پاکستان کے سیاسی میڈیم میں اکثر و بیشتر اسلامی صدارتی نظام کےضرورت کی…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: شاہ رخ ہمدانی
پاکستان کے سیاسی میڈیم میں اکثر و بیشتر اسلامی صدارتی نظام کےضرورت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ بظاہراً اسے اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ صدارتی نظام پاکستان کی حکمرانی کے دیرینہ مسئلوں کو حل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں کچھ اسلام پسند لوگ بھی صدارتی نظام کے دلدادہ ہیں اور وہ اسے اسلام کے "قریب تر” تصور کرتے ہیں ۔ دنیا میں صدارتی نظام کی نمایاں مثال امریکہ کی ہے۔اورصدارتی نظام کے داعیوں کے نزدیک امریکی صدارتی نظام ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔جبکہ اگر اسلامی ممالک کو دیکھا جائے تو صدارتی نظام اس وقت ترکی میں رائج ہے جہاں وزیراعظم اردوگان نے قانونی طور پر اپنی وزارت کی معینہ مدّت کو ختم ہوتےدیکھ کر پہلے اپنے آپ کو صدر منتخب کروایا، اور پھر ایک کوشش کے بعد 2018 کے الیکشن میں آئینی اکثریت حاصل کر کہ ترکی کے پارلیمانی نظام کو ہی صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا، اور پھر اس میں ایک وسیع تر اختیارات کا صدر بن بیٹھا۔
اس وقت جبکہ امریکہ میں الیکشن نزدیک ہیں ہم اس مضمون کے ذریعے امریکہ کے صدارتی نظام کو سمجھنے اور پارلیمانی نظام سے اس کے فرق کو جاننے کی کوشش کریں گے ۔ اگر آج تمام ممالک کا ایک طائرانہ موازنہ کیا جائے، تو ان میں سے امریکہ معیشت کے حجم، عسکری طاقت کے پھیلاؤ، ذرائع ابلاغ کے اثر و رسوخ اور سائنسی ارتقاء کی شرح نمو کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ اس کی معیشت، دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس کی عسکری قوت، دنیا کے سب سے تباہ کن ہتھیاروں پر مشتمل ہے، اس کے ذرائع ابلاغ، دنیا کے سیاسی مکالمے کا ایجنڈا سیٹ کرتے ہیں، اور اس کی سائنسی جدت آج بھی دنیا کی صف اول میں شمار ہوتی ہے ۔ مشرق اور مغرب، اس کے دوسری جنگ عظیم کے بعد دیے گئے اصولوں پر مبنی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔
امریکا کا ایک نومولود ریاست سے دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا سفر تقریبا” دو صدیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے چیکس اور بیلنسز پر مشتمل صدارتی نظام میں اختیارات کی علیحدگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ امریکی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائروں میں با اختیار ہیں، اور اداروں کے مضبوط ہونے کی وجہ سے اپنے لئے طے کیے ہوے اختیارات میں رہنے کو پسند، اور ایک دوسرے کے حریف بننے کو عمومی طور پر ناپسند کرتے ہیں۔ادارے باہمی تنازعات کی صورت میں آئین میں مجوزہ قانون کی طرف رجوع کرنے کو مقدّس جانتے ہیں۔
امریکی انتظامیہ صدر، نائب صدر اور صدر کے کل 15 سیکرٹریوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ امریکی صدر ان 15 سیکرٹریوں کے ذریعے پوری دنیا کے معاملات کو چلاتا ہے ان تمام عہدیداروں میں سے امریکی صدر اور نائب صدر کے علاوہ کوئی بھی الیکشن کے عمل سے گزر کر نہیں آتا۔ امریکی صدر مہینوں پر محیط ایک لمبی الیکشن مہم کے بعد منتخب ہوتا ہے۔ اس الیکشن مہم میں امریکی صدر بننے کے امیدواروں کا بےپناہ پیسہ خرچ ہوتا ہے، چاہے یہ ان کا ذاتی پیسا ہو، یا پھر بڑی کارپوریشنوں اور رضاکاروں کے چندوں کی صورت میں اکٹھا کیا گیا ہو۔ روایتی طور پر پہلے امریکا کی دونوں سیاسی پارٹیاں ڈیموکرٹس، جن کا نشان گدھا ہے، اور ریپبلکنز جن کا نشان ہاتھی ہے، اپنے میں سے ایک صدارتی امیدوار چنتی ہیں، اور پھر یہ دونوں صدارتی امیدوار قومی الیکشن میں آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آزاد امیدوار ہو تو وو بھی ان دونوں سے مقابلہ کرنے آ سکتا ہے۔ لیکن کسی پارٹی کی پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے آزاد امیدوار کا جیتنا تقریباًناممکن ہوتا ہے۔صرف 1789 میں جارج واشنگٹن، جو کہ امریکا کے بانیوں میں سے تھا، آزاد حیثیت میں امریکا کا صدر بن سکا تھا۔ اس کے بعد کوئی بھی صدارتی امیدوار کسی پارٹی کی پشت پناہی کے بغیر امریکی صدر نہیں بن سکا۔ آج کل اگرچہ امریکی صدارتی مہم کے زور و شور میں کورونا وائرس کی آمد کی وجہ سے نسبتاً کمی آئی ہے، لیکن یہ وائرس کے معاملے کے کمزور ہوتے ہی دوبارہ زور پکڑ جائے گا۔ ڈیموکرٹس کی طرف سے جو بائیڈن اور ریپبلکنز کی طرف سے ٹرمپ امریکی صدر بننے کی دوڑ میں آمنے سامنے ہیں۔ جب اپنی اپنی پارٹیوں کے کنونشن میں ان دونوں کو حتمی امیدوار بنا دیا جائے گا، جو کہ اب صرف ایک formality رہ گئی ہے، تو تب یہ دونوں اپنے ساتھ نائب صدر کے امیدوار بھی نامزد کردیں گے۔ پھر وہ دونوں اپنی پارٹی کی طرف سے پورے ملک میں الیکشن مہم کا آغاز کریں گے۔ اگرچہ ٹرمپ نے یہ پہلے سے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ 2020 کی الیکشن مہم کے لئے موجودہ نائب صدر مائک پینس کو ہی نائب صدر کے امیدوار کے طور پر نامزد کرے گا۔
یہاں یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ امریکی صدر وسیع اختیارات کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس کی الیکشن مہم کا امریکی مقننہ، یعنی کانگریس کی کسی بھی الیکشن مہم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امریکی صدر کے پاس قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، کیونکہ صدر کا عہدہ خالصتاً ایک ایگزیکٹو پوسٹ ہے۔ یعنی اس کا کام صرف اور صرف ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جو کہ کانگریس کی طرف سے بن کر آتے ہیں. ان قوانین کی حدود میں وہ مکمّل طور پر خودمختار ہوتا ہے۔ اپنی کابینہ کے سیکرٹریز چننے میں اسے کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں پڑتی. بلکہ وہ چاہے تو کسی بھی ایرے غیرے کو چھ مہینے کے لیے اپنی کابینہ کے رکن کے طور پر نامزد کر سکتا ہے اور اگر اس سیکرٹری کو امریکی سینیٹ سے منظوری مل جائے، تو یہ عارضی نامزدگی مستقل تقرّری کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے، اور اگر صدر چاہے، تو وہ کسی سے پوچھے یا مشورہ کیے بغیر کابینہ کے کسی بھی رکن کو اپنی مرضی سے ہٹا سکتا ہے۔
اس معاملے میں صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے یکسر مختلف ہے، کہ پورے ملک کے ہر انتخابی حلقے میں الیکشن لڑنے کی بنا پر صدر کو پورے ملک کی قیادت کرنے کا ذاتی مینڈیٹ ملتا ہے، جبکہ اس کے برعکس پارلیمانی نظام میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار صرف اپنے انتخابی حلقے کی نمائندگی کرنے کا براہِ راست ذاتی مینڈیٹ لیتا ہے، اور اگر اس کی پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلے یا اتحاد بنا لے، تو تب وہ حکومت بنانے کے لئے کابینہ تشکیل دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اگر پارلیمانی نظام کے الیکشن میں ووٹوں کے ذریعے یا پھر الحاق کر کے واضح اکثریت حاصل نہ کی جا سکے، تو پھر حکومت ہی نہیں بن پاتی۔ جیسے کہ اسرائیل میں پچھلے سال تین بار الیکشن ہو چکے ہیں، اور واضح اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے بنجمن نیتن یاہو کو اب تیسری بار اپنے ہی سیاسی حریف بینی گینتس کے ساتھ حکومت بنانی پڑی ہے، جس میں پہلے دو سال نیتن یاہو اور اگلے دو سال گینتس وزیراعظم ہوگا. پارلیمانی نظام میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر اس میں حکومت بن بھی جائے، تو وہ اکثر و بیشتر اتحادیوں کی مرہون منّت ہوتی ہے. اور وزیراعظم کو کسی بھی وقت تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے برعکس صدارتی نظام میں صدر ایسے کسی بھی دباؤ سے محفوظ ہوتا ہے، اور اپنے دائرے میں مکمّل طور پر بااختیار ہوتا ہے۔
صدارتی نظام کے کچھ حامی یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ یہ پارلیمانی نظام کے مقابلے میں ابھرتی ہوئی صورتحالوں سے زیادہ تیزی سے نمٹ سکتا ہے ۔ ایک وزیر اعظم کو کوئی بھی اہم قدم اٹھانے یا پالیسی اپنانے کے لئے مقننہ کی حمایت برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اس کے مقابلے میں ایک صدر کے راستے میں ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی.
دوسری طرف صدارتی نظام کے ناقدین ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہوے یہ کہتے ہیں کہ اگر صدارت اور مقننہ کا اقتدار مختلف پارٹیوں کے زیر کنٹرول ہو جائے، تو یہ قانون اور فیصلہ سازی کو سست کرسکتا ہے۔
امریکی صدر کے سیکرٹریز اپنے اپنے اداروں کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ امریکی بحری، بری، فضائی اور میرین افواج امریکی ڈیفنس سیکرٹری کے مکمّل تابع ہوتی ہیں۔ امریکی صدر کے کہنے پر ڈیفنس سیکرٹری امریکی افواج کو دنیا میں کسی بھی جگہ بحری، بری، فضائی اور میرین افواج کے ذریعے آپریشنز کا آغاز یا اختتام کرنے کا حکم دیتا ہے. اسی طرح سیکرٹری آف سٹیٹ دنیا میں امریکی تعلقات، اتحادات اور تنازعات کی سفارتی سطح پر نگرانی کرتا ہے، جبکہ ٹریثری سیکرٹری ڈالر کے عالمی ریزیرو کرنسی کے سٹیٹس کو برقرار رکھتا ہے۔ اگر دنیا کے کسی ملک کے خلاف پابندیاں بھی لگنی ہوں، تو وہ ٹریثری سیکرٹری کے ذریعے منظور ہوتی ہیں۔
پارلیمانی نظام میں اگرچہ بادشاہ کے اختیارات محدود کر کے انھیں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں تقسیم کر کے، اختیارات کی علیحدگی کی کچھ نہ کچھ حد تک کوشش ضرور کی گئی تھی، لیکن صدارتی نظام میں انتظامیہ اور مقننہ کے الیکشن اور اختیارات ہی علیحدہ کر کے اس اختیارات کی علیحدگی کے تصوّر کو مزید آگے لے جایا گیا ہے۔
پاکستان کے عوام چونکہ زیادہ ترایک پارلیمنٹری جمہوریت کے زیر تسلّط رہے ہیں، اس لئے ہمیں امریکی صدر اور کانگریس کا تعلق مختلف نوعیت کا محسوس ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر کا قانون سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا، لیکن وہ قانون سازی کے عمل کو ایک حد تک ویٹو ضرور کرسکتا ہے. یعنی اگر صدر راضی نہیں ہے، تو پھر کانگریس میں قانون سازی کے لئے قانون سازوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ہی اس ویٹو کو اوور رائیڈ کر سکتی ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ امریکی صدر ریاست کا حاکم کل نہیں ہوتا، بلکہ اسے اپنے بہت سے معاملات چلانے کے لئے امریکی کانگریس پر انحصار کرنا پڑتا ہے. کانگریس دو ایوانوں پر مشتمل ہے. ایوان زیریں کو ایوان نمائندگان House of Representativesاور ایوان بالا کو سینیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے. امریکی آئین کے تحت قانون سازی کے معاملات ان دونوں میں بانٹے گئے ہیں.
ایوان زیریں یعنی ایوانِ نمائندگان سینیٹ کے مقابلے میں عام لوگوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اور اسے اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کی ضروریات کا تیزی سے جواب دے سکے۔ نمائندوں کے پاس صرف دو سال کی مدت ہوتی ہے، اور محصولات سے متعلق تمام قوانین کا آغاز بھی صرف اسی ایوان سے کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ چونکہ خود 50 ریاستوں کے اتحاد سے مل کہ بنا ہے، اس لئے ہاؤس میں ہر ریاست سے اس کی آبادی کے تناسب سے سیٹیں ہیں۔ کم آبادی والی ریاستیں جیسے کہ الاسکا ، ڈیلاوئر ، مونٹانا ، نارتھ ڈکوٹا ، ساؤتھ ڈکوٹا ، ورمونٹ اور وائومنگ کی ہاؤس میں صرف ایک ایک سیٹ ہی ہے، جبکہ امریکہ کی زیادہ آبادی والی ریاست ٹیکساس کی 36، جبکہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والی ریاست کیلی فورنیا کی ہاؤس میں 53 سیٹیں ہیں۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منتخب نمائندوں، یعنی سینیٹرز کے عہدے کی مدت چھ سال ہوتی ہے، اور یہ مدّت ہاؤس کے مقابلے میں تین گنا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ سینیٹ میں ہاؤس کی تیزی کے رجحان کے مقابلے میں نسبتاً ایک ٹھہراؤ آئے، اور ہاؤس کے برعکس سینیٹ میں قوانین کے طویل مدتی اثرات پر غور کیا جاسکے۔ سینیٹ میں کل سو ووٹنگ ممبر ہیں ، یعنی ہر ریاست کے لئے دو۔ ٹیکسوں میں اضافے کے لئے کوئی بھی تجویز صرف ہاؤس سے لائی جا سکتی ہے، جس کا سینیٹ کا جائزہ لیتی ہے اور منظوری دیتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف صرف سینیٹ کے پاس غیر ملکی معاہدوں اور امریکی صدر کی کابینہ اور عدالتی نامزدگیوں پر منظوری دینے کا اختیار ہے ، جس میں سپریم کورٹ کی تقرریاں بھی شامل ہیں۔ یعنی صدر کے پاس اپنی کابینہ اور وفاقی ججوں کی نامزدگی کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ سینیٹ کے پاس ان کی منظوری کا۔
جب بات امریکی صدر کے مواخذے پر آتی ہے، جیسے کہ 1868 میں اینڈریو جانسن، 1998 میں بل کلنٹن اور پچھلے سال 2019 میں صدر ٹرمپ کا معاملہ ہوا، تو اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہاؤس یعنی ایوان زیریں یہ طے کرتا ہے کہ آیا صدر کے خلاف الزامات عائد بھی کیے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہاؤس کی سادہ اکثریت ان کے حق میں ووٹ دے دے تو تب امریکی صدر کے مواخذے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ہاؤس کا کام صرف مواخذے کی منظوری دینا ہوتا ہے، جبکہ مواخذے کا پورا عمل، اس کی تفتیشی / عدالتی کاروائی سب سینیٹ میں انجام پاتے ہیں۔ سینیٹ کا ادارہ دراصل اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا الزامات کی بنا پر امریکی صدر کو اسکے عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ تاہم، یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اگر اس مواخذے کے عمل کے نتیجے میں سینیٹ میں ووٹوں کی "نمایاں اکثریت” صدر کو ہٹانے کے حق میں ہو جائے، جسے 100 ووٹوں میں سے 67 ووٹوں کی صورت میں لیا جاتا ہے۔
تقریباً دو صدیوں سے کچھ پہلے، 1787 کے موسم گرما میں امریکی سیاست دان، جن کو آج فاونڈنگ فادرز کے نام سے جانا جاتا ہے، نئی معرض وجود میں آنے والی ریاست کے آئین کی تشکیل کے لئے فلاڈلفیا کے شہر میں اکٹھے ہوے. امریکی سینیٹ کی ویب سائٹ پر ان کے بحث و مباحثے کی کہانی لکھی ہوئی ہے. فلاڈیلفیا میں آئینی کنونشن کے مندوبین نے سینیٹ میں مساوی نمائندگی اور ایوان نمائندگان میں متناسب نمائندگی قائم کی، اور اس کو "عظیم سمجھوتہ” یا "کنیکٹیکٹ سمجھوتہ” کا نام دیا گیا. کانگریس کی نمائندگی کے اس منصوبے کے ذریعے آئین کے مسودے کے متنازعہ ترین پہلو کو حل کیا گیا، کیونکہ اس سے پہلے بڑی آبادی والی ریاستوں کے مندوبین کا استدلال تھا کہ سینیٹ میں ہر ریاست کی نمائندگی ریاست کے سائز کے مطابق ہونی چاہئے۔ جبکہ چھوٹی ریاستوں کے مندوبین نے اس امر کا تقاضا کیا کہ کنفیڈریٹ نظام کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس کے پیچھے اکثریت کی حکمرانی کا خوف کارفرما تھا، اور یہی وجہ تھی کہ چھوٹی ریاستوں نے کانگریس میں مساوی نمائندگی کا مطالبہ کر دیا تھا. جبکہ کچھ مندوبین کی خواہش یہ تھی کہ بڑی اور چھوٹی ریاستوں کے مفادات کے مابین سمجھوتہ ہو جائے۔ 16 جولائی 1787 کو مندوبین نے ایک مخلوط نمائندگی کا منصوبہ پیش کیا جس میں سینیٹ میں ریاستوں کو مساوی ووٹ دیئے گئے اور ہاؤس میں ایک ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے۔ اسی طرح سینیٹ کی چھ سالہ مدت بھی ان آئین سازوں کے مابین ایک سمجھوتہ تھی، وہ جو ایک مضبوط اور آزاد سینیٹ کے خواہاں تھے اور وہ جن کو اس چیز کا خدشا تھا کہ ایوان بالا اتنا طاقتور اور عوام سے فاصلے پر نہ ہو جائے، کہ عوام اس کے ممکنہ ظلم و ستم کا شکار ہونے لگیں۔ عمومی طور پر، ہاؤس عام آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ سینیٹ بڑی ملکیت والوں کی۔
امریکی سینیٹ کا پریذائڈنگ آفیسر سینیٹ میں نظم و ضبط برقرار رکھنے، ممبروں کو بولنے کا موقع دینے، سینیٹ کے قواعد ، طریقوں اور نظیروں کی ترجمانی کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ سینیٹ کا پریذائیڈنگ آفیسر ہونا صرف ایک ذمہ داری تصوّر ہوتی ہے، کوئی عہدہ یا دفتر نہیں۔ ان تین میں سے کوئی بھی ایک عہدیدار پریذائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری انجام دے سکتا ہے۔ امریکی آئین میں نائب صدر کو سینٹ کی صدارت کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے، اور کسی قانون سازی کے بل میں دونوں اطراف کے ووٹ برابر ہونے کی صورت میں نائب صدر کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری صرف نائب صدر کے لئے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ کوئی بھی ایک منتخب سینیٹر یا چند مخصوص حالات میں امریکہ کے چیف جسٹس کو یہ ذمہ داری تفویض کی جا سکتی ہے۔ جیسے کہ حال ہی میں صدر ٹرمپ کے سینیٹ میں مواخذے میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جان روبرٹس نے اس پوری کاروائی کی صدارت کی۔ اس کے برعکس ہاؤس کے سپیکر کا باقاعدہ آئینی عہدہ ہوتا ہے، اور موجودہ سپیکر نینسی پلوسی کے ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے حالیہ تنازعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں. وفاقی حکومت میں جانشینی کی ترتیب میں صدر کے بعد نائب صدر اور اس کے بعد ایوان کا اسپیکر ہوتا ہے.
کانگریس کسی بھی شہری کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ کانگریس کے اس حکم کی عدم تعمیل کے نتیجے میں ایک سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اس کیس کی سماعت عدالتی فورم میں ہی کی جاتی ہے ، لیکن عدالت "کانگریس کی توہین” کے مرتکب افراد کو کافی سختی سے نمٹتی ہے۔
کانگریس کا زیادہ تر کام اس کی کمیٹیوں میں انجام پذیر ہوتا ہے۔ ہاؤس اور سینیٹ دونوں میں قائمہ، خصوصی، کانفرنس اور مشترکہ کمیٹیاں شامل ہیں۔ قائمہ کمیٹییں مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں. کانگریس میں طویل دورانیے سے موجود اراکین انہی کمیٹیوں کے ذریے اپنے اقتدار و اختیار کو تحفّظ فراہم کرتے ہیں۔ ہاؤس کی کلیدی کمیٹیوں میں بجٹ کمیٹی، محصولات اور ذرائع کی کمیٹی اور آرمڈ سروسز کمیٹی شامل ہیں، جبکہ سینیٹ میں تصرفات، خارجہ تعلقات اور عدلیہ کی کمیٹیاں شامل ہیں۔ کچھ کمیٹیاں دونوں ایوانوں میں موجود ہیں ، جیسے بجٹ، آرمڈ سروسز اور سابق فوجیوں کے امور کی کمیٹی۔ خصوصی کمیٹیاں عارضی ہوتی ہیں، جو کسی مخصوص معاملے کی تفتیش، تجزیہ یا تعین کرنے کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں۔ ہاؤس اور سینیٹ دونوں میں جب قانون سازی منظور کر لی جاتی ہے، تو ٹیب کانفرنس کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان کا کام قانون سازی میں استعمال ہونے والی زبان کو حتمی شکل دینے کا ہوتا ہیں۔ مشترکہ کمیٹیوں میں ہاؤس اور سینیٹ دونوں کے ممبران شامل ہوتے ہیں۔ہاؤس میں سینیٹ کے مقابلے میں قوانین بحث بدرجہ سخت ہیں. ہاؤس میں بحث مباحثے کا وقت محدود ہوتا ہے اور موضوعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں کہ جن میں بحث و مباحثہ ایجنڈا تک محدود ہوتا ہے۔ سینیٹ میں "filibuster” نامی حکمت عملی کی اجازت ہے۔ ایک بار جب کسی سینیٹر کو بولنے کا موقع فراہم کر دیا جاتا ہے، تو وہ کسی بھی موضوع پر جب تک چاہے، اور جتنی چاہے، بات کر سکتا ہے۔ اس دوران سینیٹ میں قانون سازی کی کوئی اور کاروائی نہیں کی جا سکتی.یہ فلی بسٹر ممکنہ قانون سازی کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جب تک کہ بولنے والے کو اپنی حمایت میں ووٹ ملنے کی امید نہ مل جائے۔ اس فلی بسٹر کی اجازت کی وجہ سے امریکی قانون سازی کی تاریخ میں کئی بار بہت ہی مضحکہ خیز صورت حالیں دیکھنے کو ملی ہیں. مثلاً ایک ایکٹ پر 2013 میں کاروائی کے دوران سینیٹر ٹیڈ کروز بغیر کوئی بریک لئے 21 گھنٹے تک تقریر کرتا رہا، جس میں ایک موقع پر ایک بچوں کی کتاب Green Eggs and Ham پڑھنا بھی شامل ہے۔
ایک تکنیکی نقطہ جس کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ امریکہ آئینی طور پے اپنے آپ کو ایک ریپبلک گردانتا ہے، ڈیموکریسی یعنی جمہوریت نہیں. اگرچہ اب یہ بات عام ہوگئی ہے کہ امریکی سیاستدانوں سمیت اکثر لوگ امریکی نظام حکومت کا حوالہ ایک جمہوریہ کے طور پر دیتے ہیں مگر یہ تکنیکی لحاظ سے صحیح نہیں۔ ایک خالص جمہوریت میں کوئی بھی قانون اکثریت کی مرضی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جبکہ ایک ریپبلک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کچھ چیک اور بیلنس ایسے رکھے جاتے ہیں کہ جن میں ترمیم یا تو بالکل بھی نہیں ہوسکتی، یا پھر ایسا کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ امریکی ‘بل آف رائٹس، جسے امریکی آئین کا بنیادی ڈھانچہ گردانہ جاتا ہے، اور جس میں صرف دو طریقوں میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ یا تو ریاستوں کی طرف سے ایک آئینی کنونشن کے ذریعہ، جو کہ امریکہ کا آئین لکھے جانے کے بعد کبھی استعمال نہیں ہوئی، یا پھر کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی کی اکثریت سے ترمیم پاس کرکہ، اور ان دونوں ہی معاملات میں ترمیم کی توثیق تبھی ہو پائے گی، کہ اگر امریکہ کی تین چوتھائی ریاستیں اسے منظور کر لیں. امریکہ کے بانیوں کی طرف سے آئیں کی ترمیم میں اتنے چیکس اور بیلنس متعارف کروانے کا مقصد اس وجہ سے بھی تھا کہ وہ خالص جمہوریت کو ناپسند کرتے تھے اور اسے ایک “mob rule” یعنی "ہجوم کی حکمرانی” یا پھر ایک مخصوص جملے“tyranny of the majority” یعنی "اکثریت کے ظلم” سے منسوب کرتے تھے.
امریکی سپریم کورٹ امریکہ کے چیف جسٹس اور اس کے آٹھ ساتھی ججوں پر مشتمل ہے۔ ہر جج کی مدّت ملازمت تاحیات ہوتی ہے، یعنی جب تک وہ مستعفی یا ریٹائر نہ ہوجائے ، یا مر نہ جائے، یا عہدے سے ہٹا نہ دیا جائے، تب تک وہ عدالت میں موجود رہے گا یا رہے گی۔ استدلال کیے گئے مقدمات پر فیصلہ کرنے میں ہر جج کا ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔ ججز کی اکثریت کے بل بوتے پر کسی بھی کیس کا فیصلہ ہوتا ہے، اور ججز کی اکثریت کا آزاد خیال یا قدامت پسند ہونے کا فیصلوں کی نوعیت پر گہرا اثر ہوتا ہے. جیسے کہ 1973 میں Roe vs Wade کے کیس میں آزاد خیال ججز کی اکثریت کے فیصلے نے پورے امریکہ میں خواتین کے لئے اسقاطِ حمل کروانا بہت آسان کر دیا. سپریم کورٹ سو موٹو نہیں لے سکتی، بلکہ اسے کیسز کو سننے کے لئے چند سال انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی کیس لوئر کورٹ اور اپیلز کورٹس سے ہوتا ہوا اس تک پہنچے. سپریم کورٹ کے فیصلوں کا امریکا کے کلچر پر بےپناہ اثر ہے. Brown vs Board of Education کے فیصلے کے نتیجے میں گورے اور کالے طالب علموں کی اسکولوں کی علیحدگی ختم کر دی گئی، اور Pentagon Papersکے فیصلے کے نتیجے میں نے یارک ٹائمز سمیت دیگر اخبارات کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ امریکی افواج کے ویت نام میں رول پر کھل کر لکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ امریکی افواج دراصل امریکی انتظامیہ کا ہی ایک حصّہ تصور ہوتی ہیں، لیکن ان کے دنیا میں امریکی طاقت کے پھیلاؤ اور استحکام میں کلیدی کردار ہونے کی بنا پر ان کا علیحدہ سے تذکرہ کرنا مناسب ہے. امریکہ کی فوجی قوتوں میں آرمی ، میرین کور ، نیوی ، ایئر فورس ، نئی قائم شدہ اسپیس فورس اور کوسٹ گارڈ شامل ہیں۔ امریکہ کا صدر مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہے اور محکمہ دفاع (Department of Defence) اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (Department of Homeland Security) کے ساتھ ملٹری پالیسی تشکیل دیتا ہے۔ امریکی افواج کا چین آف کمانڈ صدر (بطور کمانڈر انچیف) کے ذریعہ سیکریٹری دفاع سے ہوتا ہوا combatant کمانڈ کے کمانڈرز سے ہوتا ہوا افسروں، اور آخر کار تازہ ترین بھرتی شدہ فوجیوں پر جا کہ رکتا ہے۔ متحد ہ جنگی کمانڈ (Unified Combatants Command) امریکہ کی مسلح افواج کی ایک کمانڈ ہے جو کم از کم دو سروس برانچوں کی یونٹوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ جغرافیائی بنیادوں پر جس کو "ذمہ داری کے علاقے” (Areas of Responsibility) کے نام سے جانا جاتا ہے, یا پھر فنکشنل بنیادوں پر، جیسے اسپیشل آپریشنز، پاور پروجیکشن، یا ٹرانسپورٹ، پر تشکیل پاتی ہے.CENTCOM, EUCOM, INDOPACOM, NORTHCOM, SPACECOM اور SOCOM وغیرہUCC کے ڈھانچے کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔ اور اسی کے تحت ہی امریکی بحری بیڑے دنیا کے سمندروں میں گشت کرتے ہیں۔
اگر ان تمام مباحث کو مجتمع کر لیا جائے، تو سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کھڑا سیاسی طور پر مضبوط آئین، ایک بہت بڑی قومی معیشت اور اس سے ملحقہ مالیاتی منڈیاں، سازگار جغرافیائی پوزیشن، وسیع قدرتی وسائل، شیل آئل اور گیس کی مقامی پیداوار میں انقلابی پیشرفت، ایک بڑی آبادی اور اس میں متحرک سول سوسائٹی، اعلیٰ فی کس آمدنی، سائنسی اور تکنیکی جدت، دنیا بھر میں اتحاد کے نیٹ ورکس ، کرہ ارض پر اہم فوجی قابلیتیں ان سب کے بل بوتے پر امریکہ دنیا کی سپر پاور بن کر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ دوسری بڑی طاقتیں ان تمام درج کی گئی خوبیوں اور صلاحیتوں میں سے کسی ایک دو، یا پھر چند کی مالک ضرور ہیں، لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی ریاست ہائے متحدہ کی طرح یہ تمام کی تمام ایک ساتھ موجود نہیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ امریکی طاقت کا دنیا میں فالحال کوئی ثانی نہیں ہے، لیکن اس کا نظام بھی پارلیمانی نظامِ حکومت کی طرح بہرحال انسانی دماغ کی اختراع ہی ہے، اور ایک گہری فکر رکھنے والا دینِ اسلام کا علمبردار اس میں موجود اور بڑھتی ہوئی سٹرکچرل یعنی ساختی خامیایوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
ہر نیا آنے والا امریکی اپنے صدر اپنے پہلے سال میں مختلف شعبه جات میں 4000 کے قریب نئےعہدیدار معمور کرتا ہے، اور یہ ان سفارتکاروں، محکمے کے سربراہوں اور کابینہ کے ممبران سے ہٹ کر ہیں، کہ جن کی منظوری سینیٹ سے لی جاتی ہے. اتنی بڑے پیمانے پر محکماتی تبدیلی امریکی ایڈمنسٹریشن کو پہلے سال میں تقریباً مفلوج کردیتی ہے، جس کی وجہ سے ہم نے یہ دیکھا ہے کہ امریکی تاریخ میں کوئی بھی نیا صدر اپنے پہلے سال میں کوئی خاطر خواہ پالیسی نہ لا سکا، ماسواۓ اس کے کہ اسے کسی ہنگامی واقعے کی بنیاد پر ایک دم سے سیاسی کیپٹل حاصل ہو جائے، جیسے کہ بش کو 9/11کے بعد مل گیا تھا، کسی بھی امریکی صدر کی ہر اہم نوعیت کی پالیسی پر پیش رفت اس کے انتخاب کے دوسرے، تیسرے یا چوتھے سال میں جا کر ہی ہو سکی. چاہے صدر اوباما کی اوباما کیئر (Obamacare) ہو یا ایران ڈیل (JCPOA)، بش کی عراق کی جنگ ہو یا ٹرمپ کی USMCA۔
امریکی عدالتی نظام کے بارے میں ایک libertarian تھنک ٹینک CATOانسٹیٹیوٹ یہ کہتا ہے کہ مجرمانہ انصاف کے نظام کو جیوری کے نظریے کے تحت تشکیل دیا گیا تھا جبکہ آج امریکی عدالتوں میں صرف 10 فیصد مقدمات ٹرائل میں جاتے ہیں، جبکہ باقی 90 فیصد کیسز میں پراسیکیوشن ملزم کے ساتھ ڈیل کر کہ ایک نسبتاً کم سزا دینے کی پیش کش پر مک مکا کر دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں امریکی عدالتی نظام کے مجرمانہ انصاف کے نظام کا ایک بہت برا حصّہ بے وقعت ہو کر رہ جاتا ہے. جبکہ سزا یافتہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے نتیجے میں امریکہ کی آبادی کا کل ایک فیصد حصّہ آج بھی جیلوں میں بند ہے، جو کہ دنیا میں اب تک کا ایک ریکارڈ ہے اور معاشرے کے بگاڑ اور کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ کی آبادی کا 12 فیصد سیاہ فام النسل ہے، جبکہ اس کی جیلوں میں قیدیوں کا 37 فیصد سیاہ فاموں پر مشتمل ہے، جو کہ امریکہ کے طبقوں میں شدید معاشی اور نسلی تعصب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسلام کے نظام میں لوگوں کے معملات اتنے احسن طریقے سے چلے جا رہے ہوتے ہیں کہ ان میں آپس میں تنازعات سرمایادارآنہ نظام کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر آزادیوں کے حوالے سے کچھ معاملات پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے آج امریکی معاشرہ شدید اندرونی پھوٹ کا شکار ہے. معاشرے کا شہری اور آزاد خیال طبقہ ایک عورت کے جسم پر اس کی مرضی کو اٹل تصوّر کرتا ہے، اور یہ پرو چوائس طبقہ حمل کے آخری دن تک پیٹ میں موجود بچے کی جان لینے کو حق بجانب گردانتا ہے. اس کے دوسری جانب قدامت پسند طبقہ حمل کے پہلے دن سے ہی ایمبریو کے ضائع کرنے پر شدید احتجاج کرتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ امریکی اعلیٰ عدالتیں ان معاشرتی معاملات پر فیصلے ضرور صادر کر دیتی ہیں، جیسے کہ سپریم کورٹ نے 1973 میں Roe v Wade کے کیس میں اسقاط حمل کے حق میں فیصلہ سنایا، مگر اس کے نتیجے میں اس بحث پر اتفاق رائے ہونے کے بجائے الٹا نتیجہ نکلا، اور مخالف نظریات مزید مستحکم ہوتے گئے۔ اس فیصلے کے 47 سال بعد آج صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے، کہ کبھی ایک طرف پرو چوائس کی طرف سے مارچ ہوتے ہیں، تو دوسری طرف قدامت پسند ریاستیں اسقاط حمل کے پراسیس تک رسائی کو مشکل بنانا شروع کر دیتی ہیں، ایک طرف ناجائز بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، تو دوسری طرف اسقاط حمل کلینک پر حملے ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکی معاشرے میں دن بدن یہ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ امریکی سیاسی نظام اس کو حل کرنے، یا اس پر اتفاق راۓ بنانے میں ناکام ثابت ہوا ہے. بلکہ الٹا امریکی سیاسی پارٹیاں اور سیاسات دان ان تنازعات کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکانا شروع ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار کو مزید ہوا مل رہی ہے۔
امریکی معاشی نظام بہت زیادہ دولت پیدا کرنے کے باوجود، اس کی منصفانہ تقسیم کرنے سے یکسر قاصر ہے، جس کی وجہ سے فیڈرل ریزرو کی طرف سے احتیاط کے باوجود، ہر آنے والا مالی بحران، پچھلے سے زیادہ شدید نوعیت اختیار کر جاتا ہے. بحران کے نتیجے میں جب عوام سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے، تو وہ تبدیلی ہر بار امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے موافق نہیں ہوتی. کچھ تجزیہ نگار امریکی صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کو 2008 کے مالیاتی بحران کا براہ راست نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ٹرمپ کی طرح کے سیاستدان اقتدار میں آ کر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لئے معاشرتی، نسلی، صنفی اور معیشتی تقسیم کو مزید ہوا دیں، جس کے نتیجے میں معاشرے کے مخالف طبقات کی آپس میں نفرتیں بڑھتی جاتی ہے، اور یہ آخر کار ایک وقت کے بعد جا کر پورے نظام کی کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے اشارے آج ہمیں امریکہ میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
بنیادی صحت کی فراہمی کا فقدان امریکہ میں ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ 2010کےAffordable Care Act (ACA) نے صحت کی کوریج سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن ریاست ہائے متحدہ میں صحت کی انشورنس کے بغیر لوگوں کی تعداد 2017 میں 25.6 ملین سے بڑھ کر 2018 میں 27.5 ملین ہوگئی۔ یہ بنیادی طور پر اس وجہ سے ہے کہ امریکہ میں صحت کو صرف ایک کمرشل پروڈکٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نہ کہ ایک بنیادی ضرورت کے طور پر، جس کی بدولت بڑی ادویاتی کمپنیاں امریکی سیاسی نظام میں سرمایہ کاری کر کہ ایسی قانون سازی یقینی بناتی ہیں، کہ ان کے مقابلے میں حکومت کی طرف سے عوام کو صحت کی کوئی متبادل سہولیات نہ ملنا شروع ہوجائیں. امریکی مقنّنہ میں رشوت کو لابنگ Lobbyingکے نام سے جانا جاتا ہے، اور یہ بالکل جائز فعل ہے، اور یہ سرمایہ دار کو راستہ فراہم کرتا ہے کہ وہ قانون سازوں کے ذریعےساز باز کر کہ اپنے فائدے کے قوانین بنوا کر ہوشربا منافع خوری کر سکیں. گویا امریکہ کے سیاسی نظام نے کرپشن کے ایک اہم ذریعے کو ختم کرنے کی بجائے اسے قانونی بنا دیا ہے۔
امریکی بحری، بری، فضائی اور مرین افواج، کہنے کو تو دنیا کی طاقتور ترین تصوّر کی جاتی ہیں، لیکن ان کی طاقت کا فریب آج دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے، جب یہ افواج جذبہ ایمانی سے سرشار افغان مجاہدین کو دو دہائیوں تک لڑنے کے باوجود شکست دینے میں ناکام رہیں ، اور صورتِ حال یہ ہو گئی کہ امریکہ کو خود مذاکرات کی بھیک مانگنا پڑی تاکہ اس کی face savingہو سکے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہہ چند اسلام پسند اسے اسلام کے قریب تر سمجھنے کا تعلق ہے تو ان کے مطابق چونکہ خلیفہ کا کام بھی صرف قوانین کے نفاذ کا ہوتا ہے اور صدر کا بھی یہی کام ہوتا ہے، اس لئے اگر اس تک قانون ہی صرف اسلامی پہنچے، تو صدرخلیفہ کی طرح اس قانون کو نافذ کرنے کا پابند ہوگا. ان لوگوں کے ذہنی الجھاؤ میں مزید اضافہ اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے چند ابتدائی احیاء پسند مفکرین ، جیسے کہ علامہ اقبال ، جن سے یہ لوگ بہت حد تک اپنی سیاسی افکار حاصل کرتے ہیں، نے بھی اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamمیں اسی تصور کا ہی پرچار کیا ہے. اقبال کے مطابق، اگر امّہ کے منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ میں اس چیز کا پابند کر دیا جائے کہ وہ قانون سازی اسلام کے مطابق کریں گے، تو یہ دراصل اجتہاد کی ایک جدید صورت ہوگی. اور اسی اجتہاد کو منتخب حکمران کی انتظامیہ نافذ کرنے کی پابند ہوگی.چنانچہ یہ اسلام پسند پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق دے کر اس حق کو اسلام کے قوانین اخذ کرنے تک محدود کر دینے کو ہی اسلام کے نفاذ کے لئے کافی سمجھتے ہیں. موجودہ جمہوری نظام کے نفاذ کی وجہ سے ان کے لیے یہ تصور کرنا ہی محال ہے کہ اسلامی ریاست میں مجلسِ امت کا کام قانون سازی نہیں، بلکہ اس کا کردار حکمران کو مشورہ دینا اور اسلام کے مطابق حکمرانون کے محاسبے تک محدود ہوتاہے.
اور جہاں تک ترکی کے اردوگان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بات ہے تو ان کا صدارتی نظام کو پسند کرنا صرف اس وجہ سے ہے، کہ اگر اپنی پسند کے بندوں سے پارلیمنٹ کی تشکیل کی جا سکے تو اس کے ذریعے صدر اپنے دائرہ کار میں ایک بےتاج بادشاہ بن سکتا ہے. ایسا دور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایوب خان کی صدارت میں دیکھا تھا اور وہ دوبارا ایسے ہی دور کی واپسی چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً صدارتی نظام کے پارلیمانی نظام سے بہتر ہونے کا راگ الاپا جاتا ہے ۔
چاہے وہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے امریکی خارجہ پالیسی پر اثر ہو، یا تیل کی لابی کا امریکی سیاست میں کردار، یا امریکی دواسازی کی صنعت کی اپنے حق میں قانون سازی ہو، یا پھر وال سٹریٹ کے انویسٹمنٹ بنکوں کا بحران کا باعث ہونا، یا پھر ان کی بحران کے ادوار میں اپنے مفادات کا تحفّظ کرنے کے لئے کانگریس کا استعمال کرنے والی ہوشربا پینتری بازی ہوں، یہ سب معاملات اس امر کو واضح کر دیتے ہیں، کہ امریکہ کے قیام کا ابتدائی ویژن کوئی بھی ہو، لیکن آج امریکہ حقیقت میں سرمایہ داروں کی مرضی، سرمایہ داروں کےذریعے، سرمایہ داروں کی خاطر نافذ کرتا ہے. جبکہ اس میں عوام کی اکثریت ایک پے چیک سے لے کر اگلے پے چیک کی درمیانی جدوجہد میں ہی اپنی تمام زندگی صرف کر دیتی ہے۔ امریکہ کا صدارتی طرزِ حکمرانی اس تمام تر کرپشن اور ظلم کو روکنے سے قاصر ہے بلکہ کئی جگہوں پر اس میں معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔
آج امتِ مسلمہ کو حکمرانی کے نظام کے لیے برطانیہ کے پارلیمانی یا امریکہ کے صدارتی نظام کی طرف رجوع کرنے کی بجائے صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کردہ نظامِ خلافت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ اشرافیہ کے ہاتھوں نظام کے گروی ہونے کا خاتمہ کرتا ہے کیونکہ نظامِ خلافت میں قانون سازی کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی کیونکہ اس نظام میں محدود عقل رکھنے والے اوراپنے مفاد کو مدنظر رکھنے والے انسانوں کی خواہشات کی بجائےقوانین قرآن و سنت سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ امر کہ قانون اور جرم کو طے کرنے کا اختیار اعلیٰ انسان کے ہاتھ میں ہے ،نے دنیا کو ابتر بنا رکھا ہے۔ حکمرانی و اتھارٹی کی تقسیم اور اندازِ حکمرانی کا معاملہ اس بنیادی امر کے سامنے ایک ثانوی چیز ہے۔ دوسرے لفظوں میں خواہ پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی ریپبلک ،دونوں نظام اسمبلیوں یا ہاؤسز کے اقتدارِ اعلیٰ پر مبنی ہیں، جس کے نتیجے میں اشرافیہ اس قابل ہے کہ وہ قانون سازی کے تمام تر عمل اثر انداز ہو کراس سے اپنے مفاد پورا کرتی ہے۔ تاہم خلافت دنیا کے تمام نظام ہائے حکمرانی سے یکسر مختلف، ممتاز اوربالاتر نظام ہے کیونکہ اس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خلیفہ پابند ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کردہ قوانین کو نافذ کرے، یوں اشرافیہ کے کنٹرول کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ خلافت وہ نظامِ حکومت ہے کہ جس کے تحت امتِ مسلمہ ایک ہزار سال تک سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کےنقشے پر موجود رہی اور ان شاء اللہ امت دوبارا یہ مقام حاصل کرے گی۔
﴿وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ﴾
"اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کیجئے اور ان کی خواہشات کی پیروی کبھی نہ کیجئے گا اور ان سے خبردار رہئے کہ یہ کہیں آپ کو اُس میں سے کچھ کے بارے میں فتنے میں نہ ڈال دیں کہ جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے”(المائدہ 49)
ختم شد