کوئی بھی ریاست چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی عوام کے جان و مال کی حفاظت اور امن قائم…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر:عمر شریف
کوئی بھی ریاست چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی عوام کے جان و مال کی حفاظت اور امن قائم رکھنے کے لیے جن ریاستی اداروں پر ا نحصار کرتی ہے اُن میں پولیس کا ادارہ سب سے اہم ہے۔ لیکن اگر بات ایک نظریاتی ریاست کی ہوتو اُس کے لیے پولیس کا ا دارہ اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہےکہ یہ ادارہ عدلیہ کے ساتھ مل کر اُس ریاست کے اندر اُس آئیڈیالوجی کے نفاذ اور حفاظت کا اہم ترین فریضہ سر انجام دیتا ہےجس کی وہ ریاست علمبردار ہوتی ہے ۔ اِسی لیےنظریاتی ریاستیں اِن دو اہم ترین امور کی انجام دہی کے لیے اپنے پولیس کے ادارے کو مستعد بنانے اور جدید خطوط پراستوار کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروےٴ کار لاتی ہیں۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان جیسی ماتحت ریاست کہ جس کے ماضی اورحال کے جمہوری اور سرمایہ دارانہ حکمران جو اِسے کبھی ایشین ٹائیگر تو کبھی فلاحی ریاست اور کبھی ریاستِ مدینہ بنانے کے دعوے کرنے سے نہیں تھکتے، اُن تمام کے ادوارِ حکومت میں پولیس نے نااہلی، ظلم و جبر اور کرپشن کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ انہیں سننے کے لیے ایک فولادی اعصاب کے حامل انسان کا حوصلہ بھی کم پڑ جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاوٴن اور سانحہ ساہیوال اُن اَن گنت واقعات کی صرف چند مثالیں ہیں جہا ں پولیس نے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی بلا تفریق ریاستی رِٹ نافذ کر نے کے نام پر قتل کیا اور عدل و انصاف کی نام نہاو علمبردار ہماری عدلیہ یا تو ابھی تک ذمہ داروں کا تعین تک نہ کر سکی یا اِس ظلم کو بر پا کر نے والوں کو حکومتی اور سکیورٹی اداروں کے دباوٴ پر باعزت بری کرنے کے پروانے جاری کر تی رہی۔ ایک ریاست میں پولیس کا کردار تو وہ ہے کہ اس کی بنا پر عوام کے ذہنوں میں اپنے لیے تحفّظ اور امن کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں لیکن پاکستان جیسی ریاست میں پولیس پر نظر پڑتے ساتھ ہی عوام کے ذہنوں میں خوف اور ناپسندیدگی کے احساسات ہی جنم لیتے ہیں۔
تفتیش کے نام پر اذیت ناک جسمانی تشدّد ، پولیس سٹیشن کے اندراور اسکےعلاوہ باہر کےنجی عقوبت خانے ، ماورائے عدالت قتل، رشوت ستانی، عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات سے عاری برتاوٴ، مظلوموں کی دادرسی کی بجائے ظالموں اور سیاسی اثر ور سوخ رکھنے والے نام نہاد شرفا٫ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اور محاسبے کے خوف سے آزاد بدعنوان ذہنی سوچ جیسے رویّے پولیس کے ادارے سے منسوب ہیں ،اِن تمام رویّوں کو ہمارے ہاں "تھانہ کلچر” کا نام دیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم پولیس جیسے استحصالی ادارے کی نااہلی ، ظلم اور کرپشن کی تفصیلات میں جائیں اور یہ دیکھیں کہ آیا اِس کرپٹ نظام کے ہوتے ہوئے اِس ادارے میں بہتری لائی بھی جاسکتی ہے یا یہ صرف اِسلامی ریاستِ خلافت ہی ہوگی جو اِس ادارے کو حقیقی معنوں میں اِسلامی آئیڈیالوجی کا نگران اور عوام کے جان، مال اور عزت کا محافظ بنائے گی ،یہ جاننا ضروری ہے کہ آخروہ پسِ منظر اور وجوہات کیا ہیں جن کی بدولت یہ ادارہ اپنے اندر قابلِ افراد کے ہوتے ہوئے بھی موجودہ ظالمانہ شکل اختیار کر گیا اور عوام کو تحفّظ اور امن فراہم کرنا اِس کی ترجیحات نہ رہیں۔ پولیس کےادارے کایہی طرزِ عمل ہمیں بر صغیر سمیت دنیا کے اُن تمام خطوں میں بھی ملتا ہے جو ماضی میں کفّار کے ظالمانہ نو آبادیاتی نطٓام کا حصّہ رہے ہیں ۔
بر صغیر میں بر طانوی سا مراج کے قبضے سے قبل مسلم حکمرانوں کے دورِ حکومت میں جو کئی صدیوں پر محیط تھا معاشرہ عمومی طور پر جرائم سے کافی حد تک پاک تھا اور اسلام کے نافذ شدہ نظام عدل اور پولیس کے نظام کی بدولت عوام کو تحفّظ اور امن حاصل تھا۔ جہاں تک نظام ِعدل کا تعلق ہے تو یہ سلطنت کے قاضی القضا ۃ کی سربراہی میں برصغیر کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا۔ قاضی القضاۃ ہی ہر ضلع ، شہراور دیہات کی سطح پر قاضیوں کی تعیناتی کیا کرتا تھا اور عدالتی نظام کی نگرانی کر تا تھا وسیع علاقے پر محیط اِس اِسلامی عدالتی نظام کو اُس دور کی ایک مستعد اور اہل پولیس فورس کی معاونت حاصل تھی یہ پولیس فورس ضلع کی سطح پر کو توال ، شہر کی سطح پر فوج دار اور دیہات کی سطح پر زمیندار کی سر براہی میں کام کرتی تھی اور جرائم کی روک تھام اور عوام کو تحفّظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سرانجام دیتی تھی اِس عدالتی نظام اور پولیس فورس کی نگرانی کبھی تو والئ ہند براہِ راست اور کبھی اپنے وزرا٫ کے ذریعے کیا کرتا تھا برصغیر میں ہر مسلم حکمران نے عوام کو عدل اور تحفّظ کی فراہمی اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھی ۔اورنگزیب عالمگیر کے دور میں نئے قاضی القضاہ کی تعیناتی کی جاتی تو شاہی دیوان خانہ سے اُسے اِن الفاظ کے ساتھ فرمان جاری کیا جاتا :
"عادل ، ایماندار اور غیر جانبدار رہنا۔ مقدّمات کی سماعت ہمیشہ حکومت کی طرف سے مختص کردہ عدالتی عمارت میں ہی کرنا۔ جس جگہ پر تم اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دیتے ہو وہاں پر کام کرنے والے دوسرے ملازمین سے تحائف وصول کرنے سے اجتناب کرنا اور ہر ایک کی طرف سے دی جانے والی دعوتوں کو قبول کرنے اور محفلوں میں شرکت سے پر ہیز کرنا۔ اپنے عدالتی حکم نامے اور فیصلے ، عدالتی حکم پر جاری کردہ خریدوفروخت کے عقد اور دوسرے قانونی دستاویزات شرع کی روشنی میں انتہائی احتیاط سے تحریر کرنا تاکہ عالم و فاضل تمہارے اِن فیصلوں اور دستاویزات میں نقائص اور سقم نہ نکالیں جو کہ تمہارے لیے شرمندگی کا باعث ہو اور فقر کو اپنے لیے فخر سمجھنا۔۔۔”(Essays on Legal Systems in India pg. 58)
جس انداز اور جِن الفاظ میں یہ فرمان ہمیں تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا عدلیہ اور پولیس کا نظام کن مضبوط تصورات پر استوار تھا۔ لیکن برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر براہِ راست تاجِ برطانیہ کے استعماری قبضے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ایک ایسا خطہ کہ جس کی عوام اِس قبضے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور جب موقع ملتا وہ اس برطانوی سامراج کے قبضے کے خلاف چھوٹی یا بڑی تحریکیں اِس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے بر پا کرتی رہتی ظاہر ہے ایسی سامراج دشمن عوام کے جان و مال کی حفاظت اور انہیں امن و سلامتی فراہم کرنے کی امید اِس قابض استعمار سے نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہ تو اس دشمن عوام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی فکر میں تھا کہ جس کی خاطر یہ ضروری تھا کہ اُن پر ظلم و جبر اور سخت قوانین کے ذریعے انہیں اپنے کنٹرول میں رکھا جائے ۔ برطانوی سامراج اُس تہذیب کا علمبردار تھا جس کے متعلق اس خطے کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک باطل تہذیب ہے اور وہ کافرانگریز کی غلامی میں رہنے کی لیے ہر گز تیار نہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ وقتاً فوقتاً برصغیر کے عوام نے اِس خطّے کے مختلف حصّوں میں استعماری قبضے سے نجات کے لیے چھوٹی بڑی مزاحمتی تحریکیں بر پا کیں جن کو استعمار طاقت کے زور پر کچلتا گیا اور اِس خطّے پر اپنی گرفت مضبوط کرتا گیا مگر جس عظیم بغاوت نے استعماری قبضے کو حقیقی طور پر ایک خطرے سے دو چار کیا وہ 1857کی جنگ آزادی تھی جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندووٴ ں نے بھی انگریز کے خلاف ہتھیار اُٹھایا یہاں تک کہ فوج اور پولیس کے وہ جوان جو انگریز نے برصغیر کے مختلف حصّوں سے ہی بھرتی کیے تھے وہ بھی اِس جنگ آزادی میں انگریز سے پیچھا چھڑانے کے لیے بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ اِس جنگ آزادی کے آغاز اور اِ س کی ناکامی کے محرکات کیا تھے نفسِ مضمون اُن محرکات کی گہرائی میں جانے کی اجازت نہیں دیتا مگر اِس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کہ جس میں استعمارنے ہزاروں لوگوں اور سپاہیوں کو شہید کیا، انگریز وں کے سامنے یہ بات بہت واضح تھی کہ وہ اِس خطّے پر صرف ظلم و جبر اور ظالمانہ قوانین کے ذریعے ہی اپنے تسلّط کو بر قرار رکھ پائیں گےاور اسی حقیقت کو ذہن میں رکھ کر بر طانوی استعمار کی طرف سے 1861 میں وہ بد نام زمانہ پولیس ایکٹ Police Act of 1861 برصغیر میں نافذ کیا گیا کہ جِس کا مقصد کسی عوام دوست قانون کا عادلانہ نفاذنہ تھا ،نہ ہی اسکا مقصد یہاں کی عوام کے جان و مال اور عزت کا تحفظ اور امن فراہم کرنا تھا بلکہ اِسکا بنیادی مقصد یہاں کی عوام کو سخت کنٹرول میں رکھنا ، مستقبل میں ممکنہ بغاوتوں کے اِمکان کو ختم کرنا اور یہاں کی مقامی آ بادی کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ اب انگریز کے غلام ہیں اورانہیں غلام بن کر رہنا سیکھنا ہو گا۔ پس پولیس کے ادارے کو نئے سِرے سے ترتیب دیا گیا تا کہ اِسکے وہ جوان جو برصغیر سے ہی بھرتی کیے جاتے تھے اُنکی طرف سے بھی کسی ممکنہ مہم جوئی کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم کردیاجائے ۔چنانچہ پولیس کے ادارے کو دو ہرے اختیار کے ذریعے کنٹرول کیا جانے لگا ایک طرف تو اِس ادارے کو مرکزی حکومت کے براہِ راست تابع کر دیاگیا جو پوری ریاست میں پولیس کے ادارے کو پالیسی کی سطح پر کنٹرول کرنے لگی جبکہ دوسری طرف ضلعی پولیس کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یعنی اِ س خطّے میں برطانوی سامراج کی تشکیل کردہ بیورو کریسی کے کنٹرول میں دے دیا گیا یہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جس کے پاس پورے ضلع کو اپنے حکم کے مطابق چلانے کے وسیع اختیارات تھے، ضلعی پولیس کو بھی اُن کی مختلف علاقوں میں تعیناتی (پوسٹنگ) ٹرانسفر یا انہیں معطل کرنے کے اختیارات کے ذریعے کنٹرول کرنے لگا ۔عمومی اختیارات کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایمر جنسی اختیارات کا بھی حامل بنا دیا گیا کہ جن کے ذریعے وہ سرکار کے خلاف کسی بھی احتجاج،مظاہرے،نسلی اورلسانی فسادات یاہنگامی صورتِ حال میں پولیس کو کسی بھی حد تک جانےیہاں تک کہ مظاہرین پر گولی چلانے اور اُن کے قتلِ عام کے احکامات بھی صادر کر سکتا تھااور کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کسی بھی ظالمانہ حکم کی حکم عدولی یا اُس سے اختلاف کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔
اِس کے علاوہ برطانیہ نے برصغیر میں پولیس کے ادارے کو دو حصوں/طبقوں میں تقسیم کردیا ۔ اوپر والا طبقہ اعلیٰ (ایلیٹ)برطانوی افسران پر مشتمل تھا جنکی اعلیٰ جسمانی و ذہنی تربیت اِس انداز سے کی جاتی کہ وہ ایک قابض سر زمین پر حکمران کی طرح ہیں اور انہیں یہاں کی غلام عوام کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے اِن اعلیٰ افسران کوآپریشنل اتھارٹی اور کسی بھی صورت ِ حال کی مناسبت سے فیصلہ سازی کے اختیارات بھی دیے گئے جبکہ پولیس کا دوسرا حصّہ یا طبقہ کانسٹیبل یا عام اہلکاروں کا تھا جنہیں بر صغیر کے مختلف مقامی علاقوں ، برادریوں یا نچلے طبقات سے بھرتی کیا جاتا تھا۔ اِن اہلکاروں کی تربیت اِس انداز سے کی جاتی تھی کہ اِ ن کا کام محض اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات چاہے وہ کتنے ہی غیر منطقی، غیر دانشمندانہ اور ظالمانہ کیوں نہ ہوں ،کی بجا آ وری ہے اور اُن کا رویہ اپنے افسران کے سامنے انتہائی موٴ دبانہ ہونا چاہیئے اِس کے ساتھ ساتھ اُنہیں اِس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اُن با اثر افراد، سرداروں ، زمینداروں جو کہ تاجِ بر طانیہ کے وفادارہوں کو اُن کے مخالفین اور دشمنوں کے خلاف بھر پور مدد فراہم کریں تاکہ یہ سردار، زمیندار یا با اثر افراد اپنے علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھائیں اور اِس طرح برطانوی استعمار کی جڑیں گہری کرنے میں بھی برطانوی مہروں کا کردار ادا کریں۔ اِس طرح پولیس کے اِس ادارے کو محض برطانوی سامراج کو مضبوط کرنے، ظالموں کی مدد کرنے، عوام کو بندوق کی نوک پر سیدھا رکھنے اور برطانوی استعمار کے خلاف اٹھنے والی سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ۔اِس کی ایک قبیح مثال سانحہٴ جلیانوالہ باغ تھا جب اپریل 1919 میں برطانوی پالیسیز کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھےہونے والے نہتے شہریوں جن میں بوڑھے بھی شامل تھے پر پولیس نے برطانوی افسر جنرل ڈائرز کے حکم پر فائر کھول دیا ظلم کی انتہا یہ کہ پولیس نے احکامات کے عین مطابق پہلے مظاہرین کو باغ میں اکٹھا ہونے دیا اور پھر باغ کے چاروں داخلی اور خارجی دروازے بند کردیے اور نہتے شہریوں پر اُس وقت تک گولیاں بر سائیں جب تک کہ اُن کی رائفلوں کے لیے اُن کی گولیوں کا ذخیرہ ختم نہ ہوگیا اِس سانحہ میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں مختلف رپورٹس میں تضاد پایا جاتا ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 1000 لوگ قتل کردیے گئے اور زخمیوں کی تعداد اِس سے کہیں ذیادہ تھی ۔
یہ تھا وہ پسِ منظر جِس نے برصغیر میں برطانوی قبضے کے بعد پولیس کے ادارے کوعوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے اور انہیں امن و سلامتی فراہم کرنے کی بجائے محض ظلم کو نافذ کرنے اور ظلم کی حکومت کا مدد گار ادارہ بنا دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانوی دور میں پولیس کا ظالمانہ کر دار تو سمجھ میں آتا ہے مگر 1947 میں برصغیر کی آزادی کے بعد اب بھی یہ ادارہ اُسی ظالمانہ تشخص کے ساتھ کیوں پہچانا جاتاہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہم نے 1947 میں بر طانوی حکمرانوں کی بلاواسطہ حکمرانی سے تو نجات حاصل کرلی۔ مگر برطانوی استعمار نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اِس بات کو یقینی بنایا کہ نئی بننے والی ریاستوں یعنی بھارت اور پاکستان میں اقتدار اُس نام نہاد اشرافیہ کے ہی حوالے کیا جائے جو برطانوی نظام تعلیم اور نظام حکومت کی تربیت یافتہ تھی اور مغرب کی فکری یلغار سے انتہائی متاثر اور مرعوب تھی۔برطانوی سامراج کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ بر صغیر کی مسلمان آبادی تھی جو انگریز کی ڈیڑھ صدی سے زائد غلامی میں رہنے کے بعد اب اِسلام کی حکمرانی کی طرف لوٹنا چاہتی تھی جبکہ برطانیہ اِس خطّے کو مغرب کی آئیڈیالو جی اورسیکیولر فریم ورک کے تابع ہی رکھنا چاہتا تھا ۔اِسکے لیے ضروری تھا کہ وہ اُس نام نہاد مُسلم اشرافیہ کو ہی اِس خطّے کے مسلمانوں کے لیے واحد نمائندہ بنائے اور برطانیہ جانتا تھا کہ یہ کام صرف اِسلام کا نام استعمال کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اِس لیے اِس اشرافیہ نے اِس خطّے کے مسلمانوں کی قیادت حاصل کرنے لیے اِسلام کو ہی ذریعہ بنایا ۔لوگوں کو جلسوں ، ریلیوں اور سیاسی اجتماعات میں تقاریر کے ذریعے یہی باور کر وایا کہ بننے والی ریاست پاکستان ایک اِسلامی ریاست ہوگی جہاں تمام لوگ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام میدانوں میں صرف اللہ اور اُسکے رسولؐ کے دین کے مطابق زندگی گزاریں گے لیکن جب ریاستِ پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستان کی شکل میں معرضِ وجود میں آئی تو مغرب کی اِس تربیت یافتہ اشرافیہ نے سیکیولرازم کو ہی ریاستِ پاکستان کی بنیاد رہنے دیا۔
نظام حکمرانی ہو یا معیشت، معاشرتی نظام ہو یا عدلیہ ہر نظام سے جڑے اداروں جن میں پولیس کا ادارہ بھی شامل ہے، کا بنیادی ڈھانچہ اور برطانوی قوانین پر بنی ان کی عمارت کو چند برائے نام تبدیلیوں کے ساتھ اسی طرح رہنے دیا جس طرح برطانوی استعمار یہاں پر چلارہاتھا۔ اِسی لیے آج بھی ہم پولیس کے ادارے کو اُسی ظالمانہ تشخص کے ساتھ پاتے ہیں جو برطانوی سامراج کے دور میں اُسکی پہچان تھا ۔آج بھی پولیس کا ادارہ 1861کا پولیس ایکٹ اور 1934 کے پولیس رولز کے مطابق ہی چلایا جارہا ہے جو برطانیہ نے اِس ادارے کے لیے وضع کیے تھے اور پاکستان کے ماضی اورحال کے حکمران تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے بڑے بڑے مگر کھوکھلے دعوے کرتے رہے ۔ اگرچہ یہ حکمران بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کے نظام یا تھانہ کلچر عوام دشمن ہےاور یہ عوام کو کوئی تحفّظ فراہم نہیں کر سکتا لیکن یہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران اس پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور اپنے اپنے علاقوں کی عوام کو اپنے دباوٴ اور کنٹرول میں رکھنے کے لیے اپنے معاون اور آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں لہٰذا اِس ادارے میں کوئی بھی ایسی تبدیلی جو اس ادارے کے اِس کردار کو بدل دے وہ اس سیاسی اشرافیہ کے مفاد میں نہیں۔
آج ہمار ےتقریباً تمام سِول اور کرمنل قوانین برطانوی استعمار ہی کی دین ہیں۔ کرمنل پر وسیجر کو ڈ، سِول پروسیجر کوڈ، قانونِ شہادت -لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ تمام کے تمام اسی دور کی پیداوار ہیں کہ جن کی وجہ سے یہاں کی عوام انصاف کے لیے دَر دَر کی ٹھوکر یں کھاتے ہیں اور استعماری بنیاد پر کھڑا پورا عدالتی نظام انہیں یا تو اُن کا حق سِرے سے دے ہی نہیں پاتا یا اِس میں عشرے لگا دیتا ہے اور کئی معاملات میں تو ایک شخص کی زندگی میں دائر کیے گئے مقدمات کا حتمی فیصلہ اُس کے مرنے کے بعد اُسکے بیٹے یا پوتے کی زندگی میں سنایا جاتا ہے۔ قتل کے اَن گنت مقدمات کہ جن میں ملزمان کو محض FIR میں نامزد ہونے پر گرفتار کر لیا گیا 15, 10 حتیٰ کہ 20 سال کی جیل کی قید بُھگتنے کے بعد شواہد نہ ہونے پر اُن کا با عزت بری ہونا اِس پولیس اور عدالتی نظام کا نہ صرف عوام سے ایک سنگین مذاق ہے بلکہ اِس نظام کے منہ پر خود ایک طمانچہ ہے۔ پاکستان کی پولیس اور عدلیہ کے ظالمانہ پروسیجرل لَاز (قوانین) اور سُست اور نااہل نظام ِعدل کو دیکھ کر ہی یہ بات کہی جا تی ہے کہ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے حضرت نوحؑ کی عمر، قارون کا خزانہ اور حضرت ایوب ؑ کا صبر چاہئے۔
پاکستان ہی کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے 2010 میں ریاست کے تمام سرکاری اداروں کے تفصیلی سروے کے بعد جو رپورٹ جاری کی اُس میں پولیس کے ادارے کو پاکستان کا سب سے زیادہ کرپٹ اور بد عنوان ترین ادارہ قرار دیا لیکن یہ بات ہمارے لیے کوئی نئی نہیں نہ ہی یہ کوئی حیرت انگیز انکشاف ہے ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ نےپاکستان کے غیر اسلامی اور انسانی خواہشات پر مبنی آئین کے ذریعے جو اختیارات پولیس کو دے رکھے ہیں اُن کا نتیجہ پولیس کی کرپشن اور ظلم کی شکل میں ہی سامنے آنا تھا۔ آئین کے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی شق 154 کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کے خلاف FIR درج کرنے کا اختیار ہے جسکے خلاف کوئی بھی شکایت پولیس سٹیشن میں لائی جائے اِس FIR کے اختیار کو انتہائی استحصالی انداز سے استعمال کیا جاتا ہے اگر تو کوئی غریب یا سیاسی اثرورسوخ نہ رکھنے والا شخص کسی امیر یا سیاسی طور پر مضبوط شخص کے خلاف شکایت کرکے FIR درج کروانا چاہے تو FIR درج کرنے کی بجائے اِس شکایت کو روزنامچہ میں لکھ دیا جاتا ہے اور شکایت کنندہ کو کبھی بہلاپھسلا کر یا کبھی ڈرا دھمکا کر یہ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ اثرورسوخ رکھنے والے شخص کے خلاف FIR درج نہ ہو کیونکہ شکایت کنندہ کے ساتھ اِس کا خمیازہ اُس تھانے کے SHO کو بھی بُھگتنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر شکایت کنندہ ایک امیر یا سیاسی طور پر مضبوط شخص ہو تو اُسکی FIR فوراً درج کرکے مخالف شخص کو فوراً گرفتار کیا جاتا ہے چاہے شکایت کنندہ نےاُس شخص پر اپنی ذاتی دشمنی یا اُس کی کِسی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی نیت سے ہی جھوٹا الزام لگایا ہو ۔اور اگر کبھی ایسی نوبت آبھی جائے کہ پولیس کو کسی امیر یا سیاسی طور مضبوط شخص کے خلاف FIR درج کرنی پڑجائے تو وہ FIR میں ایسے نقائص یا کمزوریاں چھوڑ دیتی ہے جسکا فائدہ اٹھا کر اُسے ضمانت مِل جائے یا عدالت اُس پر کیس ہی بد نیتی پر قرار دے کر اسے رہا کردے ۔ FIR درج کرنے کا مطلق اختیار پولیس کولوگوں سے بھاری رشوتیں لینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
2001 کے بعد امریکی حکم پر شروع کی گئی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر پولیس کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی Arrest Warrant کے بغیر گرفتار کر سکتی ہے۔ اگر چہ قانون کے مطابق پولیس کو گرفتار شدہ شخص کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے مگر اِن انسانی قوانین میں موجود نقائص پولیس کو یہ موقع فراہم کر تے ہیں کہ اگر وہ گرفتار شدہ یا جبر اً اغوا٫ کیے شخص کو مہینوں اپنی قید میں رکھیں اُس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کریں اور پھرعدالت میں پیش کریں تو چونکہ پولیس ہی تفتیشی اتھارٹی ہوتی ہے اور عدالتیں چونکہ تفتیش کے لیے پولیس پر ہی انحصار کرتی ہیں لہٰذا عدالتوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ایک شخص کتنے عرصے سے غائب ہے ، جب تک کہ ملزم اس کے سامنے موجود ہے ،اور پولیس کے تفتیشی افسر کی طرف سے درج شدہ FIR میں اُس شخص کی گرفتاری پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران ہی بتائی جاتی ہے۔
گرفتاری کے دوران بعض اوقات ملزمان کے سہولت کاروں کے نام اُگلوانے یا جرم قبول کر وانے کے لیے ملزمان پر بے پناہ تشدد بھی پولیس کا مخصوص طریقہ کار ہے۔ اگر چہ قانون پولیس کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتا مگر چونکہ پولیس کے ادارے کو حکمران اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں لہٰذا اِس کو کافی حد تک محاسبے سے آزاد رکھنے کے لیئے اِسکے واضح جرائم پر بھی پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ اہلکار اِن کرپٹ حکمرانوں کے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال ہوتے رہیں اور عدلیہ کے سر پر جُوں تبھی رینگتی ہے جب کوئی ملزم دورانِ حراست پولیس کے تشدد سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر اِس صورت ِ حال میں بھی متعلقہ پولیس افسر یااہلکاروں کو وقتی طور پر معطل کرکے معاملے کو دیا دیا جاتا ہے اور مرنے والے کے لواحقین کو بھی ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا جاتاہے۔
پولیس کے ظلم کی ایک بد ترین مثال پولیس کی طرف سے پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل ہیں۔ عام طور پر پولیس کو Self Defense کے پیش نظر یا ملزم کے فرار ہونے کی کوشش کی صورت میں یا کسی کی جان بچانے کیلئے ملزمان پر اس طرح فائرنگ کرنے کی اجازت ہوتی ہے کہ ممکنہ حد تک ملزم کو صرف زخمی کیا جائے اور اِسکی جان نہ جائے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ پولیس مقابلے زیادہ تر جعلی ہی ہوتے ہیں اور اِن میں جان بوجھ کر ملزمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔صرف015 2کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہی پاکستان میں صرف ایک سال میں کُل 2108مرد ملزمان اور 7 عورتوں کو پولیس مقابلوں میں قتل کردیا گیا جبکہ اتنی بڑی تعداد کا تقریباً 33 فیصد حصّہ یعنی 696 ملزمان صرف کراچی میں ہی قتل کیے گئے اور حیران کُن حد تک 95فیصد پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس اہلکار ہلاک تو دور کی بات زخمی تک نہ ہوا۔ سانحہٴ ساہیوال اور کراچی کے نقیب اللہ محسود قتل کیس اس ظالمانہ پریکٹس کی بد ترین اور ہائی پروفائل مثالیں ہیں ۔سانحہٴ ساہیوال جس میں صرف ایک شخص کے مجرم ہونے کے شک میں اُسکے دوست اور اُسکے خاندان کو بھی قتل کر دیا گیا جبکہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوّث بدنامِ ز مانہ پولیس افسر راؤ انوار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے لا تعداد جھوٹے پولیس مقابلوں میں 400 سے زائد لوگوں کو قتل کروایااِس کے باوجود سندھ کی حکومتی پارٹی کے چیئر مین آ صف زرداری کی طرف سے راوٴ انوار جیسے قاتل کو’بہادر بچہ‘ کہاگیا۔ نقیب اللہ کے والد بھی انصاف کے انتظار میں اِس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن دن دیہاڑے اِن مظالم کے برپا ہونے کے باوجوداِس سرمایہ دارانہ نظام نے اِن مظالم برپا کرنے والوں کو رہا کر دیا با عزت بری کر دیا کیونکہ ان سمیت اور بہت سارے ایسے واقعات میں ریاست کے حکمران اور ریاستی ادارے بالواسطہ یا بلا واسطہ خود بھی شامل ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پولیس کے اہلکاروں کو بچانے کے لیے Good Faith میں گولی چلانے کے مبہم اور گھٹیا جواز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ تو جھوٹے پولیس مقابلوں میں ملزمان کو قتل کر نے کو اعلیٰ افسران کی طرف سے Justify کیا جاتا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ ریاست کی طرف سے پولیس کے تفتیشی طریقہ کار کو جدید بنانے ، پولیس کی تفتیشی مہارت بڑھانے اور Forensic شواہدکو بہتر ین انداز سے استعمال کرنے کے لیے پولیس کی جدید خطوط پر ٹریننگ نہیں کی جاتی اور نہ ہی ایسے مقاصد کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں لہٰذا اِن کمزوریوں کا فائدہ خطر ناک ملزمان اٹھاتے ہیں اور پولیس کے ناقص تفتیشی طریقہ کار کی وجہ سے عدالتیں اِن خطر ناک ملزمان کو شواہد نہ ہونے کی بنا پر رہا کر دیتی ہیں۔ اگر ایسے ملزمان کو زندہ رہنے دیا جائے تو یہ معاشرے میں مزید فساد پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں لہٰذا اِنہیں جعلی مقابلوں میں مار دینا ہی بہتر ہے۔ یہ Justification اپنی نا اہلی، جعلی پولیس مقابلوں اور نظام کے فرسودہ ہونے کا اعتراف ہے اوراس بات کا ثبوت بھی کہ اِس انسان کے بنائے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود کمزوریوں اور نقائص سے فائدہ اٹھاکر حکمران اور ریاستی اداروں کے اہلکار خود بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں اور اپنی ہی عوام کہ جن کی حفاظت اُن پر فرض ہے اُنہیں ظلم کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان جعلی مقابلوں میں مجرم ہی نہیں بلکہ کئی بے گناہ لوگ بھی ٹھکانے لگا دیے جاتے ہیں ۔
پاکستان کے پولیس نظام نے تھانے کے SHO کو ایک طرح سے جج یا قاضی کا کردار بھی سونپ رکھا ہے ۔ SHO اس بات کامجاز ہوتا ہے کہ اپنے علاقے میں دو اشخاص یا دوگرہوں میں ہونے والے تنازعہ کا اپنی عقل، سمجھ اور اختیار کے مطابق تصفیہ کرادے اور اِس مقصد کے لیے کبھی تو وہ کمزور غریب یا سیاسی اثرورسوخ نہ رکھنے والے ایک شخص یا گروہ پر دباوٴ ڈال کر اور کبھی دوسرے امیر طاقتور اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے شخص یاگروہ سے ناجائز فوائد اٹھا کر اس کی ایماء پر اپنے فیصلہ کو تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھار SHO اِس طرح کے معاملات میں دونوں گروہوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اپنے فیصلہ سے اُس گروہ کو فائدہ پہنچادیتا ہے جو اُسے مالی اعتبار سے زیادہ بڑی پیشکش کرتاہے۔ جب کہ بعض اوقات دو اشخاص یا گروہ خود SHO سے اپنے جھگڑے یا تنازعہ کے تصفیہ کی درخواست کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معاملہ عدالت میں گیا تو کئی سال تک اُنہیں انصاف نہیں مِل پائے گا اورعدالتی اور وکلا٫ کے اخراجات علیحدہ سے ہوں گے۔ وجہ کوئی بھی ہو ایک پولیس اہل کار کو دو اشخاص یا گروہوں کے درمیان فیصلہ کا اختیار دینا اِس سُست اور مہنگے عدالتی نظام کی دقیانوسیت کا بہت بڑا ثبوت بھی ۔عدالتیں خود بھی اِس عمل کو اس لیے نہیں روکتیں کیونکہ وہ بھی اپنے سُست اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہمیشہ Over Burdened رہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اُن پر مزید بوجھ نہ پڑے ۔ اِس فرسودہ عدالتی نظام پر یہ عوام کا عدم اعتماد ہی ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں لوگ اپنے جھگڑے پنچایت یا جرگہ کے نظام کے تحت کروانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں وقت اور پیسے کا ضیاع نہیں ہوتا ،مگر اِن پنچایتوں اور جرگوں میں بھی بعض اوقات عدل کے نام پر ظلم بانٹا جاتا ہے جن پر کبھی کبھار ہماری سوئی ہوئی عدلیہ اچانک جاگ کر ازخود نوٹس لے لیتی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں اکثر لوگوں کا عدالتی نظام کی بجائے جرگوں اور پنچایتوں کو تر جیح دینے کے باوجود ہمارا عدالتی نظام اتنا Over Burdened ہے کہ اِس میں لاکھوں کی تعداد میں کیسز التوا٫کا شکار رہتے ہیں اور زیرِ سماعت کیسز کچھوے کی رفتار سے رینگ رہے ہوتے ہیں مگر اِس ظلم پر مزید ظلم یہ کہ ہائی کورٹ کے ججوں کو گرمیوں میں دو مہینے اور سپریم کورٹ کے ججوں کو تین مہینے اور اسی طرح سردیوں میں پندرہ دن کی چھٹیاں تحفہ میں دے کر عدالتی نظام کو مزید ٹھپ کر دیاجاتا ہے اور اِن چھٹیوں میں بیچاری عوام اِن ججوں کی واپسی کی راہ تکتی رہتی ہے۔قومی اور مذہبی تہواروں اور اتوار کے دنوں میں دی جانے والی چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں اور یہ تعطیلات اس حقیقت کے باوجود دی جاتی ہیں کہ سپریم کورٹ سمیت پاکستان کی تمام عدالتوں میں زیر التواء کیسوں کی کل تعداد، لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق 19 لاکھ سے زائد ہے ۔
پولیس کے اِس تعفن زدہ اور فرسودہ نظام کو بدلنےکے نام پر، قیام پاکستان سے اب تک درجنوں رپورٹیں اور تجاویز مرتب ہو چکی ہیں ، عوامی نمائندوں اور پولیس کے نظام سے جڑے ہوئے ماہرین پر مشتمل کمیٹیوں کے علاوہ 1989-90 میں برطانوی، 1995 میں اقوام متحدہ،1996 میں جاپان اور1999 میں کولمبیا کی جانب سے غیر ملکی ماہرین پر مشتمل وفودسے پولیس نظام میں اصلاحات کے لیے تجاویزلی گئیں اور رپورٹیں مرتب کی گئیں ۔ اِسکے علاوہ مشرّف نے Police Order 2002 جاری کیا جس میں یہ دعوٰی کیا گیا کہ پولیس کے محاسبے کو یقینی بنانے ، اِسے غیر ضروری سیاسی دباوٴ سے آزاد کرنے ، اِسے عوام دوست بنانے اور عوامی مسائل حل کرنے کی خاطر پولیس کی صلاحیت بڑھانے کے لیے یہ Police Order ایک ہم پیش رفت ثابت ہوگا اور اِس سلسلے میں آخری اقدام سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا جب 2018-19 میں اُن کی قیادت میں وزراتِ قانون کے ماہرین اور موجودہ اور ریٹائرڈ IGs پر مشتمل Law and Justice Commission نے Police Performs—The Way Forward کے نام سے 8 ماہ میں ایک رپورٹ تیار کی لیکن پچھلے 73سال میں کی گئی یہ تمام کوششیں ، اگر انہیں وقتی طور پر مخلصانہ اور عرق ریزی پر مبنی سمجھ لیا جائے، تب بھی وقت ، پیسے اورصلاحیتوں کے ضیاع کے علاوہ کچھ ثابت نہ ہوئیں۔ اِسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسانی مسائل کے حل کے لیے صرف انسانی عقل اور اِنسان کے بنائے ہوئے نطٓام پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے اور وحی سے کوئی رہنمائی نہیں لی جاتی جبکہ دوسری طرف اگرانتظامی یعنی Administrative معاملات میں کچھ بہتری کی گنجائش ہو بھی تو وہ بھی ہماری جمہوری اور سرمایہ دارانہ سیاسی اشرافیہ کی پولیس کو اپنے سیاسی کنٹرول میں رکھنے کی ضد اور اِسکے ذریعے اپنے اپنے علاقوں میں پولیس کے ذریعے اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی خواہش کی وجہ سے پولیس میں اصلاح ممکن نہیں ہوپاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکوٴں، چوروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے ظلم سے عوام کو بچانے اور معاشرے میں جرائم کو کم کرنے کے لیے پولیس کو جدیدٹیکنا لوجی اور ہتھیاروں سے نہ تو لیس کیا جاتا ہے اور نہ ہی اِس ادارے کے اپنے بے شمار مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ فنڈز مختص کیے جاتے ہیں کیونکہ حکمرانوں کے لیے اِن کا موں پر پیسہ خرچ کرنازیادہ فائدہ مند نہیں بلکہ شہروں میں سڑکیں ، پُل، انڈر پاسز، موٹرویز ،میٹروبس اور اورنج لائن ٹرین زیادہ مفید منصوبے ہیں کیونکہ اِن میگا پراجیکٹس سے متاثرہو کر عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں ۔
یہ تمام بحث اِسی نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ پاکستان کےجمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کا مفاد، اِسکا امن اور تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہ نظام صرف ایک مخصوص ٹولے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ صرف اِسلام کا نظامِ خلافت ہی ہوگا جو باقی شعبوں میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ پولیس کے نظام کو بھی ریاست کے اندر اِسلامی آئیڈیا لوجی کے نفاذ، حفاظت اور عوام کے جان، مال اور عزت کی حفاظت اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے از سرِنو ترتیب دے گا۔
اِسلام میں پولیس جسے شُرطہ بھی کہا جاتا ہے اِسکی دو اقسام ہیں ایک عسکری پولیس اور دوسری وہ پولیس جو حکمران کے ساتھ اُسکے احکامات کی تنفیذ کے لیے موجود ہوتی ہے اور امن قائم رکھنے کے لیے اُسکا مخصوص لباس اور علامات ہوتی ہیں۔ عسکری پولیس فوج اور امیر جہاد یعنی شعبہٴ حرب کے ماتحت ہوتی ہے۔ حکمران کے ساتھ رہنے والی پولیس شعبہٴ امنِ داخلی (Department of Internal Security )کے ماتحت ہوتی ہے امام بخاری نے انسؓ سے روایت کیا ہے(( ان قیس ابن سعد کان یکون بین یدی النبی بمنزلۃ صاحب الشرط من الامیر)) "قیس بن سعدؓ رسول اللہؐ کے ساتھ ایسے رہا کرتے تھے جیسے ایک امیر (حاکم) کے ساتھ رئیسِ شرطہ ہوتا ہے۔”
شعبہ امنِ داخلی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے اندر امن و سلامتی کو قائم رکھے جن چیزوں سے داخلی امن و سلامتی کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں: اسلام سے ارتدار اور یاست سے بغاوت یا خروج جسکا اظہار تخریب کاری اور سبوتاژ کی شکل میں ہو مثلاً عمارتوں کو نقصان پہچانا ، ہڑتالیں ، توڑ پھوڑ ۔ انتشار ، ریاست کے اہم مراکز پر قبضہ کرنا یا وہاں لوگوں کو یر غمال بنانا، ذاتی عوامی اور ریاستی املاک کے خلاف جارحیت یا مسلح لڑائی کے ذریعے ریاست کے خلاف بغاوت وغیرہ اِسی طرح حرابہ یعنی راہ زنی، لوگوں کا مال لوٹنے کے لیے ڈرانا دھمکانا، لوگوں کے اموال کی چوری، لوٹ مار، ڈکیتی ، دھوکہ دہی، لوگوں کی املاک پر قبضہ ، لوگوں کو مارنا، زخمی کرنا یا قتل کرنا، لوگوں کی آبرو پر حملہ کرنا جیسا کہ اُن پر تہمت لگانا ، اُن کے بارے میں غلط باتیں مشہور کرنا اور زنا جیسے معاملات بھی اِن امور میں شامل ہے جو داخلی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ نیز مشکوک لوگوں پر نظر رکھنا اور اُن سے نپٹ کرامت اور ریاست کو لاحق خطرات کا ازالہ کرنا بھی محکمئہ امن ِ داخلی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اوراِن تمام خطرات سے نپٹنے کے لیے یہ محکمئہ صرف پولیس پر ہی انحصار کرتا ہے اور اگر حالات زیادہ خراب ہو جائیں یا کوئی معاملہ زیادہ سنگین صورتِ حال اختیار کر جائے تو محکمہ داخلی امن خلیفہ سے درخواست کرکے فوجی مدد بھی طلب کر سکتا ہے۔
اِن تمام خطرات سے ریاست اور امت کی حفاظت اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پولیس فورس کی انتہائی پیشہ وارانہ انداز اور اعلیٰ معیار کی جسمانی اور ذہنی تربیت کی جائے اور اِسے اِس جدید دور کی ایک انتہائی مستعد اور جدید فورس بنایا جائے جو کہ اپنے آپ کو اِسلامی آئیڈیالوجی کی محافظ اور عوام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت اپنا شرعی فریضہ سمجھتی ہو۔ پولیس فورس کے فرائض منصبی کا یہ اہم ترین پہلو آج کی پولیس میں ہمیں سِرے سے ہی نظر نہیں آتا اور جہاں تک اُن کی ٹریننگ کا تعلق ہے وہ موجودہ پولیس کو اوپر بیان کردہ چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کرنے کے قابل نہیں بناتی کیونکہ پولیس افسران اور عام اہلکار وں کی ریکروٹمنٹ (بھرتی) سے لے کر ٹریننگ تک کا سارا عمل برطانوی سامراجی دور کا ہے۔ یہاں پر اعلیٰ افسران کو سِول سروسز کے امتحانات کے ذریعے بطور ASPs بھرتی کیا جاتا ہے جب یہ اپنی عمر کے 27,28سال یا اِس سے بھی زیادہ گزار چکے ہوتے ہیں اور اِن میں سے زیادہ تر پولیس سروس کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے نہیں بلکہ معاشرے میں مادی اعتبار سے ایک بلندStatus حاصل کرنے اور ایک ایسا طاقتور مقام حاصل کرنے کےلیے جوائن کرتے ہیں جہاں پر اِس ادارے کے ساتھ جُڑی ہوئی طاقت انہیں باقی معاشرے میں دوسروں سے برتر بنائے۔ دراصل فوج اور پولیس دونوں ہی ادارے Career Oriented نہیں بالکل بنیادی طور پر یہ Service Oriented ادارے ہیں جی ہاں ایک ایسی Service (خدمت) جو ایک آئیڈیالوجی کو بیرونی طور پر دوسری اقوام تک پہنچانے اور Internally اُس آئیڈیالوجی کے نفاذ و حفاظت اور ریاست کے اندر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔اور اِن دونوں اداروں کی ٹریننگ بھی اِسی انداز سے ہونی چاہیے کہ یہ اپنے اِس بنیادی کردار کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اِسے پورا بھی کریں۔ گو کہ ہماری فوج بھی اِس وقت کسی مبدا یا آئیڈیالوجی پر نہیں کھڑی لیکن انتظامی اور نتائج کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو فوج کا ادارہ ہمیں پولیس کی نسبت کہیں زیادہ مستعد ، فعال اور منظم نظر آتاہے ۔اِسکی کچھ سیاسی وجوہات ہیں مگر اِس کی ایک انتظامی وجہ فوجی افسران اور اہلکاروں کی بھرتی اور ٹریننگ کا نظام ہے۔ اِن افسران اور جوانوں کو اِن کی نو جوانی کی عمر یعنی16,17 سال میں بھرتی کرکے انہیں ایک خاص انداز سے کچھ سالوں تک ٹریننگ دی جاتی ہے عام طور یہ عمر کا وہ بہترین حصّہ ہوتا ہے کہ اگر تر بیت کا انداز صحیح ہو اور ایک اعلیٰ مقصد کے لیے ہو تو انسان کا ذہن اپنے آپ کو ایک فکر کے مطابق ڈھالنے کے لیے آسانی سے تیار کرلیتا ہے۔ اور اِسی فکر پر وہ اپنی زندگی میں اعمال کی بنیاد بھی رکھ دیتا ہے۔ اِسلامی ریاست میں ویسے بھی 15 سال کے مردوں کے لیے لڑنے کی تربیت حاصل کرنا فرض ہے اگر اُسی وقت اِن نو جوان مردوں کی ذہنی صلاحیت، IQ Level اور ذہنی رجحان دیکھ کر فوج اور پولیس کے اداروں کے لیے انہیں منتخب کر لیا جائے اور نظریاتی خطوط کے ساتھ ساتھ بہترین جسمانی تربیت بھی دی جائے تو نہ صرف یہ کہ اپنی ٹریننگ کے بعد یہ اِس قابلِ ہوں گے کہ اِسلامی آئیڈیالوجی کے مطابق اپنے اپنے اداروں سے جڑے فرائض منصبی ادا کر سکیں بلکہ انتظامی طور پر بھی بہترین نتائج دے سکتے ہیں۔خلافت میں پولیس کے ادارے کو،ماضی کے ظالمانہ تشخص اور برطانوی راج کے اثرات سے مکمل طور پر پاک کرنے کےلیے ،تربیت کے دوران ان کے پیشے کےاعتبار سےجائزاور ناجائز اور انسانی اور اخلاقی اقدار سے شرعی احکامات کی روشنی میں روشناس کرایا جائے گا۔ تاکہ وہ عوام کو ڈرانے دھمکانے، ملزمان پر تشدّد کرنے اور جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل جیسے غیر شرعی اعمال اور کبیرہ گناہوں پر مشتمل اپنے ماضی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑا سکیں اور انسانی جان کی قدرو قیمت کو پہچان سکیں۔جہاں تک پولیس کو ایک جدید فورس بنانے اور انہیں بہترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کر نے کی بات ہے تو ریاست ِ خلافت ” مالا یتیم الواجب اِلا بہ فھو واجب ” "جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو سکتا ہو تو وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے” کے شرعی قاعدہ کی روشنی میں یہ یقینی بنائے گی کہ اِس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں وہ کردار ادا کرے جو اِسلام اِس فورس سے چاہتا ہے۔
موجودہ نظام میں SHO کو دو لوگوں اور گروہوں کے درمیان کسی تنازعے کو طے کرنے کا ایک جج یا قاضی جیسا جو اختیار حاصل ہے وہ اِسلام میں جائز نہیں۔ پولیس کا کام عدالت کے احکامات کی تنقید (Implementation) یا قا ضی کے کہنے پر کسی معاملے کی تفتیش میں مدد فراہم کرناہے ریاست خلافت اِسے اِسی کام تک محدود رکھے گی ۔ جہاں تک قاضی کی طرف سے دو لوگوں اور گروہوں کے درمیان صلح کروانے کے اختیار کا تعلق ہے تو یہ صلح بھی صرف انہیں معاملات میں کروانے کی اجازت ہے جہاں پرشرع نے اس بات کی اجازت دی ہے اور وہ صلح بھی صرف اِسلام کی شرائط کے مطابق ہی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ عدالت کا کام صلح کرانا نہیں ہوتا بلکہ دو فریقین کے درمیان تنازعے کا اسلام کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرناہوتا ہے ۔ حدیث نبویؐ ہے(( الصلح جائز بین المسلمین الا صلحا حرم حلالا او احل حراما والمسلمون علی شروطہم الا شرط حرم حلالا او احل حراما)) "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سِوائے اُس کے کہ جو شرعی کو غیر شرعی بنادے اور غیر شرعی کو شرعی اور مسلمان(اس صلح میں) اپنی شرائط پر قائم رہنے کے پابند ہیں سوائے اُن شرائط کے کہ جو شرعی کو غیر شرعی بنادے اور غیر شرعی کو شرعی۔”(ترمذی)
اِسی طرح FIR درج کرنے کا اختیار پولیس کے پاس ہونا درست نہیں اور کسی کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا غیر شرعی ہے ۔ یہ اختیارات موجودہ نظام میں مظلوم اور انصاف کے درمیان بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔ FIR شکایت کنندہ کی شکایت کے بعد پولیس کی ابتدائی تفتیش پر پولیس کا موقف ہوتا ہے جبکہ اِس میں شکایت کنندہ کی اصل شکایت یا الفاظ پولیس اپنے انداز سے تحریر کرتی ہے ۔ریاستِ خلافت میں شکایت کنندہ یا مظلوم سیدھا عدالت جاکر اپنی شکایت خود یا اپنے وکیل کے ذریعے درج کروا سکے گا اور عدالت سے انصاف حاصل کر سکے گا۔ یعنی مظلوم اور عدالت کے درمیان سے پولیس اور تھانہ کی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔
اِسی طرح موجودہ نظام میں یہ ظلم کہ ایک با اثر شخص اپنی ذاتی دشمنی کی بنا٫ پر کسی کے خلاف جھوٹی FIR درج کروا دیتا ہے اور پولیس اِسی جھوٹی FIR کی بنا٫ پر اُسکو حراست میں لے لیتی ہے، تنازعات کے معاملے میں FIR کا اختیار پولیس سے لے لینے کے بعد ریاستِ خلافت میں اِس ظلم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ پولیس کسی باہمی تنازعے کی صورت میں صرف عدالت کے حکم پر ہی کسی سے تفتیش کرنے کی مجاز ہوتی ہے اور اِس تفتیش کے دوران وہ ملزم کو تشدّد کا نشانہ ہرگز نہیں بنا سکتی کیونکہ یہ شرعاً حرام ہے ۔ امام مسلم نے رسول اللہؐ کی حدیث نقل کی ہے(( کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ)) "ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، اُسکی عزت اور مال حرام ہے۔”ہا ں البتہ ریاستِ خلافت اِس بات کو یقینی بنائے گی کہ پولیس کے تفتیشی افسران اور اہلکاروں کو تفتیش کے جدید ترین طریقوں سے آراستہ کیا جائے اور انہیں Forensic Evidences کی جانچ پڑتال کی مہارت حاصل کرنے کے لیے بہترین انداز سے ٹریننگ دی جائے تا کہ وہ اپنی تفتیش کے ذریعے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کریں اور عدالت کے بہترین معاون ثابت ہوں جبکہ عوام پولیس کی جانب سے کسی بھی زیادتی کی صورت میں محکمۃ ا لمظالم میں شکایت کرسکیں گے ۔ دوسری طرف ہمیں یہ بات بھی ذہن رکھنی چاہیے کہ اسلام میں یہ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود معاملے کی تہہ تک پہنچے ، خود ملزم سے سوال کرے اور اُس کی طرف سے جوابات کو اچھی طرح پَرکھے اور خود تمام حقائق کی جانچ پڑتال کرے گو کہ اس ضمن میں اگر اُسے کسی پہلوکی مزید تفتیش درکار ہو تو وہ پولیس کو احکامات صادر کرسکتا ہے جو تفتیش کے بعد اپنے دریافت کردہ حقائق قاضی کے سامنے لے کر آئے گی۔ موجودہ عدالتی نظام میں ایک جج تفتیش کے لیے پولیس پر مکمل انحصار کرتا ہےاور فیصلہ دینے کے لیے دونوں طرف کے وکلا٫ کے دلائل کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر کوئی وکیل عدالت کے سامنے موثر دلائل دینے اور عدالت کو اپنی چرب زبانی سے متاثر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو فیصلہ اُس کے حق میں دے دیا جاتا ہے چاہے حقیقی معنوں میں وہ کسی گناہ گار ہی کی وکالت کر رہا ہو۔ اور اِسی مہارت کو حاصل کرنے کے بعد وکلا٫ مظلومین اور سائلین سے انتہائی مہنگی فیسوں کا مطالبہ کر تے ہیں۔جس سے انصاف حاصل کرنا مشکل کے ساتھ مہنگابھی ہو جاتا ہے۔اِس ضمن میں آخری لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر ریاست معاشرے میں جرائم کی وجوہات کو ختم نہ کرے تو پھر چاہے پولیس کا ادارہ کتنا ہی مستعد اور جدید کیوں نہ ہو مجرموں کو قابو کرنے اور جرائم کی روک تھام میں نا کام ہی نظر آئے گا جیسا کہ ہمیں مغربی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر معاشرے میں رہنے والے افراد کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے، مادی اشیا٫ اور آسائشوں کی میڈیا کے ذریعے بے جا تشہیر کی جائے ، فحاشی اور عریانی کو میڈیا پر آزادی اور گلیمر جیسے ناموں سے منسوب کیا جائے ، عورت کی خوبصورتی اور جسم کو نمائشی چیز بنا دیاجائے ، معاشرے میں رہنے والے عام لوگ اِس بات کا سرِ عام مشاہدہ کریں کہ طاقت اور دولت ہی دنیا میں عزت ، مر تبہ اور سب کچھ حاصل کرنے کے ذرائع ہیں اور اِن تمام باتوں کے بعد پھر یہ امید کی جائے کہ لوگ جرائم کی طرف راغب نہ ہوں تو یہ سراسر حماقت اور جہالت ہے اِسکے برعکس اِسلام میں جرائم کی روک تھام کا منفرد نظام ہے ۔ اِسلام سب سے پہلے معاشرے میں پائی جانے والی اُن وجوہات کی سر کو بی کرتا ہے جن کی وجہ سے جرائم جنم لیتے ہیں۔ اِسلام کے معاشی قوانین جہاں ایک طرف غربت کو ختم کرتے ہیں وہیں اِسکا معاشرتی یا اجتماعی نظام معاشرے میں مرد و عورت کا بے جا اختلاط ختم کر کے معاشرے میں جنسی بے راہ روی کا سدِّ باب کرتا ہے، دولت اور طاقت کے حصول کی بجائے لوگوں میں تقویٰ کے حصول کو کامیابی کامعیار قرار دیتا ہے اور اِسے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے واحد ذریعہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اِسلامی ریاستِ خلافت میں تعلیمی نظام اور میڈیا کو اِس انداز سے استعمال کیا جائے گا کہ لوگ صراطِ مستقیم پر چلنا اپنی زندگی کا شعار بنائیں اور خدا کے خوف کی وجہ سے گناہوں اور جرائم سے دور رہیں اِس طرح برائی کا جڑ سے خاتمہ کیا جا تا ہے جبکہ سزاوٴں کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ امام احمد اور امام ترمذی نے رسول اللہؐ کی اِس حدیث کو نقل کیا ہے(( ادرؤ الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرج فخلو سبیلہ فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ)) "حدود کو جس حد تک ممکن ہو روکو، اگر تم مسلمان کے لیے راستہ نکال سکو تو اُسے آزاد کردو، قاضی کے لیے بہتر ہے کہ وہ مجرم کی معافی میں غلطی کر دے بجائےاِسکے کہ وہ ایک معصوم کو سزا سنا دے۔” لیکن اِسکے ساتھ ساتھ اگر کسی پر جُرم ثابت ہو جائے تو اُسے شرع کی روشنی میں قرار واقعی سزادی جاتی ہے تاکہ معاشرہ جُرم سے نفرت کرے اور سزا سے عبرت حاصل کرے جبکہ یہ شرعی سزائیں اُس مجرم کے لیے یومِ آخرة دنیا میں توبہ کی صورت میں اُسکے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ۔(( بایعونی۔۔۔۔۔۔ فمن وفی منکم فاجرہ علی اللہ ومن اصاب من ذلک شیئا فعوقب فی الدنیا فھو کفارۃ لہ۔۔۔۔ ))"مجھے بیعت دو ۔۔۔۔ جو کوئی بھی اپنی بیعت پوری کرے گا تو اِس کا اجر اللہ سے پائے گا اور اگر کوئی شخص کو ئی گناہ سر زد کر بیٹھے اور پھر اِسکی شرعی سزا پالے تو یہ( یومِ آخر ت) اِس گناہ کا کفارہ بنے گا۔۔۔۔”(بخاری)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہماری زندگی میں اِسلام کی بنیاد پر قائم ایک متقی معاشرے میں رہنے کی سعادت عطا فر مائے اور ہمیں ہماری صلاحیتیں ، جان اور مال اِسلام کے نظامِ حکمرانی کو قائم کرنے اور پھر اس کے استحکام کے لیے وقف کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
ختم شد