامی معاملات سے متعلق قوانین جیسے ٹریفک قوانین، تعلیمی انتظامات، سڑکوں اور چوکوں کی تعمیر اور دیگر معاملات جو انتظامی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، مسلمانوں پر شرعیت کے مطابق ان معاملات پر عمل درآمد لازمی نہیں کیونکہ یہ احکامات ایسی ذات کی جانب سے ہیں جس کی اطاعت شریعت میں واجب نہیں۔ اگرچہ یہ قوانین شریعت میں ممنوع نہیں بلکہ ان پر چلنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ انتظامی معاملات کا حصہ ہیں۔
لیکن اگر ان انتظامی قوانین پر نہ چلنے کے نتیجے میں نقصان ہو اور اپنے آپ یا کسی دوسرے کو ضرر پہنچے، جیسے لال ٹریفک سگنل پر نہ رکنا جس کے نتیجے میں ٹریفک حادثہ ہو اور اپنے آپ یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچے، توان قوانین پر عمل کرنا واجب ہو گا، لیکن غیرشرعی حکمران کی اطاعت کی وجہ سے نہیں بلکہ عملدرآمد نہ کرنے کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کے اندیشے کی وجہ سے۔ نبیﷺ نے ضرر کی ممانعت بیان کی، حاکم نے مستدرک میں ابوسعیدخدری ؓسے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ، مَنْ ضَارَّ ضَارَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ»"نہ (ہم) نقصان اٹھاتے ہیں نہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ جس کسی نے نقصان پہنچایا، اللہ اسے نقصان پہنچائے اور جو کوئی دوسروں کیلئے مشکل کھڑی کرے گا اللہ اس کیلئے مشکل کھڑی کرے گا”۔ امام حاکم نے کہا، "یہ مسلم کی شرط پر صحیح حدیث ہے اور انھوں نے اسے روایت نہیں کیا”۔ ذھبی نے اس پر "مسلم کی شرط پر” کی رائے دی۔ ان معاملات میں فرضیت غیر شرعی حکمران کے نافذ کردہ انتظامی قوانین کی اطاعت کی وجہ سے نہیں یا غیرمسلم حکمران کی وجہ سے، بلکہ فرضیت نقصان اٹھانے یا پہنچانے کی ممانعت کی وجہ سے ہے۔
5۔ لہٰذا اسلامی ممالک جہاں شریعت کی حکومت نہیں اور غیر اسلامی ممالک میں بھی، میں ٹریفک قوانین کے بارے میں یہ کہوں گا کہ ان قوانین اور انتظامی معاملات پر چلنا شرعی طور پر جائز ہے۔ یہ نہ تو حرام ہے نہ ہی واجب ہے، لیکن یہ وجوب غیر مسلم یا ناجائز حکمران کی اطاعت کی وجہ سے نہیں بلکہ نقصان اٹھانے اور پہنچانے کی ممانعت کی وجہ سے ہے۔
آجکل یہ امر توجہ طلب ہے کہ انتظامی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، خصوصاً ٹریفک قوانین میں۔ نقصان سے بچنے کیلئے ان قوانین پر عمل ہونا چاہئے تاکہ قانون توڑنے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بچا جا سکے۔
امید ہے کہ معاملے کی ہر لحاظ سے وضاحت ہو چکی ہے۔
آ پ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
7 شوال 1440 ہجری
10/6/2019 CE
ختم شد