قرآنِ کریم کی یہ آیتِ کریمہ اس مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے جس مقصد کے ساتھ اسلام اتارا گیا…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: اسجد
﴿هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُ ۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُ ۥ عَلَى ٱلدِّينِ ڪُلِّهِۦ وَلَوۡ ڪَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ﴾
"وہ اللہ ہی ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب ادیان پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک نا پسندکریں” (9:33)
قرآنِ کریم کی یہ آیتِ کریمہ اس مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے جس مقصد کے ساتھ اسلام اتارا گیا، یعنی اسلامی آئیڈیالوجی کے مطابق ایک ورلڈ آڈر کا قیام۔اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی محمد ﷺ، ان کے اصحابؓ اور بعد میں آنے والی نسلوں میں اس مقصد کی جڑیں انتہائی گہری تھیں۔یہ ایک عالمی سوچ ہی تھی جس نے انھیں ایک اسلامی ریاست کے قیام کیلئے اور پھر ایک وسیع دنیا تک اس کے پھیلاؤ کیلئے تیار کیا۔
یہ وہی ریاست تھی جس نے نہ صرف بیشتر سائنسی اور غیر سائنسی شعبہ جات میں علم کا ذخیرہ پیدا کیا بلکہ خوارزمی، عمر خیام، البطانی، البیرونی، المجریتی، الادریسی، المسعودی، الجزری، الرازی، ابن سینا اور ابن الھیثم جیسے جید اہلِ علم اور ماہرین بھی پیدا کیے۔ قدیم یونانی فلسفے کا حتمی رد کرنے والے امام غزالی جیسے فلسفی بھی اسی ریاست کی پیداوار تھے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب یورپ بدستور تاریکی کے دور میں موجود تھا اور براعظم یورپ میں مسلسل جنگیں رہا کرتی تھیں۔ وہاں علماء اور دانشور صرف اس وقت سامنے آئے جب اسلام کے وہاں تک پھیلاؤ کے نتیجے میں یورپی معاشرے میں علم پھیلنا شروع ہوا۔
لیکن مسلم سائنسدانوں کو ریاستِ خلافت سے ملنے والی حوصلہ افزائی کے طرزعمل کے برخلاف یورپی سائنسدانوں کو ان کی حکومتوں نے سائنس کو پڑھنے اور اس میں ترقی کرنے پر سخت سزائیں دیں۔اسلامی ریاست نے آئبیریا سے ہندوستان تک عظیم تعلیمی ادارے قائم کر رکھے تھے کیونکہ اس کے خیال میں علم کا حصول ایک مکمل اسلامی شخصیت کے حصول کی طرف ایک اہم قدم تھا، اور ٹیکنالوجی کے حصول کے بغیر ریاست مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں ذکر کیے گئےتقاضے کو پورا نہیں کر سکتی۔ اس کے برخلاف، چرچ کا یہ ماننا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ اس کی طاقت کے مرکز ، یعنی وہم اور توہم پرستی پر حملے کاباعث بنے گا۔ یہ اس دور کی شرح خواندگی میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس وقت جب اسلامی ریاست میں ناخواندگی تقریباً موجود ہی نہیں تھی، یورپ میں اس کی شرح 95٪ تھی۔
راجر بیکن، پیٹرو ڈی ابانو Pietro d’Abano، سیکو ڈی آسکولی Cecco d’Ascoli، مائکل سرویٹس Michael Servitus، گیر ولامو کارڈانو Girolamo Cardano، نکولس کوپرینکس Nicholas Copernicusاور گلیلیو گیلیلی کے خلاف چرچ کی جانب سے مشہور قانونی کاروائیوں نے مغرب میں اس عمومی سوچ کو جنم دیا کہ مذہب سائنس کی مخالف ہے۔ یہ سراسر اس کے برخلاف تھا جو شاندار اسلامی دور میں سامنے آیا۔امام غزالی نے لکھا: ” وہ شخص مذہب کا مجرم ہے جو علوم ریاضات کی نفی کرنےکو اسلام میں مہارت کے حصول کا طریقہ سمجھے "۔
1924 میں خلافت کے انہدام سے لیکر آج تک مسلم امت مغرب کے سیاسی منصوبوں کے مرہونِ منت رہی ہے۔ مغرب اس تعلیم کو آنے والی مسلم نسلوں کیلئے ایک اہم نو استعماری(Neo-colonialism) آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔اس امت کی فکری قیادت یعنی اسلامی عقیدے سے حل پیش کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس تعلیمی نظام میں موجود بنیادی مسائل کا تجزیہ کیا جائے۔
سب سے بنیادی مسئلہ اس تعلیم کو سیکولر سوچ کے ساتھ جوڑنا ہےجس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ عام امت سے الگ ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی سیاسی سوچ کے بغیر یہ طبقہ عام لوگوں کے مسائل کو نہیں سمجھ پاتا اور نہ ہی اس بات کا ادراک کر پاتا ہے کہ لوگ بعض اقدار اور روایات کے ساتھ اتنی مضبوطی سےواپستہ کیوں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اس امت کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے بلکہ وہ ان مسائل میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔تعلیم دینے کے کمزور طریقہ کار اور سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ مل کر اس بنیادی مسئلے نے کئی مزید مسائل کو جنم دیا ہے۔
دانشور طبقے اور معاشرے کے مسائل کے درمیان یہ فاصلہ دراصل استعمار کی جانب سے ہمارے معاشرے میں ڈالی گئی فکری اور ثقافتی کرپشن ہے۔ عوام نے کئی بارسیاسی اعمال، ریفرینڈم اور رائے شماری کے ذریعے اسلام کے افکار کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا ہے۔ یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معاشرے کے ترقی کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس پر اسلام کے نظام کو نافذ کیا جائے تاکہ نظام اور لوگوں کے جذبات و رجحانات میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ لیکن اسکولوں اور جامعات میں دی جانے والی تعلیم نہ تو اسلامی عقیدے پر مبنی اسلامی شخصیات کی تعمیر کرتی ہے اور نہ ہی طلباء میں اسلامی سیاسی سوچ پیدا کرتی ہے۔اس کے برعکس یہ تعلیم انہیں سیکولر شخصیات میں تبدیل کر دیتی ہے جو جمہوریت اور آزادیوں جیسی مغربی اقدار اور وطنیت اور قومیت جیسے غیر اسلامی روابط Bondingکا دفاع کرتے ہیں۔لہٰذا ان کی جانب سے امت پر نافذ کی گئی پالیسیاں اس امت کے مرکزی عقائد سے ٹکراتی ہیں جو زندگی کے تمام شعبہ جات میں تضاد، انتشار اور نتیجتاًجمود کی جانب لے جاتا ہے۔
تعلیمی نظام کا ایک اور اہم مسئلہ تعلیم دینے کا رائج طریقہ کار ہے جو عقل پر مبنی نہ ہونے، تخلیقی صلاحیت سے عاری ہونے،جانداراور متنوع نہ ہونے کی وجہ سے طلباء کو بیزار کردیتا ہے۔ اس تعلیمی طریقہ کار کی توجہ امتحان پاس کرنے اور کچھ اسناد حاصل کرنے کی غرض سے معلومات کو یاد کر لینے پر موقوف ہوتی ہے جس کے باعث علم طلباء تک اس انداز میں نہیں پہنچ پاتا جو طلباء کو سوچنے، تحقیق کرنے، تجزیہ کرنے اور علم کا حقیقت سے تعلق قائم کرنے کی طرف ابھارے۔حقیقت کے ساتھ تعلق کی سمجھ اور تجزیے کی بجائے محض ہدایات اورتھیوری کو نظام کی بنیاد بنانے کے باعث تعلیم کے حصول میں دلچسپی میں بھی کمی آجاتی ہے۔پھر یہ حیرانی کی بات نہیں کہ یہ طلباء زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی فکر استعمال کرنے کی بجائے مسائل کے مغربی حل کی نقالی اوروکالت کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ان تمام مسائل کی وجہ دراصل مغربی افکار اور تصورات کو اپنانا ہی ہے۔
اس تعلیمی نظام کا ایک اور مسئلہ سرمایہ داریت کی انفرادی سوچ بھی ہےجو تعلیم کو ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھتی ہے جو انفرادی کامیابی، ذاتی خوابوں کے حصول اور قلیل مدت مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، جس کا ہدف فقط فرد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تنگ نظری کے باعث کامیابی کی تعریف معاشی استحکام پانے کیلئے ایک نوکری کے حصول کے طور پر کرتا ہے۔یہ سیکولر اقدار ایک پیشے کے حصول کو فرد کی اعلیٰ کامیابی کے طور پر دیکھتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خور فطرت نے بھی تعلیمی نظام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔عالمگیریت اور لبرل سرمایہ داریت کے پھیلاؤ کو تعلیم کی نجکاری کے ساتھ ایسے جوڑا گیا کہ تعلیم امیر طبقے کیلئے ایک کاروباری شے بن کر رہ گئی ہے۔یہ وسیع تر ناخواندگی کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے عوام کو زندگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے درکار علم سے دور کر کے غربت اور مفلسی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔
علاوہ ازیں، یہ نظام بلاواسطہ میکالے کے تعلیمی نظام کے اہداف کیلئے راہ ہموار کرتا ہے جس کا مقصد ایک ایسی تعلیم یافتہ اشرافیہ کا طبقہ تعمیر کرنا تھا جو معاشرے کےاستحصال میں اپنے استعماری آقاؤں کے سہولت کار بن سکیں۔اس کا ثبوت پوری مسلم دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک میں موجود ہے جہاں معاشرے کے اقتصادی شعبدہ باز IMF اور عالمی بینک سے قرضے لینے کی طرف زور لگاتے ہیں جس کے باعث ان نواستعماری اداروں کی تباہ کن پالیسیوں کے نفاذ کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
انفرادیت اور منافع خوری، دونوں کے خطرات کی طرف امام غزالی نےاپنی کتاب ،”بدایہ الھدایہ” کے ابتدائیہ میں اشارہ کیا،”اگر تعلیم کے حصول کی جدوجہد میں آپ کا مقصد مقابلہ کرنا، بڑھانا چڑھانا، عمر اور معیار میں برابرلوگوں کو نیچا دکھانا، دوسروں کی توجہ حاصل کرنا اور اس دنیا کے تمغے حاصل کرنا ہے، پھر آپ حقیقت میں اپنی دینی فطرت کو اور اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں تاکہ آپ اپنی آخرت (کی خوشی ) کو اپنی دنیا (کی خوشی) کے بدلے بیچ سکیں۔۔۔”۔
یہ اور ان جیسے دیگر مسائل کی وجہ سے اور قرآن وسنت کے متعدد دلائل کی بنیاد پر امت اجتماعی طور پر ذمہ دار ہے کہ اس اسلامی ریاست کو دوبارہ قائم کرے جو اس امت کو اس موجودہ ورلڈ آرڈر سے نجات دلائے اور اسلامی آئیڈیالوجی کے ذریعے اس امت کو عروج بخشے۔
﴿وَكَذَٲلِكَ جَعَلۡنَـٰكُمۡ أُمَّةً۬ وَسَطً۬ا لِّتَڪُونُواْ شُہَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيدً۬﴾
"اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو”(2:143)
ایک ایسی عروج پزیر اسلامی ریاست جس کا مقصد ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ دنیا کی رہنمائی کرنا ہے، اسے دنیا کی ریاستوں کے درمیان اپنا بلند مقام بنانے کیلئے بیشتر مفکرین اور سائنسدانوں کی ضرورت پڑے گی جو اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر عالمی سطح پراس ریاست کے قائدانہ اورمؤثر کردار کی ضمانت دیں۔
ایسی ریاست کیلئے یہ تباہ کن ہو گا کہ تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کیلئے غیر ممالک پر انحصار کرے،جو کہ استعماری حکومتوں کیلئے اس ریاست کو کنٹرول کرنے کے دروازے کھول دے گا۔ لہٰذا مغربی تعلیمی افکار کو درآمد کرنے کے عمل کو جاری رکھنے کی بجائے یہ ریاست اسلام سے اخذ کیے گئے افکار اور تصورات کے ذریعے عالمی نظامِ تعلیم کی رہنمائی کی کوشش کرے گی۔سب سے پہلے اسلامی ریاست اس امر کا ادراک کرے گی کہ تعلیمی پالیسی کواسلامی عقیدے کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔لہٰذا ریاست کا نصاب صرف اسلامی افکار کی ہی بنیاد پر ہو گا۔ایسے تعلیمی نظام کا مقصد افکار اور رویوں کے اعتبار سے اسلامی شخصیات ڈھالنا ہو گااور یہ کہ لوگوں کو زندگی کے معاملات سے متعلق علوم سے آراستہ کیا جائے۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی آئندہ نسلیں ہر شعبہ زندگی میں اہلِ علم اور ماہرین پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گی،چاہے وہ اسلامی علوم میں ہو جیسے اجتہاد، فقہ، عدلیہ وغیرہ یا پھر سائنسی علوم میں ہو جیسے انجینئرنگ، کیمیات، فزکس، طب، انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ۔ پھر اس بنیاد پر مسلسل قائم رہنے کیلئے تعلیمی طریقے سے متعلق انتظامی تفصیلات مرتب کی جائیں گی۔
لہٰذا پالیسی سازوں کیلئے تجرباتی علوم اور ثقافتی علوم میں فرق کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔تجرباتی علوم کو کسی روک ٹوک کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ثقافتی علوم میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ثقافت کو تمام تعلیمی اداروں میں تمام تعلیمی درجات میں پڑھایا جانا ضروری ہے، خواہ وہ سکول ہو یا کالج یا یونیورسٹی ۔ تعلیم کے اولین درجات میں تمام ثقافتی علوم کو ایک مخصوص پالیسی ہدایات کے مطابق استوار ہونا چاہیے جو اسلامی افکار اور احکامات سے متناقض نہ ہو۔ اعلیٰ تعلیمی درجات میں یہ ثقافتی علوم زیادہ تفصیل میں پڑھائے جائیں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلامی افکار و تصورات سے متناقض ثفافت کا مضبوط رَدبھی پڑھایا جائے گاجیسا کہ ڈارون جیسی مغربی ثقافتی افکاریا انسانی جبلتوں کے متعلق فرائیڈ کی تھیوری۔
وہ نجی اسکول اور تعلیمی ادارے جو کسی قسم کے بیرونی تعلقات کے بغیر ریاست ہی کا تعلیمی نصاب پڑھائیں گے، انھیں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی اجازت ہو گی۔لیکن یہ سمجھنا اہم ہے کہ علم کے حصول اور فروغ کے ذرائع کی فراہمی کی ذمہ داری اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔اس ذمہ داری میں اسکولوں اور جامعات کے علاوہ لیباٹریوں ، تحقیقاتی اداروں اور لائبریریوں کا قیام اور سرپرستی وغیرہ شامل ہےجو اسلامی علوم اور تجرباتی علوم دونوں پر مشتمل ہوں گے۔اس تمام کے باعث عوام اس قابل ہوں گے کہ علم کا حصول براہِ راست ان کی پہنچ میں ہو نہ کہ اس کیلئے وہ مخیر گروہوں کے مرہونِ منت ہوں۔
تعلیم کا طریقہ کار معلومات کے حصول کیلئے فقط سائنسی یا منطقی طریقوں پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ وہ عقلی طریقہ کار پر مبنی ہو گا، یعنی استاد کی طرف سے عقلی توجیح اور طالبِ علم کی طرف سے اس کی فکری وصولی۔ فکر اور ذہن تعلیم دینے اور حاصل کرنے کیلئے ایک آلہ کار ہے اور اسی کی موجودگی انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے افضل بناتی ہے۔ اس فکری طریقہ کار کے چار حصے ہیں: دماغ جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے،حواسِ خمسہ، موجود حقیقت اور اس حقیقت سے متعلق سابقہ معلومات۔پس عقلی طریقہ کار اس طرح کام کرتا ہے کہ حواس کے ذریعے حقیقت کا احساس دماغ تک منتقل ہوتا ہےجو سابقہ معلومات کی روشنی میں اس حقیقت کوسمجھ کر اس پر حکم لگاتا ہے۔
اساتذہ اپنے طلباء کو علم پہنچانے کیلئے مختلف اسالیب استعمال کریں گے جن میں زبان کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔فکر منتقل کرنے میں ایک استاد کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جائے گا کہ آیا طالبِ علم اس فکر کو حقیقت کے ساتھ مربوط کر سکتا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف اگر طالبِ علم جملوں کا معنی تو سمجھ لے مگر فکر کاحقیقت کے ساتھ رابطہ نہ جوڑ سکے، تو اس کا نتیجہ محض معلومات کی منتقلی ہو گا جو علم یافتہ افراد تو پیدا کر دے گامگر ان میں فکری صلاحیتیں موجود نہیں ہوں گی۔
سائنسی طریقہ کار صرف تجرباتی علوم تک ہی محدود ہو گا لیکن اس میں بھی عقلی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج کو ترجیح حاصل ہو گی۔منطقی طریقہ کار سے گریز کیا جائے گا کیونکہ نہ تو یہ فکری طریقہ کار پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ سائنسی تحقیق کے درجے تک پہنچتا ہے۔
زبان کا استعمال بلاشبہ فکری طریقہ خطاب اور فکری تعلیم کے لیے موزوں ترین آلہ ہے اور اسی لیے ہر استاد اور نصاب تعین کرنے والے کیلئے اسے خاص اہمیت دینا ضروری ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان فکر ی عمل کے چار عناصر پر مبنی فکری گفتگو کی سہولت کیلئے طلباء کی لغوی صلاحیتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔اس جگہ بھی استعمار کی زبان کے تعلیمی زبان کے طور پر مسلط ہونے کی وجہ سے امت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ حقیقت کے ساتھ طلباء کاتعلق جوڑنے کیلئے سب سے زیادہ قابل قرآن کی زبان یعنی عربی ہے۔لہٰذا ریاست عربی زبان کو تعلیمی زبان کے طور پر اپنائے گی۔
یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ جہاں مندرجہ بالا افکار کی بنیاد اسلامی ثقافت پر مبنی ہے، وہاں تعلیم دینے کے اسالیب اور ذرائع مخصوص نہیں۔اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعلیمی ضرورت کے مطابق نئے اور مختلف اسالیب استعمال کریں، جن میں تقاریر، بحث و مباحثہ، روایات، کہانی، عملی مسائل کو حل کرنا، تجربہ کرنا اور براہِ راست عملی مشقیں کرنا شامل ہیں۔اس کا یہ مطلب ہے کہ جہاں ماضی میں تعلیم یعنی فکری درس و تدریس، لکھنے اور تقریر سے حاصل کی جاتی تھی، اب وہاں ڈیجیٹل آڈیو اور ویڈیو سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ان ذرائع اور اسالیب کا طلباء کی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی مختلف ہونا ضروری ہے اور استاد کو طلباء کے مابین فرق اور تفاوت کو پہچاننا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی ریاست طلباء کی فکری تعلیم کیلئے جدید ذرائع اور اسالیب استعمال کرے گی جو نہ صرف طلباء کی اسلامی شخصیات کی تعمیر کا ہدف حاصل کرے گا بلکہ تمام شعبہ ہائے حیات میں ماہرین بھی پیدا کرے گا۔ امت میں اسلامی عقیدے کی تقویت سےامت کی اسلام کیلئے وفاداری مضبوط ہو گی، اس کی ثقافت کی حفاظت ہو گی اور یہ اپنے بلند مقاصد اور اہداف حاصل کر سکے گی۔لہٰذا تعلیم اس امت کو دنیا میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے اور اسے دیگر اقوام پر غالب کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
﴿وَلَن يَجۡعَلَ ٱللَّهُ لِلۡكَـٰفِرِينَ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ سَبِيلاً﴾
"اور الله کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہرگز غالب نہیں کرے گا”(4:141)
ختم شد