بھارت کا S-400 کا حصول- برصغیر میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کی ایک ناکام کوشش
بسم الله الرحمن الرحيم
بھارت کا S-400 کا حصول- برصغیر میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کی ایک ناکام کوشش
تحریر: عبدالمجید بھٹی
خبر:
چین سے سرحدی تصادم کے بعد، بھارت کی جانب سے روس سے درخواست کی گئی ہے کہ S-400 ائیر ڈیفنس سسٹم کی فوری ترسیل کی جائے۔ روس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کی جانب سے بنیادی ساز و سامان جیسے میزائل اور بم وغیرہ بھارت کے استعمال کے لئے جلد مہیا کیے جائیں گے۔(1 ) جبکہ دیگر ساز و سامان اگلے سال تک مہیا کر دیاجائے گا اور یہ گمان ہے کہ S-400 نظام 2021 ءکے آخر تک اپنی پوری عملی صلاحیت پر پہنچ جائے گا ۔(2 ) بھارتی فوجی افسران کا ماننا ہے کہS-400 کے حصول سے نہ صرف چینی جارحیت کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ پاکستان پر بھارت کو فضائی برتری بھی دے گا۔ چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم بھارت کے لئے ہر لحاظ سے خوش آئند ثابت ہوگا۔
تبصرہ:
Clausewitz نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ جنگ دراصل سیاسی اہداف ہی کے حصول کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ اس بات کا رجحان موجود ہے کہ فوجی افسران عسکری منصوبوں پہ اتنی توجہ دیں کہ سیاسی مقاصد نظرانداز ہوجائیں۔ S-400 کا معاملہ بھی اس کی ایک مثال ہوسکتا ہے۔
S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم سب سے پہلے روس نے 2007 میں متعارف کرایا، جو کہ اس سے پرانے S-300 سسٹم کی جدید شکل ہے۔S-400 امریکی THAAD اور PAC-3 ایئر ڈیفنس سسٹم کے مدِ مقابل سمجھا جاتا ہے اور کئی لحاظ سے امریکی ٹیکنالوجی سے بہتر ہے۔ 2017 میں دی-اکانومسٹ نے S-400 کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اسے بہترین ایئر ڈیفنس سسٹم قرار دیا ۔(3) ممکنہ طور پر کئی ممالکS-400 خریدنے کی کوششیں کر رہےہیں۔ Kremlin نے دعوٰی کیا ہے کہ 2021 میں S-500 منصوبے کا آغاز کیا جائے گا جو زمین سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے کی مہارت رکھتا ہوگا۔ یعنیS-400 میں مزید جدت لائی جائے گی، جو امریکی دفاعی نظام کے لئے مزید تشویش کا باعث بنے گا۔
S-400 سسٹم مختلف اجزا پر مشتمل ہے، جس میں میزائل، لانچر، انٹرسیپٹر، اور رڈار شامل ہیں، جو فضائی دفاع کو مرحلہ وار تقویت فراہم کرتے ہیں۔ روس اور چین، دونوںS-400 کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، چونکہ دونوں ممالک کا دفاعی نظام انتہائی جدت پر مبنی ہے، لہٰذاS-400 کا حصول سونے پہ سہاگہ ثابت ہوگا۔ (4) جبکہ ترکی اور بھارت موجودہ فضائی دفائی نظاموں کے ساتھ محدود انضمام کے باعث S-400 کے بھرپور فوائد سے محروم رہیں گے۔
بھارت 5 عددS-400 بیٹریوں کے حصول کے لئے سرکردہ ہے، جن میں سے دو کی تنصیب پاکستانی سرحدوں کے نزدیک، جبکہ بقایا تین چین کی سرحدوں کے نزدیک نصب کی جائیں گی۔ اور اس سب پر 5.2 ارب امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی۔ چین، جو کہ اپنے جدید فضائی نظام کے ساتھ، S-400 ٹیکنالوجی کا حامل ہے، بھارت کے ان اقدام سے زیادہ متاثر نہ ہوگا۔ دیگر جنگی میدان جیسے زمینی ، فضائی ، یا خلائی سطح میں چین کو واضح برتری بھی حاصل ہے۔ مزید برآں، چین کی قیادت کی مرکزیت، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس C4i) ) میں مہارت بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت کی زیادہ تر اہم ٹیکنالوجی یا تو روسی ساختہ ہے، یا پھر اس کو پیپل لبریشن آرمی (PLA) با آسانی اپنا ہدف بنا سکتی ہے۔
بھارت کی فوج چین کے مقابلے میں کافی کمزور ہے، جس کی بنیادی وجہ بھارت کا روسی عسکری ٹیکنالوجی سے امریکی عسکری ٹیکنالوجی پر منتقلی اور ان کے درمیان مطابقت نہ ہونا ہے ۔( 5 ) اس پیچیدگی میں مزید اضافہ S-400 کے حصول اور فرانسیسی Rafael طیاروں کے ذریعے اپنے تیزی سے فرسودہ ہوتے طیاروں کو تبدیل کرنے کا بھارتی فیصلہ ہے ، لیکن ٹیکنالوجی میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھارت کے دفاعی اور جارحانہ نظم کو کافی حد تک غیر مؤثر بنادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی امریکا کے وضع کردہ چہار ملکی (جاپان، امریکا، آسٹریلیا، اور بھارت) دفاعی پلان،جو بحر ہند اور ایشیاء پیسیفک کے علاقے پر محیط ہے، کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ امریکا جو بھارت کے S-400 کے حصول سے قدرے نالاں ہے، کئی موقعوں پر بھارت کو پابندیوں جیسے سنگین نتائج کی دھمکی دے چکا ہے۔
علاوہ ازیں، چین اپنے زیرِ اثر ریاستوں میں جہاں بھارتی اثرورسوخ موجود تھا، بھارت کو وہاں بھی گزند پہنچانے میں کوشاں ہے۔ بھارت اور چین کے اس تنازعے کے نتیجے میں نیپال نے بھی اپنی فوجیں اپنی بھارتی سرحد پر تعینات کر دی ہیں۔ دوسری جانب بنگلادیش 2005 سے چین کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ حال ہی میں چین کی جانب سے بنگلادیش سے آنے والی 97٪ بنگلادیشی مصنوعات پر سے تجارتی ٹیکس ہٹا دیا گیا ہے۔(6 ) چین ،پاکستان اور سری لنکا میں بندرگاہیں چلا رہا ہے اور کاکس بازار میں ایک بحری آبدوز کےاڈے کے قیام کا بھی اہتمام کررہا ہے۔ ان کے باعث چین اپنی بحری نقل و حرکت کو مزید متحرک بنا سکے گا اور بھارتی بحری عزائم کیلئے رکاوٹ کھڑی کر سکے گا۔ ان سب حقائق کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ S-400 کا حصول بھارت کو چین سے لداخ پر ہونے والی حالیہ یا مستقبل میں ہونے والی عسکری جھڑپوں میں خاطر خواہ نتائج اخد کرنے میں کوئی مدددے گا۔
البتہ S-400 کا حصول پاکستان کے خلاف بھارت کو ضرور فضائی برتری دلوا سکتا ہے لیکن باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کوS-400 بیٹریوں کا پاکستان کے خلاف مکمل فائدہ اٹھانے کیلئے محنت کرنی پڑےگی۔ اگر ان بیٹریوں کو LOC کے نزدیک نصب کیا جاتا ہے تو بھارت کو پاکستان کے خلاف مزید 64 اہداف 300-400 کلومیٹر تک حاصل ہوتے ہیں. البتہ اونچائی اور پہاڑی سلسلے کے باعث رڈار اور دیگر سنسر کے متاثر ہونے کے باعث ان بیٹریوں کی عملی افادیت میں کمی واقع ہوگی، ساتھ ہی ساتھ پاکستانی میزائل جیسا کہ غوری، شاہین -1A غزنوی، ابدالی، CM-400 AKG، اور ڈرون طیارے بھی ان کو آرام سے ہدف بنا سکتے ہیں۔ پاکستان MIRV ابابیل سٹرائک پیکج کے ذریعے بھی S-400 کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی فضائیہ سے بچانے کے لئے لازم ہے کہ بھارت ان بیٹریوں کو پاکستانی سرحد سے دور نصب کرے جو پاک فضائیہ پر خطرے کو کم کر دے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کو اگر S-400 کی تنصیبات کی پیشگی اطلاع مل جائے تو براہِ راست کمانڈو خفیہ آپریشن کے تحت بھی ان بیٹریوں کو ناکارہ بنایا جاسکتا ہے۔
اگر پاکستان نے کشمیر کو آزاد کروانے کی کوشش کی تو یہ S-400 بھارت کو کسی قسم کا فائدہ پہنچانے سے قاصر ہیں۔ جہاں تک کشمیری عوام کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی بھارتی تسلط سےتنگ اور بیزار ہیں اور ان کے خلاف پاکستانی افواج کا ساتھ دینے پہ تیار ہوں گے۔ کشمیر کے معاملے میں 1971 والی بازگشت کو نہیں دہرایا جائے گا، جہاں بنگالی عوام کو اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مداخلت کر کے پاکستان کو کاٹ دیا تھا۔
عسکری قیادت اکثر جنگی ماحول جیسے اسلحہ جات کا میدانِ جنگ میں استعمال اور اس کے متوقع نتائج میں الجھ کر معاملات کی بڑی تصویر کو نظر انداز کردیتی ہے۔ لہٰذا یہ اسٹریٹیجک دوراندیشی رکھنے والے سیاست دانوں کا ہی کام ہے کہ بیشتر فوجی طاقت کے استعمال کے بغیر کامیاب سیاسی اہداف کا تعین کریں۔ اس تناظر میں یہی وقت ہے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا جائے۔ بھارت ابھی تین عسکری محاذوں پر الجھا ہوا ہے جن میں، نیپال، پاکستان، اور چین شامل ہیں۔ بھارت کے زیر اثر ریاستیں اس کو تقویت پہنچانے کی بجائے وبال بنی ہوئی ہیں، جبکہ اسکی عسکری طاقت بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزرنے کے باعث کمزور پڑی ہوئی ہے۔ اس سب صورتحال میں اگر 20 سے زائد علیحدگی پسند تحریکیں اور 20 کروڑ بھارتی مسلمان ،جو مظالم سے نجات کی راہ تک رہے ہیں، شامل کیے جائیں تو داخلی عدم استحکام کا امکان انتہائی زیادہ ہے۔اس سب میں S-400 کا حصول بھارت کو خاطر خواہ نتائج کی فراہمی میں کوئی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اگر پاکستان عقل مندی سے اپنی چال چلے اور اپنے مہروں کو احسن انداز میں ترتیب دے تو نہ صرف کشمیر کے الحاق کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ علیحدگی پسند تحریکوں کے ذریعہ بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا کرآنے والے مستقبل کیلئے برصغیر کا نقشہ بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کیلئے لکھا گیا
منجانب: عبدالمجید بھٹی
حوالہ جات:
[1,2] The Print, (2020). “Russia to deliver S-400 by 2021-end, but will supply missiles and bombs amid LAC tensions”. [online] The Print. Available at: https://theprint.in/defence/russia-to-deliver-s-400-by-2021-end-but-will-supply-missiles-and-bombs-amid-lac-tensions/452285/ [Accessed 07 Jul. 2020].
[3] The Economist, (2017). “Turkey and Russia cosy up over missiles”. [online] The Economist. Available at: https://www.economist.com/europe/2017/05/04/turkey-and-russia-cosy-up-over-missiles [Accessed 07 Jul. 2020].
[4] Stratfor (2019). “Why the S-400 Missile is Highly Effective — If Used Correctly”. [online] Stratfor. Available at: https://worldview.stratfor.com/article/why-s-400-s400-missile-long-range-turkey-russia-syria-effective [Accessed 07 Jul. 2020].
[5] The Business Recorder, (2018). “The US is trying to boost its military ties with India, but Russian weapons are getting in the way”. [online] The Business Recorder. Available at: https://www.businessinsider.com/russian-weapons-causing-problems-for-us-india-military-ties-2018-6 [Accessed 07 Jul. 2020].
[6] The Economic Times, (2020). “China wooes Bangladesh, provides tariff exemption for 97% of exports from Dhaka”. [online] The Economic Times. Available at: https://economictimes.indiatimes.com/news/defence/nepal-on-its-side-china-now-woos-bangladesh/articleshow/76477205.cms?from=mdr [Accessed 07 Jul. 2020].
ختم شد