حال ہی میں عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف )نے یہ پیش گوئی کی کہ دنیا میں 1930 میں ہونے والی عظیم معاشی کسادی بازاری(گریٹ ڈیپریشن) سے…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: عبدالمجید بھٹی
حال ہی میں عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف )نے یہ پیش گوئی کی کہ دنیا میں 1930 میں ہونے والی عظیم معاشی کسادی بازاری(گریٹ ڈیپریشن) سے زیادہ شدید کساد بازاری ہونے جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹ لِینا جورجیوا Kristalina Georgievaنے کہا، "عظیم کساد بازاری(Great Depression) کے بعد ہم اب تک کا سب سے بدترین معاشی بحران دیکھنے کی توقع کررہے ہیں”(1)۔ بینک آف انگلینڈ نے 1706 عیسوی کے بعد اب تک کے سب سے بدترین معاشی بحران کی پیش گوئی کی(2)۔ امریکا کے فیڈرل ریزرو کے چیئرمین نے اندوہ ناک صورتحال سے خبردار کیا کیونکہ امریکی معیشت کو پہلی سہ ماہی میں جو نقصان پہنچا ہے وہ بدترین عظیم کساد بازاری(گریٹ ڈیپریشن) کے بعد سے سب سے زیادہ ہے(3)۔ اس قسم کی تنبیہات پر مبنی بیانات دلچسپ سوالات پیدا کرتے ہیں کہ کیا مغرب ایک بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے یا یہ صورتِ حال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو اس کے حتمی زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
اکثرلوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مغرب ایک معاشی بحران کاسامنا کررہا ہے جو عظیم معاشی سست روی (Great Recession) سے لے کرعظیم مستقل معاشی گراوٹ (گریٹ ڈیپریشن) تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چند ہی لوگ یہ کہنے کی ہمت کرتے ہیں کہ صورتحال 1930 کے عظیم کساد بازاری(گریٹ ڈیپریشن) سے بھی زیادہ خراب ہوجائے گی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے کافی پہلے سے، تجزیہ نگاروں کا ایک چھوٹا مگر بڑھتا ہوا گروہ مغربی تہذیب اور اس کی بالاد ستی کو مسلسل کم ہوتا دیکھ رہا ہے۔
1997 میں دو نئے تاریخ دان ولیم سٹروس William Straussاور نیل ہووNeil Howe نے اپنی کتاب "چوتھا موڑ (فورتھ ٹرنِنگ) امریکی پیش گوئی” میں دعوٰی کیاکہ 2008 میں امریکا بحرانی دور میں داخل ہوگا جو 2020 میں اپنی انتہاء پر پہنچ جائے گا(4)۔ یونیورسٹی آف کنیکٹی کٹ میں ارتقائی بشریات evolutionary anthropologist کے ماہر پیٹر ٹرچِن کے مطابق دنیا ہر دو سے تین سو سال بعد ایک سیکولر چکر سے گزرتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طلب سے زیادہ مزدور موجود ہوتے ہیں، اشیاء سستی ہوجاتی ہیں اور انتہائی امیر افراد اور عوام کے درمیان دولت کی خلیج بہت بڑھ جاتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں اشرافیہ کے درمیان لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں، اور غریب عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ معاشرہ ایک تباہ کن مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور بالآخر گرجاتا ہے۔ ٹرچن نے اس کے علاوہ ایک چھوٹے 50 سال کے چکر کا بھی ذکر کیا ہے جو اتنا ہی تباہ کن ہوتا ہے۔ امریکی تاریخ پر کی گئی تحقیق کی بنیاد پر ٹرچن نے 2010 میں پیش گوئی کی تھی کہ اگلا مختصر چکر 2020 میں وقوع پزیر ہونا ہے لیکن وہ بڑے چکر کے ساتھ ٹکرائے گا اور اس طرح ایک فقید المثال افراتفری پیدا ہو گی(5)۔
اربوں ڈالر پر مشتمل ہیج فنڈ کے مالک رے ڈَیلیو Ray Dalio نے ٹرچن کے جیسا ہی ایک نظریہ پیش کیا جسے وہ "قرض کا لمبا چکر” کہتا ہے۔ ڈیلیو کے نقطہ نظر کے مطابق یہ چکر ہر 50 سے 75 سال بعد سامنے آتا ہے اور اس کی چار واضح خصوصیات ہوتی ہیں: ایجادات میں تیزی، ملک میں اشرافیہ کے درمیان گہری تقسیم، ملک سے باہر اقوام کے درمیان بہت کم تعاون، اور ایک مدمقابل کا ظہور۔ آخری "قرض کا لمبا چکر” 1945 کو ختم ہوا تھا جب عظیم کساد بازاری نے جرمنی کو مجبور کیا تھا کہ وہ برطانیہ کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرے۔ برطانیہ نے وہ جنگ جیت لی تھی لیکن امریکا کے مقابلے میں اسے اپنے مقام سے دستبردار ہونا پڑا تھا جس کے بعد بریٹن ووڈ Bretton Woods کے مقام پر ہونے والے معاہدوں کی بنیاد پرنیا سیاسی و معاشی عالمی آرڈر قائم ہوا۔ ڈیلیو کے مطابق 2020 ءمیں قرض کا لمبا چکر ختم ہوگا اور عالمی معیشت میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور چین اس میں اُبھر کر سامنے آئے گا اور سب سےاوپر ہوگا(6)۔ ٹرچن اور ڈیلیو سے بہت پہلے 1922 میں اوسوالڈ سپینگلرOswald Spengler نے مغربی تہذیب کی موت کی پیش گوئی کی تھی اور یہ کہ مغرب آخری موسم میں داخل ہوگیا ہے یعنی سردیوں کے موسم میں۔
اوپر بیان کردہ تھیوریاں لچسپ ہیں اور چاہئے کہ یہ لوگوں کی سوچ و فکر میں کچھ حرکت کا باعث بنیں۔ مغربی مفکرین کی جانب سے حکمران خاندانوں اور تہذیبوں کی پیدائش اور موت کے حوالے سے پیش کیے جانے والے افکار سے بہت پہلے چودھویں صدی عیسوی میں ابنِ خلدون نے اپنے مقدمہ میں ایک چکر کے چار مراحل: قیام ، بڑھنا، زوال، اور خاتمہ، کا ذکر کیا جو حکمران خاندانوں کے عروج و زوال کے پیچھے کارفرماں قوتوں کو بیان کرتا ہے۔ خلدون نے پیش گوئی کی کہ یہ چکر ہر 120 سال کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ تاریخ دان آرنلڈ ٹونی بی ابن خلدون کے مقدمے سے اس قدر متاثر تھا کہ اس نے اسے "اپنی طرز کا بہترین کام ” قرار دیا(7)۔
کورونا وائرس کی وبا ء کے سامنےآنے سے کافی پہلے مشاہدہ کرنے والے ذہین لوگ اُن چھپی ہوئی قوتوں کو شناخت کرسکتے تھے جن سے امریکا کے ورلڈ آرڈر کو خطرہ ہے اور کورونا وائرس کی وباء کے بعد یہ صورتحال شاید امریکا کے لبرل آرڈر کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔
نیشلز ازم یا لسانی نیشنلز ازم امریکا کے لبرل ورلڈ آرڈر کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔کورونا وائرس کے وباء پھیلنے سے قبل ہی نیشنل ازم کی قوتیں، جنہوں نے بریگزٹ کا پنڈورا باکس کھولا، ٹرمپ کا انتخاب اور کئی یورپی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا مقبول ہونا ، ان سب کی وجہ سے آنے والے سالوں میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ قومی ریاست کی اہمیت قومی ریاستوں کی تنظیموں جیسا کہ یورپی یونین یا کثیر القومی اداروں جیسا کہ اقوام متحدہ، پر حاوی ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹلی اور اسپین کو دیر سے مدد فراہم کرنامستقبل میں اس یونین کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ اسی طرح اقوام متحدہ جو اس وباء سے پہلے عالمی منظر نامے پر محض ایک بے دست و پا کردار رکھتی تھا ، اس وباء کے دوران وہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنWHO مزید غیر متعلق ہو گئے ہیں کیونکہ قومی ریاستوں نے ان عالمی تنظیموں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وباء سے نمٹنے کے لیے اپنے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کردیا ۔ جبکہ مستقبل قریب میں ان عالمی تنظیموں کا کردار مزید محدود ہوتا نظر آتا ہے۔
کورونا وباء کے پھیلنے سے قبل امریکا کی چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ کی وجہ سے گلوبلائزیشن کو کافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ آنے والے سالوں میں یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ گلوبلائزیشن اپنا وجود برقرا ررکھ پائے گی۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ذاتی تحفظ کے آلات (PPE) کی قلت نے یورپی ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ ان اشیاء کی چین سے درآمد کی پالیسی کو تبدیل کر کے انہیں اپنے ہی ممالک میں بنانے کی پالیسی اختیار کرلیں۔ کورونا وائرس کے بحران سے پہلے امریکا نے اپنی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ اپنے پیداواری یونٹس کو چین سے واپس امریکا منتقل کردیں ۔ اس طرح امریکا پیداواری یونٹس اور سپلائی چین کو واپس اپنے پاس لا رہا ہے اور اس عمل کو گریٹ ڈی کَپلنگ کہا جارہا ہے(8)، اور کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے اس سوچ اور عمل میں تیزی صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ یورپ میں بھی آئے گی۔ مستقبل قریب میں مقامی پیداوارکو ترجیح دینا گلوبلائزیشن کے عمل پر حاوی ہوجائے گا۔
ایک چیز یقینی ہے کہ کم سے کم شرح سود، معیشت میں تیزی کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتی مداخلت اور مرکزی بینک کی طرف سے حکومتی بانڈز کو خرید کر پیسے مہیا کرنے کا جو معاشی نسخہ عظیم کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن )کے دوران دیاگیا تھا وہ ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو 2008 میں آنے والے معاشی بحران سے قبل کے مقام پر لے جانے میں ناکام ثابت ہوا۔ اسی نسخے کا دوبارہ استعمال موجودہ عالمی معاشی بحران کو روکنے کی جگہ ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔ اس کے اوپر یہ کہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری، بڑی تعداد میں کمپنیوں کا دیوالیہ ہونا اور قرض میں مسلسل اضافہ عالمی سطح پر انتہائی امیر افراد اور عوام کے درمیان تقسیم کو مزید بڑھائے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام چاہے خود کو کتنا ہی بدلنے کی زبردست کوشش کرلے، اس قسم کی شدید اور وسیع خلیج کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اس کے برخلاف دولت کے تقسیم میں اس قدر عدم مساوات عالمی سطح پر حکومت کرنے کو مشکل بنادے گا کیونکہ لوگ ایک نئے سماجی معاہدےSocial Contract کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
امریکا کا لبرل آرڈر اب یقیناً وینٹی لیٹر پر چل رہا ہے۔ امریکا نے جس دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑی دِقت سے تعمیر کیا تھا وہ اب بکھررہی ہے اور اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ دنیا 1945 سے پہلے کی صورتحال پر واپس چلی جائے گی۔ یہ وہ دور تھا جب کئی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کا تحفظ کررہی تھیں اور اگر ان کے مفاد کو خطرہ لاحق ہوتا تھا تو وہ جنگ شروع کردیتی تھیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ لَا يَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَةً وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ” اور ہر ایک قوم کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی”(الاعراف، 7:34)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کچھ تہذیبوں کو عروج اور زوال کے راستے پر ڈالتا ہے جبکہ کچھ کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم بلندی کی جانب سفر شروع کرتی ہے اور دنیا کے امامت حاصل کرلیتی ہے لیکن دنیا کی چاہت کی تمام حدیں عبور کر لیتی ہے اور تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہے۔ باخبر اور سمجھدار مسلمان وہ ہے جو توجہ سے بین الاقوامی صورتحال سے آگاہ رہتا ہے اور اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک بار پھر انسانیت کا رہنما بنادے جس کے وہ حق دار ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِؕ "(مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”(آل عمران، 3:110)۔
یقیناً کورونا وائرس کی شکار دنیا اہل قوت کے لیے ایک زبردست موقع ہے کہ وہ مغربی استعماری طاقتوں کے کنٹرول کو تہہ بالا کرتے ہوئے نبوت کے نقشِ قدم پر ریاست خلافت کو قائم کردیں ۔ جس طرح امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے اس بات کا انتظار کیا تھا کہ عظیم یورپی طاقتیں ایک دووسرے کو تباہ برباد کرلیں اور پھر اس نےتاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی قیادت پرانے یورپ سے چھین لی- ایسا ہی مواقع خلافت کو قائم کرنے والوں کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوۡلُ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهٖ وَاَنَّهٗۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ” مومنو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تمہیں زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے "(الانفال، 8:24)۔
حوالاجات:
[1] Time (2020).
International Monetary Fund Head Predicts Coronavirus Will Trigger ‘Worst Economic Fallout Since the Great Depression’. [online] Time. Available at: https://time.com/5818819/imf-coronavirus-economic-collapse/
[Accessed 7 May. 2020].
[2] CNBC (2020).
Bank of England projects worst UK economic slump since 1706. [online] CNBC. Available at: https://www.cnbc.com/2020/05/07/bank-of-england-holds-interest-rates-but-says-it-is-ready-for-further-stimulus.html
[Accessed 16 May. 2020].
[3] The Washington Post (2020).
Fed chair warns of ‘heartbreaking’ scenario as U.S. economy suffers worst first quarter since Great Recession. [online] The Washington Post. Available at: https://www.washingtonpost.com/business/2020/04/29/gdp-coronavirus/
[Accessed 16 May. 2020].
[4, 5] New Scientist (2016).
End of days: Is Western civilisation on the brink of collapse?. [online] New Scientist. Available at: https://www.newscientist.com/article/mg23731610-300-end-of-days-is-western-civilisation-on-the-brink-of-collapse/
[Accessed 7 May. 2020].
[6] Deal Street Asia (2020).
Billionaire investor Ray Dalio says pandemic to usher in new world order with China on top. [online] Deal Street Asia. Available at: https://www.dealstreetasia.com/stories/pandemic-china-ray-dalio-187533/
[Accessed 7 May. 2020].
[7] Wall Street Journal (2018).
Why history goes in circles. [online] Wall Street Journal. Available at: https://www.dealstreetasia.com/stories/pandemic-china-ray-dalio-187533/
[Accessed 23 May. 2020].
[8] Foreign policy (2020).
The Great Decoupling. [online] Foreign Policy. Available at: https://foreignpolicy.com/2020/05/14/china-us-pandemic-economy-tensions-trump-coronavirus-covid-new-cold-war-economics-the-great-decoupling/
[Accessed 16 May. 2020].
ختم شد