جب سے اللہ سبحانہ وتعالی نے اس امت کو اسلام کے پیغام سے نوازا ، جو آخری رسول ﷺ کے ذریعے لوگوں کو…
بسم الله الرحمن الرحيم
استاد شايف صالح الشرادی- صنعاء
جب سے اللہ سبحانہ وتعالی نے اس امت کو اسلام کے پیغام سے نوازا ، جو آخری رسول ﷺ کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سےنکال کر روشنی کی طرف لے جانے کے لئےنازل کیاگیا تھا ،مسلمانوں پر جہاد کا تصور واضح تھا جس وجہ سے انھوں نے مکہ میں کفار کے خلاف لڑائی نہیں کی۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی تھی کہ جاہل معاشرے کو تبدیل کرنے کا طریقہ فکری طور پر چیلنج کرنا، حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد اور اسلامی ریاست کے قیام کے لئے اہلِ قوت سے نصرت کا حصول ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺکے صحابہؓ نے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو جہاد کے احکامات نازل ہوئے اور مسلمانوں نے جہاد کو اس طرح سمجھا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کو تعلیم دی تھی اور اسلامی ریاست کے1924ء میں انہدام تک کے تمام عرصے میں جہاد کا تصور واضح رہا۔ استعمار کی آمد کے ساتھ مسلم سرزمین پر مغربی سرمایہ داریت کی فکری اور ثقافتی یلغاربھی پہنچی۔ پس بہت سے اسلامی احکامات مسخ کر دئیے گئے ۔ ان میں جہاد کے احکامات بھی تھے۔ لہٰذا ، جہاد کے معنی اس کے درست مطلب سے گر کر وہاں پہنچ گئے جو آج کل ہو رہا ہے۔ استعمار کے ایجنٹوں میں سے ہر ایک گروہ شریعت کی نصوص کوموڑ کریہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مطلوبہ جہاد کررہا ہے تا کہ اپنے پیروکاروں کو مسلمانوں کے خون کی قیمت پر اقتدار کی لگام کو تھامےرکھنے کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ ہر گروہ اپنے پیروکاروں کو شہداء سمجھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ ان کا ٹھکانا جنت ہوگا اور ان کے دشمنوں کا ٹھکانہ ، جو مغربی استعماری ریاستوں کو خوش کرنے کے لئے طاقت کے حصول کی کوشش پر ان سے متصادم ہیں ، جہنم کی آگ ہوگی۔ لہذا مسلمانوں کے مابین جاری لڑائیوں کے بارے میں صحیح فہم کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں ، ہم اس موضوع پر اسلامی احکامات کی وضاحت کریں گے ، تاکہ صحیح موقف پر کھڑے ہوا جائےجو رب العالمین کو خوش کرے۔ شریعت کے مطابق جہاد کیا ہے؟ جہاد کافروں کے خلاف لڑائی ہے تا کہ اللہ ﷻ کے کلمہ کو تھاما جائے اور اسے سر بلند کیا جائے۔ اس کے اعلان کی وجوہات دو امور ہیں ، اور وہ یہ ہیں: جارحیت کو پسپا کرنا اور اسلامی دعوت کو آگے لے کر جانا، یعنی لوگوں تک پہنچنے کے لئے اسلام کے خلاف رکاوٹوں کو توڑنا اور انہیں دور کرنا تاکہ اسلام کا پیغام پہنچا یا جاسکے۔
جہاد خاص قسم کی لڑائی(قتال) ہے ، کیونکہ لڑائی عام ہے اور جہاد خاص ہے۔ لہذا ، ہر جہاد لڑائی ہے ، لیکن اس کے برعکس صحیح نہیں ہے یعنی ہر لڑائی جہاد نہیں ہے۔ لوگوں کے مابین لڑائی کی تین اقسام میں درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔
لڑائی کی پہلی قسم: کفار کی آپس میں لڑائی۔ یہ باطل ہے قطع نظر اس سے کہ وہ دین کفر میں سے مختلف عقائد کی خاطر ہو یا لالچ اور مفادات کی خاطر۔
لڑائی کی دوسری قسم: اللہ ﷻ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے کفار کے خلاف مسلمانوں کی لڑائی۔ یہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔
لڑائی کی تیسری قسم: مسلمانوں کی آپس میں لڑائی۔ یہ وہ مضمون ہے جس سے متعلق یہاں تفصیل بیان کی جائے گی۔
مسلمانوں کے مابین لڑائی دو طرح کی ہے۔ 1- قانونی اور جائز لڑائی ، 2- غیر قانونی اور حرام لڑائی۔
قانونی اور جائز لڑائی: اس کی درجہ بندی مندرجہ ذیل ہے۔
۱۔بغاوت کے خلاف لڑنا
۲۔اقتدار پر قبضہ کرنے والے غاصب کے خلاف لڑنا
۳۔ڈاکوؤں کے خلاف لڑنا (حرابہ)
۴۔انفرادی محرمات (جان، مال وغیرہ) کی حفاظت کے لئے لڑنا (قتال الصیال)
۵۔عوامی محرمات کے تحفظ کے لئے لڑنا
۶۔حکمران کے انحراف کے خلاف لڑنا
۷۔اسلامی ریاست کے قیام کے لئے لڑنا
۸۔مسلمانوں کی وحدت کے لئے لڑنا
چونکہ تاریخ میں مسلمانوں کے مابین تنازعات کی پچھلی مثالوں کی ان تنازعات سے بہت کم مماثلت ہے جو آج مسلمانوں کے مابین جاری ہیں ، لہذا ہم ان کا صرف مختصر طور پر تذکرہ کریں گے ، اور اس دوران مسلمانوں کے مابین ہونے والی بڑھتی ہوئی لڑائی سے ملتے جلتے حقائق کے لئے مزید جگہ فراہم کریں گے۔ ان موضوعات پر گفتگو کرنے سے پہلے ، یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ واقعتاً شہید کون کہلاتاہے ، کیوں کہ شہادت جہاد کے مضمرات میں شامل ہے۔ شہید وہ ہے جو اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے لڑتے ہوئے کفار کے ہاتھوں مارا جائے۔ شہید کی تین اقسام ہیں:
شہید کی پہلی قسم: دنیا اور آخرت کا شہید۔ یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے کفار سے لڑائی کی اور مسلمانوں اور کفارکے مابین اس لڑائی کے دوران کفاریا مسلمانوں کی سرزمین میں مارا گیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے ، وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (القرآن ۳:۱۶۹) "جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں،اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں "
یہ اس شہید کے متعلق ہے جس کے لئے شرعی احکامات نازل ہوئے۔ اور اگر لفظ ’شہید‘ کہا جاتا ہے تو اس سے یہی شہادت مراد ہوتی ہے اور یہی حقیقی شہید ہے۔ جہاں تک ایسے شخص کی بات ہے جو مثال کے طور پر باغیوں کے خلاف جنگ میں مارا جائے، تو وہ شہید نہیں ہے۔ ایسے ہی وہ شخص جو کافروں کے خلاف جنگ میں زخمی ہو جاتا ہے اور پھر اس کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن پھر وہ انہی سے مر جاتا ہے ، وہ بھی شہید نہیں ہے۔ شہید سے متعلق خصوصی احکامات ہیں۔ جہاں تک اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ وہ (شہید) زندہ ہے ، یہ کفار کے خلاف جنگ میں اللہ کا کلمہ بلند کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے یا کسی ایسی ہی جنگ میں زخمی ہونے کے بعد ان زخموں سے ہلاک ہونے والے کے ساتھ مخصوص ہے۔
مذکورہ شہید کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے نہ غسل دیا جائے اور نہ کفن پہنایا جائے بلکہ اسے اپنے خون اور لباس میں ہی دفن کیا جائے۔ احمد نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی جنگ میں مارے جانے والوں کے متعلق فرمایا ، لا تغسلوهم، فإن كل جرح أو كل دم يفوح مسكاً يوم القيامة، ولم يصلِّ عليهم (مسند احمد ۱۴۱۸۹) ” ان کو غسل نہ دو ، کیونکہ بیشک قیامت کے دن ہر زخم یا خون سے خوشبو آ ئے گی، اور ان کی نماز بھی نہ پڑھو”
یہ شہید کے لئے نماز جنازہ نہ پڑھنےکی دلیل ہے۔ابو داؤد اور ترمذی ، انس ابن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصلِّ على قتلى أحد ولم يغسلهم (مسند الشافعی ۵۶۵)"جو (مسلمان ) غزوہ احد میں شہید ہوئے تھےرسول اللہ ﷺ نے نہ ان کا جنازہ پڑھا تھا اور نہ ہی انہیں غسل دیا تھا”
شہید کی دوسری قسم: یہ وہ شخص ہے جو آخرت کے اعتبار سے شہید ہےجبکہ اس دنیا کے اعتبار سے نہیں۔ یعنی اس کے لئے آخرت میں شہید کا اجر ہے لیکن اس پر دنیا میں شہید کے احکامات لاگو نہیں ہوتے۔لہٰذا اسے غسل دیا جاتا ہے ، کفن پہنایا جاتا ہے اور نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔بخاری اور مسلم ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الشهداء خمس: المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله (بخاری ۲۸۲۹، مسلم ۱۹۱۴)” پانچ لوگ شہید ہیں: وہ جو وبائی امراض سے ہلاک ہوں، یا پیٹ کی بیماری سے، یا ڈوب کر یا کسی عمارت سے گر کر یا اللہ کے رستے میں لڑتے ہوئے ہلاک ہو جائیں”
شہید کی تیسری قسم: یہ وہ شخص ہے جواس دنیا کے اعتبار سے شہید ہے لیکن آخرت کے اعتبار سے نہیں۔ لہٰذا اس پر اس دنیا میں شہید کے احکام لاگو ہوں گے جہاں نہ اسے غسل دیا جائے گا نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی بلکہ اس کو اس کے لباس میں ہی دفنایا جائے گا۔یہ وہ تھا جو دکھاوے یا کسی ایسے ہی مقصد کے لئے کفار سے لڑا۔مسلم نے ابو موسیٰ الاشعری سے روایت کیا ہے:أن رجلاً أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، الرجل يقاتل للمغنم، والرجل يقاتل ليذكر، والرجل يقاتل ليُرى مكانه، فمن في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله» (مسلم ۱۹۰۴) "ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے ، ایک اور شخص شہرت حاصل کرنے کے لئے لڑتا ہے اور تیسرا دکھاوے کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ کے لئے لڑ رہا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جو اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے لئے لڑتا ہے”
مسلمانوں کے مابین جائز لڑائی کی درجہ بندی:
۱۔ باغی لوگوں کے خلاف لڑنا
باغی لوگ وہ گروہ ہے جو تین امور کے لئے اکٹھا ہوتا ہے۔ حقوق کی انجام دہی اور قوانین کی پابندی سے باز رہ کر ریاست کی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنا ، ریاست کے سربراہ کو ہٹانے کے لئے کام کرنا یا اپنے لئے طاقت اور مضبوطی حاصل کرنا۔بغاوت کے اندر طاقت کی موجودگی ہی ہے جو انہیں کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دےسکتی ہے۔ جہاں تک خروج (نافرمانی کی وجہ سے نکلنا) کا تعلق ہے، لفظ ‘خروج’ مسلح بغاوت یا خانہ جنگی یا داخلی لڑائی یا ہتھیاروں کے استعمال یا تشدد کو ان سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کے مترادف ہے جن کیلئے بغاوت ہوئی۔ اہل بغاوت کے حوالے سے فرض یہ ہے کہ ان کو روکنے کے ارادے سے ان کا مقابلہ کیا جائے ، اور ان کو منظم کیا جائے اور انہیں خلیفہ کی اطاعت کی طرف لوٹایا جائے۔ ان کو مارنے اور مٹادینے کے ارادے سے ان سے نہیں لڑنا چاہئے۔ ان سے لڑنا صرف ایک نظم و ضبط کا معاملہ ہے نہ کہ جنگ چھیڑنے کا ارادہ۔ جو لوگ باغیوں سے لڑتے ہیں وہ شریعت کے مطابق شہید نہیں یعنی وہ دنیا اور آخرت میں شہید نہیں ۔ بلکہ وہ صرف آخرت کے اعتبار سے شہید ہیں اور انہیں آخرت میں شہید کا اجر ملے گا۔ جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے ، ان پر شہید کے احکامات کا اطلاق نہیں کیا جائے گا اور اسی وجہ سے انہیں باقی فوت شدہ مسلمانوں کی طرح غسل دیا جائے گا ، کفن پہنایا جائے گا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ اگرچہ باغیوں کے خلاف لڑنا جائز سمجھا جاتا ہے ، لیکن یہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ بغاوت کرنے والے لوگ کافر ہوں نہ کہ مسلمان۔
۲۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والے سے لڑنا
اسلام میں اتھارٹی امت کے پاس ہے اور امت یہ اتھارٹی اس معاہدے کے تحت حکمران کو دیتی ہے کہ حکمران ان پر اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ سے حکومت کرے گا۔ مسلم نے عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ومن بايع إماماً فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه استن استطاع ، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر (مسلم ۱۸۴۴) "اگر کوئی شخص امام سے بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے اور یہ دل کے اخلاص کے ساتھ کرے تو اسے زیادہ سے زیادہ اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی دوسرا آدمی آ کر اس سے مقابلہ کرتا ہے تو دوسرے کا سر قلم کردو”
لہٰذا بیعت ایک خلیفہ کو مقرر کرنے کا طریقہ ہے جبکہ ولی عہدی یا پچھلے حکمران سے اگلے خلیفہ کے لئے عہد لے لینے کو طریقہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ظلم اور جبر کے ذریعے غالب آنا اور طاقت پر قابو پانا بھی کوئی طریقہ نہیں ہے۔اسے اختیار حاصل کرنے والے کی طرف سے امت کے حقوق کے خلاف مظالم (مظلمة) میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں امت کو حق حاصل ہے کہ اس سے جو غصب کیا گیا تھا اس کی بازیابی کے لئے وہ لڑے۔ جو شخص اس لڑائی میں ہلاک ہوا وہ آخرت کا شہید ہے یعنی اسے آخرت میں شہید کا اجر ملے گا۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ومن قتل دون مظلمته فھو شہید (مسند احمد ۲۷۷۹)” جو ظلم کے دفاع میں مرتا ہے وہ شہید ہوتا ہے”۔
شریعت کا حکم یہ ہے کہ اختیار کے غصب کرنے والے سے لڑنا مباح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق کے مالک کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے حق و اختیار کو غاصب یا کسی دوسرے کے حق میں چھوڑ دے ۔ اور اسی طرح اسے اس حق کے دفاع میں لڑنے کا بھی حق حاصل ہے۔ لہٰذا اگر امت اپنی رضامندی اورمرضی سے اس غاصب کی بیعت کرے تو اتھارٹی کے قبضے کی صورتحال ختم ہو جاتی ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملات فطری طور پر چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر امت غصب کرنے والے کو بیعت نہیں دیتی تو اس میں دو معاملات ہوں گے۔
اقتدار پر قبضے کی پہلی صورت: امت کا غاصب کے خلاف لڑنے سے انکار کرنا اگرچہ وہ اس پر قادر ہو۔
اس معاملے میں ، غاصب کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے تین دن بعد امت گناہ میں پڑ جاتی ہے۔ اس لئے کہ شرعی حکم یہ ہے کہ امت کے لئے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اس حالت میں رہے کہ اس کی گردن پر امام کی بیعت نہ ہو جب کہ وہ اس کی استطاعت رکھتی ہو۔ عمرؓ نے اہل شوریٰ کو تین دن کا وقت دے کر پابند کیا تھا کہ وہ اپنے درمیان سے خلافت کے لئے کسی کو چن لیں ، کیونکہ وہ امت کے نمائندے تھے اور خلافت کے عہدہ پر ان کی رضامندی کے بغیر فیصلہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پھر عمرؓنے حکم دیا کہ ان لوگوں کو قتل کردیا جائے گا جنہوں نے اس سے اتفاق نہ کیا جس پر اکثریت جمع ہو چکی ہو۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی لہٰذا یہ اجماع صحابہ ؓ ہے۔ لہٰذا ، تین دن کے اندر ، امت کو یا تو غاصب سے لڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس شخص کی بیعت کرے جس پر وہ راضی ہو تا کہ اس کے ساتھ مل کر غاصب کے ساتھ لڑے۔ جہاں تک اس غاصب سے راضی ہو جانے اور اسے بیعت دے دینے کا تعلق ہے تو شیخ تقی الدین ؒ اپنی کتاب "خلافت” میں کہتے ہیں: "اگر کسی غاصب نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلیا تو وہ خلیفہ نہیں بن جائے گا ، چاہے وہ اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کردے "۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں ، "تاہم ، اگر غاصب لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کے مفاد میں ہوگا کہ وہ اسے اپنی بیعت دے دیں اور وہ احکامِ شریعہ کو نافذ کرتا ہے ، اور امت قائل ہو جائے اور اس بات کو تسلیم کر لے، پھر اسے اپنی رضامندی اور آزادانہ مرضی سے بیعت دے ، تو وہ اس لمحے سے خلیفہ بن جائے گا جب اسے رضامندی سے بیعت دی جائے گی "۔
اقتدار پر قبضے کی دوسری صورت: امت کا غاصب کے خلاف لڑنے سے انکار اگر وہ اس کی استظاعت نہ رکھے ۔
اس معاملے میں ، امت پر واجب ہے کہ وہ اس طاقت کو اکٹھا کرنے کی راہ پر گامزن ہو جس سے وہ اس غاصب کا مقابلہ کرسکے اور اسے ہٹا سکے جب تک کہ وہ اس سے بیعت نہ کرنا چاہتی ہو۔ ایسی صورت میں امت سے تین دن سے زیادہ اپنی گردن پر امام کی بیعت نہ ہونے پرمواخذہ نہیں ہے ، کیونکہ امت غاصب کی طاقت سےمغلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (القرآن ۲:۲۸۶) ” اللہ کسی پر بھی اس کی وسعت (یعنی استطاعت )سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا”۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه (سنن دارقطنی ۴۳۵۱، معجم الصغیر ۷۶۵)"میری امت پر سے غلطی، بھول چوک اور وہ عمل جس کے کرنے پر اسے مجبور کیا گیا ہو (ان کا مواخذہ) ہٹا دیا گیا ہے”
اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کی مثالوں میں سے ایک مثال یزید بن معاویہ کی ہے۔ اس نے جبر کے ذریعہ اپنے لئے بیعت کا عہد لیا ، اور جو عہد لوگوں سے زبردستی لیا جاتا ہے وہ باطل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے بیشتر نمائندوں نے اسے بیعت دینے سے انکار کردیا تھا جیسا کہ ’’ تاریخ طبری ‘‘ میں ذکر ہے۔ عبد اللہ بن زبیر ؓاور حسین بن علی ؓ کی بغاوت کی وجہ بھی یہی تھی کہ غاصب سے اختیار لے کر امت کو واپس کیا جائے۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والے سے لڑنا ایک جائز حق ہے ، البتہ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہیں سمجھا جاتا ۔ اور یہ بغاوت سے لڑنے کے اندر ایک خاص معاملہ ہے۔
۳۔ راہزنوں اور ڈاکوؤں سے لڑنا
راہزن (المحاربون) یا ڈاکو دہشت پھیلانے والےگروہ ہوتے ہیں ، مسلمان یا وہ جو مرتد ہوگئے ہوں یا ذمیوں میں سے جو بیعت سے نکل گئے ہوں اور انہوں نے لوٹنے، ڈکیتی کرنے یا قتل کرنے یا پھر لوگوں کے درمیان دہشت پھیلانے کی نیت سے اور جو ان کے پاس طاقت اور اسلحہ موجود ہو اس کے بل بوتے پر اپنی گزر بسر شروع کر دی ہو ۔ وہ عام طور پر شہروں سے باہر ، گاؤں ، پہاڑوں ، میدانی علاقوں اور صحراؤں میں رہتے ہیں۔
راہزنوں یا ڈاکوؤں (المحاربون) کے سلسلہ میں یہ واجب ہے کہ انہیں دین کی نصیحت کے ذریعےہتھیار ڈالنے اور اپنے آپ کو حوالے کر دینے کی دعوت دی جائے ۔ اگر وہ لوٹ آئیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا ، ورنہ ان سے لڑا جائےگا۔ ریاست پر یہ واجب ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لڑنے والا دستہ بھیجے اور مسلمانوں پر سے ان کے نقصان کو ہٹائے ۔ راہزنوں یا ڈاکوؤں سے لڑنے کو جائز سمجھا جاتا ہے ، البتہ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہیں ہے جب تک کہ وہ راہ زن یا ڈاکو کافر نہ ہوں۔
۴۔ انفرادی محرمات کے دفاع میں لڑنا (قتال الصیال)
حملہ آور ( الصّيال) وہ ہے جوجان ، مال اور عزت جیسی انفرادی محرمات پر حملہ کرتا ہے۔ حج الوداع میں راسول اللہ ﷺ کے آخری خطبے میں آتا ہے جیسا کہ بخاری اور مسلم میں ابو بکر ؓ سے روایت ہے :فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، فليبلغ الشاهد الغائب (بخاری ۶۷، مسلم ۱۶۷۹) ” بیشک تمہارا خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے حرام (یعنی مقدس )ہیں جیسا کہ تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں مقدس ہے ، تو جو حاضر ہیں وہ غیر حاضر کو آگاہ کر دیں”
یہ انفرادی محرمات ہیں کیونکہ یہ کسی حد تک ہر فرد کے لئے خاص ہیں اور یہ اجتماعی محرمات سے ممتاز ہیں۔
انفرادی محرمات کے دفاع کے لئے لڑنے کی پہلی قسم: جان کے دفاع کے لئے لڑنا اور اس کی تین صورتیں ہیں۔
۱۔جان کے دفاع کے لئے لڑنا فرض ہے اگر حملہ کرنے والا جانور ہو یا کافر یا ایسا مسلمان ہو جس کے خون کی حرمت (یعنی تقدس) نہیں جیسا کہ زانی مسلمان یا وہ جو نماز کو ترک کر دے یا وہ جو راہزنی کرے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : لَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ” اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو”
۲۔جان کے دفاع کے لئے لڑنا مندوب ہے ، اور اگر حملہ کرنے والا شخص مسلمان ہے جس کا خون مقدس ہے تو ہتھیار ڈال کر اس سے قتل ہو جانا جائز ہے اگر ایسا کرنا عورتوں اور بچوں کے خلاف مخصوص زیادتی کا باعث نہ ہو ۔ لیکن اگر ایسا ہو تو پھر جان کا دفاع کرنا فرض ہے۔ اسی طرح ہتھیار ڈال کر قتل ہو جانا جائز نہیں ہے اگر ہتھیار ڈالنے والا شخص اہل اقتدار یا علمائے کرام میں سے ہو یعنی ایسی صورت میں کہ ان کے قتل ہو جانے سے امت کے مفاد میں خلل پڑ جائے۔
۳۔قتل ہو جانے کے لئے ہتھیار ڈال دینا مباح ہے ایسی صورت میں کہ حملہ آور کا ارادہ عوام میں فساد پھیلائے بغیر کسی ایک شخص پر حملے کا ہو ۔
انفرادی محرمات کے دفاع کے لئے لڑنے کی دوسری قسم: عزت کے دفاع کے لئے لڑنا۔
عزت کا دفاع بلا اختلاف فرض ہے۔ کبھی دفاع اس عورت کی طرف سے ہوتا ہے جس کی عزت پر حملہ ہونے والا ہوتا ہے ، یا اس کے شوہر یا اس کے رشتہ دار یا کسی بھی مسلمان کی طرف سے جو اس سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ عزتیں زمین پر اللہ کی محرمات ہیں اور ان پر حملہ کرنا بدترین برائیوں میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث پاک میں طاقت کے ذریعے ان کو ختم کرنے کے جواز کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے : من رأى منكم منكراً فليغيره بيده (مسلم ۴۹) ” تم میں سے جو کوئی بھی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے”
انفرادی محرمات کے دفاع کے لئے لڑنے کی تیسری قسم : مال کے دفاع کے لئے لڑنا
الف۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے تحت مال کے دفاع کے لئے لڑنا فرض ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ومن قتل دون ماله فهو شهيد (مسلم ۱۴۱) ” جو اپنی املاک کا دفاع کرتے ہوئے مرا وہ شہید ہے "۔ یہ ان معاملات میں ہوگا: (۱)مال کسی دوسرے کا حق ہو جیسے لیز (کرایہ پرحاصل شدہ) یا رہن کا مال، (۲) ایسی دولت جو اہم ہے اس شرط پر کہ مال کا دفاع کرنے والا خطرے سے دوچار نہیں ہوتا یا اس کی عزت کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا (۳) وہ مال جو کہ دوسروں کا مال ہے۔
ب – دولت کے دفاع کے لئے لڑنا مباح ہے ایسی صورت میں جب حملہ آور کوئی کم اہمیت والی چیز چاہتا ہو جیسا کہ لباس یا کھانا وغیرہ ۔ لہذا ایسی صورت میں املاک کا دفاع جائز ہے اور واجب نہیں۔
ج- املاک کے دفاع میں لڑائی چھوڑدینا فرض ہے اس صورت میں کہ حملہ آور ایک جائز حکمران ہو جو اتھارٹی رکھتا ہو۔ مسلم میں حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهديي ولا يستنون بسنتي، وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس. قال: قلت :كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك؟ قال: تسمع وتطيع للأمير، وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك، فاسمع وأطع (مسلم ۱۸۴۷) ” میرے بعد وہ لوگ حاکم ہوں گے جو میری راہ پر نہ چلیں گے، میری سنت پر عمل نہیں کریں گے، اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے اور بدن آدمیوں کے سے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس وقت میں کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو ایسے زمانہ میں ہو تو حاکم کی بات کو سن اور مان اگرچہ وہ تیری پیٹھ پر (کوڑے) مارے اور تیرا مال لے لے پر اس کی بات سنے جا اور اس کا حکم مانتا رہ”
حملہ آوروں سے لڑنا جائز ہے ، تاہم یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں جہاد نہیں جب تک کہ حملہ آور کافر نہ ہو۔ اگر دفاع کرنے والا شخص مارا جاتا ہے تو وہ صرف آخرت کے شہدا میں شامل ہوگا۔
۵۔ایک اسلامی معاشرے میں اجتماعی محرمات کے دفاع کے لئے لڑنا
اجتماعی محرمات پر حملہ دراصل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حقوق پر حملہ شمار ہوتا ہے اگر ان محرمات کی خلاف ورزی سنگین ہو۔ مثال کے طور پر ، نماز اور روزہ کی معطلی، خواتین کے لئے شرعی حجاب کی ممانعت ، مساجد یا عوامی اداروں کو تباہ کرنا ، یا عوامی دولت کو لوٹنا ، یا اعلانیہ شراب بیچنا یا پینا ، سود اور جوئے میں ملوث ہونا اور دیگر معاملات جن کے بارے میں شرعی نصوص ان کی فرضیت یا ممانعت کی وضاحت میں آ ئے ہیں۔
مختلف شرائط پر برائی سے منع کرنے کے احکام:
۱۔برائی سے روکنا ، اصل میں ، فرض کفایہ ہے۔ اگر کوئی اس کو انجام دیتا ہے اور مقصد پورا کر دیتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی کے اس قول کی وجہ سے دوسروں پر سے یہ ذمہ داری ختم کردی جاتی ہے ، وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (القرآن ۳:۱۰۴) ” اور تم میں سے ایک گروہ ہونا چاہیئے جو خیر کی طرف بلائے، نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے ۔ اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”
۲۔برائی کو تبدیل کرنا ان کے لئے فرضِ عین بن جاتا ہے جو اس پر قابو پانے کی استطاعت رکھتے ہوں، اس شرط پر کہ ان کو خوف نہ ہو کہ ان کی انفرادی محرمات کو خطرہ لاحق ہے ۔ اور یہ کہ ان کے منع کرنے سے اس سے زیادہ نقصان نہ ہوتا ہو جو اس برائی سے ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ما من رجل يكون في قوم يُعمل فيهم بالمعاصي، يقدرون على أن يغيروا عليه ولا يغيرون، إلا أصابهم الله منه بعقاب قبل أن يموتوا (ابو داود ۴۳۳۸) "جس قوم میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں ، پھر وہ اسے روکنے پر قادر ہو اور نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب میں گرفتار کر لے "۔
اگر برائی سے روکنے میں اس سے بھی زیادہ نقصان کا خدشہ ہو جو کہ برائی کرنے والے کو روکنے سے پیدا ہو گا کہ جتنا خدشہ خود اس برائی کے نقصان کا ہے تو ایسی صورت میں شرعی قائدہ "یختار أهون الشربن” یعنی دو برائیوں میں سے کم کو اختیار کرناکے تحت برائی سے روکنا حرام ہو گا۔
۳۔اگر برائی سے منع کرنے کا نتیجہ دوسری برائیوں سے ہونے والے نقصان کی صورت میں نہیں نکلتا ، ایسی برائیاں جو کہ برے اور غیر اخلاقی لوگوں کے برائی سے منع نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں ، تو ایسی صورتحال میں برائی سے منع کرنا مندوب ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ومن قتل دون دينه فهو شهيد (سنن بیہقی ۱۶۷۷۷) ” جو شخص اپنے دین کو بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شھید ہے”
۴۔اگر برائی سے منع کرنے کا نتیجہ اس کے اور اپنے اردگرد کے دوسرے لوگوں جیسے رشتہ داروں ، دوستوں اور دیگر شہریوں کو انتہائی نقصان پہنچنے کی صورت میں نکلتا ہے تو اس کے پاس ان دو باتوں کا اختیار ہے:
الف- برائی پر خاموش رہنا ،جو کہ برائی سے روکنے کو ترک کرنے کے حرام میں پڑ جانا ہے۔
ب۔برائی سے روکنا جس سے اس شخص کو سخت نقصان لاحق ہو ،جو کہ اس کے آس پاس کے لوگوں کو بھی ہوسکتا ہو۔
اگر دوسرے لوگ جن کو نقصان پہنچے گا وہ اس طرح کے نقصان سے مطمئن ہیں ، تو برائی سے روکنا مندوب ہے ۔ اگر ان کو ایسا نقصان پہنچتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ قتل ہو جائیں تو وہ آخرت کے اعتبار سے شہید ہیں اور برائی سے منع کرنے کا حکم ان پربھی لاگو ہوتا ہے اور اگر وہ چاہیں تو اسے چھوڑنے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور برائیوں پر خاموش رہنا بھی حرام ہے۔
۵۔اگر وہ شخص جو برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے وہ زمین پر اہلِ اقتدار میں سے ہے تو اس معاملہ کو شرعی نصوص میں اس طرح واضح کیا گیا ہے:
الف- واجب ہے کہ شروع میں حکمران کو برائی سے منع کرنے کے لیے نرم الفاظ میں وعظ ونصیحت کی جائے۔ مسند احمد میں عیاض بن غنم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من كانت عنده نصيحة لذي سلطان فلا يكلمه بها علانية، وليأخذ بيده فليخل به، فإن قبلها قبلها وإلا كان قد أدى الذي عليه والذي له (مسند احمد ۱۵۳۳۳) "جو کوئی بھی کسی ایسے شخص کو نصیحت کرنا چاہے جس کے پاس اقتدار ہو تو اسے ایسا کھلے عام نہیں کرنا چاہیئے۔ بلکہ اس کو چاہیئے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے خلوت میں لے جا کر نصیحت کرے۔ اگر وہ (صاحب اقتدار شخص) نصیحت قبول کر لے تو بالکل ٹھیک۔ اگر نہ کرے تو ایسے شخص نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی”۔
ب- حکمران کو برائی سے منع کرتے ہوئے الفاظ میں سختی اختیار کرنا مندوب ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے محرمات کے احترام کا احساس دلانا اور حکمران کو اس کی برائی کی ہولناکی کا احساس دلانا ضروری ہے۔
ج- حکمران کو برائی سے روکتے ہوئے ایسی صورت میں الفاظ میں سختی کا استعمال ممنوع ہے ، اگر اس کا نتیجہ دوسرے افراد کو نقصان پہنچنے کی صورت میں نکلے اور اگر وہ اس نقصان پر راضی نہ ہوں جو انہیں پہنچ سکتا ہے۔
د- جب حاکم برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے ٹھیک کرنے کے لئے اس کو مارنا (چوٹ پہنچانا)حرام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حاکم پر حملہ کرنا اس وقار کے منافی ہے جو شرعی نصوص نے اسے دینے کا حکم دیا ہے۔ اس سے حاکم موجودہ برائیوں سے کہیں زیادہ خوفناک فسادات کرنے پر راغب ہو سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ موجودہ برائی کو ختم کرنے کی صورت میں نہ نکلے ، بلکہ اس سے مزید فساد کا اضافہ ہو۔
و۔ مادی قوت (ہتھیاروں) کا استعمال اور بغاوت حرام ہے اگر وہ حاکم کو کسی غیر اخلاقی فعل کرنے یا ناانصافی کرنے یا کوئی غیر شرعی حکم جاری کرنے کی طرف منحرف کرے۔
عوامی محرمات کے دفاع کے لئے لڑائی جہاد کےضمرہ میں نہیں آتی ، بلکہ یہ ایک اور جائز عمل ہے جس کا بدلہ بھی بہت اچھا ہے۔ یہ اپنے اثر اور اجر میں جہاد کی طرح ہے، اور جو لوگ اس کو انجام دیتے ہیں یعنی جو لڑنے والے یہ جدو جہد کرتے ہیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں وہ اس کے نتیجے میں بہت بڑا اجر حاصل کرتے ہیں۔ اگر معاشرہ غیر اسلامی ہو چکا ہو تو یہ فرض ہے کہ فکری اور سیاسی جدوجہد سے خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اس نظام کو تبدیل کیا جائے جو زمین سے تمام منکرات کو دور کردے۔ البتہ جو لوگ منکرات کو قوت سے روکنے کی استظاعت رکھتے ہیں ان کے لیے قوت کا ستعمال جائز ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں بھی آیا ہے: من رأى منكم منكراً فليغيره بيده… (مسلم ۴۹) ” تم میں جو کوئی بھی برائی کو دیکھے، اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدلے”۔لیکن ایسی صورتحال کا درست علاج نبیﷺ کے طریقہ کار کی پابندی کرتے ہوئے ایک فکری اور سیاسی جدوجہد جاری کرنا ہے تا کہ نظام کو مٹایا جائے اور خلافت کو قائم کیا جائے جو تمام برائیوں اور مفاسد کی ہر نوعیت کو ختم کرتی ہے۔ (جاری ہے)