اس ہفتے ، ترک صدر رجب طیب اردگان نے یونان پر مزید دباؤ ڈالا۔ یونانی قبرص کی غیر ملکی کمپنیوں…
بسم الله الرحمن الرحيم
عبدالماجد بھٹی
خبر
اس ہفتے ، ترک صدر رجب طیب اردگان نے یونان پر مزید دباؤ ڈالا۔ یونانی قبرص کی غیر ملکی کمپنیوں کوسمندری پانیوں میں ڈرلِنگdrilling کے لئے لائسنس جاری کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ، اردگان نے کہا ، "وہ سمجھ جائیں گے کہ ترکی میں غیر اخلاقی نقشوں اور دستاویزات کو پھاڑنے کی سیاسی ، معاشی اور فوجی طاقت موجود ہے”۔[1]انقرہ اپنے پانیوں میں گیس کی کھدائی کرنے کے یونانی قبرص کے حق کے خلاف سرگرمی سے مقابلہ کررہا ہے اور اس نے ارد گرد کے علاقوں میں زیرِ زمین (seismic)سرگرمیوں کے لئے ترکی کے تحقیقی جہاز بھیجے ہیں۔ دونوں سابقہ دشمنوں کے مابین تازہ ترین تناؤ نے ایک اور جنگ کے امکانات کو جنم دےدیا ہے۔
تبصرہ
یونان کی پشت پناہی پر یونانی قبرص پانی کے اندر توانائی کے ذخائر کا استحصال کرنے کی جستجو میں اکیلا نہیں ہے۔ اس سے قبل ، رواں سال یہودی ریاست نے بھی یونان اور قبرص کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم سے یورپ تک گیس لے جانے کے لئے پائپ لائن تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔دو ہزار کلومیٹر (1200 میل) اِیسٹ میڈ پائپ لائن اسرائیل اور قبرص کے زیر انتظام سمندر کے ذخائر سے یونان تک ایک سال میں 9 سے 12 ارب مکعب میٹر گیس لے جاسکے گی ، اور پھر اسے اٹلی اور دوسرے جنوب مشرقی یورپی ممالک بھیج دیا جائے گا۔ اس معاہدے پر ترکی کے اعتراضات کے باوجود ، مصر نےبھی نومبر 2019 میں یونانی قبرص کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو روکنے کے لئے ، فرانس نے خطے میں اپنے لڑاکا طیارے اور جنگی جہاز بھیجے ہیں ، اور یورپی یونین مکمل سفارتی مدد فراہم کررہا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے ، ٹرمپ انتظامیہ ابتدا میں تو یونانی قبرص کے ساتھ تھی لیکن بعد میں لیبیا اور شام میں امریکی مفادات میں انقرہ کی گہری شمولیت کے بدلے میں اس نے ترکی پر اپنی تنقید کو کم کردیا ہے۔
ترکی کے مشرقی بحیرہ روم میں موجودگی کے خلاف بحری جہازوں اور فوجی ساز و سامان کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو متوازن کرنے کے لئے اردگان نے روس کو فوجی مشقوں کے لئے مدعو کرلیا ہے۔ روس ایسٹ میڈ پائپ لائن کی مخالفت کرتا ہے ، کیونکہ اس سے یورپ کو موقع مل جائے گا کہ وہ توانائی کے لیے روسی گیس پر اپنے انحصار کو کم کرسکے۔ بہر حال ، ترکی کی اصل تشویش یہ ہے کہ 2023 میں لوزان کے معاہدے کے خاتمے کے بعد ، مغربی طاقتیں گیس کے ذخائر پر یونانی قبرص کے دعوے کے بہانے ترکی کی بحریہ کو بحیرہ روم کے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود کرنے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔
ترکی کو ایک اور تباہی سے بچانے کے لئے اردگان کتنی ہی سخت کوششیں کرلے، لیکن اس کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ اردگان مغرب کے بنائےگئے انہی قوانین اور قواعد کو استعمال کر رہا ہے جو 1924 میں خلافت کے خاتمے کے بعد ترکوں کو قومی ریاست کی حدود میں قید کرنے کے لئےبنائے گئے تھے۔ تُرک مسلمانوں کے لئے واحد ذریعہ نجات یہ ہے کہ وہ غیر ملکی نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعہ مسلط کردہ قومی ریاست کے ماڈل کو چھوڑ دیں اور خلافت راشدہ کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
جب تُرکوں نے اسلام کےذریعے حکمرانی کی تو انہوں نے ایشیاء و یورپ پر غلبہ حاصل کیا۔ ریاست عثمانیہ ایک براعظمی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک سمندری طاقت بھی تھی اور یورپ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جدوجہد کی۔ عثمانیوں نے 368 سال یونان پر حکمرانی کی اور بحیرہ احمر ، بحیرہ ہند ، خلیج عرب اور آبنائے ملاکا کے ساتھ ساتھ 200 سے زائد سالوں تک پورے بحیرہ روم کو بھی کنٹرول کیا۔ 1499 سے 1600 ء تک عثمانیوں نے یورپی باشندوں کے خلاف مشہور فتوحات حاصل کیں ، اور مشرقی بحیرہ روم سے لے کر مغربی بحیرہ روم تک کی تمام آبی گزرگاہوں کو کنٹرول کیا۔
مشرقی بحیرہ روم میں واقع لیپینٹوLepanto کی1571 ءمیں تیسری جنگ میں عثمانیوں کو اپنی پہلی بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ قبرص کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جنگ کے بعد خطاب کرتے ہوئے سلطان سلیم دوئم کے وزیر اعلی ، گرینڈ وزیر محمد سوکلو نے وینس کے سفیر سے کہا، ” قبرص کی لڑائی میں ہم نے آپ کو بازو سے محروم کردیا، جبکہ ہمارے بیڑے کو شکست دینے میں ، آپ نے صرف ہماری داڑھی کو کاٹا ہے۔ بازو کاٹ کر دوبارہ نہیں بڑھ سکتا ہے۔ لیکن ایک کٹی ہوئی داڑھی اُسترےکے لئے اچھی طرح بڑھ جائے گی "[2] ایک سال کے اندر ہی عثمانیوں نے اپنی بحریہ کو دوبارہ سے بحال کر لیا اور ایک بار پھر بحیرہ روم میں اپنی عظمت کو بحال کر کے یورپیوں کو غم و غصہ میں مبتلا کر دیا۔
ترکی ، یورپ اور اس کے بحیرہ روم کے اتحادیوں کے مابین موجودہ تنازعہ کچھ طریقوں سے ایک اور لیپینٹو کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ترکی کے لئے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا واحد راستہ خلافتِ راشدہ کا اعلان کرنا اور مصر کو یورپی یونین اور یونان کو ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے ۔ مصر اور ترکی کی مشترکہ بحری طاقت نہ صرف یونان کو روکنے کے لئے کافی ہے بلکہ قبرص کو مکمل طور پر ضم کرنے اور مسلم دنیا کو محکوم کرنے والے غیر اخلاقی نقشوں کو پھاڑدینے کے لئے بھی کافی ہے۔
References
[1] Arab News, (2020). “Erdogan in new threat to Greece in Eastern Mediterranean”. [online] Arab news. Available at: https://www.arabnews.com/node/1730041/world [Accessed 06 Sep. 2020].
[2] https://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Lepanto#cite_note-48