ورلڈ آرڈر (world order) سے متعلق سوال دراصل اس بات سے منسلک ہے کہ ایک قوم یا معاشرہ اپنے متعلق کیا رائے رکھتا ہے۔ وہ معاشرہ اپنے آپ کو کیسے دیکھتاہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: معیز مبین
ورلڈ آرڈر (world order) سے متعلق سوال دراصل اس بات سے منسلک ہے کہ ایک قوم یا معاشرہ اپنے متعلق کیا رائے رکھتا ہے۔ وہ معاشرہ اپنے آپ کو کیسے دیکھتاہے؟ اس معاشرے کا مقصد کیا ہے؟ اس معاشرے کی پہچان کیا ہے؟ اور اس کی اپنے بارے میں رائے کا دنیا میں موجود دوسرے معاشروں اور تعلقات سے کیا تعلق ہے؟ لہٰذا ورلڈ آرڈر کی جستجو دراصل ایک قوم یا معاشرے کی دنیا میں موجود دیگر اقوام اور معاشروں سے ایسا تعلق بنانے کی جستجو ہے جو اس قوم یا معاشرے کے اپنے تشخص کو مضبوط کرے۔اسی لیے کسی بھی دور میں ورلڈ آرڈر کی شکل، فطرت یا معیار اس وقت کی طاقتور ترین قوم کے فکری رجحانات، مفادات اور جذبات کا براہِ راست نتیجہ ہوتاہے۔ لہٰذا یہ زیادہ مناسب ہے کہ ورلڈ آرڈر کو عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کے نتیجے کے طور پر دیکھا جائے جہاں ہر قوم یا معاشرہ دوسروں پر اپنے اس نقطہ نظر کو ثبت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات کیسے منظم کیے جائیں۔ مختلف اقوام یا معاشروں کے درمیان تعلقات کا حتمی ڈھانچہ کیا بنتا ہے ، یہ اس مقابلے میں شامل طاقتور ترین اقوام کی طاقت اور اثرورسوخ کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔اسی لیے ورلڈ آرڈر کے قیام سے متعلق سوال کے جواب میں احتیاط برتنا لازم ہے۔ ورلڈ آرڈر ایسا نہیں ہے اور نہ ہی اس کی تعریف ایسے کرنی چاہیے کہ یہ ایک مستقل طور پر مستحکم اداروں کے ذریعے دنیا کے مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کا طریقہ کار ہے، کیونکہ یہ زاویہ عالمی تعلقات کی سمجھ سے عاری ہے اور ملکی اور عالمی معاشرے میں فرق نہیں کرتا۔
جو امر ملکی اور عالمی معاشروں میں فرق کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ملکی معاشرے میں تعلقات کی نوعیت میں مستقل مزاجی ہوتی ہے جو عالمی تعلقات میں نہیں ہوتی۔ چونکہ ملکی معاشرے کے اجزاءکے درمیان مستقل تعلقات ہوتے ہیں، لہٰذا معاشرے کے یہ اجزاء اپنے ان مستقل تعلقات کو منظم کرنے کیلئے تصورات ، اعتقادات اور پیمانے مرتب کرتےہیں اور جب ان تعلقات کی تنظیم سے متعلق اتفاق ہو جائے تو ملکی معاشرہ ایک حکمران یا اہلِ اقتدار کو مقرر کرتا ہے جو معاشرے کے مستقل تعلقات کو ان تصورات، اعتقادات اور پیمانے کے مطابق منظم کرے، جو معاشرہ ان تعلقات کے بارے میں رکھتا ہے۔یہ توجہ طلب ہے کہ ملکی معاشرے کی فکری تبدیلی کے نتیجے میں جو چیز تبدیل ہوتی ہے وہ اس معاشرے کے اجزاء کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے والے تصورات، اعتقادات اور پیمانے ہیں، نہ کہ ملکی معاشرے کے لوگوں کے درمیان تعلقات کا مستقل ہونا۔تعلقات کا مستقل ہونا ملکی معاشرے کے انتظام کے لیے مستقل و غیر عارضی ڈھانچے کو بیان کرتا ہے جو افراد، معاشرے میں موجود تعلقات سے متعلق غالب افکار اور جذبات پر اور اس ا قتدار پر مشتمل ہے جو معاشرے کے غالب تصورات اور اعتقادات کے مطابق ان تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ عالمی معاشرے کامعاملہ ایسا نہیں ہے۔مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات سے متعلق کچھ بھی مستقل نہیں۔مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات انفرادی ریاستوں کے نقطۂ نظر پر منحصر ہیں کہ وہ ریاستیں اپنے آپ کو اور نتیجتاً دنیا سے اپنے تعلقات کوکیسے دیکھتی ہیں۔لہٰذا عالمی تعلقات کی نوعیت سے متعلق دنیا کی مختلف اقوام میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکتا۔لہٰذا فطری طور پراگر اقوام کے درمیان کوئی مستقل تعلقات موجود نہیں تو مختلف معاشروں کے درمیان عالمی تعلقات منظم کرنے کیلئے کسی اقتدار کی بھی ضرورت نہیں۔لہٰذامستقل اداروں کے ذریعے ریاستوں کے درمیان منظم تعلقات پر مبنی ایک ورلڈ آرڈر کی جستجو ایک سراب ہے۔یہ تودراصل مغرب کا ایک فکری (آئیڈیالوجیکل)نقطۂ نظر اور دنیا کے امور کو منظم کرنے کے بارےمیں اس کا مخصوص زاویہ ہے۔بہرحال یہ ممکن ہے کہ ایک قوم کے باقی دنیا کے ساتھ تعلق کو استوار کرنے کے عمل میں کسی حد تک مستقل مزاجی اور استقامت کا مشاہدہ کیا جا سکے اگر وہ قوم باقی دنیا سے اپنا تعلق منظم کرنے میں ایک مستقل، جامد اور غیر لچکدار طریقے کو استعمال کرتی ہے۔ اس نوعیت کا مستقل نقطہ ٔنظر آئیڈیالوجی پر مبنی اقوام اختیار کرتی ہیں جو عالمی تعلقات چلانے کیلئے ایک مستقل طریقہ ٔکار اپناتی ہیں لیکن نقطۂ نظر کی یہ استقامت اس قوم کی اندرونی تنظیم ، زندگی کے بارے میں نقطہ ٔنظر اوراپنے بارے میں خود اپنی رائےاور امیج سے نکلتی ہے، یہ امربذاتِ خود ہی دنیا کو منظم تعلقات کے کسی مخصوص ڈھانچےمیں نہیں ڈھالتا۔ دنیا کی مختلف اقوام کے تعلقات کے درمیان ایک مستقل پَن صرف تب ہی نظر آ سکتا ہے جب خارجہ تعلقات کی طرف ایک مستقل نقطۂ نظر رکھنے والی آئیڈیالوجی پر مبنی قوم دنیا کی سب سے بااثر قوم بن کرغالب ہو جائے جو پھر اپنی طاقت اور اثرورسوخ کو اس لیے استعمال کرے کہ دنیا کی مختلف اقوام کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے بارے میں اپنے مخصوص نقطہ نظر پر دنیا کو مجبور کر سکے۔
مغربی ورلڈ آڈر کے نظریہ کے مطابق عالمی تعلقات میں مستقل مزاجی ہونی چاہیے یعنی یہ تعلقات مغربی نقطۂ نظر کے مطابق ہونے چاہیے۔ ورلڈ آڈر کے مغربی تصور کی بنیادی سوچ ویسٹ فیلی Westphalianخودمختاری کا تصور ہے جسے یورپ کی آپس میں لڑنے والی اقوام نے 1648 میں جرمنی کی ریاست ویسٹ فیلیا میں مرتب کیاتھا۔ ویسٹ فیلیا میں ریاستوں کو اس چرچ سے آزاد سیاسی اکائیوں کے طور پر تسلیم کیا گیا جن عیسائی چرچوں سے وہ وابستہ تھیں۔عیسائی دنیا نے آپس میں امن پر اتفاق کیا جس نے یورپ میں موجود فرقہ وارانہ جنگوں کا خاتمہ کیا اور ریاست کے تصور کو علاقائی سرحدوں میں قید کردیا گیا ،وہ اقوام کہ جن کی جڑیں نسلی بنیادوں پر ایک معاشرے کے تاریخی وجود میں تھیں یا کچھ مخصوص جغرافیائی حدود میں تھیں۔ لہٰذا عالمی تعلقات اب کچھ حد تک مستقل مزاجی کی بنیاد پر استوار کیے جائیں گے جن میں اولین بنیاد یہ ہے کہ ریاستوں کی جغرافیائی سرحدوں کا احترام لازمی ہو گا، یوں ایک معاشرے کا تشخص ایک قوم کے طور پر ہو گا جس کی جڑیں کسی خاص یا کچھ مخصوص نسلوں میں یا پھر کسی مخصوص جغرافیائی حدود میں موجود لوگوں میں ہیں اور کسی قوم کے اس حق کا احترام اور تحفظ کیا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی فکری سمت کا تعین کرسکتی ہے۔بجائے یہ کہ ریاستیں خارجہ تعلقات اس نقطۂ نظر کے مطابق چلائیں کہ جو وہ ان تعلقات کے بارے میں رکھتی ہیں ، ریاستوں پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ مندرجہ بالا اصولوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی چلائیں جس نے ایسے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھی جو عالمی تعلقات کومندرجہ بالا اصولوں کی بنیاد پر استوار کرے گا۔ وہ فطری سوال جس نے عالمی تعلقات کے اس نظریہ سے جنم لیا وہ یہ تھا کہ اگر ایک یا متعدد ریاستیں اپنے خارجہ تعلقات میں مندرجہ بالا اصولوں پر عملدرآمد سے انکار کریں تو کیا ہو گا؟ یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسی صورتحال میں اتحادی ریاستیں اپنی طاقت کے استعمال کے ذریعے منکر ریاست یا ریاستوں کو ویسٹ فیلیا کے امن معاہدے میں متفق اصولوں پر رجوع کرنے پر مجبور کریں گی۔لہٰذا عالمی تعلقات میں کچھ اصولوں کی بنیاد پر مستقل مزاجی کی جستجوایک عالمی اقتدار کی ضرورت کو جنم دیتی ہے جو یہ یقین دہانی کرے کہ یہ مستقل مزاجی موجود رہے اور ان اصولوں پر عملدرآمد ہوتا رہے۔ریاستوں کے اتحاد کی طاقت کے بل بوتے پرریاستوں پر ویسٹ فیلی امن معاہدے کے اصولوں کے التزام کی یقین دہانی کو ‘طاقت کے توازن'(Balance of Power) کے تصور کے طور پر دیکھا گیا، جو دورِ جدید کے ورلڈ آرڈر کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کا پہلے یورپ اور پھر امریکہ بھی علمبردار بن گیا اور جسے ورلڈ آرڈر کا ویسٹ فیلی تصور کہا جا سکتا ہے۔1814-1815 میں منعقد ہونے والی ویانا کانفرنس کا مقصد یورپ میں طاقت کے توازن کو قبل از نپولین کے توازن پر واپس لے جانا تھا جہاں برطانیہ، آسٹریا، پروشیا اور روس نے فرانس کے پھیلاؤ سے متعلق ارادوں کو قابو میں رکھنے کیلئے ایک اتحاد بنایا، پس کچھ جغرافیائی سیاسی تبدیلیاں کی گئیں جیسا کہ متعدد جرمن ریاستوں کو ایک مضبوط ریاست بنانے کیلئے پروشیا میں جوڑ دیا گیا تاکہ وہ براعظم یورپ میں موجودفرانسیسی طاقت کو قابو میں رکھ سکے۔یورپی ہم آہنگی (The concert of Europe) دو ادوار میں یورپ میں موجود طاقت کے توازن کی عکاسی کرتا ہے ۔ یورپی ہم آہنگی کا پہلا دور 1815سے 1860کے عشرے تک محیط ہے جب کہ دوسرا دور 1880 کے عشرے سے 1914 تک پھیلا ہوا ہے۔ یورپی ہم آہنگی کے پہلے دور میں یورپ میں پانچ طاقتیں حاوی تھیں :آسٹریا، فرانس، پروشیا، رشیا اور برطانیہ۔ یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے پیش نظر، فرانس، برطانیہ اور روس نے جنگِ عظیم اول میں جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جب جرمنی نے روس کے خلاف جنگ شروع کی ، جس کا نتیجہ پہلی جنگِ عظیم کی شکل میں نکلا۔اور یہ یوریشیا میں طاقت کے توازن ہی کو اپنی پہلی حالت پر برقرار رکھنے کا مقصد تھاکہ امریکہ ،برطانیہ، فرانس اور سوویت روس نے جرمنی ،اٹلی اور جاپان کے خلاف دوسری جنگِ عظیم میں ایک ریاستی اتحاد بنایا تاکہ ان کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔ پھر یورپی ریاستوں اور امریکہ کا یورپ میں نیٹو(NATO) بنانا سوویت پھیلاؤ اور بعد کے روس کے خلاف یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے تھا۔
اصل میں طاقت کے توازن کا تصور براعظم یورپ میں طاقت کی تقسیم کی حقیقت پسندانہ عکاسی کرتا تھا۔ یورپ میں کوئی بھی طاقت اتنی طاقتور نہ تھی کہ اکیلی ہی پورے یورپ پر حاوی ہوتی۔ اگرچہ مختلف مواقع پر مختلف طاقتیں دیگر طاقتوں پر انفرادی تنازعات میں حاوی رہیں لیکن طاقتوں کے اتحاد کے مقابلے میں کوئی بھی مکمل طور پر حاوی نہ ہو سکا۔یورپی طاقتوں کی یہی حقیقت تھی کہ جسے طاقت کے توازن کے ایک عملی تصور میں ترتیب دیا گیا جسے پہلے ایک یورپی اور بعد میں عالمی ورلڈ آرڈر کو قائم رکھنے اور منظم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
ویسٹ فیلیWestphalianخودمختاری کی سوچ ایک سخت گیر تصور نہ تھا کہ جو ریاستی سرحدوں کی ناقابلِ تبدیل حدود وقیود طے کرے بلکہ یہ دراصل ان عظیم طاقتوں کے ارادوں پر موجود ایک روک تھی، جن عظیم ریاستوں کے پاس اپنی اور دیگر ریاستوں کی علاقائی سرحدوں میں ردوبدل کرنے کی صلاحیت، جذبہ اور ارادہ موجود تھا۔لہٰذا بنیادی طور پر ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ اور اس سے جڑا ہواطاقت کے توازن کا تصور عالمی طاقت کو ایک دورمیں پائی جانے والی عظیم طاقتوں میں تقسیم کرتا ہے، نہ کہ لازمی طور پران کی علاقائی سرحدوں اور سلطنتوں کے عملی پھیلاؤ پر کوئی سخت رکاوٹ کھڑی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ روس نے پچھلی چاروں صدیوں میں مسلسل اپنی علاقائی سرحدیں پھیلائیں، جرمنی نے انیسویں صدی کے اوائل اور اواخر میں سرحدیں پھیلائیں جبکہ فرانس اور برطانیہ نے 17ویں صدی سے افریقہ ،ایشیاء اور امریکہ میں مسلسل اپنی استعماری سلطنتیں پھیلائیں جبکہ امریکہ انیسویں صدی کے بیشتر دور میں اپنے علاقے کو مسلسل پھیلاتا رہا۔ یہ تمام پھیلاؤ اس وقت تک قابلِ قبول تھا جب تک دیگر عظیم ریاستیں اس پھیلاؤ کو اپنے بنیادی مقاصد کیلئے خطرہ نہ سمجھیں۔ پھر جنگِ عظیم دوئم کے بعد امریکہ نے ریاستوں کی سرحدوں کے احترام کو سنجیدگی سے لیا جب اس نے سوویت یونین کو چیلنج کرتے ہوئے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی۔لہٰذا ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ اور اس سے جنم لینے والا طاقت کے توازن کا تصور اس اندازکو مستقل بنانا چاہتا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں کو کیسے سنبھالا اور ترتیب دیا جائے گا اور عالمی سطح پر طاقت کی تقسیم کس طرح کی جائے گی۔ عالمی تعلقات کا ایسے منظم ہونا تاریخ کے دھارے کا فطری و لازمی نتیجہ نہیں بلکہ یہ عالمی تعلقات کو تعلقات کی تنظیم کے بارے میں مغربی نقطہ ٔنظر کے سانچےمیں ڈھالنے کی دانستہ کوشش ہے۔
مغربی یورپ میں نمودار ہونے والی عالمی معاملات کو منظم کرنے کی مغربی یورپی سوچ کے طور پر ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ بھی مغربی تہذیب کے کئی زاویوں کی طرح، جیسے پہلے بیان ہوا،اس مقصد کو حاصل کرتی ہے کہ عالمی طاقت کی تقسیم کی موجودہ حالت کومنجمد کر کے ایسے ہی برقرار رکھا جائے۔اس مقصد کے حصول کیلئے خودمختاری کے اس تصور کو استعمال کیا گیا جو ایسے معاشرے میں پیوست تھا جو نسلی اعتبار سے ایک تھا یا ایک معاشرہ جو تاریخی طور پرمتحد تھا اور ایک لمبے عرصے سے مخصوص جغرافیائی علاقے میں آبادتھا۔جیسے کہ بیان ہوا کہ ویسٹ فیلی خودمختاری کو معاشروں کی داخلی تنظیم کے تصور کے طور پر نہیں لیا گیا بلکہ اس تصور کو ویسٹ فیلیا امن معاہدے کے وقت یورپ میں موجود طاقت کی تقسیم اور جغرافیائی سیاسی حقیقت کی بنیاد پر مرتب کیا گیا۔جب یورپی اقوام کا زوال ہوا اورامریکہ اور سوویت یونین نے دنیا کی باگ دوڑ سنبھالی تو انھوں نے عالمی معاملات میں یورپی اثر کم کرنے کیلئے کالونیوں کے خاتمے کیلئے زور لگایا۔کالونیوں کے خاتمے کی اس مہم کے نتیجے میں دنیا میں درجنوں نئی ریاستیں آزاد ہو کر وجود میں آئیں جنہوں نے ویسٹ فیلی خودمختاری کے ماحول میں آنکھ کھولی۔عالمی معاملات کو منظم کرنے میں یہ ویسٹ فیلی خودمختاری کا سب سے زبردست اثر تھا جبکہ دوسرا بڑا اثر 1916ء میں سائیکس پائیکاٹ معاہدے Sykes-Picot Agreementکے بعد سابقہ خلافت کے علاقوں کو قومی ریاستوں کی شکل دینا تھا ۔ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ کو معاشروں کی اندرونی تشکیل تک وسعت دی گئی جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں نئے معاشرے تشکیل دیے گئے جن کی بنیاد معاشرے میں کسی مخصوص نسل یا نسلوں کا موجود ہونا تھا جنھیں جوڑ کر نیا معاشرہ تشکیل دے دیا گیا۔ لہٰذا معاشرے کی یہ تشکیل ہمیشہ فطری نہیں تھی حتیٰ کہ نئے معاشروں کی بھی جنھیں ایک ہی رنگ و نسل میں سے کاٹ کر علیحدہ بنایا گیا۔ مشترکہ نسل کی بنیاد پر شناخت کا ہی ربط واحد ربط نہیں اور نہ ہی یہ مضبوط ترین ربط ہے جو معاشرے کو جوڑے رکھتا ہے۔ معاشرہ ایک لمبے عرصے سے ساتھ رہنے والے افراد کے درمیان مستقل تعلقات کے بارے میں ایک وسیع تر تصور ہے۔تعلقات میں یہ مستقل مزاجی جو ان متعدد تعلقات پر پھیلی ہوتی ہے جو فطری طور پر ایک لمبا عرصہ ساتھ رہنے کے بعد پیدا ہو جاتے ہیں، اور وہ اس معاشرے کو اس بات کی طرف دھکیلتے ہیں کہ معاشرہ ایسے تصورات، اعتقادات اور پیمانے ترتیب دے جو ان تعلقات کو منظم کریں اور بالآخر ایک اقتدار مقرر کیا جائے جو اس معاشرے کے اعتقادات کے مطابق اس پر حکومت کرے۔ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ پر پیدا ہونے والی کئی نئی ریاستوں میں معاشروں کے بارے میں یہ وسیع ترین اور تاریخ میں پیوست تصور موجود نہیں تھا۔ان نئے معاشروں کوباہم مربوط رکھنے کیلئے ایک طاقتور آئیڈیالوجی کی عدم موجودگی اور قدیم عرصے سے موجود تعلقات کو مستقل رکھنے کیلئے تاریخ کے تسلسل وزن کی عدم موجودگی کی وجہ سےزیادہ تر نئی قومی ریاستیں کمزور تھیں اور کئی ممالک کے معاملے میں بالکل غیر فطری تھیں۔ علاوہ ازیں ، کچھ نئے معاشروں کیلئے تاریخ ان کے معاملات کے خلاف برسرِپیکار تھی۔ان میں سے زیادہ ترمعاشروں کا خودمختاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ماضی میں ان پر ہمسایہ سلطنتیں یا عظیم طاقتیں حکومت کرتی تھیں یا مقامی خودمختاری والے علاقے عظیم طاقتوں کی انتظامیہ کے نیچے صوبے تھے یا ان کی سرحد پر تھے۔ حتیٰ کہ اگر کسی نے آزادانہ حکومت کی بھی تو خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کا صفر یا پھر نہ ہونےکے برابر تجربہ ہی حاصل کیا۔ان میں سے کچھ نئے معاشروں کا اپنے آپ پر حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہ تھااور ان پر ان کے وقتوں کی عظیم طاقتیں ہی حکومت کرتی رہیں یا پھرانھوں نےعظیم طاقتوں کے پھیلاؤ کے ارادوں تلے ایک لمبے عرصے رہنے کی وجہ سے اپنی حکومت کرنے کی صلاحیت کھو دی۔لہٰذا یہ حیران کن نہیں تھا کہ یہ نئی قومی ریاستیں کمزور تھیں جنھیں حکومت اور انتظامیہ چلانے سے متعلق شدید مسائل لاحق تھے۔ اکثر ریاستوں نے محض استعماری یاعظیم سلطنتوں کے انتظامی ڈھانچوں ہی کو چلایا اور کبھی بھی حکومت اور انتظامیہ کیلئے اپنے اور خالص طریقہ کار وضع نہ کر سکیں۔
لہٰذا آج ناکام ریاستوں اور تیسری دنیا کی ترقی پذیر ریاستوں کا جو معاملہ دنیا کے سامنے ہے دراصل ویسٹ فیلی خودمختاری کی سوچ کی عالمگیریت اور ویسٹ فیلی تصور کی بنیاد پرعالمی تعلقات میں مستقل مزاجی پر مغرب کے اصرار کا براہِ راست نتیجہ ہے۔اس کی وجہ سےان نئی قومی ریاستوں میں لاکھوں لوگ تکالیف اور مایوسی سے دوچار ہوئے ہیں جن ریاستوں کو نیا کہہ کربنایا گیا جو دراصل زیادہ تر مصنوعی معاشرے تھے۔یہ بھی حیران کن نہیں کہ ان میں سے کئی ریاستیں داخلی اتحادو یگانگت کے مسائل کا شکار ہیں جن کی وجہ انہی میں بکھری ہوئی چھوٹی مگر منظم اور مضبوط قومیتوں کے چیلنج ہیں جوویسٹ فیلی تصور کے مطابق نسلی بنیاد پر اپنی مادری ریاستوں سے آزادی چاہتی ہیں۔دورِ جدید کی ریاستیں آج تک اپنی منظم ریاستی پالیسیوں کے ذریعے ایک قومیت کے وسیع ترتصور کو پروان چڑھا رہی ہیں جو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر ایک ایسی ریاست کے قیام کا کیا مقصد ہے جواپنے قیام کے بعد بھی اپنے محکوم معاشرے کو ایک مقصد دینے کی کوشش کر رہی ہے اور کبھی کبھی تو یہ وسیع تر قومیت کو پروان چڑھا کرمعاشرے کو یکجا کرنے کی کوشش ریاست کے قیام کے بعد دہائیوں تک بغیر کسی خاطر خواہ کامیابی کے جاری رہتی ہے۔دنیا کےمختلف علاقوں میں آج کمزور اور ناکام ریاستوں کی موجودگی دنیا کے معاملات پر عظیم طاقتوں کی گرفت کو مزید مضبوط کرتی ہے اور عظیم طاقتوں کے درمیان عالمی طاقت کی تقسیم کو مستحکم کرتی ہے،جو ویسٹ فیلیا کے معاہدے کا اصل خواب تھا۔
عصرِ حاضر کی عالمی صورتحال اور وہ عظیم طاقتیں جو اس صورتحال کو شکل دیتی ہیں،ان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کی سب سے مؤثر اور اثر و رسوخ کی حامل عظیم طاقتیں ماضی میں ایک طویل عرصے سے ایک واحد معاشرے کے طور پر موجود رہی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بااثر ریاستوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد ہی ہے جو عالمی صورتحال پر اثرانداز ہوتیں ہیں۔ آج کے کئی جغرافیائی سیاست geopolitics کے اہم سوالات جو کہ عالمی معاملات کے عالمی انتظام اور عظیم طاقتوں کی رسہ کشی کے لحاظ سے انتہائی اہم ہیں دراصل انہی قدیم معاشروں کی تاریخ اور مقاصد میں پیوست ہیں۔ امریکہ دنیا پر قوفیت و سبقت قائم رکھنے کی کوشش میں اسی امرکو بنیاد بناتا ہے کہ کوئی بھی طاقت یورپ اور ایشیا کے ملحقہ علاقے یعنی یوریشیا کو کنٹرول کیے بغیر دنیا کو قابو میں نہیں کر سکتی۔لہٰذا امریکہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں موجودقدیم جغرافیائی سیاسی(جیو پولیٹیکل) سوالات کا حل پیش کیا اور ان چیلنجوں کے مخصوص حل کے ذریعے امریکہ نے دنیا میں اپنے غلبے کو یقینی بنایا۔یورپ میں امریکہ نے جنگ سے بچاؤاور بیشتر یورپی ریاستوں کے درمیان علاقائی سیاسی مقابلے کے روک تھام کی کوشش کی، ان ریاستوں میں جرمنی اور فرانس پیش پیش ہیں،اس کیلئے ان ریاستوں کو نیٹو (NATO) کے ذریعے تحفظ دے کر ان کے دفاعی اخراجات کو کم اور فوجی ارادوں کو کمزور کر دیا۔ امریکہ نے جان بوجھ کران تاریخی اور قدیم معاشروں کی توانائیوں کو یورپی یونین کے قیام کے ذریعے اقتصادی ترقی میں مشغول کر دیا تاکہ وہ اپنے علاقائی سیاسی مقاصد بھول جائیں۔اسی طرح امریکہ اُس روس کو بھی محدود کرنا چاہتا ہے جو مسلسل چار صدیوں تک پھیلتا رہا ہے اور اس نے ماضی میں فوج کشی اور فتوحات کے ذریعے عظیم طاقت کا مقام اور مرتبہ حاصل کیا۔لہٰذا نیٹو(NATO) اور یورپی یونین کا قیام امریکہ کیلئے بیک وقت دو مقاصد حاصل کرتا ہے، یعنی یورپ کی طاقتوں کو محدود کرنا اوریورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھ کےروس کے پھیلاؤ کے عزائم کو روکنا۔یوریشیا کے مشرق بعید میں جنگجو جاپان اور ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات تاریخی جغرافیائی سیاسی(جیو پولیٹیکل) چیلنج رہے ہیں اور اس کے ساتھ ایک انتہائی قدیم چینی معاشرہ بھی جو اپنی تہذیب پر فخر اور ناز کرتا ہے۔ امریکہ مشرق بعید کو جاپان کے ساتھ ایک فوجی معاہدے سے منظم کرنا چاہتا ہے جو جاپان کی جنگی فطرت کو قابو کرے اورجاپانی توانائی کو معاشی ترقی کی سمت موڑے۔جاپان اور کوریا دونوں میں اپنی فوجی موجودگی کے ساتھ امریکہ مشرق بعید میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اٹھتے ہوئے چین کو منظم کر کے اسے عالمی طاقت بننے سے روک سکے۔یوریشیا کی جنوبی سمت یعنی خلیج فارس میں امریکہ اپنی فوجوں کی موجودگی سے علاقے کے توانائی کے وسائل پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتا ہے اور مسلم دنیا کے وسیع و عریض سیاسی علاقے پر اسلامی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتا ہے۔دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی امریکہ اس عمل میں علاقے کی تاریخ سے اور ماضی میں خطے کے سیاسی علاقائی چیلنجوں سے اچھی طرح واقف ہے۔یہی وہ علاقہ تھا جہاں اسلامی ریاست موجود تھی، جس کی حکومت تلے موجودصدیوں پرانے معاشرے کوبکھیر دیا گیا اور اسے اوپر ذکر کی گئی درجنوں نئی ویسٹ فیلی قومی ریاستوں سے تبدیل کر دیا گیا۔تاریخ اور قدیم وحدت پر مبنی معاشروں کی لچک اور زور کا ڈر ہی وہ عنصر ہے جن نے امریکہ اور مغرب کو مسلسل مجبور کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ اور وسیع تر مسلم دنیاکو ایک سیاسی جغرافیائی چیلنج کے طور پر لیں ، جس میں یہ صلاحیت ہے کہ عالمی ورلڈ آرڈر کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے۔
معاشروں کی تاریخ ان کے عالمی اثرورسوخ کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر معاشرے میں ایک مضبوط فکر نہ ہو جو بنیاد سے مکمل اور جامع طور پرمعاشرے کے تشخص کو تبدیل کر دے اور جو معاشرے میں موجود مستقل تعلقات کی تنظیم کو تبدیل کر دے تو انسانی معاشرے عالمی مقام اور اثرورسوخ کے حصول کے عزائم اور تخلیقی توانائیوں میں تنظیمی صلاحیت اور لچک کیلئے اپنی تاریخ پر انحصار کرتے ہیں۔بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ صرف وحی الٰہی تھی جس نے پہلے یورپی دنیا اور مشرق وسطیٰ کے کچھ علاقوں کو بدل کر رکھ دیا اور پھر اسلام نےمعاشروں کو ان کے ماضی کے تشخص کو چھوڑنے اور بالکل نئے تشخص اور زندگی کے مقصد کو اپنانے پر مجبور کیا۔ اگرچہ سوویت یونین نے انسانی دماغ سے تخلیق کردہ ایک نئی آئیڈیالوجی اپنائی جس نے روسی معاشرے کو یکسر تبدیل کر دیا، مگر کمیونیزم ایک بنیادی تصور کے طور پر صرف لینن اور سٹالن کے دور کے سوویت معاشرے میں ہی جذب ہوا۔نیکیٹا خروشیف کے اقتدار میں آنے سے ، جو 1953 میں سٹالن کی وفات کےبعد سوویت یونین کا ایک طاقتور رہنما بنا، سوویت انقلاب کے کچھ عرصہ بعد ہی ،سوویت خارجہ پالیسی نے تاریخی روسی خارجہ پالیسی کے اہداف کا اظہار کرنا شروع کر دیا جس کا مقصد اپنے دونوں سابقہ طاقتور قائدین کے طریقے پر کمیونسٹ افکار کی ترویج نہیں تھی بلکہ روسی معاشرے کیلئے اثرورسوخ اور وقار حاصل کرنا تھا۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کسی بھی معاشرے کی عالمی اثرورسوخ کی جستجو میں تاریخ کا کردار اہم کیوں ہے،اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک تاریخی بااثر معاشرہ کےطور پر موجود ہونا بذاتِ خود ایک ایسامعاشرہ پیدا کرتا ہے جس میں ایک احساسِ برتری اور اپنی صلاحیت اور قابلیت پر اعتماد ہوتا ہے جو اس معاشرے کے عالمی طاقت بننے کے عزائم کو ترتیب دیتا ہے۔قومیں عالمی طاقت اس لیے حاصل کرتی ہیں تاکہ دوسروں پر اپنے احساسِ برتری کو ثبت کر سکیں، غیر ملکی سطح پر دولت کا حصول اور وسائل کا استحصال کر سکیں یا پھر ایک آئیڈیالوجی کے بتائے گئے مشن کو پورا کر سکیں۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ معاشرے جو قدیم عرصے سے ایک واحد معاشرے کے طور پر ہی موجود ہوتے ہیں وہ ایسے ادارے قائم کر لیتے ہیں جو محض افراد کی اپنی ذہانت یا کوشش پر انحصار نہیں کرتے اور عالمی طاقت اور اثرورسوخ کے لیے درکار صلاحیتوں کو مضبوط کرتے ہیں جیسے فوجی اور اقتصادی طاقت، ٹیکنالوجی میں جدت اور ایک منفرد ثقافت جو ان معاشروں میں ایک مشن اور مقصد کا احساس پیدا کرتی ہے۔ فوجی مصروفیات کی طویل تاریخ معاشروں میں اکثر جنگجوؤں کی نسل اور ایسی ثقافت پیدا کرتی ہے جو جنگی صلاحیتوں کو اعلیٰ گردانتی ہے اور جنگجوؤں کو مرتبہ و مقام دیتی ہے۔اسی طرح ایسے معاشرے فوجی سامان کی وسیع صنعت کے حامل ہوتے ہیں۔ طویل عرصے کی خوشحالی اور جدت سے بھرپور تاریخ سیاسی طاقت اور عزائم کا احساس پیداکرتی ہے ، اور اس معاشرے میں کام کا سلیقہ اور صنعتی ثقافت بھی لاتی ہے جو اس معاشرے کی پیداواری طاقت کو مضبوط کرتے ہیں۔عالمی معاملات میں مسلسل کردار ادا کرنے سے سیاسی رہنماؤں اور مفکرین کا ادارہ بنتا ہے جو آج دنیا کے معاملات منظم کرنے کی کوششوں میں اپنی صدیوں پرانی سیاسی قابلیت اور مہارت کی تسلسل سے آتی میراث پر انحصار کر سکتے ہیں۔ لیکن شاید کسی معاشرے کیلئے مشن کے تاریخی احساس کا سب سے اہم پہلو وہ ثقافت اور افکار ہیں جو اس مشن ، اپنی قابلیت اور معاشرے کی پہچان اور اس کے وجود کی وجہ سے متعلق ہیں۔علاوہ ازیں اس ثقافت کی یہ خوبی بھی ہے کہ یہ اپنی فطرت میں آفاقی ہوتی ہے جو بالآخر ایک معاشرے یا قوم کے عالمی اثرورسوخ کا تعین کرتی ہے اور افکار عالمی طاقت کا اہم ترین جزؤ ہوتے ہیں لیکن اکثر سب سے غیر اہم سمجھے جاتے ہیں۔تاریخی طور پر جاپان ایک جنگجو فوجی طاقت اور آج عظیم اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود کہ جس کے پاس فوری فوجی تنصیب کی صنعتی صلاحیت ہے، اپنی ثقافتی حدبندیوں کی وجہ سے علاقائی سطح پر اپنی طاقت نہیں دکھا سکتا۔جاپان بطور ایک یکساں اور قدیم معاشرے کے، جس کی ثقافت جنگی ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہےاور جس کے تختِ حکمرانی پر موجود جاپانی بادشاہوں کو الہٰی طاقتوں کاحامل سمجھا جاتا ہے، کے احساسِ برتری نے اس میں ایک فوجی اور اقتصادی طاقت بننے کی صلاحیت پیدا کردی لیکن دنیا کو اپنی ثقافت قبول کرنے کی غرض سے پیش نہ کرسکنے کے باعث اور دنیا کا اسے قبول نہ کرنے کے امکان کے باعث جاپان کا حتمی سیاسی و علاقائی اثرورسوخ محدود ہو رہا۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے وسیع ترین، ایک ہی ٹکڑے پر مشتمل سلطنت چنگیز خان کی قیادت میں انتہائی مہارت رکھنے والے منگول جنگجوؤں نے قائم کی جس نے اپنے دور کی کئی طاقتور ریاستوں کو ملیامیٹ کر دیا اور جنھیں بالآخر مصر کے مملوک حکمران سیف الدین قطز نے شکست دی جب تاتاری اسلامی ریاست میں تباہی مچا چکے تھے اور بغداد میں عباسی خلیفہ کو قتل کر چکے تھے۔ اگرچہ تاتاریوں کی حکومت ایک انتہائی وسیع و عریض زمین پر پھیلی ہوئی تھی لیکن کسی منفرد یا اہم ثقافت یا افکار کے نہ ہونے کی وجہ سے،جس کی بنیاد پر وہ منگول سلطنت کی بنیاد کو آفاقی بنا سکتے، منگول سلطنت اور حکومت بالآخر ان علاقوں میں جذب ہو گئی جنھیں اس نے فتح کیا تھا اور جن میں ایک برتر ثقافت کے حامل لوگ آبادتھے۔لہٰذا منگول سلطنت چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم ہو گئی جن میں سے مغربی مملکتوں نے اسلام قبول کر لیا اور وسطی ایشیاء پر چھا گئیں۔ اسلام کے عالمی اثرورسوخ تک پہنچنے اور صدیوں تک دنیا پر غالب رہنے کے بنیادی اجزاء میں سےایک جزؤ اس کی بہترین ثقافت تھی جو اس نے دنیا کو پیش کی اور جس کی مدد سے اس نے نئے مفتوحہ علاقوں میں اپنی حکومت کو مستحکم کیا۔اسی طرح یورپ میں یہ مغربی ثقافت کا پھیلاؤ اور قبولیت ہی تھی جس نے امریکہ کو یورپ میں روسی اثر روکنے میں مدد دی اور بالآخر یورپ پر بااثر ہونے کی دوڑ میں اسے شکست دی۔اسی طرح یہ مغربی ثقافت کا پھیلاؤ ہی تھا جس نے بشمول اسلامی علاقوں کے دنیا کے بیشتر حصے پر یورپی استعماریت کو مستحکم کیا اور اب جبکہ مسلم علاقوں سے اس ثقافت کا اثر زائل ہورہا ہے اور برتر اسلامی ثقافت اسلامی علاقوں کی مسلم آبادی پر حاوی آ رہی ہے تو مغرب مسلم علاقوں میں اسلامی ریاست کی واپسی سے خوف کھا رہا ہے۔
عالمی تعلقات کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر عالمی تعلقات کی فطرت اور حقیقت سے قریب تر ہے۔اسلام کا ہدف یہ نہیں کہ دنیا پر ایک ایسا ورلڈ آرڈر مسلط کیا جائے جو صرف عالمی تعلقات کے نسبتاً مستقل ڈھانچے پر ہی قائم ہو۔اس تناظر میں اسلام کسی بھی ایسے ورلڈ آرڈر کے تصور کی نفی کرتا ہےجو عالمی تعلقات کے ایک باضابطہ منظم ڈھانچے پر قائم ہوجس کے نتیجے میں آخرکار عالمی ادارے وقوع پذیر ہوں۔بلکہ اسلام عالمی تعلقات کو اسلامی معاشرے کے ذاتی تشخص کے فطری نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔لہٰذا اسلام دنیا کو دارالاسلام اور دارالکفر یا دارالحرب میں تقسیم کرتا ہے۔عالمی تعلقات کا یہ نقطہ نظر دنیا کو اسلامی معاشرے کے اپنے تشخص کے بارے میں تصور کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اللہ تعالی نے مسلمان قوم کو دعوت کی علَمبردار امت بننے کی ذمہ داری دی ہے۔پوری دنیا تک عملی طور پر یہ دعوت نئے معاشروں پر اسلام کی حکومت قائم کرکےپہنچائی جاتی ہے جو صرف اسلام کی زبانی کلامی دعوت ہی وصول نہیں کرتے،جو انھیں فکری طور پر پرکشش لگتی ہے،بلکہ ایک نہایت عملی اور محسوس دعوت وصول کرتے ہیں جب وہ اسلام کے احکامات کو عملی طور پر اپنے معاملات منظم کرتے اور چلاتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ یہ نظام ان حکومتی نظاموں سے بہتر ہے جن کے نیچے وہ پہلے رہتے تھے۔اس انداز میں اسلام افراد کوان کی انفرادی حیثیت میں اور ساتھ ہی افراد کو معاشرے کا حصہ ہونے کی حیثیت میں ایک جامع دعوت دیتا ہے۔لہٰذا اسلام رغبت دلانے کی ایک جامع پالیسی دیتا ہے جو افراد کے جذبات اور اس کی فکری صلاحیتوں کو رغبت دلاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے جذبات اور غالب افکار کو مخاطب کرتی ہے۔ اور اسلام کی اس جامع دعوت میں اسلام یہ لازمی قرار دیتا ہے کہ دعوت کو وصول کرنے والے لوگ افراد کی حیثیت سے اس نئے دین کو اپنے لیے اختیار کرنے میں مکمل طور پر آزاد اور مرضی کے مالک ہیں۔لہٰذا اسلام کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ، یعنی وہ علاقے جہاں اسلام کی حکمرانی ہے اور وہ علاقے جہاں کفر کی حکمرانی ہے۔جہاد کے ذریعے اسلام ریاستِ اسلامی کی سرحدوں کو اور نتیجتاً اسلام کی حکمرانی کو نئے علاقوں تک پھیلاتا ہے تاکہ نئے معاشرے اسلام کی حکومت اور اس کی براہِ راست نگہداشت میں آ جائیں۔ عالمی معاملات کی بارے میں ایسا نقطۂ نظر یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسلام عالمی تعلقات میں کسی قسم کی مستقل مزاجی کو صریحاً مسترد کرے۔ لہٰذا نہ تو وہ عالمی طاقت کو دنیا کی عظیم طاقتوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے اور نہ ہی عالمی تعلقات میں طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عالمی اداروں کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یہ عالمی تعلقات میں ہر قسم کی مستقل مزاجی کو مسترد کرتا ہے اور اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی معاملات میں دوسری ریاستوں کی بالادستی کو قبول نہیں کرتا۔ لہٰذا دنیا کی جانب اسلام کی پالیسی جنگ پر مبنی پالیسی ہے۔جب تک اسلامی ریاست دوسرے معاشروں کو فوجی طور پر چیلنج کرنے اور پھر ان پر اسلامی حکمرانی کو توسیع دینے کیلئے تیار نہیں ہو جاتی، تب تک اسلام عالمی تعلقات کو ریاستوں کے دانستہ طور پر ادا کیے گئے سیاسی اور عسکری اعمال کے طور پر دیکھتا ہے جہاں ریاستیں جبر و زبردستی کے بغیر کوئی بھی یا تمام اعمال انجام دینے کیلئے آزاد ہیں۔وہ دو طرفہ اورکثیر طرفہ معاہدات کرنے یا ختم کرنے کیلئے آزاد ہیں اور تمام طاقتور یا کمزور بیرونی معاشرے،جب تک کہ وہ آزاد معاشرے ہیں، اپنے اعتقادات اور مفادات کے مطابق عالمی دائرے میں کچھ بھی کرنے کا حق رکھنے کے اعتبار سے برابر ہیں۔لہٰذا اسلام عالمی تعلقات کو عارضی اور لچکدار دیکھتا ہے جو ٹھوس نہیں ہیں اور کسی لازم عالمی قانون یا عالمی ثقافت یا عالمی معاشرے کا حصہ ہونے کی حیثیت سے لازمی ذمہ داری کے احساس کے بغیر ایک ریاست کے اپنے اعتقادات کی بنیاد پر ہیں۔لیکن اسلام ایک نسبتاً محدودپیمانے پراسلامی ریاست کی طرف سے عالمی روایات پر عمل پیرا ہونے کو قبول کرتا ہے جیسے سفیروں کیلئے سفارتی استثناء یا جنگ سے متعلق کچھ روایات وغیرہ، لیکن اسلامی ریاست یا دیگر ریاستوں کی ایسی روایات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ کوئی زبردستی کا عنصر نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری یا رائے عامہ کی وجہ سے بدنامی کا ڈر ہے ۔اسلامی ریاست دیگر ریاستوں کے ساتھ ایک محدود مدت تک کیلئے امن اور جنگ بندی کے معاہدات طےکرنے کیلئے آزاد ہے بشرطیکہ یہ معاہدات اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہوں۔ اسلامی ریاست کیلئے جائز نہیں کہ وہ غیر اسلامی قوانین کے ذریعے حکومت کرنے والی ریاستوں سے عسکری اتحاد قائم کرے کیونکہ مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی غیر اسلامی حکومت کیلئے لڑ کر اس کی حفاظت کریں۔اسلام میں جنگ صرف اسلام کی حاکمیت کو قائم کرنےکیلئے ہی ہے۔اسلامی ریاست کیلئے جائز ہے کہ وہ سیاسی اعمال کرے اور دیگر ریاستوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کی بنیاد پر معاہدات کرے تاکہ وہ اپنی طاقت اور اثرورسوخ کوان ریاستوں میں ایسے مواقع بنانے کیلئے استعمال کر سکے جو اسلامی دعوت کیلئے ان بیرونی معاشروں میں ایک مثبت رائے عامہ قائم کر سکیں۔لہٰذا عالمی تعلقات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر دیگر معاشروں تک اسلامی دعوت کو پہچانے کی بنیاد پر ہے،جہاں ان معاشروں کو بذریعہ جہاد اسلامی ریاست کے اختیار اور حکومت تلے ضم کیا جائےاور اگر کسی دوراندیشی یا مجبوری کی وجہ سے اسلامی ریاست ان معاشروں کو اپنی حکومت تلے ضم نہ کر سکے تو ایسے معاشرے آزاد معاشرے تصور کیے جائیں گے جو دانستہ طور پر بغیر کسی جبر کے عالمی تعلقات چلا سکتے ہیں اور اسلامی ریاست ان تمام معاشروں کے ساتھ معاہدات کر سکتی ہے جب تک وہ انہیں اپنے اقتدار کے نیچے ضم کرنے کیلئے تیار نہ ہو۔
آج مسلم امت نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے اسلامی تہذیب کا احیاء کرنے کی منفرد پوزیشن میں ہے۔اس کے پاس اسلامی آئیڈیالوجی کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی درست سمجھ ہونے کا دہرا فائدہ ہے یعنی بنیادی تبدیلی لانے والے افکار کی موجودگی جنھوں نے ماضی میں اکیلے ہی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔یہ امت ہزار سالہ اسلامی حکومت کی شاندار اور مضبوط تاریخ پر فخر کرتی ہے جس میں اس دور کےاداروں کی ایک میراث موجود ہے جو دنیا میں ایک غالب عالمی کردار ادا کرنے کے حق کا دعویٰ کرنے کی صلاحیت کےاعتمادکو بڑھاتی ہے۔متعدد ادارے جیسے اسلامی فقہ کا ثقافتی ادارہ اور وہ وسیع تر اسلامی ثقافت جس کی مضبوطی اور واپسی نے امت کی آئیڈیالوجی کی سمجھ کو شفاف کر دیا ہے، جہاد کا ادارہ اورانتہائی قلیل وسائل کے ساتھ بھی دشمن سے لڑنے کی خواہش، ایک واحد امت کا حصہ ہونے سے متعلق وحدت پر مبنی اسلامی شناخت کا گہرااور طاقتور احساس اور آخری نبی اور ہمارے آقا محمد ﷺ کی لائی ہوئی ثقافتِ الٰہی کا حامل ہونے کی وجہ سے امت میں موجود احساسِ برتری، جو مسلم قوم کوانبیاء کے مشن کا وارث ہونے کی وجہ سے دیگر اقوام میں ایک خاص مقام دیتا ہے اور اپنی اس صلاحیت پر خود اعتمادی دیتا ہے کہ وہ اپنی تاریخ اور ماضی قریب میں دشمنوں کے خلاف کامیابیوں کی بنا پر کسی بھی مشکل کا سامنا کر سکتی ہے۔
لیکن ایک صدی سے زائد عرصے تک اسلامی حکومت کی عدم موجودگی نے عالمی غلبے کیلئے سب سے زیادہ ضروری ادارے کو مکمل تباہ کر دیا،یعنی سیاست دانوں اور مفکرین کے ایسے طبقے کی موجودگی جو اسلام کے تاریخی غلبے کے تجربے، مباحثے اور افکار سے جڑے ہوئے ہوں اور جوعالمی معاملات سے متعلق اسلامی ریاست کے مشن کی روشنی میں علاقائی اور عالمی معاملات کا مطالعہ کریں، ان پر غور کریں اور رائے پیش کر سکیں۔یہ اسلامی سیاست دانوں کے طبقےIslamic political medium کا کمزور پڑ جانا تھا جس کے باعث عثمانی خلافت کمزور پڑ گئی اور بالآخر تباہ ہو گئی۔جب استعمار نے مسلم علاقوں میں جڑیں پکڑیں تو اس نے جان بوجھ کر سیاست دانوں اور مفکرین کے اس قدیم طبقے کو مسلم علاقوں میں ہدف بنایا اور اسے مکمل طور پر ختم کر دیا، پھر اس کی جگہ ایسی حکمران اشرافیہ لے آیا جو مغربی تہذیب اور تاریخ کی پیداوارتھی اور جنھوں نے یہ کوشش کی کہ مسلم تاریخ کو ایسے دیکھا اور سمجھا جائے جو مسلم علاقوں میں استعمار کے تسلسل کو فائدہ دے، جس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ ایک طویل عرصے کے عالمی غلبے کے تاریخی تجربے اور اعتماد سے ہاتھ دھو بیٹھا۔دنیا کی قیادت کرنے والی قوم کی حیثیت سے ہماری تاریخ اورہماری ثقافت سے ہمیں دور کر دینا شاید مسلم علاقوں میں مغرب کی سب سے بڑی فتح تھی اور صرف آج، جب امت اس دوری کو مٹا کر اپنی جڑوں سے دوبارہ جُڑ چکی ہے ،وہ واپس نشاۃِ ثانیہ کے راستے پر مضبوطی سے آ چکی ہے۔ لیکن امت ابھی بھی اسلامی سیاست دانوں کے طبقے کی کمی کا شکار ہے اور پے در پے آنے والے اسلامی مدبر سیاست دانوں(statesmen)کی میراث سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہےجو دنیا کے مشکل ترین سیاسی علاقائی چیلنجوں سے متعلق اپنا سیاسی جغرافیائی (جیوپولیٹیکل) تجربہ اور علم آنے والی نسلوں کو سونپیں۔اس کمی کا جواز سمجھ آتا ہے کیونکہ ریاستِ خلافت کے انہدام کے بعد امت عالمی معاملات میں بطور عالمی کھلاڑی اپنے کردار پر توجہ دینااور اپنا مشن و مقصد بھول گئی اور اس پر ایسے حکمرانوں کی حکومت آ گئی جو مغربی مفادات کے آگے سرنگوں تھے۔علاوہ ازیں مغرب نےمسلمانوں کی پرانی حکمران اشرافیہ کو ہٹا دیا یا قتل کر دیا۔ صرف ایران یا ترکی میں کچھ پرانی اشرافیہ کچھ حد تک ہی بچ پائی لیکن ان ممالک میں بھی مغربی ثقافت کے زیرِ اثر مسلمان حکمران اشرافیہ نے عالمی معاملات پر اثر انداز ہونے اور انھیں منظم کرنے کے کردار کو مکمل طور پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں اسلامی سیاست دانوں کا طبقہ مسلم دنیا سے مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ دنیا کے سیاسی واقعات کو سمجھنے کی تفصیلی اور انتھک کوششوں میں اور انھیں اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش میں، حزب التحریر اور اس کے شباب جو عالمی معاملات کی اس سمجھ میں مضبوط ہیں ، امتِ مسلمہ کے اہم و مرکزی ادارے کے احیاء کا کام سرانجام دے سکیں گے ،یعنی اسلامی سیاست دانوں کے طبقے (اسلامی پولیٹیکل میڈیم)اورمدبر سیاست دانوں کے ایک گروہ کی حیثیت سے موجودگی ،جو جلد ہی قائم ہونے والی اسلامی ریاست کا ستون ثابت ہو تاکہ وہ عالمی معاملات میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ
"اور اسی طرح ہم نے تمھیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم انسانیت پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہوں” (البقرۃ -143)
ختم شد