اسلام نے نہ صرف جہاد کو فرض قرار دیا ،بلکہ جہاد کی خواہش کو اس قدر مضبوطی سے تشکیل دیا ہےکہ…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
اسلام نے نہ صرف جہاد کو فرض قرار دیا ،بلکہ جہاد کی خواہش کو اس قدر مضبوطی سے تشکیل دیا ہےکہ اس نے تیرہ صدیوں تک مسلم امت کو دیگرتمام اقوام سے ممتاز کردیا۔ جہاد کے حکم نے امت مسلمہ کو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو شکست دینے کے لئے دانستاًبڑے نقصانات برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ، مسلمانوں کی مسلح افواج نے اپنے سے خاصی بڑی طاقتوں کو زیر کیا جو فاسد عقائد ، اپنے علاقے کے دفاع یا نسلی بالادستی کی خاطرلڑرہی تھیں۔ اسلام کے غلبے کی ذمہ داری کو پوراکرنے کے لئے مسلم مسلح افواج نے عملی طور پر اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا۔ اس طرح لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور آج دنیا کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی ،مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والی امت جہاد کے اسی حکم کی تعمیل کا نتیجہ ہے۔
1924 عیسوی میں مسلمانوں کی خلافت کہ دعوت و جہاد جس کی خارجہ پالیسی کی بنیا دہوا کرتی تھی، کی تباہی کے بعد بھی امت کے اندر جہاد سے محبت مسلمانوں کے دشمنوں کو آج بھی خوفزدہ کرتی ہے۔ سریبرینیکا Serbrenicaقتلِ عام کی 25 ویں سالگرہ اس کی ایک مثال ہے، جب 11 جولائی 1995 کو اقوام متحدہ کے ڈچ فوجیوں نے سریبرینیکا قصبے کو بلاحفاظت چھوڑدیا ،تو گیارہ دن کے عرصے میں سربوں نے تقریبا 8000 بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا، اس صورتِ حال کے پیشِ نظربرطانیہ کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اقوام متحدہ کی کمانڈ کے تحت موجود مسلمان فوجی سربوں سےلڑ نے کے لئے صفیں توڑ دیں گے۔یہ جہادسے محبت ہی تھی کہ جس نے سوویت روس کو افغانستان میں گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کیا تھا ،اور اب اس کے بعد امریکہ بھی اپنی ساکھ کوبچانے کے لیے معاہدے کی درخواست کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں میں جہاد کی محبت ہندو ریاست کو خوف زدہ کیے ہوئےہے ، اوراسے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلینےکے باوجود آج تک شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
موجودہ مسلم حکمران مسلح افواج کے اندرجہاد سے محبت کو پروان چڑھانے کی بجائے ، مغربی طاقتوں اور ان کے ہندو ریاست اور یہودی وجود جیسے اتحادیوں کے ایما پر اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں جہاد کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کی بات ہے ، تووہ پاکستان کی مسلح افواج میں موجود مسلمانوں میں موجودجنگ لڑنے کی شدید خواہش کی حوصلہ شکنی کے لیے تیزی سے سرگرم عمل ہیں جو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے لڑنا چاہتے ہیں۔ مسلمان افسران اور فوجیوں کے اندرکشمیر میں لڑنے اور اس آزاد کروانے کے لئے جوش و خروش کوبڑھانے کی بجائے ، وہ دشمن سے لڑنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ وہ یا تو دشمن کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجود گی یا ہماری معیشت کی کمزوری کا بہانہ بنا کر اس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ مسلمانوں کے جابرحکمران اُن عالی شان مسلمانوں کو "دہشت گرد” قرار دے کر ان کی ملامت کرتے ہیں جو کسی بھی جگہ کفار کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں۔ تاہم تمام استعماری منصوبوں کی طرح ، جہاد کو دبانے کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگی کیونکہ امت اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلی ﷺ سے مستقل وابستگی رکھتی ہے اور اس کے اندر اچھائی اس کی مسلح افواج سمیت اس کے جسم کے ہر حصے میں موجود ہے۔
وہ فوجی افسر جو اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے رسول ﷺ کےساتھ وفادار ہے اسے اپنے دل و دماغ میں یہ طے کرنا ہوگا کہ اسلام نے جہاد کو بطورِ فرض مقرر کیا ہے، جسے نظراندازکرنا اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے ، جب کہ اس فرض کو ادا کرنااجر ِعظیم کا باعث ہے۔ آئیے اس پر غور کریں کہ قرآن مجید میں جہاد کے متعلق کیا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ”قتال تم پر فرض کیا گیا ہے اور تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور یہ تمہارے لیے اچھی ہو۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں پسند ہو اور وہ تمہارے لیے بُری ہو۔اللہ سبحانہ وتعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ "(البقرہ: 216)۔ اِس مقدس آیت میں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اُن مسلمانوں کے لئے جہاد فرض کر دیا ہے کہ جو اسلام کے خلاف سرکشی کرنے والے دشمن کے شر کے خلاف جہاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی اسلام تسلیم کرتا ہے کہ لڑائی ایسی چیز ہے جو نفوس میں ہچکچاہٹ پیدا کرتی ہے اور اللہ نے اس ہچکچاہٹ کومؤثر انداز سے حل کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ، ﴿ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُم﴾ “اگرچہ تم اسے ناپسند کرتے ہو” جس کا مطلب ہے کہ لڑائی مشکل ہے اور دلوں پر بھاری ہے۔ درحقیقت لڑائی ویسی ہی ہے جسطرح یہ آیت بیان کرتی ہے۔ لڑائی کا مطلب ہے زخموں کا سامنا کرنا ،جان کی قربانی ، دشمنوں کے خلاف جدوجہد اور سفر کی مشقت و صعوبتیں ۔ لڑائی کبھی سیاچن جیسی شدید سردی کو براشت کرنے کا تقاضا کرتی ہے اورکبھی صحرائے تھر کی شدید گرمی کا سامنا کرنے کا ۔ پھراللہ سبحانہ وتعالی نےفرمایا ، ﴿وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُم﴾ “اور یہ ہوسکتا ہے کہ تم کسی ایسی چیز کو ناپسند کرو جو تمہارے لیے اچھی ہے” یعنی لڑائی کے بعد فتح اور دشمن پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سنت میں جہاد کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا،مسلم فوجی افسران اس بارے میں غور کریں ۔ رسول اللہﷺ کی سنت میں جہاد کی اہمیت نہایت واضح ہے۔ صحیح میں مذکور ہے ، «مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِالْغَزْوِ،مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة» "جو شخص مرا لیکن نہ تو کبھی اس نے (اللہ کی راہ میں) لڑائی کی، اور نہ ہی خلوص سے لڑنے کے بارے میں سوچا ،تو وہ جاہلیت کی موت مرا(یعنی اسلام سے پہلے دَور کی موت)”۔فتح ِمکہ کے دن رسول اللہ ﷺنے فرمایا ، «لَاهِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلكِنه جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَفِرُ »فتحِ (مکہ)کے بعد (مدینہ کی طرف)کوئی ہجرت نہیں ، اب صرف جہاد اور اچھی نیت ہے، پس اگر تم سے جہاد کے لیے نکلنے کا کہا جائے تو نکل پڑو(بخاری)۔ عظیم محدث زُ ہری کہتےہیں کہ "ہر شخص کےلیے جہادکرنا ضروری ہے ، خواہ وہ درحقیقت لڑائی میں شامل ہو یا پیچھے رہ جائے۔ جو پیچھے رہ جائے اُسے حمایت کرنی چاہیئے ، اگر حمایت مہیا کر دی گئی ہو؛ تو اُسے امداد فراہم کرنی چاہیئے ، اگر امداد کی ضرورت ہو؛اور اگر اسے حکم دیا جائےتو اسے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اور اگر اسکی ضرورت نہ ہو تو وہ پیچھے رہے”۔ دراصل ، سنت مسلح افواج کے مسلمانوں کو اس شےکی طرف بلاتی ہے کہ جس سے محبت کی جانی چاہئے ،یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا ، شہادت یا فتح کے حصول کی پوری کوشش کرنا۔ رسولﷺنے فرمایا «ما أحد يدخل الجنة يحب أن يرجع إلى الدنيا وله ما على الأرض من شىء، إلا الشهيد، يتمنى أن يرجع إلى الدنيا فيقتل عشر مرات، لما يرى من الكاة »” کہ جنت میں داخل ہو جانے کے بعد کوئی بھی دنیا میں واپس جانے کوپسند نہیں کرے گا سوائے مجاہد کے جواللہ سبحانہ و تعالی سے ملنے والی عزت کے سبب دنیا میں واپس آناچاہے گا تا کہ اسے دس با ر شہید کیا جائے (بخاری)۔
مومن آرمی آفیسر غور کریں کہ اسلام کی پہلی اور بہترین نسل نے لوگوں کو ظالم حکمرانوں سے آزاد کروانے کے لئے جہاد کیا ، تاکہ وہ عملی طور پر اسلام کا مشاہدہ کرسکیں۔اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُواْأَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ "اے ایمان والواُن کافروں سے لڑو جو تمہارے قریب ہیں، اورچاہیئے کہ وہ تم میں سختی پا ئیں، اور جان لو کہ اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے” (التوبہ:123) اللہ سبحانہ وتعالی نے مومنین کو پہلے اسلامی ریاست کے قریب ترین کافروں سے لڑنے کا حکم دیا اور پھر اُن سے جو دور ہیں۔ اِس طرح رسول اللہﷺ نے جزیرہ نما عرب میں مشرکین سے لڑنا شروع کیا۔ جب اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں مکہ ،مدینہ ، طائف ، یمن ، یامامہ ، حجر ، خیبر، حضرالموت اور دیگر عرب صوبوں پر غلبہ عطا کیا ، اور مختلف عرب قبائل اسلام میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے اہلِ کتاب کے خلاف جہاد کی ابتداء کی۔ آپﷺ نے رومیوں سے لڑنے کے لئے تیاریوں کا آغاز کیا جو علاقے میں جزیرہ نما عرب سے قریب ترین تھے ، اور اس طرح ، اسلام کی دعوت پانے کا سب سے پہلا حق رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺنے ہجرت کے نویں سال تبوک کی جانب پیش قدمی کی ، اور اِسطرح اُمت کو اس وقت کی صف اول کی ریاستوں کا مقابلہ کرنے کی راہ پر گامزن کردیا۔
کیا متقی فوجی افسر ان جہاد کی لگن میں خلفائے راشدینؓ کے اقدامات پر غور نہیں کریں گے؟ رسول اللہﷺ کےوصال کے بعد نبوت کےنقشِ قدم پر خلافت نے جہاد کا پورا حق ادا کیا۔ پہلے خلیفہ راشد ، ابو بکر صدیقؓ نے رومی صلیبیوں اور فارسی آتش پرستوں سے لڑنے کے لئے اسلامی لشکروں کی تیاری شروع کردی۔ اس بابرکت مشن میں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اُن کے لئے روم و فارس کے علاقوں کو کھول دیا اور قیصر و کسریٰ کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ دوسرے خلیفۂ راشد ، عمر بن الخطابؓ کے ہاتھوں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا کے مشرقی اور مغربی حصوں کو اسلامی حکمرانی کی روشنی کے لیے کھول دیا اور کفار کو پست و مغلوب کر دیا۔ پھر تیسرے خلیفہ راشد عثمانؓ کے دور میں ، برصغیر پاک و ہند سمیت ، دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی غیر متزلزل حقیقت کو قائم کیا گیا۔ اور چوتھے خلیفہ راشد علیؓ نے تین براعظموں پر محیط غلبے کو مستحکم کیا۔ اس طرح ، خلفاء راشدینؓ نے اللہ سبحانہ وتعالی کے اس حکم کی گواہی دیتے ہوئے کہ ﴿وَاعْلَمُواْ َّنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾ "اور جان لو کہ اللہ تقویٰ رکھنے والوں کے ساتھ ہے”، اسلام کو ترقی دی ۔
باخبر فوجی افسر کو ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ جب جہاد کو نظرانداز کیا گیا تو دشمن اسلام کی چوکیوں پر حملہ کرنے پر حریص ہوگئےاور انہوں نےبہت سی اسلامی سرزمینوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ۔ پھر بھی ، جب کسی عادل مسلم حکمران یا فوجی کمانڈر نے جہاد کا حکم پورا کیا ،تو اللہ تبارک وتعالی نے اس کی مدد کی اور اسے دشمن کے خلاف فتح یاب کیا۔ بے شک جہاد کےحکم کی ادائیگی سے عزت ملتی ہے جبکہ اس سے غفلت ذلت کا باعث بنتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ، «مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ ّلاّ ذُلّوا» "جو بھی قوم جہاد کو ترک کرتی ہے ذلیل ہوجاتی ہے” [احمد]۔ پس مسلمانوں نے جب جہاد کو نظرانداز کیا تووہ منگولوں کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے اور بالآخر انہوں نے عین جالوت کی لڑائی میں اُنہیں شکست دی۔ وہ مسلمان جنہوں نے جہاد کو نظرانداز کیا ، صلیبیوں نے انہیں مغلوب کرلیا ، یہاں تک کہ انہوں نے صلاح الدین کی قیادت میں پے درپے کامیابیاں حاصل کیں۔ جہاں تک خلافتِ عثمانیہ کی بات ہے ، اس نے جہاد کو اس طرح آگے بڑھایا کہ یورپ کے دارالحکومت ایک ایک کر کےگرنے لگے اور جو ابھی باقی تھے وہ مسلمانوں کی فوج کے خوف سے لرز اٹھے۔
جنّت کے متلاشی فوجی افسر کوچاہئے کہ وہ اُمّت کی موجودہ صورتحال پر غور کرے ،وہ تمام مخلوقات کے ربّ نے جو حکم نازل کیا اس پر غور کرے اوران نیکو کاروں کی تاریخ کے متعلق کہ جنہوں نے جہاد کے حکم کو پورا کیااور ان لوگوں پر بھی جنہوں نے جہاد کے فرض میں کوتاہی کی ، اور اس بات کا تعین کرے کہ وہ کہاں کھڑاہے؟ بے شک جب 1924میں امت اپنی ڈھال یعنی خلافت سے محروم ہوئی تواس کے ساتھ ہی وہ اسلام کے لئے نئی سرزمین کھولنے کے جہاد سے بھی محروم ہو گئی۔ دشمنوں نے اس کی سرزمین پر قبضہ کر لیا ، خواہ یہ یہودی وجود ہو جو مغرب میں فلسطین پر قابض ہے یا ہندو ریاست جو مشرق میں کشمیر پر قابض ہے۔ تاہم خلافت کے نہ ہونے کے باوجود ، ہماری زمین پر قبضہ کرنے والے کفار سے لڑنے کا حکم ساقط نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، والجهاد ماض منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل، والإيمان بالأقدار "اور اللہ کی جانب سے میرے نبی مبعوث ہونے کے دن سے لیکر اُس دن تک جہاد جاری رہے گا جب میری اُمّت کا آخری فرد دجال کے ساتھ لڑے گا۔ کسی بھی ظالم کا ظلم اور کسی بھی عادل (حکمران) کا انصاف اسے باطل نہیں کرے گا۔ [ابو داؤد] لہذا ، کفار سے لڑنا واجب ہے ، خواہ مسلمانوں کا حکمران خلیفہ ہو ، یا مسلمانوں کا حکمران اسلام کے ذریعہ حکمرانی نہ کرتا ہو۔ چنانچہ مسلم افواج پر یہ فرض ہے کہ وہ قابض افواج کا مقابلہ کرنے کے لئے متحرک ہوں ، اگر حکمران فوج کو روانہ کرنے پر راضی ہوجاتا ہےتو اُس نے درست اقدام کیا اور اگر اس نے فوج کو لڑنے سے روکنے کی کوشش کی ، اور اس کے راستے میں حائل ہوا تو ، فوج سے کوئی صلاح الدین آئے ، جو ایسے حکمران کو اپنے پیروں تلے روندڈالے، اور مبارک سرزمینوں کو قبضہ سے پاک کرنے کے لئے فوج کو متحرک کرے۔
یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کے موجودہ حکمران ایک فوجی افسر اور اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت کی بیچ میں حائل ہیں۔ موجودہ حکمران اعلان کرتے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے اورجنگ کرنے والے کو اُمت کا دشمن قرار دیتےہیں۔ یہ حکمران اُن لوگوں پر ظلم کرتے ہیں جو خود ہتھیار اٹھاتے ہیں خواہ یہ افغانستان میں امریکیوں کے خلاف ہو یا مقبوضہ کشمیر میں ہندو ریاست کے خلاف۔ اور بدترین بات یہ ہے کہ انہوں نے قابض کفارکے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں ، جو محض ان کفارکے قبضے کومزیدمستحکم کرے گا۔ حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے حکم دیا ہے کہ:وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَاخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ َ اْخْرَجُوكُمْ "اور جہاں بھی تم انہیں پاؤ ان کو قتل کرو اور اُنھوں نے جہاں سے تمہیں نکالا وہاں سے تم بھی اُنھیں نکال دو”(البقرہ:191)۔ اس مقدس آیت کا اطلاق ان تمام دشمنوں پر ہوتاہے جو اسلام اور اس کے پیروکاروں سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی توانائی دشمن سے لڑنے میں صرف کرنی ہے ، جس طرح ان کی توانائی ہم سے لڑنے پر خرچ ہوتی ہے ، اور ہم اپنی توانائیاں انہیں ان علاقوں سے بے دخل کرنے پر خرچ کریں جہاں سے انہوں نے ہمیں نکالا ہے۔
ایک فوجی افسر کے لئے یہ واضح ہے کہ موجودہ حکمران نہ تو قابض افواج کو مسلم سرزمین سے نکالیں گے اور نہ ہی خلافت کو بحال کریں گے کہ نئے علاقوں کو اسلام کے لئے کھولنے کے فرض کی ادائیگی دوبارہ شروع ہوجائے۔ یہ ذمہ داری مسلح افواج کے ہر افسر پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سخت اور شدیدصورتحال کا ازالہ کرے۔ ہر افسرپر لازم ہے کہ وہ امت کا ساتھ دے اوراپنے اوپر عائد ہونے والی جہاد کی عظیم ذمہ داری کو پورا کرے۔ فوجی افسران پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں،اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے ازسر نو قیام کے لئے اپنی مددو نُصرت پیش کریں ۔ صرف اسی صورت میں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑنے کی سعادت حاصل کریں گے ، اورپوری دنیا سے ظلم کا خاتمہ کر سکیں گے۔ پس آج کے مسلمان فوج کے افسران انصار کی طرح ہوجائیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ایسی تائید کی کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی آیات میں ان کی تعریف کی اور فرشتے ان کے سردارسعد بن معاذؓکے جنازے پراُمڈ آئے۔ ترمذی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذؓ کے جنازے کے بارے میں فرمایا ، «اِّنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُهُ "بے شک ، فرشتوں نے ان کا جنازہ اٹھا رکھا ہے” مبارک ہیں آج کے وہ فوجی افسر جو انصار کی پیروکار بنیں۔
ختم شد