سیاسی صورت حال کا مطالعہ جذبات سے ہٹ کر صرف شعورکی بنیاد پر ہونا چاہیے…
بسم الله الرحمن الرحيم
(قسط-1)
حامد عبد العزیز مصر
سیاسی صورت حال کا مطالعہ جذبات سے ہٹ کر صرف شعورکی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس پر حکم لگانا بھی ٹھوس اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے یعنی صورت حال کو ایسے ہی سمجھا جائے جیسی کہ وہ ہے نہ کہ جیسا ہم چاہتے ہیں۔ اس پر حکم اسلامی عقیدے پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ ایسی کشتی میں سوار ہو کر کہ جسے سمندر کی موجیں اور ہوا ئیں جدھر چاہیں لے جائیں کیونکہ افراد اور افکار پر حکم اسلامی عقیدے پر قائم ٹھوس قوائد پر مبنی ہونا چاہیے ورنہ ہم بغیر بیداری کی خوش فہمی میں نعرہ لگاتے ہوئے ہلاکت کی وادی میں پہنچائے جائیں گے، ہم کسی معاملے کو اپنی طرف آتے ہوئے بارش برسانے والا بادل سمجھ بیٹھیں جبکہ اس کی ہوا میں دردناک عذاب ہو یا یہ صحرا کا وہ سراب ہو جس کو پیاسا شخص پانی سمجھ بیٹھے! امت کو کسی کواپنے ساتھ دھوکہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اس سے امید لگا کر اپنی توانائیوں، صلاحیتوں اور وقت کو ضائع کرے پھر اس سے مایوس اور نا امید ہوجائے، خاص کر جب اس امت کے پاس اس کے رب کی کتاب موجود ہے جس نے اسے ہدایت اور نور کے طور پر نازل کیا۔ جب تک یہ امت اس قرآن کو معیار اور احکام کی بنیاد بنائے رکھے گی اور افکار کواس بنیاد پر استوار کرے گی، گمراہ نہیں ہوگی۔ پہلے بھی امت ایسے بھٹکے ہوئے قائدین میں گھری رہی جنہیں اس لیے کھڑا کیا گیا اور مشہور کیا گیا تھا کہ وہ امت کو خوش رکھیں اور جھوٹے دعوؤں اور جذباتی تقاریر سے لہو گرماتے رہیں،اگرچہ یہ قیادتیں امت کو شکست در شکست سے نہ بچا سکیں اور نہ ہی ظلم کو ختم کر سکیں بلکہ ان کی پیروی میں امت تباہ ہو گئی اور امت کے اہم اور سنگین معاملات میں انھوں نے دشمن کو فائدہ دیا،یہ سلسلہ مصطفیٰ کمال سے شروع ہو کر جمال عبد الناصر پھر یاسرعرفات تک بات پہنچ گیااور ترک صدر رجب طیب اردوگان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
رجب طیب اردوگان کون ہے:
یہ 26/2/1954 کو استنبول میں قاسم پاشا کے محلے میں پیدا ہوئے، ا کا خاندان ملک کے شمال میں ریزا صوبے سے آیا۔ یہ مذہبی مدرسے امام حاطب میں داخل ہوئے، نجم الدین اربکان کی شاگردی اختیار کی،1994 میں استنبول کا مئیر بننے تک بہت سے منصبوں پر فائز رہے، ترکی کے مشہور شاعر ضیاء کوکالپ کے اس شعر کی وجہ سے چار مہینے جیل میں بھی گزارے جس میں وہ کہتا ہے کہ: "مساجد ہماری بیرکیں ہیں ،گنبد ہمارے ہیلمٹ ، مینار ہمارےنیزے ہیں مومنین ہمارے سپاہی ہیں”، پھر اس کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔
پھر فضیلت پارٹی سے نکل کر اردوگان نے اپنے دوست عبداللہ گل کے ساتھ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP)بنائی۔ پھر وزیر اعظم بننے کے بعد اس نے اربکان کی پالیسیوں کو ترک کردیا جن میں سے نمایاں(مشرقی طرز ) کی پا لیسی ہے اور مغرب اور یورپ کی طرف توجہ مرکوز کی۔ سنہ 1994 میں اس نے کہا:”ترکی کا نظام جس سیکولر عقیدے پر قائم ہے اس کو معطل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام اور سیکولرازم اکھٹے نہیں ہوسکتے، اس نے کہا کہ اگر ترکی اسلامی نظام کو اختیار کرے جس میں تمام شہریوں کو مسلمان سمجھا جائے تو ملک کے جنوبی مشرق میں کردوں کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے”، اس نے دستور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسے "نشئی” ہاتھوں نے لکھا ہے۔ لیکن پھر اس نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ” وہ سیکولرازم کو جمہوریت کی ضمانت سمجھتاہے”، اس نے لبرلزم کو بدنام نہ کرنے پر زور دیا اور اسے دین سے متصادم دکھانے کو غلط قرار دیا۔ اپنی پارٹی کے بارے میں اسلامی ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا:”بعض لوگ ہمیں اسلامی جماعت کہتے ہیں، بعض اس کو اعتدال پسند اسلام کہتے ہیں، ہم نہ یہ ہیں اور نہ وہ، ہم ایک قدامت پسند جمہوری جماعت ہیں ہم کوئی مذہبی جماعت نہیں، سب کو یہ بات جان لینی چاہیے”، 12/12/2009 کو لبنانی میگزین السفیر سے بات کرتے ہوئے کہا:”جسٹس پارٹی کوئی اسلامی جماعت نہیں”۔ اس نے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کو جدید(خلافتِ) عثمانیہ پالیسی کہنے کو مسترد کیا، اور یہ اردگان ہی ہے کہ جس نے محض اسلامی رجحان کی وجہ سے غزہ سے ہمدردی کرنے سے انکار کیا۔ اگر ہم اس کی پارٹی کے منشور کو پڑھیں تو اس جماعت کی حقیقت واضح ہوجائے گی، منشور کہتا ہے کہ:”ہماری جماعت جمہوریہ ترکی کی وحدت پر مبنی ہے؛ جو کہ سیکولرازم، جمہوریت ، قانون کی حکمرانی، جمہوری تہذیب، عقیدے کی آزادی اور مواقع میں مساوات کو بنیادی چیز سمجھتی ہے”۔
اس آدمی کی اس طرح دوٹوک بات کے باوجود بعض لوگ اس کا دفاع کرتے ہیں اوراس کی جماعت کو اسلامی اور اس کی حکومت اسلام پسندوں کے لیے قابلِ پیروی ماڈل قرار دیتے ہیں۔ اس کی مشہور کہاوت ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہےجب اس نے کہا:”مسلمانوں کی تہذیب مغرب کی تہذیب سے مقابلہ نہیں کرسکتی”۔ جب اربکان سے اس کی وفات سے قبل شرق الاوسط جریدے کو انٹرویودینے کے دوران اردوگان کی جانب سے فضلیت پارٹی سے منحرف ہوکر اپنی جماعت بنانے کے عوامل کے بارے میں سوال کیا گیا تو اربکان نے جواب دیتے ہوئے کہا:”اردوگان نے جماعت بنانے کی پیش قدمی خود نہیں کی بلکہ اسے جماعت قائم کرنے کے احکامات دئیے گئے۔ اردوگان اس منصوبے میں کٹھ پتلی کیوں بنا کیونکہ مرتبہ و مقام، مال و دولت ، صدارتی منصب اور اعلیٰ منصب اس کی کمزوری ہیں”، پھر کہا:” بعض پروگراموں میں یہودیوں سے شراکت داری کی وجہ سے ہم اس کی وفاداری سے مطمئن نہیں”۔
اسی طرح اسلامی جماعت سعادت پارٹی(Felicity Party) کے ایک بڑے راہنما اویااکجونینش نے کہا:”جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کاروباری لوگوں اور سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور یہی اس کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں، اس جماعت کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہےاور یہ اپنی معاشی پالیسیوں میں لبرل ہے”۔ صدر عبداللہ گل کے سینئر مشیر نے ترکی کے اسلامی ریاست میں تبدیل ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا:”ترکی ایسی بنیادوں پر قائم ہے جن کو تبدیل کرنا یا ان میں ترمیم کرنا ممکن نہیں ان میں سب سے پہلے ریاست کاسیکولر اور جمہوری ہونا ہے”۔
جو لوگ اردوگان کا دفاع کرتے ہیں وہ زبردستی اس آدمی کو اسلام کا لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے افکار کی عملی تصویر ہے، واضح لبرل نمونے پر کاربند ہے، وہ دین اور ریاست میں واضح جدائی رکھتا ہے، جس مذہبی پہلو کو نمایاں کرنے پر اصرارکرتا ہے وہ صرف ‘روایتی پہلو ‘ہے،ایسے کوئی دلائل یا شواہد نہیں جن سے ثابت ہو کہ وہ سیاست،معیشت اورمعاشرت میں شرعی احکام کو نافذ کرنے کی کوئی کوشش کررہا ہے یا ارادہ رکھتاہے۔ اس نے مختلف مواقع پر کہا کہ وہ ایک مسلمان ہے جو ایک سیکولر ریاست کی قیادت کررہا ہے۔ 25جنوری کی مصری عرب بہار Arab Springتحریک کے بعد جب اس نے مصر کا دورہ کیا تو اس نے مصریوں کو ایک سیکولر ریاست اپنانے کی نصیحت کی، پھر بعض لوگ کیوں اردوگان کو وہ لباس پہنانا چاہتے ہیں جس کو وہ پہنا نہیں چاہتا؟ بلکہ وہ تو خود ان کو بھی اپنا سیکولر لباس پہنانا چاہتاہے جسے وہ کامیاب حل سمجھتاہے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ دافوس (دافوس کانفرنس) میں اردوگان کا "بہادرانہ” موقف ،Gaza freedom flotilla، توہین کے احساس کے بعد یہودی ریاست سے سفیر کو واپس بلانے اور سرکش بشار حکومت کے خلاف شامی عوام کی حمایت کے دعوؤں سے عرب دنیا میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اردوگان ان لوگوں کے لیے امید کی کرن بن گیا جنہوں نے کبھی اپنے ملکوں کے حکمرانوں کی طرف سے اس قسم کے بہادرانہ موقف نہیں دیکھے؛ مگر ہم یہ کبھی نہیں بھولیں گے کہ اس قسم کے بظاہر بہادرانہ موقف کے آڑ میں ترکی نے یہود یوں کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا جس میں خطے کی تمام حکومتیں بلا استثناء ملوث ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترکی کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مزاحمت متضاد چیزیں ہیں جو یکجا نہیں ہوسکتی، اسی طرح ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شام میں اردوگان کی سرخ لکیروں نے شام کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ شامی انقلاب کو ماند کر دیا گیا اور وہ علاقے جو مسلح مزاحمت کے ہاتھوں میں تھے، انہیں بھی حکومت کو سونپ دیا گیا۔اگر گھٹنے ٹیکنے کا یہ منصوبہ جاری رہتا تو ادلب میں کچھ بھی نہ باقی رہتا۔اسی طرح ترکی اور امریکہ کے درمیان منفرد تعلقات ،ترکی کی نیٹو میں رکنیت اور یہود کے ساتھ اعلانیہ اقتصادی ،سیاسی اور عسکری تعلقات کی وجہ سے ترکی عربوں اور یہودیوں کے درمیان ہمیشہ سیاسی نکاح خواں کا کردار ادا کرنے کا امیدوار ہوتا ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اردوگان کا موقف اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات:
کسی سالوں کے تناؤ اور کشیدگی اور2010 میں اسرائیلی کمانڈوز کی جانب سے "مرمرہ کشتی” میں سوار دس ترک کارکنوں کو قتل کرنے کے بعد ، جو محصورشدہ غزہ کی پٹی پر پہنچنا چاہتے تھے ،اردوگان نے غزہ کو قربان کیا اور غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کےلیے عالمی برادری سے مطالبات پر اکتفا کر لیا۔ پھر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے لیے کئی یورپی شہروں میں مذاکرات کے کئی دور شروع کیے اور 2016 میں یہود سے تعلقات بحال کرنے کا ایک معاہدہ کیا ۔اس معاہدے میں یہ بھی شامل تھا: سفیر اوردوطرفہ دورے معمول کے مطابق بحال ہوں گے،دونوں ممالک بین الاقوامی تنظیموں میں ایک دوسرے کے خلاف کام نہیں کریں گے، طرفین کے مابین سیکورٹی اور جاسوسی پر تعاون بحال ہوگا۔ جبکہ ترکی غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے مطالبے سے یہ کہہ کر دستبردار ہوا کہ اسے (غزہ کی) پٹی میں ایک نئے ہسپتال، سمندر کا پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنانے کی اجازت دی جائے۔
26جون 2016ء کو موساد کے سربراہ یوسی کوھین نے انقرہ کا دورہ کیا اور اپنے ترک ہم منصب ھکان فیدان Hakan Fidanسے ملاقات کی، اس ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ترکی حماس کو اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی عسکری سرگرمیوں کےلیے ترک سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دےگا، چاہے یہ منصوبہ بندی کی شکل میں ہو یا ہدایت اور عملی اقدام کی شکل میں، جبکہ حماس سفارتی سرگرمیوں کے لیے ترکی میں موجود اپنے دفاتر کو استعمال کرسکے گی” ۔جبکہ ترکی نے حماس کی قیادت کو ترکی سے ملک بدر کرنے کی اسرائیلی شرط اور مطالبے کو قبول کرلیا۔نومبر2016 میں دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال ہوگئے اور یہودی وزارت خارجہ نے اپنے سفارتکار ایتان نائیہ کو انقرہ میں اپنا سفیر جبکہ ترکی نے کمال اوکیم کو یہودیوں کے لیے اپنا سفیر مقرر کیا۔
نومبر 2016 میں ہی جب یہودی وجود میں آگ لگ گئی جس نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی کو اپنے لپیٹ میں لے لیا توترکی نے آگ بجھانے کےلیے جہاز بھیجنے کی پیشکش کی اور ترکی ہی آگ بجھانے کی پیشکش کرنے والوں میں سب سے آگے تھا۔ اردوگان نے آگ بجھانے کے لیے تین جہاز بھیجے، اس وقت نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ترک حکومت کی اس مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردوگان تقریبا80% فلسطین پر یہودی قبضے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتا بلکہ وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست سمجھتا ہےاور وہ اسراء ومعراج کی سرزمین پر یہودیوں کے حق کا اعتراف کرتا ہے۔وہ دوریاستی امریکی حل کی دلالی کرتا ہےاور حماس کو اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ صرف یہودیوں کی جانب سے نئی آبادکاری کو مسئلہ قرار دیتا ہے کیونکہ یہ”امن کی راہ میں”ایک رکاوٹ ہے۔
امریکی سفارتخانے کی القدس منتقلی:
دسمبر2017 میں اردوگان نے امریکہ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کی صورت میں اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا؛ نہ اس نے یہود سے تعلقات منقطع کیے نہ ہی امریکہ اور اس کے سائے جیسے یہودی وجود کے بارے میں کوئی سخت موقف اختیار کیا ۔ اس وقت اردوگان نے کہا تھا کہ اس قسم کے اقدامات مسلمانوں کے نزدیک "سرخ لکیر” پار کرنا ہے۔ پھر اس نے اس وقت بھی یہی بات دہرائی جب امریکہ نے 8مئی 2018 کو اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر القدس کو ‘اسرائیل’ کا دارالحکومت قرار دے کر اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کیا ۔ اردو گان نے سی این این(CNN) سے بات کرتے ہوئے کہا: "امریکہ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا اور اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنا بہت بڑی غلطی ہے”۔ 14مئی کو لندن کے اپنے دورے کے دوران کہا: "امریکہ نے حالیہ اقدام سے مسئلے کا حل بننے کی بجائے مسئلے کا حصہ بننے کو ترجیح دی، اور امن عمل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے سے محروم ہوگیا”۔ یہ سب صرف خالی خولی بیانات تھے جن کا حقیقت پر کوئی اثر نہیں تھا، حتی کہ او آئی سی کا وہ خصوصی اجلاس جو اردوگان کی دعوت سے استنبول میں ہوا جو ‘اسرائیلی’ فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی میں ساٹھ سے زائدفلسطینیوں کو قتل اور 2ہزار افراد کو زخمی کرنے والے فلسطینی عوام پر ‘اسرائیلی’ مظالم کی مذمت کےلیے بلایا گیا تھا اور یہ اس وقت تھا جب امریکہ نے مشرقی بیت المقدس میں نیا سفارتخانہ کھولا تھا۔ اس اجلاس کا بھی کوئی اثر نہیں تھا جس میں خالی خولی تقاریر کے ذریعے مذمت اور مسترد کر کے آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ اجلاس کے افتتاح سے قبل اردوگان نے استنبول کے وسط میں ہزاروں مظاہرین سے،جو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اس کی دعوت پر جمع ہوگئے تھے، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام "القدس کے امتحان میں فیل ہوگیا”۔ وہ امریکی سفارتخانے کی اس مقدس شہر منتقلی کو نہ روک سکا۔ ناکام وہ حکمران ہیں جنہوں نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے بلکہ یہی فلسطین کے خلاف سازش میں شریک ہیں، چاہے وہ ہوں جنہوں نے اس امریکی اقدام پر اعتراض ہی نہیں کیا یا وہ جو صرف لفظی مذمت اور زبانی کلامی باتیں کرتے رہے۔ اردوگان نے ہمیشہ پرجوش تقاریر سے عالم اسلام کا قائد بننے کی کوشش کی۔ اس نے’ اسرائیل ‘ کے خلاف الفاظ کی جنگ کے ذریعےسابق عرب حکمرانوں کے کردار کو دہرایا جنہوں نے مسئلہ فلسطین کی تجارت کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی کیونکہ عوام مسئلہ فلسطین کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
ڈیل آف دی سنچری اور اس کے حوالے سے ترکی کا موقف:
منگل28/1/2020 کو امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں یہودی وجود کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی موجود گی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نام نہاد(ڈیل آف دی سنچری) کا اعلان کیا۔ اس منصوبے میں متصل فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کے الگ الگ علاقے پلوں اور سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوں گے جبکہ القدس کوتقسیم کیے بغیر پورا یہودی وجود کا دار الحکومت دکھایا گیا ہے۔ جمعرات 30/1/2020 کو اناتولیہ میڈیا انعامات کی تقسیم کی تقریب کے دوران اردوگان نے ڈیل آف دی سنچری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ” القدس برائے فروخت نہیں”، انہوں نے یہ بھی کہا:”وہ اس کو ڈیل آف دی سنچری کہتے ہیں، یہ کونسی ڈیل ہے! یہ تو استعماری منصوبہ ہے”۔ مزید کہا:” بطور ترک قوم فلسطین کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر وہی ہے جو سلطان عبدالحمید دوئم کا تھا”۔
یاد رہے کہ 5مارچ 1883 کو سلطان عبدالحمید نے ایک قانونی مسودے کا اجرا کیا جس کو(The Second Will) کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کی ملکیت کو کالعدم قرار دیا گیا تھااورفلسطین کی سرزمین کا بالشت بھر حصہ بھی یہودیوں کو دیناغیر قانونی قرار دیا گیا، 1909 میں آپ کو برطرف کیے جانے تک اس مسودہ قانون پر عملدرآمد ہوتا رہا، اس عرصے میں سلطان عبدالحمید نے وہ ساری زمینیں خود خریدی جن کو ان کے مالکان بیچنا چاہتے تھے۔ 1896 میں سلطان عبد الحمید نے فلسطین کو صہیونی تحریک کے سرغنہ تھیوڈور ہرڈزَل کو صہیونیوں کے لیے ریاست قائم کرنے اور سارے صہیونیوں کو وہاں یکجا کرنے کےلیے فلسطین کی زمین فروخت کرنے سے انکار کردیا، اس دن سلطان عبدالحمید نے ہرڈزَل کو یہ جواب دیا:” میں اس زمین(فلسطین) میں سے ایک بالشت بھی نہیں بیچ سکتا کیونکہ یہ زمین میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ ریاست عثمانیہ کی ملکیت ہے، اللہ کی قسم اگر تم میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردو میں فلسطین کی زمین کے ایک بالشت سے بھی دستبردار نہیں ہوں گا”۔ سلطان عبد الحمید نے اپنے قول کے مطابق فلسطین، القدس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی اور ہرڈزَل کی لائی ہوئی "ڈیل آف دی سنچری” کو اڑا کر رکھ دیا، یوں صہیونیوں کا خواب خلافت عثمانیہ کے سقوط تک پورا نہ ہوسکا۔ اردوگان نے ڈیل آف دی سنچری کے مقابلے میں زبانی جمع خرچ اور سرخ لکیروں کے ذکر کے سوا کچھ نہیں کیا جو روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
شام کے مسئلے کے حوالے سے اردوگان کا موقف:
اردوگان نے 5ستمبر2012 کو کہا:”ان شاء اللہ ہم جلد سے جلد دمشق جائیں گے، وہاں ہم اپنے بھائیوں کو پوری محبت سے گلے لگائیں گے۔ یہ دن دور نہیں، ان شاء اللہ ہم صلاح الدین ایوبی کی قبر پر فاتحہ پڑھیں گے، جامع اموی میں نماز ادا کریں گے، ہم پوری آزادی سے بلال حبشی ،ابن عربی کے مزار ، سلیمانی مہمان خانے اور حجاز ریلوے اسٹیشن کے سامنے اپنے بھائیوں کے لیے دعا کریں گے”؛ مگر ایسا ہوا نہیں، بلکہ اردوگان نے شام میں امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نظام کو گرنے سے بچایا جائے،اور اس سلسلے میں تر کی نے سب سے نمایاں کام یہ کیا کہ اپنے زیراثر جنگجوؤں کو 2016 کے اوآخر میں واپس بلاکر داعش سے لڑنے کے لیے الباب شہر منتقل کیا جبکہ اس وقت حلب کے محاذ کو جنگجوؤں اور مدد کی سخت ضرورت تھی؛ حلب کا محاصرہ اور گلہ گھونٹنے والا معرکہ فروری 2016 سے دسمبر 2016 تک جاری رہا اور بالآخر حلب واپس بشارحکومت کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ہر آنکھ نے دیکھ لیا کہ روس اور ترکی نے یہ واضح سودا کیا کہ حلب واپس بشار حکومت کو ملے گا جس کے بدلے الباب شہر ترکوں کو ملے گا۔ الباب کا معرکہ تقریبا تین مہینے جاررہا تب ترکی کی حمایت یافتہ فرات شیلڈ(درع الفرات)23/2/2017 کو الباب شہر میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد شام کی سرزمین میں ترکی کبھی داعش اور کبھی کردوں کے خلاف جنگ کے بہانے جغرافیائی طور پر وسعت حاصل کرتا رہا مگر جابر بشار الاسدکی حکومت کو ہاتھ بھی نہیں لگایا جو دوسری طرف زیادہ اہم علاقوں میں پیش قدمی کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ 2018 کے آخر میں بشارحکومت مشرقی غوطہ پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، یہ مارچ 2018 ہی کے وسط میں ہی ترکی کے ماتحت قوتوں کی جانب سے زیتون کی ٹہنی(Olive Branch) نامی آپریشن کے ذریعے عفرین پر قبضے کے فورا ًبعد ہوا۔ یہی معاملہ ترکی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے راس العین اور تل ابیض میں کردوں کے خلاف امن کا چشمہ(Peace Spring) نامی معرکے میں دہرایا گیا اور ترکی نے سرحد پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔اسی وقت کئی وسیع علاقے بغیر لڑائی کے کردوں کی کنٹرول سے نکل کر بشار حکومت کے قبضے میں چلے گئے۔ یوں ترکی کی ہر حرکت سے کوئی نہ کوئی علاقہ دوبارہ بشار حکومت کے قبضے میں چلا گیا اور شامی تحریک کے باقی گروہوں پر ان کا مکمل کنٹرول ہوگیا، جس میں سب سے آخری، ھیئہ تحریر الشام(النصرۃ) تھا ۔ادلب کے حالیہ واقعات کے بعد سوچی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے اور اس معاہدے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے ھیئۃ تحریر الشام نے حزب التحریر کے تیس سے زائد ممبران کو گرفتار کیا جو لوگوں کو نظام کے گرنے تک اپنی تحریک جاری رکھنے پر ابھارتی ہے، دوسری طرف ان گروہوں سے کہتی ہے کہ بین الاقوامی مکارانہ معاہدوں کو مسترد کرو۔
ترکی نے ادلب کے صوبے حماہ اور حلب کے مضافات میں روس اور ایران کے ساتھ مل کر’ کشیدگی کو کم کرنے کے معاہدے’ کے نام سے ان علاقوں میں 12 چیک پوسٹیں قائم کی جہاں شامی مزاحمت اور شامی حکومتی فورسز آمنے سامنے تھیں، "کشیدگی کم کرنے” کے نام پر ان علاقوں میں یک طرفہ جنگ بندی کروائی گئی، مزاحمت کو روکا گیا جبکہ حکومت اور اس کے اتحادی روس نے اس دوران ضامن ترکی کی آنکھوں کے سامنے قتل و غارت کا بازار گرم کیااور حکومت نے شامی مزاحمت کے باقی ماندہ علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔
روس اور ترکی کے درمیان اس معاہدے کے بعد شام کی مزاحم قوتوں کے ہاتھوں سے علاقے مسلسل نکلتے گئے ،جس میں’دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کے نام پر دوطرفہ اتفاق رائے سے فوجی گشت کو ممکن بنایا اور روس نے انقلابی گروہوں کے زیرِ اثر تمام علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش تیز کردی جن میں آخری علاقہ اِدلب صوبے کا سراقب شہر تھا ،یہی شامی انقلابی تحریک کا آخری گڑھ تھا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بہانے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ شام کے الباب شہر میں ہوا، جہاں دنیا کے ممالک نے داعش کے خلاف لڑنے کا معاہدہ کیا اور اس کو تحریک کی ابتداء میں ہی شامی شہروں میں گھسنے کا موقع دیا تاکہ بشار اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قتل وغارت کرتا رہے۔
یقینا اردوگان نے شام میں جو کچھ کیا یہ اسلام کے ساتھ خیانت اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کی ایک مثال ہے۔ انقلابی تحریک کو ناکام بنانے میں یہ پیش پیش تھا۔ یہ روس کے ساتھ کھڑا ہوا اور تمام اقدامات میں اس کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ پھر کچھ لوگ کیسے اردوگان سے کوئی امید لگاتے ہیں اورپھر یہی لوگ ایران اور روس کو امت مسلمہ کا دشمن کہتے ہیں!!
اردوگان ہی نے حلب شہر کو سونے کی پلیٹ میں رکھ کر بشار حکومت کو واپس دیا جبکہ یہ عظیم شہر کئی سال تک بشار ،روس، ایران، ان کے اجرتی قاتلوں اور کرائے کے جنگجوؤں کے مقابلے میں ڈٹا ہواتھا۔ بشار اور اس کے اتحادیوں کے حلب پر حملے ساتھ اردوگان نے درع الفرات آپریشن شروع کیا یعنی جس وقت حلب اور اس کے لوگوں کو مدد کی سخت ضرورت تھی، اس وقت اردوگان نے اپنے زیر اثر جنگجوؤں کو دوسری طرف مشغول کرکے بشار کو موقع دیا ، لا حول ولا قوۃ الا با اللہ۔
یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکہ اور اس کا پیروکار روس اور امریکہ کے ایجنٹ، شام کے سرکش بشار کی حکومت کو گرانا نہیں چاہتے تھے، بلکہ یہ اس کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کو ناکام بنا کر حالات کو 2011ء سے پہلی والی صورتحال پر واپس لانا چاہتے تھے۔ اسی لیے امریکہ ہی اس قول کے پیچھے تھا کہ”یا اسد رہے گا یا ملک کو جلاکر راکھ کردیں گے”اور اب اس نے جو شروع کیا تھا اسے اختتام تک پہنچا نا چاہتا ہے شاید شمالی شام ہی اس تحریک آخری قلعہ ہے۔
پیوٹین اور اردوگان کے معاہدے خطرناک ترین ہیں کیونکہ اردوگان اپنے وفادار گروہوں کے ساتھ کھیلنے کا ماہر ہے تاکہ ایک کے بعد ایک علاقہ روس اور بشار کو واپس کر سکے۔کنٹرول کرنے کے بعد اس ڈرامے کو شروع کرنے کے لیے سب سے پہلے گنجان آبادی والے علاقوں پر بے رحمی سے بمباری کی جاتی ہے جس میں لوگوں، سکولوں ،بازاروں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کا مقصد مقابلے اور اپنے علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے تیار گروہوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوتا ہے۔ یوں مکمل افراتفری پھیلا کر حالات کو بے قابو کرنا پھر خون خرابے سے بچنے کے نام پر اپنا علاقہ خالی کرکے ان کے حوالے کرنے کی پیشکش کرنا، جنیوا، آستانہ اور سوچی جیسے غدارانہ معاہدات ،انقلاب اور لوگوں سے بالاتر بلند مقاصد بن جاتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔)