سوال و جواب : امریکہ بھر میں ہونے والے بڑے پیمانے کے احتجاج اور اس کے امریکی خارجہ پالیسی پراثر
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب : امریکہ بھر میں ہونے والے بڑے پیمانے کے احتجاج اور اس کے امریکی خارجہ پالیسی پراثر
سوال:
تقریبا دو ہفتوں سے امریکہ بھر میں احتجاج جاری ہے بعض علاقوں میں یہ کافی بڑے پیمانے پر ہیں، جس میں تشدد کا عنصر سرایت کر گیا ہے، استوروں کو لوٹ لیا گیاہے، پولیس اسٹیشنوں کو آگ لگایا گیا، کیا امریکہ میں ایک سیاہ فام کے قتل سے اس قسم کے احتجاجات ہوسکتے ہیں؟ گزشتہ چند سالوں میں بھی ایسا بہت بار ہوا مگر اس قسم کے احتجاجات نہیں ہوئے! کیا امریکی خارجہ پالیسی پر ان احتجاجات کا کوئی اثر ہوگا؟
جواب:
مندرجہ بالات سوالات کے جواب کو واضح کرنے کے لیےہم یہ کہیں گے کہ:
1-امریکی پولیس نے 25/5/2020 کو امریکی ریاست مینیسوٹا کے مینیا پولیس شہر میں افریقی نژاد شخص#جورج فلائیڈکو قتل کیا، یہ بہیمانہ جرم تھا،اس دوران پولیس والے نے پولیس اسٹیشن میں حاصل کی گئی تربیت کو عملی جامہ پہنایا، اس نے شہ رگ اور گلہ دبایا اور یہ جرم نو منٹ تک جاری رہا جس کے دوران جارج فلوئیڈ چلاتا رہا کہ "میں سانس نہیں لے سکتا” یہاں تک کہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا،اس بہیمانہ جرم کو تمام امریکیوں نے دیکھا، اپنی آنکھوں سے سیاہ فاموں کے خلاف امریکی پولیس کی وحشیانہ برتاوکا نظارہ کیا، انسانوں کے ساتھ اس بہیمانہ سلوک پراگلے ہی دن اس شہرمیں مظاہرے شروع ہوگئے، پھرگلہ گھونٹنے کی کی اس المناک ویڈیو کے سوشل میڈیا میں وائرل ہوتے ہیں مظاہرے امریکہ میں پھیل گئے، یہاں تک کہ امریکہ کے مختلف اسٹیٹ کے 80 شہروں کو اپنے لپیٹ میں لیا۔۔۔پھر پران تشدد مظاہروں کو روکنے کےلیے حکومت نے چلنے پھرنے پر پابندی لگادی جن قتل لوٹ مار پولیس اسٹیشنوں اور اسٹوروں کو جلانے کے واقعات ہوئے،امریکی پولیس مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹنے پر مجبور ہوئی جس کے دوران مختلفشہروں میں 4ہزارافراد گرفتار کیے گئے،چند افراد کے قتل کا بھی اعلان کیا گیا، امن وامان کو بحال کرنے اور حالات کو قابو کرنے کے لیے نیشل گارڈ طلب کی گئی، بلکہ پہلی بار امریکہ میں دارالحکومت واشنگٹن میں امن قائم کرنے کے لیے فوج طلب کی گئی، مظاہرین کی جانب سے وائٹ ہاوس پر دھاوا بولنے کے خوف سے صدرٹرمپ کو حفاظت کے لیے زیر زمین محفوظ پناہ گاہ منتقل کیاگیا۔
2- امریکی احتجاج نے اس داخلی استحکام کو تہ و بالا کردیا جس پر امریکہ کی ایک کے بعد ایک حکومت فخر کرتی تھی، جلاو گھیراو، اسٹوروں کو لوٹنا، بڑے پیمانے پر پولیس اسٹیشنوں کو تباہ کرنا امریکیوں کو اس جہنم سے خوفزدہ کیا جو ان کی حکومتوں نے دوسرے ممالک میں بنایا،ان کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ امریکہ نے دنیا کے ساتھ جس ظلم اور بربریت کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا وہی امریکی عوام کے ساتھ بھی ہوگا، یہی وجہ ہے کہ یہ ہر لحاظ سے ہولناک منظر تھا: صدروائٹ ہاوس کے گرد جمع ہونے والے پرامن مظاہرین کو ڈرایا دھمکایا اور ان کو پاگل کتے کہہ دیا،وائٹ ہاوس کے گرد نصب خاردار تاروں اور کنکریٹ کے روکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش پر ان کے خلاف بھاری اسلحہ استعمال کرنے کی دھمکی دی، صدر نے اسٹیٹ گورنروں سے بھی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے، زبردستی امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا،ان کو نیشنل گارڈ سے مدد لینے کا حکم دیا، فوج ہائی الرٹ رہنے اور پولیس اور نیشنل گارڈ کی امن امان برقرار رکھنے میں ناکامی کی صورت میں 4گھنٹے کے اندر مداخلت کا حکم دیا، پھر فوج کو دارالحکومت واشنگٹن میں تعینات کی گئی پھر اس اقدام کو واپس لیا گیا کیونکہ فوج کو اپنی عوام کے سامنے لاکھڑا کرنے پر صدر پر سخت تنقید شروع ہوگئی۔ دوسری طرف بھپرے ہوئے مظاہرین کو نہ پولیس روک سکی نہ نیشنل گارڈ اور نہ ہی کرونا کا خوف، مظاہرین کا ایک حصہ پرامن تھا جو شہری حقوق قاتلوں کے احتساب اورپولیس نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کررہے تھے، جبکہ دوسری قسم ان مظاہرین کی تھی جو جان بوجھ کر حکومتی مراکز خاص کر پولیس اسٹیشنوں پر حملے کررہے تھے ان کو جلارہے تھے تباہ کر رہے تھے، اسی وجہ سے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ سرمایہ داریت کے سخت مخالف بائیں بازو کی تنظیم”انتیفا” یہ سب کر رہی ہے! جب کہ مظاہرین کی تیسری قسم لوٹ مار، چوری اور تخریبی کاراوائیاں کررہے تھے۔۔۔
3-امریکی پولیس کی حقیقت جس کا ستون سفید فام ہیں سیاہ فام شہریوں کی تذلیل کے عادی ہیں،سیاہ فاموں کی بڑی تعداد پولیس کے ہاتھوں قتل ہوچکی ہے جن میں سے بعض کی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی جیسا کہ فلوائیڈ کے معاملے میں ہوا، یہ واقعات شاذونادر نہیں بلکہ مسلسل ہورہے ہیں، امریکہ میں نسل پرستی واضح اور محسوس اور ان کے معاشرے میں قابل توجہ ہے۔۔۔
مگر 25/5/2020 کو مینیاپولیس شہر میں فلوائیڈ کے قتل نے نسل پرستی کی پالیسی کے خلاف عوامی غیظ وغضب کو بڑھا دیا جس کو ریاستی ادارے امریکہ میں خاص طور پرسیاہ فاموں خلاف پیدا کرتے ہیں، اس کے بعض اسباب پرانے اور بعض نئے ہیں، ان اسباب میں سے کچھ یہ ہیں:
ا-امریکی معاشرے کا شیرو شکرہونے میں ناکامی: موجودہ امریکی معاشرے کی نشونما ہی خاص طور پرنسل پرستی میں ہوئی، یورپ سے آنے والے تارکین وطن عمومی طور پر اور انگریزوں نے خاص طور پر کئی ملین امریکہ کے اصل باشندے ریڈ اینڈینز کی لاشوں پر امریکہ کو کالونی بنایا، نئی کالونیوں میں کام کاج کے لیے افریقہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو غلام بناکر لایا اسی لیے امریکی افریقی نژاد لوگوں کو غلاموں کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں، صدیوں تک تو یہ باقاعدہ رسمی طور پر تھا جس دوران یہ افریقی نسل پرستانہ تنہائی کا شکار تھے، سفیدفاموں کے کھیتوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے تھے، 1790 کے شہریت کا قانون صرف سفیدفاموں کو شہریت دیتا تھا، جبکہ سیاہ فاموں کو شہری ہی تسلیم نہیں کرتا تھا، انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی میں سیاہ فاموں کو کچھ حقوق جیسے ووٹ ڈالنے کا حق ملنے کے باوجود نسلی امتیاز خانہ جنگی کے بعد بھی حکومتی پالیسی رہی، بیسویں صدی کے وسط کے بعد”شہری حقوق” کے نام ایک ایک بڑی تحریک شروع ہوئی جس میں مارٹن لوتھر کنگ امریکی سیاہ فاموں کے قائد کے طور پر سامنے آئے، جس کے بعد سیاہ فاموں کورسمی طورپرامریکہ کے شہری تسلیم کرکے ان کے حقوق کا اعتراف کیا گیا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ان افریقیوں نے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے وہ شہری حقوق حاصل کرلیے جو ان کے آباواجداد حاصل نہیں کرسکے تھے، مگراس نے امریکی گوروں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی، وہ ان افریقیوں کو اب بھی کمتر سمجھتے ہیں، اسی لیے ان کے خلاف نسل پرستانہ کاروئیاں جاری رہیں، امریکی زعماء کی جانب سے نسلی امتیاز کے خاتمے کے دعوں کے باوجود مختلف رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں افریقی نسل کے خلاف نسلی امتیاز کی جڑیں بہت گہری ہیں۔۔۔ سیاہ فاموں کے خلاف نسلی امتیاز کے مظاہر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سفیدفاموں کی نسبت سیاہ فام بہت بڑی تعداد میں جیلوں میں ہیں، اسی طرح ان کی بہت بڑی تعداد بے روزگار ہے، سفید فام امریکی کے مقابلے میں سیاہ فام امریکی اوسط آمدن بہت کم ہے، اسی طرح ان کو حاصل طبی سہولیات بہت کم ہیں،یہی حال تمام تر خدمات اور سہولیات کی ہے، سیاہ فاموں کے رہائشی علاقوں جن کو کالوں کے علاقے کہا جاتاہے اور گوروں کے رہائشی علاقوں میں واضح امتیازہے، گوروں کے علاقے ترقی یافتہ وہاں سہولیات میسر ہیں حتی کہ وہاں مکانات کے کرایے زیادہ ہیں اور گورے انہی علاقوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
ب- نسل پرست ٹرمپ انتظامیہ کی آمد اور وائٹ سپرمیسی کا نعرہ لگانے والوں کو گود لینا: صدر ٹرمپ کی حمایتی گروپس گوروں کی دوسروں پر بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، ٹرمپ کے وائٹ ہاوس میں آنے کے بعد ان گروپوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا انہوں نے بھی ٹرمپ کی شخصیت میں اپنا قومی لیڈر پالیا، اس میں انجیل کو ماننے والی عیسائیوں کا امتزاج بھی ہے جو اس برتری میں مذھبی رنگ کا بھی اضافہ کرتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف کھل کربات، بعض مسلمانوں کو امریکی ویزے کے حصول سے روکنا، مکسیکو کے باشندوں کے خلاف ٹرمپ کے بیانات،مکسیکوکے باڈر کے ساتھ دیوار کی تعمیر کا منصوبہ جس کے کچھ حصے پر عمل بھی ہوچکا، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، کرونا وائرس کو چینی وائرس کا نام دینا،امریکہ میں چینیوں سے عداوت کی لہر کا پیدا ہونا، 2017میں ورجینیا اسٹیٹ میں نئے نازیوں کے مظاہروں سے درگزر، اقلیتوں کے حوالے سے مسلسل توہین آمیز لب ولہجہ، "سیاہ فام”فلوائیڈ کے قتل پرتبصرے، سیاہ فاموں کی حمایت میں چلنے والی تحریک کو کچلنے کی دھمکیاں۔۔۔ ان تمام وجوہات کی بناپر ٹرمپ ہی امریکہ میں نسلی امتیاز کو پروان چڑھانے کا سب سے اہم عامل بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں امریکہ میں سیاہ فاموں، مسلمانوں،مکسیکنز اور چینیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا، اب ان کوپہلے سے زیادہ اس نظر سے دیکھاجاتا ہے کہ یہ سب طفیلی ہیں جو امریکیوں سے ان کے نوکریوں کے مواقع چھیننے اور امریکہ کے وسائل لوٹنے آئے ہیں، اسی لیے امریکی معاشرے کے بہت سے شعبوں میں نسلی امتیاز نمایاں ہوگیا ہے۔۔
ج-امریکی معاشرے میں کرونا وائرس کے اثرات:فلوئیڈ کے قتل کے بعد امریکہ میں احتجاجات کے شعلوں کو بڑھانے کے اسباب ایک یہ بھی ہے کہ یہ کرونا کےپھیلاو کے وقت شروع ہوئے جب لوگ لاک ڈاون سے تنگ آرہے تھے، یہ تو ایک پہلو سے جبکہ دوسرے پہلو سے امریکیوں کی بڑی تعداد بے روزگاری کی وجہ سے اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے، تیسرا پہلو یہ کہ امریکیوں نے دیکھا کہ ان کی حکومت امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے، جہاں بنیادی طبی لوازمات اور آلات کی بھی قلت کا سامنا ہوا، وائرس سے نمٹنے میں ناکامی کا سامنا تھا حلانکہ وائرس کی لہر نے چین اور یورپ کے بعد امریکہ پر ضرب لگائی جسے اس کو تیاری کا بہترین موقع ملاتھا جس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوا، اسی طرح وبا سے نمٹنے میں امریکی انتظامیہ کی ناکامی کے نتیجے میں امریکی سیاسی میڈیم ٹرمپ انتظامیہ کے وبا سے نمٹنے کے طرز عمل کے حوالے سے تقسیم ہوگیا۔۔۔گہرے اوراہم داخلی مسائل میں سے ایک امریکی معاشرے کا سرمایہ دارانہ نظام کے خرابی کا بڑھتاہوا احساس ہے، امریکہ میں دولت کی تقسیم کاعمل خوفناک تیزی سے سرمایہ داروں کے ایک چھوٹے سے ٹولے کے حق میں جارہا ہے جو کہ پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والے لابیاں ہیں، وہ پالیسی جسے وہ ٹیکسوں سے مزید چھوٹ حاصل کرلیتے ہیں جبکہ متوسط اور محدود آمدنی والے اپنے آمدن کا بڑا حصہ تباہ کن ٹیکس کے طور پر ادا کرتے ہیں،امریکہ کے حالیہ احتجاجات نے سرمایہ داریت کے سب سے بڑی مخالف تحریک "انتیفا” کو نمایاں کردیا اور امریکی صدر ٹرمپ نے اس کو دہشت گرد قرار دینے کا مطالبہ کیا، یہ وہی تحریک ہے جس نے2008 میں سرمایہ داریت کے بڑے مرکز "وول اسٹریٹ” اسٹاک ایکسچینج پر قبضے کا نعرہ لگایاتھا، اس تحریک نے اپنے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا اور امریکی معاشرے میں اپنی جڑیں مظبوط کردی، یہ تحریک سرمایہ داریت کے خلاف تشدد کا نعرہ لگاتی ہے آج اسی تحریک پر مظاہرین کوحکومتی مراکزجیسے پولیس اسٹیشن کو جلانے ترغیب دینے کا الزام ہے۔۔۔
4-اس سب کا امریکی خارجہ پالیسی پر اثر ہوا، مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پریہ موثر عوامل ہیں:
ا-امریکہ میں تقسیم کی حالت: 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہ ظاہر کیا کہ امریکہ ایک شخص کی قیادت میں ایک نہیں، دنیا میں جنگوں، امریکہ کی دنیا بھر میں اپنے ایجنٹوں کو دی جانے والی امداد، ٹیکس پالیسی،اقلیتوں کے ساتھ سلوک، پناہ گزینوں کامعاملہ وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے پالیسی کے حوالے سے امریکی منقسم ہوگئے، مگر ٹرمپ آکر خود امریکہ کی اس تقسیم کا سبب سے بڑا سبب بن گیا، اس کی شخصیت میں موجود خودسری اقتدار سے چمٹنے کے شوق حد سے زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش حکمت کی قلت اندرونی چپقلش میں ملوث ہونے کی طرف میلان مدمقابل کو گرا کرآگے بڑھنے کی جستجو نے اس چیز کو زیادہ کیا، اس چیز نے عملا امریکہ کوٹرمپ کے ساتھ یا ٹرمپ کے مخالف میں تقسیم کرکے رکھ دیا، اس کے انتظامیہ میں برطرفیاں اور استعفے اس قدر بڑھ گئےکہ ایسا امریکہ کے کسی بھی صدر کے ساتھ کبھی نہیں ہوا، کرونا وائرس بحران کی وجہ سے صدر اور گورنروں کے درمیان تلخ کلامیوں نے امریکہ میں تقسیم کو تیزتر کردیا، اس تقسیم نے امریکی سیاسی اور مالی میڈیم پر ضرب لگائی جس کا اثر پورے معاشرے پر ہوا۔ صدر اور اس کے انتظامیہ کا عوامی احتجاج کے بحران سے نمٹنے کا طریقہ کاراس تقسیم کا ایک اور سلگتاہوا سبب ہے، ٹرمپ فلوئیڈ کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کا مخالف ہے اور طاقت کے زور پر امن وآمان قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ ڈیموکریٹ اور اسٹیٹس کے گورنربلکہ وزیردفاع جس نے صدر کے ساتھ وائٹ ہاوس کے پڑوس میں موجود چرچ میں جانے سے انکار کیاجہاں سے سیکورٹی اداروں نے مظاہرین کودورکردیا اس کے خلاف ہیں بلکہ اس نے اس عمل کو ٹرمپ کے لیے سیاسی پروپگینڈا قرار دیا۔۔۔اس رسہ کشی میں تیزی کی تازہ ترین مثال امریکی سابق وزرائے دفاع اور درجنوں عسکری عہدہ داروں ایک مشترکہ خط میں یہ کہنا ہے کہ- مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بلانے کی بات کرکے صدر نے اپنے حلف اور دستور سے خیانت کی؛ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق وزیردفاع جیمس میٹس بھی تھے، الجزیرہ7/6/2020 )۔۔۔ بات سابق وزرائے دفاع تک محدود نہیں رہی بلکہ موجودہ وزیردفاع نے ٹرمپ کی مخالفت کی مذکورہ ذرائع نے ہی خبردی کہ "سی این این نے وزارت دفاع”پینٹاگوان” کے عہدہ دار کے حوالے سے خبردی کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے دارالحکومت واشنگٹن اور دوسرے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں فوج تعینات کرنے کا حکم دیا مگر وزیردفاع مارک اسبراور جائنٹ چیف آف اسٹاف مارک میلی اس کو مسترد کردیا، یہ مظاہرے پولیس کی جانب سے نسل پرستانہ ےشدد کے ردعمل میں واشنگٹن اور دوسرے امریکی اور یورپی شہروں میں ہو رہے ہیں۔ نیویارکر میگزین نے یہ خبر دی کہ وائٹ ہاوس کے ذرائع کے مطابق اس معاملے میں امریکی صدراور جنرل مارک میلی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ میگزین نے خبر بھی دی کہ جنرل میلی نے صدر کی جانب سے امریکی شہروں میں فوج تعینات کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے صدر سے سخت انداز میں بلند آواز سے بات کی اور کہا کہ مظاہروں کو روکنے کے لیے شہروں میں فوج تعینات کرنا قانون کے خلاف ہے)۔
ب- صدارتی انتخابات کا موسم: اس مسئلے کو جس چیز نے زیادہ گرمایا وہ یہ کہ یہ احتجاج دونوں ڈیموکراٹک امیدوار جو بائیڈن اورریپبلک امیدوار ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران شروع ہوئے۔ جسے صدر ٹرمپ بطور صدر کے اپنے مستقبل کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے، وہ اس سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونا چاہتے ہیں یہی مسئلہ ان کی پہلی ترجیح ہے،مگران کی تشویش کی بنیادی وجہ کرونا وائرس اور امریکی معیشت پر اس کے اثرات ہیں، لاکھوں امریکیوں کا نوکریوں سے ہاتھ دھونا اور وائرس سے نمٹنے میں میں ناکامی سے وہ خوفزدہ ہے کہ اس کا مدمقابل ڈیموکراٹک امیدوار انتخابی مہم میں فائدہ اٹھائے گا، پھر احتجاج کی لہر آگئی صدرٹرمپ اس دوران اپنے آپ کو طاقتور اور حالات کو قابو کرنے اور املاک کی حفاظت کرنے والے باصلاحیت شخص کے طور پر نمایاں کرنا چاہتا ہے جسے اس کے انتخابی مہم کو فائدہ ہو۔۔۔ جبکہ اس کا مد مقابل جو بائیڈ ڈیموکراٹک پارٹی اور دوسری قوتیں اس کے برخلاف کام کررہے ہیں، وہ یہ دکھارہے ہیں کہ یہ شخص امریکہ میں تقسیم کی خلیج کو وسیع کر رہا ہے اور فلوائیڈ کے قتل اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد امریکی معاشرے کو لگنے والے زحموں پر مرہم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اسی کو مظاہرین کے خلاف تند وتیز بیانات کی وجہ سے مظاہروں میں ہونے والے تشدد اور لوٹ مار کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔۔۔
ج- ریاست کا احتجاج کو کچلنا: دنیا نے امریکی حکومت کی جانب سے عوامی مظاہروں کو ہولناک اور وحشیانہ طریقے سے کچنلے کا مشاہدہ کیا، صدر کی جانب سے طاقت کے زور پر امن قائم کرنے، مظاہرین کو پاگل کتے کہنے،بھاری اسلحہ استعمال کرنے کی دھمکی، ہزاروں کی گرفتاری، تشدد، امریکہ میں آنسو گیس کا استعمال کا مشاہدہ کیا حالانکہ کئی دہائیوں سے ایسا نہیں ہوا تھا، اس کے بعد امریکہ کے پاس دنیا میں انسانی حقوق رائے کی آزادی اور اپوزیشن کی حمایت وغیرہ کا واویلا کرنے کی حجت مفقود ہوگئی اور امریکہ ایسی کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتا تھا، اس کا براہ راست اثر ہے امریکی خارجہ پالیسی نے اپنا مشہور ترین عالمی بہانہ کھودیا ۔۔۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان مارایا زاخاروفا نے کہا:”مئی 2020 کے اوخر اور جون کے اوائل میں امریکہ نے جو کچھ کیا اس کے بعد کرہ ارض میں انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرنے کا کوئی حق نہیں”۔
زاخاروفا نے مزید کہا کہ "امریکی سیکورٹی اداروں کا نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج میں شریک مظاہرین پرتشدد کے بعد امریکہ کے پاس انسانی حقوق کا واویلا کرنے حق ختم ہوگیا” الیوم السابع 2/6/2020 ۔
5-یوں نسلی امتیاز کی جڑی امریکہ میں مظبوط ہیں، یہ کچھ دیر خاموش ہوتی ہے مگر پھر زیادہ تیزی سے متحرک ہوتی ہے، یہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی نشونما کی فکری بیماری ہے، بلکہ کوئی بھی من گھڑت نظام اس سے خالی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ انسان کی اس خواہش اور رغبت کے تابع ہوتا ہے جو کالے گورے سرخ اور پیلے میں تمیز کرتی ہے۔۔۔چاہے یہ تمیز دوسروں کے ضرر کا باعث بن جائے بلکہ آگے جاکر اپنے آپ کو بھی!
یقینا صرف اسلام نے اس نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا ہے اور کر رہا ہے، جس میں رنگ کی بنیاد پر انسانوں کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں، بلکہ سب برابر ہیں ایک دوسرے سے افضل صرف تقوی کی وجہ سے ہوسکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتاہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير﴾ "اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مذکر اور مونث سے پیدا اور تمہیں اقوام اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے بے شک اللہ علیم اور خبیر ہے”، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو البیھقی(384ہجری-458 ہجری)نےابو نضرہ سے اور انہوں نےجابربن عبداللہ سےروایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایام تشریق کے وسط میں خطبۃ الوداع دیتے ہوئے فرمایا:
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلا لأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلا بِالتَّقْوَى، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ، أَلا هَلْ بَلَّغْتُ؟»، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ»
"اے لوگو تمہارا رب ہے تمہارا باپ ایک ہے سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر نہ کسی سرخ کو کالے پرنہ کسی کالے کو سرخ پر مگر صرف تقوی کی وجہ سے،اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہو، سنو کیا میں پہنچادیا؟”کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول، فرمایا:”پھر حاضر غائب تک پہنچائے”، اسی طرح روایت البوصری(762-840) نے کی ہے، الطبرانی(260-360) نے بھی ایسی روایت کی ہے، اپنی روایت میں کہا کہ "کالے کو گورے پر گورے کو کالے پر”۔
یوں صرف اسلام نسلی امتیاز کو ختم کرتا ہے کیونکہ یہی اللہ رب اللعالمین کا نازل کیا ہوا ہے، یہی حق کی طرف راہنمائی کرتاہے، چاردنگ عالم میں خیر کو عام کرتاہے،
﴿أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لا يَهِدِّي إِلا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ﴾
"کیا جو حق کی طرف راہنمائی کرتاہے اس بات کا زیادہ حقدار نہیں کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جواس وقت تک راہ راست پر نہیں چلتا جب تک اس کو راقہ راست پر نہ لایا جائے تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے فیصلے کرتے ہو”۔
20شوال1441
11/6/2020
حزب التحریر کے امیر
ختم شد