کانفرنسوں ، مظاہروں ، اور سیمینارز کے متعلق ،کیا حزب التحریر اپنا طریقہ بدل چکی ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: اُم عکاشہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہمارے معزز شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ
میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی خاطر کی جانے والی عظیم کوششوں میں اللہ آپ کی مدد فرمائے اور آپ کے ذریعے ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔
کچھ لوگ دعوی ٰکرتے ہیں کہ خلافت کو قائم کرنے کے لیے پارٹی نے اپنا طریقہ کار تبدیل کرلیا ہے اور فکری جماعت ہونے کے ناطے کانفرنسوں کا انعقاد مناسب نہیں ہے ۔۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (اختتام)
ب: نونا امر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک سوال ہے ، اور مجھے امید ہے کہ آپ مجھے جواب دیں گے۔ الشیخ العالم تقی الدین رحم اللہ علیہ سے تبنی شدہ ہے کہ انہوں نے مظاہرے کرنے سے انکار کیا تھا ۔۔۔اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ مظاہرے بڑے پیمانے پرکیے جا رہے ہیں اور آپ خود انہیں منظم کررہے ہیں۔ کیا آپ کے اس عمل کی کوئی شرعی دلیل موجود ہیں؟ والسلام علیکم۔ (اختتام)
پ :وسیم کردغلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دولت اسلامیہ کے صفحہ 236 میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے ، "خلافت کے قیام کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد کرنا از خود اسلامی ریاست کے قیام کا کوئی طریقہ نہیں ہے …” میرا سوال الشیخ یہ ہے کہ جماعت کیوں ایسی کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتی ہے جبکہ اس کی کتابوں میں اس طرح کے اقدامات کرنے سے انکار کیا گیا ہے … براہ کرم اس معاملے کو واضح کریں تاکہ ہماری الجھن دور ہو سکے ۔(اختتام)
آپ کے سوالات موضوع کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں۔ ان کا تعلق کانفرنسوں ، مظاہروں اور سیمینار سے ہے اور کیا پارٹی نے خلافت کے قیام کے لیے اپنا طریقہ تبدیل کر لیا ہے
معزز بھائیو اور بہنو،اس کا جواب یہ ہے کہ جماعت نے اپنے طریقہ کار کو بالکل بھی تبدیل نہیں کیا کیوں کہ یہ اللہ رب العزت کی کتاب اور نبی کریمﷺکی سنت سے صحیح طور پر اخذ شدہ ہے ، اور اس کو بات واضح اور غیرمبہم پر ہماری کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ان تمام مراحل کو جیسا کہ ثقافتی دور ، عوام سے تفاعل کا دور اور اہلِ اقتدار سے نُصرہ طلب کرنا۔۔۔ ان سب کو ہماری کتابوں میں شرعی دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ہم لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں ، اور وہ لوگ جو ہماری دعوت پر قائل ہو جاتے ہیں ہم انہیں حزب میں شامل کرتے ہیں اور وہ حزب کے شباب کا حصہ بن جاتے ہیں ۔۔۔نیز ہم ایسے اعمال کرتے ہیں جن سے خلافت کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔ ۔۔ اور اہلِ اقتدار سے نُصرہ کا مطالبہ کرتے ہیں تا کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جا سکے (باذن اللہ)
ریاست کے قیام کے لئے یہ طریقہ ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، صحیح طریقہ اجتہاد سے اخذ کیا گیا ہےاور اسے آقا علیہ السلام پر پہلی وحی کے نزول سے لے کر مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک کے دورانیے سے لیا گیا ہے؛یعنی ثقافتی دور ، ایک پارٹی کو تشکیل دینا ، اور ایسے اعمال کرنا جن کے ذریعہ امت کے ساتھ تفاعل کر کے عوامی آگاہی سے پیدا ہونے والی رائے عامہ کو تشکیل دیا جا سکے، اور پھر اہل اقتدار لوگوں سے نصرہ طلب کرنا۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ الجھن اس وقت پیدا ہوئی جب سوال کرنے والوں نے دو اعمال یعنی تفاعل کے دوران عوامی رائے عامہ ہموار کرنا اور ریاست کے قیام کے مابین اختلاط کر دیا ہے اس الجھن کو مندرجہ ذیل نکات سے واضح کیا جاتا ہے:
. 1-اگر یہ پوچھا جائے کہ تفاعل کے مرحلے کے دوران عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کےکونسے اعمال ہیں ، تو اس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ اسلامی افکار اور اس کے احکام پر مبنی وہ تمام اعمال جو امت کے ساتھ تفاعل کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ لیکچرز ، سیمینارز ، کانفرنسیں اور مظاہرے جن کا ہم انعقاد کرتے ہیں ۔۔۔ اگر ہم ان کا انعقاد کرنے کے قابل ہوں۔۔ ۔ اور اسی طرح کے کئی اور اقدامات۔۔۔
لہذا آقا علیہ السلام نے لوگوں کو صفا کے مقام پر اکٹھا کیا اور ان سے خطاب کیا : الف:
- بخاری ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی–( و أًنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْزَبينَ)–ا ور ڈراؤ (اے محمد) اپنے قریبی رشتے داروں کو(الشوریٰ-214) ۔تو آقا علیہ السلام کوہ صفا پر چڑھے اور اونچی آواز میں پکارنا شروع کیا– (يَا بنِي فِھرٍ، يَا بنِي عَذِيٍّ)– اے بنو فہر،اے بنو عدی یہاں تک کہ تقریباًقریش کے سارے قبیلے جمع ہو گئے اور جو نہیں آ سکا تو اس نے اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیا اور پھر اس کے بعد ابو لہب اور قریش کے لوگ جمع ہوئے ۔پھر آقا علیہ السلام نے لوگوں سے کہا —(أَرَأَيْتَكُمْ لَأَخْبرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بالواٌدِيّ تُزِيذُ أَنّْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ، أَكُنْتُمْ مُصَدقِيَ)–اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک فوج تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے ؟ تو انہوں نے جواب دیا جی ہاں؛ ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔پھر آپ ﷺنے کہا –(فَإِنِي نَذِيرلَكُمْ بيْن يَديّْ عَذَابٍ شَديد)–تو میں آپ لوگوں کو ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ اس پر ابو لہب نے جواب دیا کہ کیا تو نے ہمیں اس کام کے لیے بلایا تھا؟ تُو ہلاک ہو۔پھر یہ وحی نازل ہوئی– (تَبتْ يَدا أَبي لَھب وتب مَا أَغْنَى عَنْہ مَالُہ ومًا كَسَب)– ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں نہ تو اس کا مال اس کو بچا پائے گا اور نہ وہ جو اس نے کمایا ہے۔
- اسی طرح مسلم ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی –( و أًنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْزَبينَ)–ا ور ڈراؤ (اے محمد) اپنے قریبی رشتے داروں کو(الشوریٰ-214)۔ رسول اللہﷺکوہِ صفا پر چڑھے اور اونچی آواز میں پکارنا شروع کیا–( يَا صَباحَاهْ)– لوگوں نے پوچھا یہ کون پکار رہا ہے؟؟ تو انہوں نے کہا: محمد۔ جب وہ لوگ جمع ہو گئے تو آپﷺنے کہا–( يَا بنِي فُلَانٍّ ، يَا بنِي فُلَانٍّ، يَا بنِي فُلَانٍّ ، يَا بنِي عَبد مَنَافٍ، يَا بنِي عَبد الْمُطَّلِب)–” یا بنی فلاں یا بنی فلاں یا بنی فلاں یا بنی عبد مناف یا بنی عبد المطلب” جب لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے،تو آپﷺ نے فرمایا–(أَرَأَيْتَكُمْ لَأَخْبرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِسَفْحِ ھذَا الْجَبلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدقِيَ؟)– اگر میں تم لوگوں سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے (دشمن کے)گھوڑے موجود ہیں تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی زبان سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔ اس پر آپﷺنے کہا –(فَإِنِي نَذِيرلَكُمْ بيْن َيَديّْ عَذَابٍ شَديد)–تو میں آپ لوگوں کو ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ اس پر ابو لہب نے کہا کہ محمد تو ہلاک ہو جائے کہ تم نے ہمیں اس کام کے لئے بلایا ہے۔اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ برباد ہو جائیں اور وہ خود بھی برباد ہو جائے۔
- اسی طرح احمد بن یحیی بن جابر بن داؤدبلاذری (متوفی 279ھ) اپنی کتاب "جمل من انساب الاشراف" میں بیان کرتے ہیں کہ محمد بن سعد اور ولید بن صالح نے محمد بن عمر واقدی سے، ابن ابی سبرۃ سے، عمر بن عبداللہ سے ،جعفر بن عبداللہ بن ابی الحکم سے بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی –( و أًنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْزَبينَ)–ا ور ڈراؤ (اے محمد) اپنے قریبی رشتے داروں کو(الشوریٰ-214) تو آپﷺنے اس سے مضبوطی پکڑی، آپ کا دل اپنی کمزورپوزیشن کی وجہ سے کچھ تنگ ہوا، آپ نے بنی عبد المطلب کو دعوت پر بلایا، وہ سب 45 آدمی تھے۔ اسی طرح آپﷺنے انہیں ایک اور دعوت پر بلایا اور آپﷺنے کہا:–( الْحَمْدُ لِلَہِ أَحْمَدهُ، وأًسْتَعِينُوُ وأوًمًنُ بہ وأتوكٌلُ عَلَيْہِ، وأًشْھد أَنّْ لا إِلَہَ إِلا اللَہُ وحَدَهُ لا شَرِيكَ لَہُ)–میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی سے مدد طلب کرتا ہوں میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور اسی پر اپنا یقین رکھتا ہوں اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے جس کی عبادت کی جائے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا:–( إِنَّ الرَائِدَ لا یكٌذِبُ أَهْلَه وَاللَهِ لَىْ كَذَبْت النَّاسَ جَمِیعٍا، مَا كَذَبْتكُمْ. وَلَىْ غَرَرْتُ النَّاسَ، مَا غزرتكم وَاللَهِ الَذِي لا إِلَهَ إِلا هُو، إِنِ لَرَسُولُ اللَهِ إِلَیكْمْ خَاصَّةً وَإِلَى النَّاسِ كَافَّةً. وَاللَهِ، لَتمُوتنَ كَمَا تنَّامُونَّ، وَلَتبْعَثُنَ كَمَا تستیقْظُونَّ، وَلَتحَاسَبُنَ بِمَا تعْمَلُونَّ، وَلَتجْزَوُنَّ بِالإِحْسَانِّ إِحْسَانًا وَبِالسوءِسوءا. وَإِنَهَا لَلْجَنَّةُ أَبَدًا، وَالنَّارُ أَبَدًا. وَأَنْتمْ لأَوَلُ مَنْ أُنْذِرُ)–ایک رہنما اپنے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا ،میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں اگر میں تمام لوگوں سے جھوٹ بولوں، میں تم سے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولوں گا، اگر میں لوگوں کو دھوکہ دوں ، میں تم کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا، میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،اور میں خاص طور پر تمہاری طرف اور باقی لوگوں کے لیے ایک پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ہو تم اسی طرح مر جاؤ گے جس طرح سوتے ہو اور پھر تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور تمہارے اعمال کا تم سے حساب لیا جائے گا اور پھر اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہوگی یا پھر ہمیشہ کے لیے جہنم، اور تم پہلے لوگ ہو جنہیں میں تنبیہ کر رہا ہوں۔
اس پر ابوطالب نے جواب دیا ” ہم تمہاری مدد کرنے کو پسند کرتے ہیں، تمہاری نصیحت کو مانتے ہیں اور تمہارے الفاظ پر یقین کرتے ہیں ۔جو لوگ ادھر اکٹھے ہوئے ہیں یہ تمہارے باپ کے ہی بیٹے ہیں اور میں بھی انہی میں سے ایک ہوں اور میں وہ کام کرنے میں سب سے آگے ہوں جسے تم پسند کرتے ہو لہٰذا تم وہ کام کرو جس کو کرنے کا تمہیں حکم ہوا ہے میں ہمیشہ تمہاری حفاظت کروں گا اور تمہارا دفاع کروں گا لیکن میں عبدالمطلب کا دین نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ جس طرح وہ مر گیا میں بھی مر جاؤں” اسی طرح باقی لوگوں نے بھی نرم لہجے میں بات کی لیکن ابو لہب نے کہا "اے بنی عبدالمطلب میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں یہ بہت ہی بری چیز ہے،اس سے پہلے کہ دوسرے بھی یہ کام کرنا شروع کردیں ، اس کو روکا جائے، پھر اگر تم اسے ان لوگوں کے حوالے کرتے ہو تو تم ذلیل و رسوا ہو جاؤ گے اور اگر تم اس کی حفاظت کرتے ہو تو تمہیں قتل کر دیا جائے گا "۔اس پر ابو طالب نے جواب دیا "میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اس کی حفاظت کروں گا جب تک میں زندہ ہوں”۔
لہذا لوگوں کو اکٹھا کرنا اور ان سے خطاب کرنا عوامی کام میں سے ہی ایک ہے، جو کہ کیا گیا۔
ب :اسی طرح آپ ﷺ نے مسلمانوں کو دو قطاروں میں تقسیم کیا پہلی قطار کی قیادت عمر ؓ کر رہے تھے جبکہ دوسری قطار کی قیادت حمزہؓ کر رہے تھے
ابو نعیم احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق بن موسی بن مہران الصفہانی (المتوفی:430ھ)اپنی کتاب"حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء– نیک لوگوں کی خوبصورتی اور اچھے لوگوں کے درجات” میں بیان کرتے ہیں کہ ابنِ عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمرؓ سے پوچھا کہ آپ کو کس وجہ سے الفاروق کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا حضرت حمزہؓ نے میرے سے تین دن پہلے اسلام قبول کیا، اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے دل کو اسلام کے لئے کھول دیا ۔پھر میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ کہاں ہیں ؟میری بہن نے جواب دیا۔ وہ الصفا پر دارابن ِارقم میں ہیں، لہٰذا میں اس گھر کی طرف بڑھا ۔۔۔میں نے کہا” میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاس کے بندے اور رسول ہیں ۔”انہوں نے کہا” کہ ان الفاظ کو سننے کے بعد ایمان والوں نے خوشی سے کہا "اللہ اکبر” اور ان کی اونچی آواز مسجد کے باہر لوگ آسانی سے سن سکتے تھے۔ پھر میں نے کہا” اے اللہ کے رسول ہم زندہ رہیں یا مر جائیں کیاہم حق پر نہیں ہیں” اس پر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا –( بلَى واًلَذِيّ نَفْسِي بيَدهِ، إِنَكُمْ عَلَى الْحَقِّ إِنّْ مُتُمْ إًنّْ حَيِيتُمْ)– "میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے ہے کہ تم لوگ حق پر ہو چاہے تم مرو یا جیو”۔ اس پرعمر نے کہا "تو پھر ہم چھپے ہوئے کیوں ہیں ؟ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کو ضرور باہر آنا چاہیے” پھر ہم رسول اللہﷺکے ساتھ دو قطاروں میں باہر آئے جن میں سے ایک کی قیادت حمزہ کر رہے تھے اور دوسرے کی قیادت میں کر رہا تھا تھا اور یہاں تک کہ ہم مسجد(الحرام)میں داخل ہو گئے ۔ بیان کیا کہ میں نے قریش اور حمزہ کی طرف دیکھا اور مجھے اس کا احساس ہوا کہ قریش اس قدر کبھی پریشان نہیں ہوئے جس قدر آج ہیں۔ پھر رسول اللہﷺنے مجھے ” الفاروق "کے نام سے پکارا اور اللہ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا۔
لہذا مظاہرے نکالناعوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا عمل ہے تاکہ لوگوں کو حرکت میں لایا جا سکے اور ان کو اسلام کے افکار اور اسلام کے احکامات سے آگاہ کیا جاسکے۔ ان کا انعقاد اس شرط پرکیاجائے کہ ان مظاہروں کی ہم اپنے بینرز اور افکار کے ساتھ قیادت کریں کریں اور ہم ان مظاہروں میں شامل نہیں ہوتے جن کی ہم قیادت نہیں کرتے کیونکہ جب رسول اللہﷺنے مارچ کی قیادت کی تو صحابہ کرامؓ نے کسی اور کی قیادت میں کسی اور تحریک میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ مسلمانوں نے آپ ﷺکی قیادت میں ہی دو قطاروں میں مارچ کیا۔
2-لہذا اگر کوئی یہ پوچھے کہ اسلامی ریاست کو قائم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟کیا یہ مظاہروں کے ذریعے ہے؟ تو ہم کہتے ہیں نہیں۔۔۔ کیا یہ لیکچرز ہیں؟ تو ہم کہتے ہیں نہیں۔۔۔ کیا یہ کانفرنس ہے؟تو ہم کہتے ہیں نہیں ۔۔۔اور اسی طرح کے کئی اوراعمال ہیں جو تفاعل کی اسٹیج کے درمیان عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں لیکن یہ اسلامی ریاست کو قائم کرنے کا طریقہ کار نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کا طریقہ کار جیسا کہ ہم شروع میں بیان کر چکے ہیں وہی ہے اور وہ طلبِ نصرہ اور اسلامی ریاست کے قیام پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
یہی موضوع ہے اور امید ہے کہ اب یہ واضح ہوگیا ہوگاکہ اس چیز میں کوئی فرق نہیں ہے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور جو کچھ ہم کرتے ہیں ، لہٰذا کانفرنسوں کا انعقاد، ریلیوں کو منعقد کرنا اور مظاہرے اور سیمینار کا انعقاد کرنا ریاست کے قیام کے لیےشرعی طور پر کوئی طریقہ نہیں ہے۔۔۔ یہ بات درست ہے ۔۔۔اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام اعمال تفاعل کے سٹیج کے دوران عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔تو یہ بات بھی درست ہے ۔۔۔لہذا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے جو کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے اور جو کچھ ہم کرتے ہیں۔ پس ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کتاب کو پڑھتے وقت اس کے سیاق و سباق کو لازمی مدِنظر رکھنا چاہیے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ کتاب کس انداز میں لکھی گئی ہیں اور کتاب کو کھلے دماغ اور روشن سوچ کے ساتھ پڑھنا چاہیے ،اللہ کی رحمت سے معاملہ بالکل واضح ہو جائے گا۔
ایک اور سوال ابھی باقی ہیں جس کو ان سوالات میں شامل نہیں کیا گیا لیکن لوگوں کے ذہن میں آسکتا ہے وہ یہ کہ جماعت نے پچھلے سالوں کے دوران کانفرنس اور مارچ کا انعقاد کیوں روک دیا ہے۔ اس کا جواب بالکل واضح ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکا ہے کہ ہم وہ اعمال نہیں کرتے جن میں ہم بڑے واضح طور پر اپنے بینرز کے ساتھ شریک نہ ہو سکیں کی اور جگہ اور وقت بھی مظاہروں کے انعقاد کے لئے مناسب ہوں تاکہ ہم اس سے جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل ہو سکے۔ اگر ان اعمال سے یہ ممکن ہو تو ہم ان کو کرتے ہیں ہیں ورنہ نہیں ۔ جہاں تک میرے علم کی بات ہے کہ جو کوشش ہم نے ساٹھ کی دہائی میں کیں، جب بورگیبا نے یہودیوں سے مصالحت کے لیے اردن کا دورہ کیا تو ابو ابراہیم (شیخ تقی رحمہ اللہ)کے دور میں جماعت کو ایک وفد کی صورت میں منظم کیا گیا جو تقریبا ایک مارچ کی شکل ا ختیار کر گیا کچھ لوگوں نے ایک مارچ کی صورت میں وزیراعظم ہاؤس کی جانب رخ کیا جب کہ بیت المقدس اور ہیبر ون میں انہوں نے گورنر ہاوس کی جانب مارچ کیا۔ہیبرون میں میں بھی ان کے ساتھ شامل تھا لہذا میں آپ کو وہی بتاتا ہوں جو میں نے دیکھا۔
حزب کے امیر نے اپنے ممبرز اور سپورٹرز کو ہیبرون شہر کی مرکزی شاہراہ پر دس بجے اکھٹا ہونے کا کہا ۔ پھر ہم حکومتی مرکز کی طرف مارچ کرتے گئے جس بلڈنگ کو اب گرا دیا گیا ہے ،جب ہم مزید آگے بڑھے تو سیکیورٹی چیف آگیا اور بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ۔۔۔جو بات توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہم مارچ تو جاری نہ رکھ سکے بلکہ ہم کاروں اور بسوں کے ذریعے بلڈنگ تک پہنچے، ہماری تعداد بہت زیادہ تھی تا ہم ہم نے اپنا مقصد پورا کیا اور واپس آ گئے ۔۔ لہٰذا بات یہ ہے کہ ہم ایسے اعمال کرتے ہیں جن کی قیادت ہم خود کرتے ہیں اور ہم ان کو مناسب سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسے اعمال جن کی قیادت ہم خود نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں کنٹرول کرتے ہیں اور نہ ہی ہم انہیں نے کسی خاص صورتحال میں مناسب سمجھتے ہیں تو ہم اسے سرانجام نہیں دیتے۔
یہ اسی طرح ہی ہے کہ ایک میڈیا ہاؤس قائم کرنا ،یہ ایک عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا ایک طریقہ کار ہے لیکن جب تک ہم اس کے قابل ہیں ہم اسے کریں گے اور اگر ہم اس کے قابل نہ ہوں تو ہم نہیں کریں گے ۔ جیسا کہ کہ امیر حزب کے دور میں یہ ممکن نہیں تھا کہ پارٹی کے ترجمان کا اعلان کیا جاسکے، لہذا ہم نے اعلان نہیں کیا ، تاہم دوسرے امیر کے دور میں انہوں نے مجھے اردن کے اندر ترجمان مقرر کیا اور میں جیل میں چلا گیا ۔۔۔اورمشکل سے باہر آیا ۔۔۔۔اور پھر جیل چلا گیا ۔ لیکن اب ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم نے ایک سے زیادہ میڈیا آفس بنا لیے ہیں اور یہ تمام عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا طریقہ کار ہے، لیکن اگر کوئی یہ پوچھے کہ میڈیا آفس کا قیام اسلامی ریاست قائم کرنے کا طریقہ کار ہے تو اس کا جواب ہو گا”نہیں ” ۔
تو پھر واپس اسی سوال کی طرف جاتے ہیں ؛ہم پوچھتے ہیں:
کیا تفاعل کے مرحلے کے دوران لیکچرز دینا عوامی رائے عامہ ہموار کرنے ایک طریقہ کار ہے ،اس کا جواب "ہاں” میں ہے۔
کیا تفاعل کے مرحلے کے دوران کانفرنس کا انعقاد کرنا عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا طریقہ کار ہے، اس کا جواب "ہاں” میں ہے۔
کیا تفاعل کے مرحلے کے دوران مظاہروں کا مکمل تیاری کے ساتھ انعقاد کرنا عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا ذریعہ ہے تو اس کا جواب” ہاں "میں ہے۔ اسی طرح میڈیا آفس بنانا تاکہ عوامی رائے عامہ ہموار کی جاسکے ،تو اس کا جواب بھی "ہاں "میں ہے۔
لیکن اگر ہم یہ پوچھیں:
کیا لیکچرز دینا اسلامی ریاست قائم کرنے کا طریقہ ہے تو پھر جواب” نہیں” میں ہے۔
کیا کانفرنس کا انعقاد کرنا اسلامی ریاست قائم کرنے کا طریقہ ہے تو اس کا جواب” نہیں "میں ہے۔
کیا مظاہروں کا انعقاد اسلامی ریاست قائم کرنے کا طریقہ ہے تو اس کا جواب "نہیں ” میں ہے۔
کیا میڈیا آفس قائم کرنا اسلامی ریاست قائم کرنے کا طریقہ ہے تو اس جواب "نہیں ” میں ہے۔
لہذا اب یہ واضح ہے کہ پہلے سوالات تفاعل کے مرحلے میں انجام دیے جانے والےاعمال کے بارے میں ہیں اور دوسرے سوالات اسلامی ریاست کو قائم کرنے کے طریقہ کے بارے میں ہیں ۔یہ دو مختلف سوال ہیں اور ایک ہی سوال نہیں ہیں اور ہر ایک کا الگ جواب ہے۔ لہذا ان دونوں سوالات اور دونوں جوابات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ جس طرح یہ معاملہ بغیر کسی شک و شبہ سے واضح ہوگیا،تو جو کوئی سچ کی تلاش کرتا ہے اللہ اسے جاننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ لیکن جو لوگ باطل کے طلب گارہیں انہیں مزید وضاحت بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیونکہ وہ باطل کے بارے میں اس لئے نہیں پوچھتے کہ وہ حق تک پہنچ سکیں کیونکہ یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں جن کا آپس میں کوئی ملاپ نہیں ہے۔ا ور اللہ اپنے معاملات پر غالب ہے لیکن بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
10 شعبان 1435 بمطابق 8 جون 2014ء