عالمی وبائی مرض COVID-19 نے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: خالد صلاح الدین
عالمی وبائی مرض COVID-19 نے بہت سے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اس بیماری نے جہاں صحت کے نظام پر دباؤ ڈالا وہیں اس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا ۔پاکستان بھی اس صورتحال سے محفوظ نہ رہ سکا جو ابھی آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہی ہوا تھا اور عبدالحفیظ شیخ، جو کہ وزیر اعظم عمران خان کا مشیر برائے خزانہ اور محصولات ہے ،کو جون میں اگلے مالی سال کا بجٹ بھی پیش کرنا ہے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ کو دومشکلات کا سامنا ہے، جو ہر اس ترقی پذیر ملک کے لئے مسئلہ سمجھی جاتی ہیں جن کے پاس کوئی حقیقی صنعتی بنیاد نہیں ہے۔اُس کے انتہائی محدود اختیارات کے بارے میں بحث ہوسکتی ہے لیکن جس اصل مسئلے کا اسے سامنا ہے وہ وہ تصفیہ طلب مسائل ہیں جو 1988 کے بعد لیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ 1988 کے بعد آئی ایم ایف کے زیرانتظام Structural Adjustment Program نے ملک کو صنعتی تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ اس نے نہ صرف برآمدی صنعت کو چند گنی چنی اشیا ء کی پیداوارتک محدود کر دیا جس نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کومزید بڑھایا بلکہ اس نے ایسی صنعتوں کے قیام کو بھی روکا جو درآمدات کا متبادل فراہم کر سکیں ۔صنعتی پالیسی کا خاکہ جو1988 میں حکومتِ پاکستان کے وعدہ کردہ letter of intent میں پیش کیا گیا اس نے صنعتوں پر سے حکومتی عمل دخل کو ہٹا دیا بلکہ آزادتجارت کے فروغ کے لیے برآمدات کو مراعات دیں1 اور درآمدات کے لئے آسان ٹیرف متعارف کرایا گیا ، گیس،بجلی ،کھاد وغیرہ پر سبسڈی کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کرنے کا آغاز کیا گیا ۔ ان تمام پالیسیز سے واضح تھا کہ اس کے نتیجے میں بہت سی درآمدی اشیاء گھریلو پیداوار کے مقابلے میں سستی ہونگی ، جو de-industrialisationکو جنم دے گی۔
اس کا بے روزگاری پر ایک نمایاں طویل مدتی اثررونما ہوا کیونکہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مستقل غربت کی نظر ہو کر ٹیکس کے نظام سے باہر ہو گیا۔ اس کے ساتھ، عالمی بینک (آئی ایم ایف کی جڑوا ں تنظیم) کی 1990 میں نافذ کردہ بجلی پالیسی نے ہماری بجلی کی پیداوار کو پن بجلی سے معدنی ایندھن کی طرف پھیر دیا، جو تیل کی درآمد پر انحصار کا باعث بنا۔ 2010 میں، پانی سے پیدا کی گئی بجلی کی قیمت Rs 1.03kWh تھی جبکہ تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت Rs 8.5/kWh تھی۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف برآمدات زیادہ مہنگی ہوگئیں ( کیونکہ صنعتوں کو چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت ہے)، بلکہ برآمد ی اشیاء کی تیاری کے لیے درکاربجلی کو تیل سے تیار کرنے کے عمل نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے ساتھ گردشی قرضے کو بھی بڑھادیا۔ اس تمام تر صورتِ حال کا حل بہت سادہ ہے ، مقامی ضروریات پر مبنی معیشت کے لئے صنعتی ترقی کو فروغ دینا لیکن اس کے لئے وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی جوہمیشہ حکومتوں کے لیے انتہائی ناپسندیدہ عمل ہوتا ہے۔
گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال اپریل میں برآمدات میں 54 فیصد کمی ہوئی، جو جولائی 2019 سے اپریل 2020 تک تقریبا 1 بلین ڈالر کی کمی ظاہر کررہی ہے2۔ پاکستان کی برآمدات ایشیا (37٪)، یورپ (37٪)اور امریکہ (26٪)پر مشتمل ہے اور یہ تمام خطے COVID-19 کی عالمی وباءسے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ لہذا اگر وبائی صورتحال برقرار رہی تو برآمدات میں تقریبا20% کمی کا امکان ہے3۔ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے طلب Demandمیں مزید کمی کہ وجہ سے برآمدات میں واقع ہونے والی کمی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو مزید نمایاںکردے گی۔ گو کہ تیل کی قیمتوں میں کمی نے تیل کی درآمدی بل کو کم کرنے میں مدد فراہم کی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اندرون ملک تیل کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں ایندھن سے حاصل ہونے والے ٹیکس محصولات میں بھی کمی واقع ہو گئی۔ آئی ایم ایف پروگرام کا ایک اور نتیجہ براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات میں کمی تھی (طلب سکڑنے کی وجہ سے)، جس سے ٹیکس گوشوارے جمع کرنے والوں پر اضافی بوجھ پڑا۔ ٹیکس بیسTax Base بڑھانے کی مہم بری طرح ناکام ہوچکی ہے ، کیونکہ ٹیکس فائلرز میں 40 فیصد اضافے کے باوجود جنوری 2020 ءتک محصولات میں صرف 17 ٪ کا اضافہ ہوسکا ہے۔
مغربی سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے ، مستقل مالی خسارے کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنےاخراجات کو اپنے ٹیکس محصولات کے ذریعےپورا کرنے سے قاصر ہے، ان اخراجات کو پوراکرنے کے لئے پھر قرض کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں ، اس مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے سے حکومتی قرض میں اضافہ ہوجاتا ہے اورپھر اس کے نتیجے میں سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مالی خسارہ مزیدبڑھ جاتا ہے ۔ اب تک رواں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں عوامی قرضوں Public Debt Servicingکی مد میں سود کی لاگت 1.9 کھرب روپے ہوچکی ہے4 ، جووفاقی حکومت کو حاصل ہونے والے ریوینیو net federal revenueکا79٪ ہے۔ہوسکتا ہے کہ کسی ریاست کے پاس اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئےدولت نہ ہوں تواس صورت میں یہ قدرتی امر ہے کہ وہ قرض لے گی، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ سود کے بنیادی معاہدے نے کس طرح پیسے کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کو تشکیل دیا ہے جو طلب demandپر مبنی ایک مضبوط مقامی معیشت پیدا کرنے کے لئے درکار سرمایہ کاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ آخر کوئی نظام اس طرح کے معاہدوں کی کیسے اجازت دے سکتا ہے جس سے دولت مند بغیر کسی محنت کے دولت میں مزید اضافہ کریں اور جو در حقیقت حقیقی معاشی سرگرمی کی تباہی کا باعث بنے؟ سودی معاہدے کی وجہ سےلازمی طور پر جنم لینے والے دولت کی تقسیم کی عدم مساوات نے مغرب میں تباہی مچا رکھی ہے، جس کی وجہ سے ایک فرانسیسی معیشت دانThomas Pikettyاپنی کتاب Capital میں دولت پر confiscatory global taxلگانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
عبد الحفیظ شیخ کو مالی خسارے کو کم کرنے کے لیےٹیکس محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا۔لیکن 1988 کے بعد آئی ایم ایف کے Structural Adjustment Program نے صنعتی شعبے کو تنزلی سے دوچار کر دیا ۔ دولت کی انتہائی غیر مساوی تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ بہت چھوٹا حصہ ہی سب سے زیادہ کمانے والا ہوتا ہے اور ایک بہت بڑا حصہ بہت کم کماتا ہے۔ لہٰذا محصول کی کمی اور اس وجہ سے مالی خسارہ ، مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعہ پیدا ہونے والی دولت کی غیر مساوی تقسیم کا ایک فطری نتیجہ ہے۔110 ملین کے قریب کام کرنے والی آبادی میں ، اگر صرف 1 ٪ ٹیکس گوشوارے جمع کرتے ہیں ، تو کیا باقی 99٪ٹیکس نہیں دیتے یایہ کہ 99٪ میں سے بیشتر ملازمت ہی نہیں ڈھونڈ پاتےیا اتنا بھی نہیں کما پاتے کہ کم سے کم ٹیکس بریکٹ میں آسکیں؟
حقیقی طور پر ، عبدالحفیظ شیخ کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بہتری لانے کے لئے واحد راستہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہے۔لیکن اس کے پاس وہ وسائل نہیں کہ وہ یہ کام سرانجام دے سکے، یعنی صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری۔
لہذا آج ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کوجو اصل مسائل درپیش ہیں وہ ٹیکس سلیب میں چھیڑ چھاڑ، پیسے چھاپنا ، ٹیکس چھوٹ اور ٹیکس معافی کے مسائل نہیں بلکہ ان کو تو اپنے ادارے یعنی ورلڈ بینک کی نافذ کردہ اُن پالیسیز کے ثمرات کا سامنا ہے ، کہ جس ادارے کی طرف سے وہ سعودی عرب کے لیے ملکی سربراہ country head تھے، اور جس ادارے کی طرف سے وہ سینئر مشیر کی حیثیت سے ایشیا ، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ کے 21 ممالک کو مشاورت فراہم کرتے رہے۔ علاوہ ازیں اِن حکم کردہ پالیسیوں کو سابق نگران وزیر اعظم ڈاکٹر معین قریشی نے عملی طور پر نافذ کیا تھا جو جو ورلڈ بینک کے سینئر وائس پریزیڈنٹ تھا ۔ تو اگر ڈاکٹر عبدالحفیظ مخلص ہوتے تو وہ ان تمام پالیسیاں کو واپس پلٹتےجو ان سے قبل آنے والوں نے نافذ کی تھیں۔ لیکن اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کے خلاف جانا ہوگا ، جو سرمایہ دارانہ معاشی اصول کی توہین کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ اقتصادیات میں نوبل انعام یافتہ Joseph Stiglitz جیسوں نے بھی ان پالیسیوں کے حقیقت پسندانہ ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔ سرمایہ داریت کے حوالے سے وہ کہتا ہے6:” اس میں واضح طور پر دھاندلی ہے کیونکہ کچھ دولت مند طاقتوروں اور ان کی اولادوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر مواقع میسر ہیں ، جس سے انہیں اپنے مفاد کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ کتابوں میں بیان کردہ مسابقتی ، level playing-field موجود نہیں، ہر سیکٹر میں کچھ بڑی کمپنیاں موجود ہیں جو (نئی کمپنیز کے) مارکیٹ میں داخلے میں لگ بھگ ناقابلِ تسخیر رکاوٹیں حائل کرتی ہیں۔ بہت سے لوگ دولت مند بنتے ہیں مگر ایسا ملک کی معیشت کے حجم میں اضافہ کرکے نہیں بلکہ استحصال کے ذریعے دوسروں کا بڑا حصہ غضب کرنے سے ہوتا ہے، چاہے یہ استحصال مارکیٹ کی طاقت کے ذریعے ہو، زیادہ معلومات کے مواقع یا دوسروں کی کمزوریوں کے ذریعے ہو”۔
اگر دو ٹوک الفاظ میں کہا جائے تو ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ ایک خالص آئی ایم ایف کاآدمی ہے ، جس کی رگوں میں مغربی سرمایہ دار انہ معاشی سوچ دوڑ رہی ہے۔ کیا وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعہ قائم کردہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے جا رہا ہے؟کیا اس میں اتنا اخلاص بھی ہے کہ وہ یہ قبول کرے کہ جن مسائل کو وہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے جس پر وہ یقین رکھتا ہے؟ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ جیسے لوگوں کی عکاسی قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے ذریعے ہوتی ہے:اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّـهُـمْ اٰمَنُـوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوٓا اَنْ يَّكْـفُرُوْا بِهٖۖ وَيُرِيْدُ الشَّيْطَانُ اَنْ يُّضِلَّهُـمْ ضَلَالًا بَعِيْدًا
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اُتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ فیصلے کے لیے اپنے معاملے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے ۔”(سورہ النساء آیت 60)
سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی پیش رفت کو ناپنے کا پیمانہ بڑھوتری (گروتھ) ہے ، جسے یوں بیان کیا جاتا ہے : مخصوص مدت کے دوران معاشی سامان اور خدمات کی پیداوار میں اضافہ ۔نہ ہی انسان اور اس کی ضروریات کو اور نہ ہی معاشرے کے تمام لوگوں کے لیے روزگار کی فراہمی کو بڑھوتری کے اس فہم میں شامل کیا گیا ہے۔اس کی وضاحت کے لئے اخبار ‘دی نیوز’ میں 23 اپریل 2020 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا اقتباس پیشِ خدمت ہے: "بدھ کے روز اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر اور ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید کی جانب سے منتخب معاشی تجزیہ کاروں کو دی جانے والی ایک آن لائن تفصیلی پریزنٹیشن میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہوسکتی ہے جو کہ متوقع طور پرموجودہ مالی سال کے لئے منفی 1.5 فیصدہوسکتی ہے۔”
یہ منفی 1.5٪ کی شرح کیسے بتائے گی کہ ملک کے کتنے افراد کے پاس نوکری ہے یاکتنے افراد بھوکےہیں؟ وہ تمام معاشی ماڈلز جو سرمایہ دار ماہرین استعمال کرتے ہیں جیسے کہ dynamic stochastic general equilibrium، Trickle down effect ، Modern Monetary Theory ، وغیرہ ، یہ سب بنیادی معاشی مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ مسائل حل ہی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی بنیاد کفر پر ہے جن کا اسلام کے احکامات سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کے برعکس اسلام کی معاشیات سمجھنے اور نافذ کرنے میں آسان ہے جس میں ان جیسے کوئی پیچیدہ نظریات نہیں ہیں بلکہ صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے قوانین ہیں ، جن پر افراد عمل کرتے ہیں اور ریاست جنہیں نافذ کرتی ہے۔ لیکن ان قوانین کا عملی اظہار انسانوں کی معاشی زندگی کے متعلق یکسر مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ اسلام انسان کی بنیادی ضروریات پر توجہ مرکوز کرتا ہے یعنی خوراک ، رہائش اور لباس ۔ ریاست حکمران کواُن تمام لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کا پابند کرتی ہے جو اس کی ذمہ داری میں آتے ہیں، اور ریاست ان لوگوں کے لئے نگران اور ذمہ دار ہے جو اپنی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفانؓ حدیث روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: «مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا»"جس کی صبح اس طرح ہو کہ وہ اپنے گھرانے میں امن کے ساتھ ہو، اس کا جسم تندرست ہواور اس کے پاس دن کا کھانا موجود ہو تو گویا اسے پوری دنیا مل گئی”. (ترمذی 2341) ۔ اور رسول اللہ ﷺ جو کہ ریاست کے حکمران تھے نے یہ قرار دیا کہ وہ شخص کہ جس کے پاس کچھ مال نہ ہو اور اس کے ایسے کوئی رشتے دار نہ ہوں جو اس کو مہیا کر سکتے ہوں تو اس کی ذمہ داری ریاست پر ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلاً فَإِلَيْنَا» اگر کوئی مسلمان مال چھوڑ کر مرا تو یہ مال اس کے ورثا ءکا ہے اور اگر اس نے صرف پسماندگان چھوڑے تو ان کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے”(بخاری)۔ اوراللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن میں ارشادفرماتا ہے:وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَـهٝ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِـدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٝ بِوَلَدِهٖ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ "اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے ۔ ( ہاں ) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی ۔ نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے ، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے ۔ اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے۔” (سورہ البقرہ آیت 233)
اس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ معاشرے میں مسلسل طلب پیدا ہوتی رہے اور برقرار رہے۔ آمدنی کے بجائےصرف دولت پر ٹیکس لگانے سے فرد اپنی قابلِ خرچ آمدنی میں اضافہ کرپاتاہے۔یہ معاشرے کے افرادہی ہیں جو اس کے بعد مجموعی طلب کو جنم دیتے ہیں۔ تو ہم معاشرے کی ترقی کا اندازہ مال اور خدمات کے لحاظ سےکیوں کریں جبکہ معاشرے کے افراد اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے طلب پیدا کرنے کے قابل ہی نہ ہوں ؟
مالیاتی پالیسی کا تعلق محصولات اور جس انداز سے وہ معاشرے میں خرچ ہوتی ہے اس کے ساتھ ہے۔ مالی خسارہ بذات خود اچھی یا بری چیز نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اس نے کس چیز کی وجہ سے جنم لیا۔ جیسا کے پہلے بھی ذکر ہوچکا کہ عوامی قرضوں کے سودی ادائیگیاں اب محصولات کا 79% ہیں (جس کا86% مقامی قرضوں سے متعلق ہے) اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ اسلام سودی معاہدے کو ممنوع قرار دے کر اس مسئلے کو حل کرتا ہے: ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ قَالُوٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَاَحَلَّ اللّـٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ” ان کی یہ حالت اس لیے ہے کہ انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو ایسی ہی ہے جیسےسود ی لین دین ، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔”(سورۃ البقرۃ آیت 275)۔
اسلام میں بیت المال میں آمدنی کے مستقل ذرائع میں جزیہ، خراج، اور زکوٰۃ شامل ہے۔ دولت پرکم سطح پر ٹیکس لگاکر ریاست کو اتنے ہی محصولات اکھٹے ہوتے ہیں جتنے آمدنی پر وسیع پیمانے پر ٹیکس لگا کر حاصل ہوتے ہیں۔ معاشرے کے دولت مندوں سے قرض لینے کا تصور کوئی نئی بات نہیں، اور مالی خسارے کا تصور تو نبی ﷺ کے دور میں بھی موجود تھا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: مَّنْ ذَا الَّـذِىْ يُقْرِضُ اللّـٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهٝ لَهٝٓ اَضْعَافًا كَثِيْـرَةً ۚ وَاللّـٰهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ "کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے ،پس اللہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔”(البقرہ آیت 245)
دولت مندوں کومالی خسارے کو پورا کرنے میں کردار ادا کرنا چاہئے ، اور ان کا ثواب آخرت میں اللہ سبحانہ تعالی کی طرف سے کئی گنا ملے گا۔جنگ تبوک میں ابو بکر صدیق ؓنے اپنی تمام ملکیت امداد کے طور پر پیش کردی جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی، حضرت عثمانؓ نے سامان سے لدے ہوئے تین سو اونٹ اور ساتھ ہی پچاس گھوڑے اور ایک ہزار سونے کے سکے پیش کیے جبکہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اِس معرکے کے لئے چار ہزار درہم مہیاکیے۔ بےشمار مسلمانوں نے امدادی مہم میں شامل ہونے کی پوری کوشش کی، ان میں سے کوئی کھجوریں لایا تو کسی نے اپنے اونٹ فوجی خدمت کے لیے پیش کیے ۔ کسی نے بھی حصہ ڈالنے سے گریز نہیں کیا اور نہ کسی نے بھی ان افراد کی پیش کردہ امداد کی مقدار اور تعداد پر کوئی توجہ دی۔دولت مندوں کی طرف سے اس طرح شرکت رسول اللہﷺ کی بہت سی معاشی سرگرمیوں میں مستقل نظر آتی ہے۔ اسی قسم کی ایک مدد میں پاکستان کے مسلمانوں نے 500 ملین روپے سے زیادہ چندہ حالیہ احساس ٹیلی تھون میں دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے پاکستان کے صنعتکاروں (جو برآمدات کے ذمہ دار ہیں) کو مجبور کیا کہ وہ آئی ایم ایف پالیسی کے تحت ٹیکس ادا کریں تاکہ 79% سودی ادائیگی ممکن ہوسکے، لیکن یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مقامی قرض داروں سے ریاست کے اندرونی سودی قرضے معاف کرنے کی درخواست کی جائے۔
اسلامی معاشی نظام کا ایک اور منفرد پہلو عوامی ملکیت کا تصور ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے : »الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: «آگ، پانی اور چراگاہیں۔ پانی ، چراگاہیں اور آگ (توانائی)، کا ذکردرحقیقت معاشرے کی ان ضروریات کوبیان کرتا ہے جو پورے معاشرے کے لیے ناگزیر ہیں اور جس کے فائدے کو نجکاری کے ذریعے چند افراد تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تعین کرنے کے لیے کہ کونسی چیزیں عوامی ملکیت ہیں ، پیمانہ یہ ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں لوگ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں ۔لہٰذا پانی ، تیل ، گیس ، معدنی وسائل ایسی چیزیں ہیں جو اس خصوصیت کے مطابق ہیں۔ نجی کمپنیاں جیسے کہ پی پی ایل ، ایس ایس جی سی ، ایس این جی پی ، کے الیکٹرک بھی اس کے ضمرے میں آتی ہیں۔ اختتام پذیر ہونے والے سال 2019کے متعلق جو اعداد و شمار شائع کیے گئے اس کی بنیاد پر ان نجی کمپنیوں کے مجموعی منافع کا آسان حساب کتاب 400 ارب روپے بنتا ہے جو ملکی خسارے کا 40% ہے۔ اوپر بیان کردہ حدیث کے حکم سے ، یہ وہ رقم ہے جو بیت المال کے ذریعے امت پر خرچ کرنے کے لئے ہے لیکن یہ چند افراد کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ گویا جب ایسے اہم اداروں کی نجکاری کی جاتی ہےجو امت کو فائدہ پہنچانےکے لیے مختص ہونے چاہئیں ، تو مالی خسارہ ناگزیرہوتاہے ۔جس طرح اسلام ریاست کو افراد کی حفاظت کے لئے پابند کرتا ہے اسی طرح ایک وسعت پزیر ریاست ہونے کے ناطے اسلام ریاست کی حفاظت کے لیے جہاد کوتمام معاشرے پر فرض قرار دیتا ہے ۔ جہاں اسلام نے اسے جہاد کے طور پر بیان کیا ہے ، مغربی سرمایہ دار اقوام اپنی توسیع کی پالیسی کو دفاعی کہہ کر بیان کرتے ہیں۔ جہاد کا فرض جنگی صنعتی ماحول پیدا کرتا ہے۔ یہ جنگی صنعتی ماحول بھاری مشینوں کی صنعت ، مقامی سپلائی چین ، بیشتر شعبوں میں تحقیق و ترقی ، تعلیمی اداروں میں اعلیٰ ترین معیار ، سافٹ ویئر اور اس سے وابستہ تمام ٹیکنالوجیزمیں سبقت حاصل کرنے کو جنم دیتا ہے۔ چونکہ یہ سب مقامی ترقی اور نشوونما کے لئے ہے اسی لیے یہ ایک دائمی طلب کی بنیاد پر معیشت کو کھڑا کرے گا جس کے لیے درآمد ات اور برآمدات معاون ثابت ہوں گی نہ کہ ان کا متبادل۔ اسے قائم کر نے کی قابلیت پاکستان کے قیام سے ہی موجود ہے، لیکن جمہوری حکومتوں نے اسے منظم طریقے سے کمزور کرنے کی کوشش کی ، جن کی معاشی قانون سازی اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے تھی، اورپھر 1988 کے بعد سے یہ کام ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور مغرب کے مفاد کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ۔ بیش بہا انسانی وسائل کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا، جو صرف اسی صورت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں جب نظام انہیں مواقع فراہم کرے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ملک کو درپیش معاشی اور دیگرمسائل کی وجہ محض خراب حکمرانی نہیں، بلکہ یہ مسائل تو دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جو کرپٹ جمہوری اشرافیہ کے ذریعے مغرب کو اس قابل بناتا ہے کہ اپنی استعماری پالیسیاں نافذ کرسکے۔ لہذا اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کراسے خلافت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، جواللہ کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پر حکمرانی کو قائم کرے ،جو پوری انسانیت کے لیے رحمت کا باعث ہو گی ۔
[1] Issues in Pakistan’s Economy, Syed Akbar Zaidi, Page 140
[2] https://tribune.com.pk/story/2214944/2-exports-slip-1b-april/
[4] https://tribune.com.pk/story/2215777/2-pakistans-debt-servicing-soars-rs1-9tr/
[5] http://www.finance.gov.pk/survey/chapters_13/12-Population.pdf
[6] https://www.economist.com/open-future/2019/07/08/if-capitalism-is-broken-maybe-its-fixable
[7] https://www.thenews.com.pk/print/648535-more-steps-can-be-taken-on-interest-rate-state-bank
ختم شد