اسلام فکر اور طریقہ ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: بلال المہاجر
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشادفرماتاہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت کی انتہا کر دی ہے اورمیں تمہارے لیےاسلام بطور دین پر راضی ہوگیا” ۔لوگوں نے دین کو مغربی مفہوم کے ساتھ اختیار کیا جوکہ مُلا گیری ہے۔ کیونکہ لبرل ازم کو لانے والے مغربی فلاسفر نے پروہت(مذھبی پیشوائیت) کے خلاف بغاوت کی تھی خصوصا عیسائی مذہبی پیشوائیت کے خلاف،اور فلاسفروں اور مذھبی پیشواؤں کے درمیان سمجھوتے کے بعد وہ مذہبی پیشوائیت اور مذہبی پیشواوں کو زندگی سے الگ کرنے کے نتیجے پر پہنچے، یعنی انہوں نے ان احکام کو، جنہیں مذہبی پیشوا اللہ پر بہتان باندھ کر اللہ کی طرف سے گھڑلیتے تھے ،لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سے الگ کر دیا۔ چنانچہ لبر ل ازم نے ان من گھرت مذہبی قوانین کو لوگوں کی زندگی سے الگ کر دیا۔ تاہم اسلام میں دین کا مفہوم دوسرے ادیان سے یکسر مختلف ہے کہ جسے مذہبی پیشواؤں نے بادشاہوں کی خاطر بگاڑا تھا ، اور یہ بادشاہ مذہب کے نام پر لوگوں کو غلام بناتے تھے۔ دینِ اسلام مذہبی پیشوائیت نہیں بلکہ اس سے کوسوں دور ہے۔ اسلام ایسی آئیڈیالوجی ہے جو ایک ایسے عقیدے پر مبنی ہے جو عقل کو قائل کرتاہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے، جو ایسے شرعی احکام کا مجموعہ ہے جو بحیثیتِ انسان، انسان کے انسانی مسائل کو حل کرتا ہے۔ یہ احکام زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، یہ وہ تریاق اور درست حل ہیں جو ہرزمان و مکان میں لوگوں کے تمام مسائل کو حل کرتے ہیں۔ اسلام کی صفت یہ ہے کہ یہ ایسی آئیڈیالوجی ہے جو ایک ایسے عقیدے پر قائم ہے جسے مکمل نظامِ زندگی پھوٹتا ہے، یعنی یہ فکر اور طریقہ ہے، یہ صرف جامد احکام نہیں کہ یہ کرو اور یہ مت کرو، جو زمانے سے پیچھے رہیں یا وقت سے پہلے ہوں، بلکہ یہ ایسے عملی احکام ہیں جنہیں ہر زمانے اور ہرجگہ ہر جنس کے انسانوں پر نافذ کیا جاسکتاہے، چاہے وہ عرب ہوں یا عجم کالے ہوں یا گورے اور گندمی، اسلام بطورِ انسان انسان کےلیے آیا ہے۔ جس نے انسانوں کےلیے اس آئیڈیالوجی کو بھیجا ہے وہ انسانوں کا خالق اللہ سبحانہ و تعالی ہے، وہی جانتاہے کہ کیا انسان کےلیے کیابہتر ہے اورکیا نہیں ،أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے وہی مہربان اور باخبرہے” چنانچہ اسلام فکر یعنی عقیدہ اور احکامِ شرعیہ ہے، جبکہ طریقہ وہ احکامِ شرعیہ ہیں جو عقیدہ اور احکامِ شرعیہ کے نفاذ کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں، چنانچہ اسلام واجب الوجود اللہ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کا حکم دیتاہے اسلام سے ارتداد سے منع کرتا ہے، اسلام کی دعوت کو دنیاکے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتاہے. لہذا وہ احکام جو ان اوامر اور نواہی کو نافذ کرنے کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں طریقے میں سے ہیں، جیسے مرتد کے متعلق احکام، جہاد کے احکامات اور عرب وغیر عرب مشرکین کے احکام۔ اللہ نے پاکدامنی کا حکم دیا زنا سے منع کیا، شخصی ملکیت کی حفاظت کا حکم دیا اور چوری سے منع کیا، جان کی حفاظت کاحکم دیا قتل سے منع کیا، ان اوامر اور نواہی کے نفاذ کی کیفیت کو بیان کرنے والے احکام طریقہ میں سے ہیں، جیسے زنا چوری اور قتل کی حدکی سزائیں ۔ اللہ تعالی نے خلیفہ کے تقرر کا حکم دیا اورمسلمانوں کو تین دن سے زیادہ خلیفہ مقرر کیے بغیر بیٹھے رہنے سے منع کیا، تنازعات کے فیصلوں کے لیے قاضیوں کے تقرر کا حکم دیا، مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کا حکم دیا اور زیادتی سے منع کیا، تجارت میں دھوکہ دہی سے منع کیا، ذخیرہ اندوزی سے منع کیا، ظلم سے منع کیا۔ چنانچہ ان اوامر اور نواہی کے نفاذ کی کیفیت کو بیان کرنے والے احکام طریقہ میں سے ہیں، جیسے بیعت کے احکام، عدلیہ کے احکام، بیت المال کے احکام،مظالم(حق تلفیوں) کے احکام، احتساب کے احکام۔ اللہ نے فقراء اور مساکین کو کھلانے کا حکم دیا، اس بات سے منع کیا کہ کوئی بھوکا سوئے یہ احکام فکر میں سے ہیں۔ وہ احکام جو ان فقراء کو مال دینے کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں اور کسی کے بھوکے سونے سے منع کرتے ہیں طریقہ میں سے ہیں، جیسے نفقات کے احکام زکوٰۃ کے احکام اور بیت المال کے مستحقین کے احکام۔ یوں ہر وہ حکم جو اللہ کے اوامر اور نواہی میں سے کسی کے نفاذ کی کیفیت کو بیان کرے وہ طریقہ میں سے ہے۔ اس کی دلیل وہ دلائل ہے جو احکامِ شرعیہ کی پابندی کے دلائل ہے، جو کہ معروف ہیں جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ "تیرے رب کی قسم یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ بنائیں” اور اللہ کا یہ فرمان کہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ” جو کچھ رسول تمہیں دیں وہی لے لو اور جس چیز سے منع کریں اسے باز رہو” وغیرہ معروف دلائل ہیں۔
اللہ نے مسائل کو حل کرنے کےلیے احکام نازل کرکے ان کو انسان پر نہیں چھوڑ کہ وہ جیسے چاہے ان احکام کو نافذ کرے، اس نے انسان سے صرف یہ کہہ کر اس کو چھوڑ نہیں دیا کہ چوری مت کرو ،زنا مت کرو دوسروں کا مال مت کھاؤ ،شراب مت پیو۔ اسے ایسا نہیں چھوڑا کہ وہ انہیں خود نافذ کرے، بلکہ اسے یہ کہہ کرکہ چوری مت کرو اس نہی کو نافذ کرنے کے احکام کی کیفیت بھی بیان کردی جو کہ چوری، لوٹ مار، سلب اور غصب کے احکام ہیں۔ اللہ تعالی نے زندگی میں انسان کے لیے ضروری تمام احکام کو بیان کیا ہے اور ان احکام کے نفاذ کے لیے ضروری تمام احکام کو بھی بیان کیا ہے، اللہ نے مسائل کو حل کرنے کے کسی حکم کو اور نہ ہی اس حل کو نافذ کرنے کی کیفیت کو بیان کرنے والے کسی حکم کو انسان پر چھوڑ ا ہے بلکہ دونوں کو بیان کردیاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام فکر اور طریقہ ہے۔ فکر عقیدہ اور وہ احکام ہیں جو زندگی کے مسائل کا حل دیتے ہیں جیسے اسلام کی صلاحیت پر ایمان ،کتاب و سنت پر ایمان ، کفر کی خرابی اور بگاڑ پر ایمان۔ اسی طرح تجارت کے احکام، نکاح کے احکام،اجارہ کے احکام،نماز کے احکام۔ جبکہ طریقہ فکر کو نافذ کرنے کی کیفیت کے احکام ہیں، یعنی عقیدہ کو نافذ کرنے اور احکام شرعیہ کو نافذ کرنے کی کیفیت جیسے جہاد کے احکام ،غنائم کے احکام، مالِ فئی کے احکام اور مرتد کے احکام۔ اسی طرح سزاؤں کے احکام جیسے حدود ،جنایات اور تعزیر۔ اسی طرح امامت قضاء اور حسبہ کے احکام۔ اسی طرح دعوت کے احکام،حکمرانوں کے محاسبے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احکام۔یہی وجہ ہے کہ طریقے کی پابندی فرض اور اس سے انحراف گناہ ہے، اگر اس کی پابندی نہیں کی اور یہ اعتقاد رکھا کہ یہ قابلِ عمل نہیں تو یہ عمل کفر ہے العیاذ باللہ، یعنی یہ اعتقاد رکھ کر طریقے سے متعلق احکام کی پابندی نہیں کی کہ یہ قابل عمل ہی نہیں جیسا کہ چور کا ہاتھ کاٹنا تو یہ کفرہے، اگر سستی کاہلی یا لاپرواہی وغیرہ کی وجہ سے اس کی پابندی نہیں کی تو یہ عمل معصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور ججوں کے فیصلے معصیت یا کفر ہیں، کیونکہ حکمرانی اور قضاء طریقہ میں سے ہیں، جو جج چور کو قید کرنے کا حکم دیتاہے ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں دیتا دیکھا جائے گا کہ اگر وہ یہ فیصلہ اس اعتقاد کے ساتھ دیتاہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا درست اور قابل عمل نہیں تو وہ کافر اور مرتد ہے، اگر وہ یہ فیصلہ مجبوری میں حکمران کی خواہش پر دیتا ہے اور یہ سمجھتاہے کہ درست فیصلہ ہاتھ کاٹنے کا ہے تب وہ نافرمان ہے، دونوں صورتوں میں گنہگار ہے۔یہی حال حکمران کا ہے۔چنانچہ طریقے کی پابندی یعنی ان احکام کی پابندی جو احکام کو نافذ کرنے کی کیفیت کو بیان کرتے کے حوالے سے اللہ تعالی نے سخت وعید سنائی ہے فرمایا: فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ "آپ(ﷺ) کے رب کی قسم! یہ آپ کوفیصلہ ساز بنانے تک مومن نہیں ہوسکتے” اور اس کے خطرے کی انتہا یہ ہے کہ جو یہ اعتقاد نہ رکھے وہ کافر ہے، العیاذ باللہ۔مسلمانوں کا مسئلہ اسلام کے نزول کے وقت سے لے کرآج تک اور قیام قیامت تک وہی ہے یہ کبھی تبدیل ہوا نہ تبدیل ہوگا، یہ متعین اور مقررہ طریقے سے اسلام کی نشرواشاعت ہے جو کہ جہاد ہے، یعنی قوت سے انسانوں کو اللہ خالقِ کائنات کے نازل کردہ قوانین کے ماتحت کرنا، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا لوگوں کے ساتھ تصادم اسلام اور مسلمانوں کی فطرت ہے۔ اسلام کے معاملے میں ریاست یا اتھارٹی کا وجود جسم کےلیے روح کی طرح ہے، بغیر اتھارٹی کے اس معاملے کا وجود نہیں نہ ہی یہ زندہ و متحرک رہ سکتاہے، بغیر اتھارٹی کے اسلام کا نور زندگی میں جلوہ گر نہیں ہوگا نہ ہی اسلام کا کوئی عملی وجود ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ جس تصادم میں مسلمان داخل ہوتے ہیں یہ تصادم فکری تصادم ہے جس کا آلہ مادی ہے،چاہے یہ جہاد میں ہو یا لوگوں کو اسلام کے احکام کے سامنے جھکانا ہو۔ جہاد میں ان سے قتال سے پہلے ان کوایسے طریقے سے اسلام کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو قابل التفات ہو؛ لوگوں کو احکام کے سامنے جھکانے میں سزا صرف فرض یا حرام پر دی جاتی ہے،ان احکام کو لوگوں کو باخبر کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کے بعد ہی نافذ کیا جاسکتاہے، دونوں صورتوں میں ریاستی اتھارٹی ہی جہاد اور حدود اللہ کو قائم کرنے میں اسلام کی فکر پر قائم اتھارٹی ہوتی ہے،یہ فکر پر ہی چلتی ہے، یہ اور فکر امتزاج سے چلتے ہیں جس میں تمیز اور افتراق درست نہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلامی اتھارٹی سے ٹکرانے والوں کے لیے اس کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا تھا، کیونکہ ان کا ٹکراؤ صرف مادی ہوتاتھا،ان کی اتھارٹی صرف مادی ہوتی تھی، جبکہ اسلام کی جدوجہد ایسی جدوجہد ہوتی ہے جس کا آلہ مادہ ہے جبکہ اس کی اتھارٹی فکر پر قائم اتھارٹی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ جنگ جیتتے تھے چاہے بعض معرکوں میں ان کو شکست کا سامنا ہی ہو، غالبا یہی اس راز کو فاش کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے سے دس گنا بڑی قوت کے سامنے ڈٹنے کا حکم دیا گیا، پھر جب ان کے لیے نرمی کی گئی تو ان کو اپنے سے دوگنا بڑی قوت کے سامنے ڈٹنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ اس فکر کی قوت جس پر یہ اتھارٹی قائم ہے اور جس کے اساس پر فرد کی زندگی قائم ہے مادی قوت سے دس گنا بڑی اور شدید قوت ہے، اسی لیے یہ لوگوں کے ساتھ اس تصادم میں سب سے اہم ہے جس میں مسلمان لازما داخل ہوں گے، یہ وہ فکری پہلو ہے جس پر مادی قوت قائم ہے، یا بالفاظ دیگر مادی قوت کا قیام ایک فکر پر ہے۔
جو لوگ مسلمانوں کے خلاف خونریز تصادم میں داخل ہوئے وہ اسلامی عقیدے کی حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے تھے، یعنی یہ کہ اسلام کے عقیدے کی فکرمسلمانوں کی مادی قوت کو مضبوط کر دیتی ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے اپنی مادی قوت کو مسلمانوں کی مادی قوت سے زیادہ کرنے پر اعتماد کرتے تھے، مگر قوت کو بڑھانے کے باوجود اور مسلمانوں کے ان سے کمزور اور تعداد میں کم ہونے کے باجود مسلمان کامیاب رہتے تھے۔ یہی حال مشرکین کا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ تھا، یہی حال رومیوں کا صحابہؓ کے ساتھ تھا، یہی معاملہ فارس کا صحابہ کے ساتھ تھا،یہی حال ان تمام کفار کا تھا جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوئے۔ مسلمان صرف دوبار جنگ ہارے، ایک صلیبی جنگوں میں جنگ ہار گئے پھر واپس آکر جنگ جیت گئے، دوسرا انیسویں صدی عیسوی میں پہلی جنگِ عظیم میں طویل جنگ کے بعد بالآخر شکست کھا گئے۔ اب پوری دنیا مغرب کی بالادستی سے نکلنا چاہتی ہے اس لیے یہ فطری بات ہے مسلمان بھی پوری دنیا کی طرح اپنے اوپر مغرب کی بالادستی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے علاقوں سے اس کے اثرورسوخ کو زائل کرنا چاہتے ہیں، مگر کیا دنیا اپنے اوپر مغرب کی بالا دستی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا مسلمان اپنے اوپر مغرب کی بالادستی ختم کرپائیں گے؟ مگر مسلمان تب درست سمت چلیں گے جب پہلے وہ اپنے مسئلے کو سمجھیں گے جو کہ مغرب کی بالادستی نہیں، مسئلہ یہ نہیں یہ توانسان کے اندر فطری ردعمل ہے کہ وہ بالادستی کے خلاف مزاحمت کرتاہے اور غلامی کو قبول نہیں کرتا، ان کا مسئلہ توجہاد کے ذریعے اسلام کو پھیلانے کا مسئلہ ہے، یعنی یہ اسلام کی اشاعت کا مسئلہ ہے،قوت کے ذریعے لوگوں کو شرعی احکام کے سامنے سرنگوں کرنے کا مسئلہ ہے، یعنی درست طریقہ لوگوں سے تصادم میں داخل ہونا ہے، سارے لوگوں کے ساتھ، مادی تصادم میں،اسلام کی اشاعت اور لوگوں کو اس کے احکام کے سامنے جھکانے کےلیے خونریز تصادم میں، یہی صحیح طریقہ ہے اس کے سوا مسلمانوں کے پاس کوئی طریقہ نہیں، بطورِ مسلمان ہونے کے ان کے لیے اس طریقے کے علاوہ کوئی اور طریقہ ممکن بھی نہیں، ان کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی اور راستہ نہیں، بلکہ مسلمان رہنے کےلیے وہ اس طریقے پر چلنے میں مجبور ہیں، بلکہ اگر وہ مسلم امہ رہنا چاہتے ہیں تو یہی طریقہ ہے، کیونکہ یہ تصادم مسلمانوں کی فطرت ہے بلکہ یہ اسلام کی فطرت ہے۔
تاہم اس مسئلے کے لیے اس تصادم میں داخل ہونے کے لیے ایک اتھارٹی کا موجود ہونا لازم ہے، مگر کوئی بھی اتھارٹی نہیں، بلکہ اسلامی اتھارٹی، اس لیے پہلے اسلامی اتھارٹی کا وجود لازمی ہے پھر فورا لوگوں کے ساتھ مادی تصادم میں داخل ہونا ہے، یوں اسلامی اقتدار ہی پہلا قدم ہے۔ جس کے فورا بعد لوگوں کے ساتھ مادی تصادم میں داخل ہونا ہے، اس لیے اسلامی اقتدار کو وجود میں لانے کے لیے جدوجہد ضروری ہے کیونکہ اس کے وجود میں آنے سے قبل کچھ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے وجود میں آنے سے قبل مسئلے کےلیے کچھ نہیں کیا جاسکتا، اسلیے اس اقتدار کو وجود میں لانے کا عمل سب سے مقدم ہے اور اسی کے لیے جدوجہد سب سے پہلے ہے،یعنی اسلامی کی اتھارٹی کو وجود میں لانے کا کام۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں اسلامی اتھارٹی کا قیام کسی بھی اتھارٹی کے قیام سے آسان ہے، چاہے یہ اس اتھارٹی کی فطرت کے حوالے سے ہو یا اسلامی اتھارٹی کے بطوراسلامی اتھارٹی کی فطرت کے حوالے سے ہو۔ جہاں تک اتھارٹی کی فطرت کا تعلق ہے تو اتھارٹی امت میں یا اس کے طاقتور گروہ میں پوشیدہ ہے، چونکہ کسی بھی مسلم ملک کے باشندے مسلمان ہیں، اس لیے ان میں اسلامی اتھارٹی قائم کرنا کسی بھی اوراتھارٹی کے قیام سے آسان ہے، جہاں تک اسلامی اتھارٹی کی فطرت کی بات ہے تو یہ اسلامی اتھارٹی اپنے قیام کی ابتدا سے ہی ایک مسلمان پر دس کے سامنے ڈٹ جانے کو فرض قرار دیتی ہے، باقی سارے حالات میں دو کے سامنے ڈٹ جانےکو۔ جولوگ اتھارٹی قائم کرتے ہیں اگر وہ اس ملک میں اقلیت میں ہوں تو وہ دس کے سامنے ڈٹ جانے پر قادر ہوتے ہیں، وہ اسلامی اتھارٹی قائم کرنے اوران لوگوں پر غلبہ حاصل کرنے میں قادر ہیں جو کوئی اور اتھارٹی قائم کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے اسلامی علاقوں میں اسلامی اتھارٹی قائم کرنا کسی بھی غیر اسلامی اتھارٹی قائم کرنے سے زیادہ آسان ہے، لہٰذا اللہ تعالی کے اس قول کو یاد کرنے کی ضرورت ہے: وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا "اگر تم میں سے سو ہوں تو ہزار پر غالب آئیں گے” اسی طرح اللہ کے اس فرمان کو: إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ "اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تودوسو پر غالب آئیں گے”۔
اسلام جو کہ عقیدہ پر قائم ہے، سے جامع منفرد نظام پھوٹتا ہے”، یہ انسا نیت کے لیے نیک بختی ہے اور اس کے مسائل کو حل کرتاہے، اس عظیم الشان اسلام کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ اسلامی ریاست ہے جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کرتی ہے، مگر یہ عظیم الشان اسلام اس وقت تک صرف عظیم آئیڈیالوجی ہی رہے گا جب تک امت مسلمہ اس کو ریاست میں نافذ کرنے کی جدوجہد نہیں کرے گی،جس کی قیادت ایک ایسی اسلامی سیاسی جماعت کرتی ہو جو اسلام کے احکام کی گہری سمجھ رکھتی ہو، مگر اس جماعت کو اقتدار تک پہنچانے کےلیے مادی قوت کی ضرورت ہے، یہ قوت رکھنے والے عالم اسلام کی افواج کے وہ اہلِ نُصرہ ہیں، جواسلام کے مسئلے کا ادراک رکھتے ہیں کہ کارزارِ حیات میں اسلام کا نفاذ اور اس کا طریقہ متعین ہے جو کہ جہاد اور لوگوں کو قوت کے ذریعے اس کے احکام کی پابندی پر مجبور کرنا ہے، یوں اسلامی اتھارٹی کے ذریعے لوگوں کے ساتھ تصادم میں داخل ہوئے بغیراور اس طریقے کے بغیرمسلمانوں کا مغرب کی بالادستی سے نکلنا ممکن نہیں نہ ہی وہ اس کے بغیر مغرب کے اثرو رسوخ کو زائل کرسکتے، بلکہ اس کے بغیر وہ اسلامی امت ہی نہیں رہ سکتے، نہ ہی اہلِ قوت کو یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ اسلام کی محافظ قوت ہیں، یوں ذمہ داری اہل نصرہ کے کندھوں پر ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کا فرض انجام دیں، اسلام کے حکمرانی کو قائم کریں اور اسلام کو تمام انسانوں کے سامنے ہدایت اور رحمت کے پیغام کے طور پر پیش کریں۔
ختم شد