5 اگست 2020، کو مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی حیثیت ختم کرکے اسے آئینی طور پر…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: خالد صلاح الدین
5 اگست 2020، کو مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی حیثیت ختم کرکے اسے آئینی طور پر متحدہ ہندوستان میں ضم ہوئے ایک سال گزر گیا۔ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی ایک باریک بین اور مشاہدہ کرنے والے مومن کے لئے ایک غور طلب زاویہ دیتی ہے کہ کیسے ایک مومن کے نزدیک ایک فرض (واجب) کا تصور اس کو درپیش مسائل کے حل تلاش کرنے کا باعث بنتا ہے، چاہےان مسائل کو حل کرنا بظاہرنا ممکن ہی کیوں نہ لگتا ہو ۔ اللہ سبحانہ وتعاٰلیٰ قرآن میں فرماتا ہے، لَا يُكَلِّفُ اللّـٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا "اللہ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا” ۔ (سورۃ البقرۃ 286) اور جہاد کے حکم کا نفاذ بھی لازماً ممکن ہے، ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے فرض قرار نہ دیتے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ حکم دیتا ہے کہ، وَاقْتُلُوْهُـمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْهُـمْ وَاَخْرِجُوْهُـمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ ۚ "اور انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔” (سورۃ البقرۃ 191) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری صلاحیتیں دشمنوں سے لڑنے میں صرف ہونی چاہئں، بالکل ویسے ہی جیسے ان کی صلاحتیں ہم سے لڑنے میں خرچ ہوتی ہیں اور ان کو اس جگہ سے نکالنے میں ،جہاں سے انھوں نے ہمیں نکالا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں۔ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قَاتِلُوا الَّـذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ "اے ایمان والو! اپنے نزدیک کے کافروں سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں، اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔”(سورۃ البقرۃ 123) اور رسولﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ إلاّ ذُلّوا ” جو قوم جہاد ترک کردیتی ہے وہ ذلیل و رسوا ہوجاتی ہے” (احمد) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِيَ اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لاَ يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلاَ عَدْلُ عَادِلٍ، وَالإِيمَانُ بِالأَقْدَار "اور جہاد ہمیشہ جاری رہے گا اس وقت سے جب سے اللہ نے مجھے نبی مبعوث کیا اس وقت تک جب تک میری امت کا آخری فرد دجال سے نہیں لڑلیتا ۔نہ کسی ظالم کا ظلم اور نہ کسی عادل کا عدل اس کو ختم کرسکتا ہے” (ابو داؤد)
یہ اور اس جیسے کئی دلائل ایک مومن کو واضح کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قانون نافذ ہو کر رہے گا۔ یہ اور دیگر کئی دلائل جس فکر کا تقاضا کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم لازماً نافذ ہونا چاہئے۔ یہ فکر ایک حل کی تلاش کی طلب اجاگر کرتی ہے۔لہٰذا حریت کیلئے جنگ اور اس کی تیاری لازم ہے۔ جنگ کو بطور حل سمجھنا جنگ میں فتح کے امکانات پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ چونکہ فتح یا شکست صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں ضرورت ہے کہ فتح کو ممکنہ نتیجہ کے طور پر مدِ نظر رکھیں۔ آئیے اس کشمیر کی آزادی کے حوالے سے موجود آپشنز کو اس فکر کے تناظر میں دیکھیں۔
چونکہ دونوں ممالک،پاکستان اور بھارت، ایٹمی قوت کے حامل ہیں لہٰذا جنگ روایتی طریقے سے ہی لڑی جائے گی، وگرنہ ایٹمی ہتھیار کے استعمال کی صورت میں دونوں ممالک کے لئے باہم تباہی ناگزیر ہوگی۔ اور اگر روایتی طریقے کو مدنظر رکھا جائے تو حقائق، کم ازکم اعداد و شمار کی بنیاد پر، پاکستان کے منافی ہیں جہاں بھارت کو تقریبا تمام روایتی زاویوں میں پاکستان پرتین گنا کی برتری حاصل ہے۔
البتہ جنگی محاذ کی کوئی فکس حدود نہیں ہوتیں، تو وہ کیا بات ہے جو پاکستان کو کشمیر میں کسی قسم کی عسکری کاروائی کرنےاور ساتھ افواجِ پاکستان کے ذریعے کشمیر میں اعلانِ جنگ کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ کشمیر کی120 لاکھ کی آبادی میں سے 90 لاکھ مسلمان ہیں، جن میں اکثریت مکمل طور پہ بھارت مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی جانب سے گوریلا جنگ ، چھاپہ مار کاروائی اور دھماکے اب ایک ممکنات میں سے ہیں جو بھارتی افواج کے لئے بھیانک خواب سے اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگر کشمیری مسلمانوں کو عسکری قوت فراہم کی جائے تو بھارت 10 لاکھ فوجی تعینات کرنے کے باوجود بھی ان کی جدوجہد آزادی کو کچلنے سے قاصر رہے گا ۔ آج تک، مقبوضہ کشمیری مسلمانوں نے "کشمیر بنے گا پاکستان” سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اب بھی وہ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کرتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں ہونے والی مقامی مزاہمت، جسے قابو کرنا مشکل تھا، اس کے باعث بھاری قیمت چکائی ہے۔ جب امریکہ ان علاقوں میں اپنے مکروہ عزائم کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام رہا تو بھارت کیونکر کشمیر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟
اگر بھارتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ کشمیر میں اپنی عسکری قوت بڑھانے میں کوشاں رہے گا۔ البتہ بھارت کے اندرونی حالات پاکستان کے مقابلے میں مستحکم نہیں۔ بھارت اس وقت داخلی سطح پر افراتفری کا شکار ہے۔ جہاں تقریبا 68 تنظیمیں موجود ہیں جنھیں دہشتگرد گردانا جاتا ہے۔ ان تحریکوں کی تعداد اور عزائم پر بحث کی جا سکتی ہے، لیکن ان کے وجود اور ان کے خلاف کی جانے والی عسکری کاروایوں کے بوجھ کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تو بھارت اپنی افواج کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل تو کرسکتا ہے لیکن بات یہاں عسکری دائرہ کار سے نکل کر سیاسی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس صورتحال میں افواج کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرنے کی بھارت کو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی، چاہے وہ ایک معمولی تنازع کی خاطر ہی کیوں نہ ہو۔ اگر بھارت اپنے اندرونی علاقوں سے جہاں Naxalite کی تحریک زوروں پر ہے ، وہاں سے اپنی افواج نکال کر کشمیر میں تعینات کرتا ہے، تو اس صورت میں Naxalite کی تحریک آزادی کو تقویت حاصل ہوگی جو موقع پا کر علیحدگی کا اعلان کر سکتی ہے۔ لہٰذا اب اس فیصلے کی وسیع اثرات ہیں جہاں یا تو علیحدگی پسند تحریکوں سے سیاسی سمجھوتہ کرنا پڑے گا یعنی انھیں سیاسی راستہ دینا پڑے گا جو بھارت کی پوزیشن کو کمزور کرے گا یا پھر افواج کی منتقلی کی عسکری آپشن کو چھوڑنا پڑے گا۔ یعنی یہ بھارت کے داخلی معاملات ہی ہیں جن میں وہ الجھا ہوا ہے۔ 20 کروڑ مسلمان، اس کے علاوہ ہیں جنہیں بی جےپی کی حکومت پہلے ہی دانستاً اجنبی بنا چکی ہے۔
اسی طرح خارجی طور پر بھی بھارت مختلف سرحدی تنازعات میں پھنسا ہوا ہے؛ جن میں چین کے ساتھ اس کا تنازع سرفہرست ہے۔ بھارت-چین سرحدوں پہ ایسے کئی علاقے پائے جاتے ہیں جہاں پچھلی کئی دھائیوں سے چین اور بھارت کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ حکمتِ عملی کے تحت یہاں تعینات کردہ افواج کو بھارت کہیں اورمنتقل نہیں کر سکتا۔ گلوان وادی میں ہونے والی حالیہ جھڑپیں امریکہ اور چین کے درمیان ہونے والی عالمی رسہ کشی کا ایک تسلسل تھی، اسی وجہ سے بھارتی سرحدوں پہ موجود علاقوں کو ضم کرنا چین کے لئے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی چین صرف سرحدوں تک محدود رہ کر تناؤ میں اضافہ کرنے کی بجائے بھارت کو کمزور کر کے اسے پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے۔
اس تنازعے کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ 13 جون 2020 کو نیپالی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر نیپال کا نیا نقشہ جاری کیا، جس میں جنوبی ہمسائے(بھارت) سے تعلق رکھنے والے علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا۔ بھارت نے اس اقدام کو ناقابل عمل قرار دیا اور کہا کہ ایسا کرنے سے اس سوچ کی نفی ہوئی ہے کہ سرحدی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ اب یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ یہ سب اس وقت ہوا جب چین اور بھارت گلوان وادی میں جھڑپوں میں ملوث تھے۔ یعنی بھارت اور چین کے درمیان عسکری چپقلش نے نیپال کو اپنی بھارت کے ساتھ سرحدوں پر نظرِ ثانی کرنے پہ آمادہ کیا۔ کیا بھارت یہ سوچ سکتا ہے کہ کشمیرمیں جنگ کی صورت میں کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں کر سکتا؟
اسی طرح سلیگاری پاس بھی ایک اہم متنازع شاہراہ ہے جو بھارت اور شمال مشرقی ریاستوں کے درمیان واقع ہے، جس کو عرف عام میں Chicken’s neck کہتے ہیں۔یہ مرغی کی گردن کی مانند ایک پتلی گزرگاہ ہے،جس طرح مرغی کی گردن دبوچ کر اس کی جان لی جا سکتی ہے اسی طرح اس علاقے کو دبوچ کر بھارت کا ایک بازو توڑا جا سکتا ہے۔ یہ مخصوص خطہ ڈوکلام پہاڑی کے ساتھ ہے۔2018 سے بھارت بھوٹان کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اس متنازعہ ڈوکلام علاقے میں مزید فوجی تعینات کرے۔ اگر چین اس خطے کو قابو کرلے تو سلیگاری پاس کی آمدورفت کو قابو کر کے "Seven sister states” یعنی بھارت کی سات ریاستوں میں موجود بھارتی افواج کی رسد کو روک کر وہ مقامی گروہوں کی پشت پناہی کرسکتاہے۔
اس تمام تناؤ میں اگر چین بھوٹان کو حفاظتی و معاشی مدد دینے کے بدلے انتہائی اقدام اٹھائے، ایسے میں کیابھوٹان بھارت کی طرف داری کرے گا یا دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹ جائے گا جس کے باعث سلیگاری پاس چینی حملے کی زد میں آ سکتا ہے؟
یہ وہ عملی مثالیں ہیں جہاں ایک تیسرے ملک نے اپنے علاقائی منصوبوں کیلئے چین – بھارت تنازعے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ اگر چین اور بھارت کا تنازعہ وسیع تر ہو جائےتو کیا اس کی وجہ سے مزیددیگر ممالک بھی فائدہ اٹھائیں گے؟ سیا سی تناظر میں اس بات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ جیسے جاپان اور جنوبی کوریا امریکہ کے ساتھ ہونے کے باوجود چین سے اپنے تعلقات بحال رکھے ہوئے ہیں کیونکہ امریکہ کی تاریخ بمشکل 200 سال پرانی ہے، جبکہ چین پچھلے 4 ہزار سال سے ان کا ہمسایہ رہا ہے۔
وانگ ینگفانگ، جو چین کی طرف سے اسلام آباد میں تعینات کردہ چینی پریس اہلکار ہیں، نے 11 جون 2020 کو ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ "بھارت نے خودساختہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور خطے میں مسلسل تناؤبڑھانے سے چین اور پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہےاور بھارت کا یہ قدم پاک-بھارت اور چین-بھارت تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنے گا” اور 4 دن بعد ہی انھوں نے اپنا یہ ٹویٹ واپس کر لیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چین پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر اُکسا رہا ہے تاکہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاسکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایبٹ آباد حملے کے بعد چین کی طرف سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ پاکستان پر حملہ چینی سرزمین پہ حملہ تصور کیا جائے گا۔ چین پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے مقابل ایک ممکنہ متوازن طاقت کے طور پر دیکھتا ہے۔لہٰذا اس ٹویٹ کے ذریعے چین کیا تجویز کر رہا ہے؟ 1962 کی جنگ کے دوران بھی، چینی سفیر نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کر کے پوچھا کہ وہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر کشمیر کیوں حاصل نہیں کر لیتے۔ اس کے ممکنات دلچسپ اور زورآور ہیں۔
سیاسی تجزیے کا حقیقی فائدہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر وہ پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے میں سود مند ہوں۔اس تمام سیاسی منظر کے پیشِ نظر، اگر پاکستان کشمیر میں جنگ کا اعلان کرتا ہے تو بھارت کو جوابی اقدامات میں مندرجہ بالا تمام صورتحال کو مدنظر رکھنا پڑے گا یعنی بھارت ان سب مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود بھی مزید اس چیلنج سے کیسے نمٹے گا؟ چین اور بھارت کا تنازع محض سرحد تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ ساز باز ہے، جو پورے خطے کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ممکنہ طور پر چین اور بھارت کی محدود جھڑپوں کے دوران اگر پاکستان کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو یہ بھارت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ چین نے 1962 میں بھی بھارت سے جنگ کا آغاز امریکہ اور کیوبا کے درمیان ہونے والے میزائل تنازعات کے دوران کیا تھا۔ اس وقت کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق امریکہ اور بھارت پاکستان کے جنگ میں ملوث ہونے کے خطرے کے باعث کسی قدر ڈرے ہوئے تھے۔ اس وقت کے بھارت میں تعینات امریکی سفیر نے ایک بیان میں اقرار کیا کہ، "چین اور پاکستان کے مشترکہ حملے کے پیشِ نظر بھارت کی شکست ، انتشار اور ٹوٹ جانا، یہ سب ممکنات میرے ذہن پر سوار تھے”۔ آج چین پہلے سے زیادہ مضبوط اور امریکہ پہلے کے مقابلے میں نہ صرف کمزور بلکہ مزید الجھا ہوا بھی ہے۔
اس تمام تجزیے سے جو سوال ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ، جنگ کی صورت میں بھارت کی کیا پالیسی ہے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ بھارت کی کوئی پالیسی نہیں سوائے وہ جس کی امریکہ نشاندہی کرے۔ اور امریکہ ایک عملی پالیسی دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ ٹرمپ کے لئے الیکشن کا سال ہے، اور اسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ معیشت، جسے امریکہ میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، بری طرح متاثر ہے۔ اور ٹرمپ سیاہ فام تحریک کے متحرک ہونے کے باعث پھر سے قومی سلامتی کا نام لیکر اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آیا ہے۔ لہٰذا وہی گھسے پٹے سیاسی اور سفارتی مدد کے وعدوں کے سوا امریکہ مزید کیا کرسکتا ہے؟ جب روس نے کریمیا کو ضم کیا، تو امریکہ نے محض کھڑے ہوکر دیکھنے، اور کچھ پابندیوں کے اطلاق کے سوا کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ یہ علاقہ امریکہ کے لئے اہمیت کا حامل نہ تھا۔ تو کشمیر اور چین کے ساتھ موجود کشیدگی میں امریکہ کو کسی قسم کی دلچسپی ہو سکتی ہے؟ جب امریکہ میں سیاہ فاموں کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تو کیا ہزاروں میل دور گندمی رنگت کے حامل افراد کی زندگی ان کے لئے کسی طورپر اہمیت کی حامل ہوگی؟
حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ چھیڑدیناحقیقت میں ممکن ہے، اور ہماری خائن عسکری و سیاسی قیادت اس پر آمادہ نہیں۔ اوپر کی جانے والی باتوں کا مخاطب وہ لوگ ہیں جو اسلام کو بطورِ حل تسلیم کرتے ہیں، اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جبکہ موجودہ قیادت سوچنے سمجھنے سے اتنی قاصر ہے،چاہے اسلامی یا کسی بھی اور بنیادپر،کہ وہ ایک محدود جنگ تک کے بارے میں بھی نہیں سوچتے۔ آج کشمیر پر صرف ایک محدود نوعیت کی جنگ بھی ، حتیٰ کہ اگر قومیت کے تنگ نظر پہلو سے بھی دیکھا جائے تو بھی،موجودہ حکومت کیلئے کئی مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ سب سے پہلے، اس سے افواج کے عزائم کو بلند کرنے میں مدد فراہم ہو گی۔ دوئم، موجودہ سیاسی خلاء بھی اسکے ذریعے پُر ہو گا کہ جو کوئی بھی کشمیر میں جنگ کے خلاف ہو گا، غدار قرار دیا جائے گا۔ سوئم، یہ معیشت کا پہیہ چلانے میں کارگر ثابت ہوگا کیونکہ یہ بات اچھی طرح جانی جاتی ہے کہ اقتصادی تنزلی کا بہترین حل جنگ ہے۔ لیکن موجودہ حکمران آزادانہ رائے قائم کرنے اور ایسی سوچ پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی پالیسی وہی ہے جو انہیں اپنے بیرونی آقاؤں سے موصول ہوتی ہے، جو وہ ذاتی مفاد کی خاطر من و عن نافذ کرتے ہیں۔ انہوں نے جنگ کو نہ صرف خود پر بلکہ کشمیری مجاہدین کے لئے بھی ممنوع قرار دے دیا ہے۔ استعمار کے حکم کے مطابق جو بھی کشمیر میں جہاد کا علم بلند کریگا، اسے یہ دہشتگرد قرار دے کر الٹا اسے ہی گرفتار کرلیتے ہیں اور یوں یہ ہندو ریاست کے تحفظ کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔
کشمیر کا واحد حل جہاد ہے، اور یہ خائن قیادت اسے قائم کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتی جو اپنے مسائل کا حل ان کفریہ افکار سے لیتی ہے جو ان مسائل کی وجہ ہیں۔ یہ صرف نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہونے والی خلافت ہی ہوگی جو اسلام کے نفاذ کے ساتھ مخلص ہوگی اور جسے امت کو درپیش مسائل کی فکر ہوگی، جو نہ صرف کشمیر کو آزاد کرائے گی بلکہ تمام مسلمانوں کو اس کفریہ نظام سے نجات دلائے گی۔
ختم شد