سوال و جواب:بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنے کے متعلق حکم
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال :
میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے کہ میرے سوال کا جواب جلد مل جائے گا۔
کیااس صورت میں نکاح جائز ہے کہ جب لڑکی شوہر کے بارے میں رضامند نہیں ہے؟
اگر شادی کا معاہدہ (نکاح) کیا گیا تھا لیکن ابھی تک مباشرت نہیں ہوئی ہے، تو اس مسئلے کو حل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ مجھے دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ منگیتر یا دولہا گھر کے دروازے پر ہے، اور میں نے اس سے اتفاق کیا ، لیکن مجھے محسوس ہوا کہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا ہے اور مجھ سے بات کیے بغیر اس رشتے کوقبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
جواب :
السلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاتہ،
اس موضوع کے متعلق ہم نے کتاب ،”اسلام کے معاشرتی نظام” میں نکاح کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کی ہے : “عبد اللہ بن بریدہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :«جاءتْ فتاةٌ إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فقالتْ: إن أبي زَوَّجَني ابنَ أَخيهِ لِيَرْفَعَ بي خَسيسَتَهُ. قال فَجَعَلَ الأمرَ إليها فقالتْ قد أَجَزْتُ ما صَنَعَ أبي، ولكنْ أردْتُ أن أُعْلِمَ النساءَ أنْ ليسَ إلى الآباءِ مِنَ الأمْرِ شيءٌ»ایک نوجوان لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: "میرے والد نے اپنی کم حیثیت کو بڑھانے کے لئے میری شادی اپنے بھتیجے سے کر دی۔” چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے نکاح سے انکار کا حق دیا۔ اس نے جواب دیا: "میں نے اپنے والد کے کام کو قبول کیا ، لیکن میں (دیگر) خواتین کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ باپوں کو اپنی بیٹیوں کی خواہش کے خلاف، ان کو کسی کے نکاح میں دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔” (ابن ماجہ ؒ)
"مصباح الزجاجہ فی زواید ابن ماجہ” کے مصنف ابو عباس شہاب الدین بوصیری کنعانی الشافعی (وفات: 840 ھ) نے اس میں لکھا ہے: “عبد اللہ بن بریدہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: “میرے والد نے اپنی کم حیثیت کو بڑھانے کے لئے میری شادی اپنے بھتیجے سے کر دی ہے”۔ «فَجعل الْأَمر إِلَيْهَا فَقَالَت قد أجزت مَا صنع أبي وَلَكِن أردْت أَن تعلم النِّسَاء أَنه لَيْسَ للآباء من الْأَمر شَيْء»”نبی ﷺنے اسے نکاح سے انکار کا حق دیا۔ اس نے جواب دیا: میں اپنے والد کے عمل کو قبول کرتی ہوں ، لیکن میں (دوسری) خواتین کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ باپوں کو، ان کی خواہش کے خلاف اپنی بیٹیوں کو شادی میں دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔” اور انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ روایت مستند ہے اور اس کے رجال قابلِ اعتبار ہیں "۔
اس کے مطابق ، والد کو لازمی طور پر لڑکی کی رضا مندی حاصل کرنی چاہئے ، اور نکاح خواں کو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے ، تاکہ ایجاب اور قبول کا معاملہ رضامندی اور انتخاب کے ساتھ ہو۔
ہم نے نکاح کے بارے میں مذکورہ بالا باب میں یہ واضح طور پر بیان کیا ہے ، جہاں یہ لکھا ہے:”جب کسی عورت کے لیے شادی کا پیغام آتا ہے تو اسے رشتے کوقبول کرنے یا اسے مسترد کرنے کا پورا حق ہے۔ اس کے کسی بھی ولی (سرپرست) یا کسی اور کوحق نہیں ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرے یا اسے شادی سے منع کرے۔
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«الثَّيِّبُ أحقُّ بِنَفْسِها مِنْ وَلِيِّها، والبِكْرُ تُسْتأْذنُ في نَفْسِها وإِذنُها صُماتُها»"شوہر دیدہ عورت اپنے اوپر اپنے ولی (سرپرست) سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری سے (نکاح کے لیے)اس کی اجازت لی جائے۔ اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ نے بھی روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تُنْكَحُ الأَيِّمُ حتى تُسْتَأْمَرَ، ولا البِكْرُ حتى تُسْتَأْذَنَ. قالوا: يا رسولَ اللهِ، وكيفَ إذْنُها؟ قال: أن تَسْكُتَ»”بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے پوچھا ، یا رسول اللہ! ہم اس کی اجازت کیسے جانیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے "۔ (متفق علیہ)
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ : «أن جاريةً بكْراً أَتَتْ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ أَن أَباها زَوَّجَها وهِيَ كارِهَةٌ، فَخَيَّرها النبيُّ صلى الله عليه وسلم»ایک نوجوان لڑکی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور ذکر کیا کہ اس کے والد نے اسے اس کی خواہش کے خلاف نکاح میں دے دیا تھا۔ چنانچہ نبی ﷺ نے اسے اس نکاح کو رد کرنے کااختیاردیا۔ [ابو داؤد نے روایت کیا]
خنسہ بنت خزامؓ سے روایت ہے کہ :«أن أباها زَوَّجها وهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذلك فأَتَتْ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَرَدَّ نِكاحَها»"ان کے والد نے انہیں نکاح میں اس وقت دیا جب کہ وہ شوہر دیدہ تھیں اور انہوں نے اس شادی کو ناپسند کیا ۔ لہٰذا وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئیں اور آپ ﷺ نے ان کی شادی کو منسوخ کردیا۔ ” [بخاریؒ نے روایت کیا]
ان احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے نکاح کی اجازت نہیں دیتی ہے تو پھر اس کا یہ نکاح واقع نہیں ہو تا۔ اگر وہ نکاح کو مسترد کرتی ہے یا اس کی زبردستی شادی کی گئی تھی تو معاہدہ باطل ہوجاتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ نظر ثانی کرتی ہے اور اس پر راضی ہوجاتی ہے۔”
آپ اس مسئلے پر واضح عبارت دیکھ سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ، اور اس کو دہراتے ہیں: “ان احادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے نکاح کی اجازت نہیں دیتی ہے تو وہ نکاح واقع نہیں ہوتا ہے۔ اگر وہ نکاح کو مسترد کرتی ہے یا اس کی زبردستی شادی کی گئی تھی تو معاہدہ باطل ہوجاتا ہے ، سوائے اس کے کہ وہ اپنی رائے کو تبدیل کرتی ہے اور اس پر راضی ہوجاتی ہے”۔
مجھے امید ہے کہ یہ کافی ہوگا ، اور اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے اور وہ حکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرَشتہ
14 جمادی الثانی 1441 ہجری
08/02/2020 CE
ختم شد