فلسطین کی مبارک سرزمین میں یہودی وجود کا بیچ بونے کے بعد سے مسئلہ فلسطین نے مغرب کو اسکے "حل”…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بلال المہاجر
فلسطین کی مبارک سرزمین میں یہودی وجود کا بیچ بونے کے بعد سے مسئلہ فلسطین نے مغرب کو اسکے "حل” کے لیےاپنے کسی بھی ویژن کو مسلط کرنے کی کوشش میں تھکادیا۔ اگرچہ مغرب نے سہولت کے ساتھ یہودی وجود کوقائم کیااور مسلمانوں کی گردنوں پر سوار کیے گئے خائن حکمرانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بنا کر اس کی حفاظت کی لیکن اسکے باوجود مغرب یہودی وجود کو مسلط کرنے کے لیے، امت مسلمہ کے پاکیزہ جسم میں اس نجاست کی فطری طریقے سے پیوندکاری میں ناکام رہا۔مغرب اور اس کے ایجنٹ حکمران عالم اسلام اور مسلمانوں سے اس یہودی وجود کو قبول کروانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور نہ کبھی ہوں گے۔ امت کے جسم میں یہود کی اس سرطانی ریاست کو وجود میں لانے میں ناکامی اور بے بسی کے مظاہر نمایاں ہیں۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق سیاسی منظر نامے اور متحرک اطراف پر نظر رکھنے والا شخص مغرب کے ہاں پائے جانے والی اس الجھن کا مشاہدہ کرسکتاہے جو تمام ممکنات کے ختم ہو جانے کی حد تک پہنچ گئی ہے جس سے مسئلے کےاختتام کے لیے مجوزہ منصوبے میں پیش قدمی میں ناکامی اور خلاء واضح نظر آتا ہے۔
یہ تمام ممکنات کے ختم ہو جانے والی صورتحال ٹرمپ کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ کے عہد کی ابتدا سے ہی نظر آرہی تھی، جس نے اپنے دور کی شروعات سے ہی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تنازعے کو حل کرنے کے لیے انوکھے اورمنفرد حل دینے کے ارادے کا اظہار کیا تھا، جس کو” ڈیل آف سنچری” کا نام دیا گیا اور اس وقت سے ہی متعلقہ فریقین اس ارادے کے نتائج پر نظریں جمائے ہوئے ہیں مگر وہ اب تک امید کی کوئی کرن نہ دیکھ سکے جو اس ڈیل کو امر واقعہ کے طور پر عملی جامہ پہنا سکے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے سے پہلے اوبا مہ انتظامیہ کے دور میں بھی مسئلہ فلسطین اور اس کے مجوزہ حل جمود کا شکارتھے لیکن کئی اسباب کی بناپر نتائج حاصل کرنے میں نا کامی کی وجہ سے اس میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی تھی جن میں سے کچھ اسباب یہ ہیں؛ امریکی انتظامیہ اس مسئلےکو ترجیح نہیں دے رہی تھی اور یہودی وجود کے وزیراعظم نیتن یاہوکا غیر لچکدار رویہ۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے زیر سایہ منظر نامے میں نئی بات الجھن اور معاملے کا واضح نہ ہونا ہے، کیونکہ حل کی تفصیلات میں باہمی اختلاف اور کب اور کیسےکے حوالے سے امریکی سیاستدان تقسیم ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ دوریاستی حل کے نظرئیے کو عملی جامہ پہنانے کے تسلسل کا اعلان تو کرتی رہی،لیکن یہ حل، جواس انوکھی سوچ کے نتائج کے مطابق ہو،کے باربار وعدے کے باوجود اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔
آج تمام ممکنات کا ختم ہو جانا 1948 میں یہود ی وجود کے قیام کے اعلان کے وقت سے مشابہت رکھتا ہے۔جدید دور میں حل پر سوچنا پچھلی صدی کی پچاس کی دہائی سے لیکر اب تک کے امریکی انتظامیہ کے لیے گئے سیاسی فیصلوں سے مختلف ہے، جیسا کہ دو ریاستی حل کے مقابلے میں ایک ریاستی حل پر نظرِ ثانی کرنا۔ ریچرڈ فولک جو کہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کا ماہر امریکی یہودی ہے،نے کہا کہ جنوبی افریقی منظرنامہ "فلسطینی(اسرائیلی) تنازعے کو ختم کرنے کے لیے واحد طریقہ ہے”۔ اس نے کہا کہ جنوبی افریقی ماڈل کے بارے میں اس کی بات کا مقصد یہ ہے کہ ” فلسطینیوں کو ان کی سرزمین یا اسرائیل میں ان کے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی جائے اور ساتھ ہی تل ابیب کے خلاف دنیا پردباؤ ڈالنے کے لیے تنظیمیں موجود ہوں”۔ یہ بات فلسطین کی تنظیم آزادی کی مجلسِ عاملہ کےسیکریٹری صائب عریقات کے اس بیان سے ملتی جلتی ہے جو اس نے فروری کے وسط میں دیا کہ دوریاستی حل کا متبادل ایک واحد جمہوری ریاست کا قیام ہے جس میں اس کی تمام رعایا یعنی عیسائی، مسلمان اور یہودیوں کے مساوی حقوق ہوں، اس نے مزید کہا: "ایک ہی ریاست میں دومختلف نظاموں(امتیازی ریاست) کو قبول کرنا ممکن نہیں کہ جس کی تائید یہود ی وجود کرتا ہے”۔ لہٰذا فلسطین کے میدان میں سیاسی منظر نامہ یہی ہے جہاں فریقین اور فیصلہ سازتعطل اور الجھن کا شکار ہوگئے اورتمام حریف اور اقدامات کرنے والےمقصد اور شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جہاں تک امت مسلمہ کی بات ہےجو بدستور فلسطین کی مبارک سرزمین کو بغیر کسی شراکت کے صرف اپنا حق سمجھتی ہے، ذرہ برابر عقل رکھنے والے کسی بھی شخص کو اس میں کوئی شک نہیں کہ 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی پُرامن حل ممکن نہیں ،نہ ہی بین الاقوامی طاقتیں ایسا ہونے دیں گی سوائے یہ کہ فلسطین میں یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا جائے، جس کے نتیجے میں اس کے ساتھ وہ رسمی سیاسی تعلقات قائم کیے جائیں جو ان عالمی معاہدات کی پاسداری کریں جن کی پاسداری وعدہ کی گئی فلسطینی ریاست اور اسلامی دنیا کی موجودہ ریاستوں پر بھی لازم ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ امت اس حل کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے، اس پرامن حل کو قابل قبول بنانے کے لیے سیاسی طور پر اور میڈیا کے ذریعے جواز پیدا کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے کہ جو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے اور ساتھ میں فلسطینی ریاست کے منصوبے کو قبول کرنے کی بات کرتاہے وہ دراصل سنجیدہ ہی نہیں، یا جو 2007 کی نارملائزیشن کی عرب پیش رفت کے لیے یہود کو قبول کرنے کی بات کرتا ہے وہ بھی سنجیدہ نہیں۔ لکھاریوں اور سیاست دانوں کی جانب سے 1967کی سرحدوں پر مشتمل برائے نام ریاست کو قبول کرنے کی باتیں”سیاسی وھم” کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سیاست دانوں کی جانب سے اس حل کو قبول کرنے کی باتیں سنجیدگی کے دائرے سے ہی خارج ہیں، کیونکہ یہ اس اساس سے ہی مکمل طور پرٹکراتی ہیں جس اساس پر فلسطینی مزاحمت کے اسلامی اور سیکولردونوں حصے پیدا ہوئے۔علاوہ ازیں، یہ ان کے اعلان کیے گئےمنشورات کے ہی خلاف ہے۔فلسطین کی مبارک اسلامی سرزمین کے ساتھ مسلمانوں کا عقیدے کا رشتہ اس کے علاوہ ہے، انبیاء کے قاتل یہودیوں سے سختی نفرت اس پر مستزاد ہے۔دوریاستی حل کو قبول کرنے کی کوششیں "بین الاقوامی برادری” کی طرف لپکنےکی تکلیف میں عارضی طور پر تخفیف کرنے اور یہودی ریاست سے تعلقات قائم کرنے کی ناکام کوششں ہے۔ یہ داخلی طور پر نئے سیاسی طریقہ کار کی ترویج کے لیےعوام کے سامنے سرگرم عمل ہونے کے مطالبے کو پورا کرنا ہےجبکہ مغربی سیاست دان ان بیانات کی حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں،خاص طور پر جب کارٹر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ”اسلامی مزاحمت کی پوری قیادت 1967 کی سرحدوں کے مطابق پُرامن بقائے باہمی(Peaceful co-existence) کے لیے تیار ہے”، تب بھی یہ قائدین بیانات سے پہلے عملی طور پر اس کی تردید نہیں کرتے، بلکہ ہر موقعے پر مسلسل فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کے بیشتر حصہ تو کیا اس کے شہر عکّا کے چھوٹے سے گاؤں "تائهة” میں بھی دوریاستی حل کو قبول کرنا یعنی یہود یوں کے لیے کسی ریاست کا اعتراف کرنا امت کے نزدیک سیاسی اور شرعی طور پر باطل ہے چاہے یہ حل عارضی ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اسلام کا لبادہ اوڑنے والی بعض قائدین کہہ رہے ہیں اور جیسا کہ فلسطینی تنظیم نے (دو ریاستی حل) اعتراف کے دلدل میں اعلانیہ طور پر پھنسنے کی ابتدا ئی دور میں جب اعلان کیا تھا کہ”کچھ لو اور کچھ دو”۔ جو احکام شرعیہ فلسطین کی مبارک سرزمین کو اس امت مسلمہ کی ملکیت قرار دیتے ہیں وہی احکام امت پر فورا ًمتحرک ہوکر فلسطین کو آزاد کروانے اور یہودی وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو فرض قرار دیتے ہیں۔ مبارک سرزمین کا امت مسلمہ کی ملکیت ہونا احکام شرعیہ کے رُو سے ہے اور انہی احکام کی رو سے فلسطین کی مبارک سرزمین خراجی سرزمین ہے جس کی حریت کا واحد طریقہ افواج کو متحرک کرنا اور جہاد کرنا ہے تاکہ اس پر قبضے کا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ آفاقی سچ ہے جس نے اس مبارک سرزمین کو امت مسلمہ کی ملکیت بنایا اور اس ملکیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ما سوائے کسی شرعی دلیل کے، لہٰذا فلسطین کی آزادی صاحبِ حق یعنی امت مسلمہ کی جانب سے اپنے کندھوں پر موجود شرعی فرض کو ادا کرتے ہوئے افواج کو متحرک کرنے سے ہی ہوگی۔اس حق کو چھین لینے کے لیے مغرب کے استعمال کردہ طریقے اورآلہ کار صرف اس یہودی وجود کو مستحکم کرنے کیلئے ہیں جس سے اس کی جڑیں مزید مضبوط ہوں گی۔
اس قبضے کا جواز بین الاقوامی قوانین اور فیصلے بذاتِ خود ہیں جنہوں نے ارضِ مقدس میں یہودکو اپنا وجود بنانے کی خاطر”جعل سازی” کی، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بین الاقوامی فیصلوں کو تسلیم کرنا یابین الاقوامی حمایت کا مطالبہ کرنا غیراللہ کے احکام پر چلنا ہےبلکہ یہ تو ان ہی کے احکام پر چلنا ہے جنہوں نے یہودیوں کو ہماری سرزمین میں اپنا وجود قائم کرنے کا "حق” دیا اوران فیصلوں کو قبول کرنے سے اللہ کے غضب ،خیانت اور ارضِ مقدس پر غاصب یہودی وجود کے حق میں دستبرداری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ کیا ان سے حق مانگنا درست ہے جن کا خود اس زمین پر کوئی حق نہیں بلکہ جنہوں نے ہماری سرزمین کو ان یہودیوں کی جھولی میں ڈال دیا جن کی اپنی کوئی ریاست ہی نہیں؟! کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے جن قوانین اورمنصوبوں کو وضع ہی یہود ی وجود کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا ہے ،ان کے ذریعے ارض مقدس آزاد ہو جائے گی؟! کیا کوئی عقل والا شخص استعماری مغرب کا دروازہ کھٹکھٹائے گا یا اس کے خبیث بین الاقوامی آلہ کار جیسے سلامتی کونسل سے اپنے غصب شدہ حق مانگنے میں فائدہ محسوس کرے گا؟ کیا شیطانی طریقے پر چل کر ربانی حق کو واپس لیا جا سکتا ہے؟!
آج حکومتوں، تنظیموں، فلسطینی اتھارٹی اور قومی گروہوں کی باہمی مخالفت اور ٹکراؤ کا دور بھی اختتام کو پہنچ چکا ہے اور ان سب کے ہاں دو ریاستی حل کو قبول کرنا ہر سیاسی جدوجہد کی تمہید ہے۔ امارات یہود یوں کے ساتھ تعلقات قائم کر چکا ہے۔ یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے لیے دوڑ فلسطین کے لوگوں اور امت مسلمہ کو کھائی میں گرا کر یہودی وجود کے لیے جواز پیدا کرنے اوراسے مقدس سرزمین میں شریک کرنے کی کوشش ہے۔ مغربی کنارے میں نئی آبادی کاری کو مسترد کرنے کا مطلب1948 میں غصب کیے گئے فلسطین کے بیشتر حصے سے دستبرداری ہے اور 1967 کی سرحدوں میں ریاست قائم کرنے کی بات غاصب یہودی وجود کی جانب سے اس سے پہلے اور بعد میں غصب کی گئی زمین پر یہودی حق کو تسلیم کرنا ہے جس میں یروشلم اور مسجد اقصٰی سے دستبرداری بھی شامل ہے۔ لوگوں کو پرامن مظاہروں کےلیے ابھارنا اور یہ کہنا کہ فلسطین فلسطینیوں کا مسئلہ ہے امت کا نہیں، یہ بین الاقوامی پیمانوں کے مطابق اپنے حقوق مانگنے یعنی افواج کو متحرک کر کے پورے فلسطین کو آزاد کرنے اور دوبارہ امت کے حوالے کر نے سے دستبرداری ہے۔ عسکری حل کو نظر انداز کرکے فلسطین کی آزادی کے لیے افواج سے فورا متحرک ہونے کا مطالبہ نہ کرنا ارض مقدس کے معاملے سے خیانت اور اس پر یہودی وجود کے لیے جواز پیدا کرنے اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔
لہٰذا مخلص لوگوں کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ خاموشی توڑ یں اور اس قبضے کے متعلق وہ بنیادی طرزعمل اختیار کریں جو مکمل آزادی تک دائمی جنگ کا اعلان ہو: کیا علماء ،قائدین اور جماعتیں پانی کے سر سے گزرنے سے پہلے یہودی وجود کوتسلیم کرنے اور تعلقات قائم کرنے کے اس سلسلے کو روکیں گے؟! یا پھرموجودہ”حکمرانوں پر بھروسہ” کرنے اور رسول اللہ ﷺ سے عہد شکنی کرنے والے اور انبیاء کو قتل کرنے والے یہود سے تعلقات قائم کرنے والوں کی حمایت میں فتوے دینے والے "معزز علماء” کے نام پر مغرب کی مکاری کی ریت میں "عقل” کو دفن کرنے کا سلسلہ ہی جاری رہے گا؟!
بے شک فلسطین کے مسئلے کا واحد قابل قبول اسلامی حل اس کی مٹی کو قبضے سے مکمل آزاد کرنا ہےاور یہ امت کی افواج کے فلسطین کی مدد کے لیے متحرک کرنے سے ہوگا، جس میں پاکستان کی افواج سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ کسی دوسری صورتحال،کسی دوریاستی حل یا ایک ریاستی حل کی کوئی گنجائش نہیں، یہ باتیں یا تو دشمن کرتے ہیں یا گمراہ کن لوگ جیسے مسلمانوں کے عرب اور غیر عرب سیکولر حکمران جو امت مسلمہ سے مکمل طور پر الگ ہوچکے ہیں اور کرائے کے قاتل کے طور پر ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں جس سے ان کی کرسی اور جمع کی ہوئی دولت بچ جائے۔ اسلام کا یہ فیصلہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک اسلامی مسئلہ ہے، اس کی زمین قیامت تک امت مسلمہ کی ملکیت ہے اور اس کی آزادی امت کے قدرت رکھنے والے سپوتوں پر فرض ہے، کسی بھی بہانے اور جواز سے اس کی بالشت بھر حصے سے بھی دستبرداری حرام ہے، اس لیے امت کو مجرم کافروں کی فلسطین کی مبارک سرزمین کے بارے میں سازشوں اور مکاریوں پر بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
أَفَمَن يَمْشِي مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيّاً عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
"کیا جو شخص جو منہ کے بل گرکرچلتاہے منزل مقصود پر پہنچے گا یا وہ ہموار راستے پر سیدھا چل رہا ہو”۔(22۔67)
یقینا فلسطین امت کی غیرت مند افواج کے ہاتھوں اللہ کی مدد اور اذن سے بہت جلد آزاد ہوگا، نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ کی افواج کے ہاتھوں سے جس کے عنقریب قیام کے ساتھ ہی اس کے لشکرجرار روانہ ہوں گے، ان شاء اللہ۔
فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُوؤُواْ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِيراً. عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا
"پھر جب دوبارا وعدے کا وقت آیا (اوراے بنی اسرائیل تمہارے دشمن غالب آ گئے)تاکہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی مرتبہ مسجد میں داخل ہو گئے تھے اسی طرح پھر داخل ہو جائیں اور جس چیز پر غالب آئیں اسے تباہ کردیں ۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے اور تم دوبارا (سرکشی) کرو تو ہم بھی دوبارا (تمہیں رسوا ) کریں گے”۔(7-8:17)