2020ء میں شروع ہونے والی تحریک "سیاہ فاموں کی زندگی بھی وقعت رکھتی ہے” (Black Lives Matter)چوتھے مہینے میں داخل ہو گئی ہے جس کی وجہ سےآنے والے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلیل مصعب، پاکستان
2020ء میں شروع ہونے والی تحریک "سیاہ فاموں کی زندگی بھی وقعت رکھتی ہے” (Black Lives Matter)چوتھے مہینے میں داخل ہو گئی ہے جس کی وجہ سےآنے والے امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ امریکی شہروں میں سیاہ فام لوگوں کے مظاہرے اورنسلی فسادات اُس وقت شروع ہوئے جب 25 مئی 2020ءکو امریکی سیاہ فام شہری جارج فلوئڈ(George Floyd) کا امریکی پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوا اور اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ کئی دہائیوں سے ریاستی اداروں کے ذریعے جاری منظم نسل پرستی نےان فسادات کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پسماندہ افریقن-امریکن کمیونیٹیز کے اراکین اور ان کے اتحادی اب امتیازی سلوک اور جبر کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کررہے ہیں جوایک عرصے سے امریکہ کوٹی بی کی طرح چاٹ رہا ہے۔
نسل پرستی کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ اس بیماری نے انسانی اداروں کو کئی صدیوں سے جکڑ رکھا ہے ۔اس کے نتیجے میں کئی مشہور نسل کشی کے واقعات ظہور پزیر ہوئے اور غلامی و سماجی ناانصافی کا نظام قائم ہوا اور کئی جنگیں بھی برپا ہوئیں۔
نسل پرستی کی سب سے بڑی مثال برصغیر پاک و ہند کے مقامی لوگوں کے خلاف برطانوی استعماریوں کا تعصب پر مبنی رویہ اور سلوک تھا۔ یہ برطانوی سامراج تھا جس نے خود کو مقامی لوگوں سے برتر قرار دیا اور اس احساس کو بالکل واضح الفاظ میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اس وقت بیان کیا جب اس نے مقامی لوگوں کے لیے "درندہ صفت لوگ”(beastly people) کے الفاظ استعمال کیے ۔ یہ اسی کی حکومت تھی جس نے اس سرزمین کی دولت کو لوٹا تھا، اس سرزمین کے غلے سے برطانوی گوداموں کو بھرا تھا اور برصغیر کی معیشت کو برباد کردیا تھا، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدترین غربت سے ہزاروں لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس تمام لوٹ مار کی واضح مثال بنگال کا قحط ہے جس میں 30 لاکھ مقامی افراد موت کا شکار ہوگئے تھے۔ لیکن اس تباہی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے اس تباہی کی ذمہ داری مقامی افراد پر ڈال دی اور یہ دعویٰ کیا کہ "وہ خرگوشوں کی طرح اپنی نسل بڑھا رہے تھے”(they were breeding like rabbits) ، گویاآبادی کی زیادتی کی وجہ سے خوارک کی کمی ہوگئی۔
یہ بات واضح ہے کہ نسل پرستی ایسی کوئی چیز نہیں دیتی جو اخلاقیات یا نیکی کا درس دیتی ہو۔ اسلام سختی سے نسل پرستی کی ممانعت کرتا ہے۔ وہ لوگ جو نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتے ہیں، تو ان کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےحکم سے رسول اللہﷺ نے فرمایا، يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلا لأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلا بِالتَّقْوَى إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ " لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر وہ جو زیادہ متقی ہو،یقیناًاللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے "(بیہقی)۔
بلاشبہ رسول اللہﷺ نے کبھی بھی نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جبکہ شروع دور کے مسلمانوں میں کئی نسل کے لوگ شامل تھے۔ حضرت بلال ؓ حبشہ، افریقہ سے تعلق رکھتے تھے، حضرت سلمان الفارسی ؓ ایران سے تعلق رکھتے تھے اور صہیب بن سنانؓ کا تعلق روم سے تھا۔
رسول اللہﷺ کے صحابہ کرامؓ مختلف قبائل اور خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اسلام کے عقیدے نے انہیں یکجا کردیا تھا۔ حقیقت میں اور کوئی ایسا تعلق نہیں ہے جو ایمان والوں کے در میان موجود اسلام کے تعلق سے مقابلہ کرسکے کیونکہ اس کی بنیاد ذاتی خواہشات یا دنیاوی ذاتی مفادات نہیں ہیں بلکہ اس کی بنیاد اخلاص کے ساتھ،زندگی کے ہر معاملے میں،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کرنا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا، إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ " مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے "(الہجرات، 49:10)۔
کوئی بھی ایسا فلسفہ یا تصور جو اس بھائی چارے کے لیے باعثِ خطرہ ہو ، اسلام نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اسلام کے قائم کردہ بھائی چارے کو زبان، نسل یا علاقائی اور سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان تصورات کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان تعلق قائم کرنا زمانہ جاہلیت کی روایت ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا، مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ " جو کسی کی اندھی تقلید میں عصبیت کی طرف بلاتا ہو یا عصبیت کی مدد کرتا ہوا قتل کیا گیا تو وہ جاہلیت (قبل از اسلام)کی موت مرا "(مسلم)۔
وحی سے حاصل ہونے والے ان ثبوتوں سے یہ بات واضح ہے کہ نسل پرستی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اسلام کی فضیلت یا خوبی درحقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام تعصب کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ کسی بھی ایسی بات یا تصور کو بھی ختم کرتا ہے جو اس جانب لے جاسکتی ہو۔
نسل پرستی تعصب پر مبنی ہے اور یہ ایک فرد میں موجود عدم تحفظ کے احساس سےجنم لیتی ہے جب اسے شناخت کے حوالے سے کسی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک فرد اس بحران کو ایک خطرے کےطور پر دیکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی جبلت بقاء جاگ جاتی ہے۔ اس طرح ایک فرد اپنی نسلی شناخت پراصرار کرتا ہے اور وہ اسے اپنے لیے ایک خوبی قرار دیتا ہے اور پھر وہ اُن لوگوں سے کے ساتھ جڑنا شروع ہوجاتا ہے جن میں بھی یہی احساس موجود ہوتا ہے۔
جیسے جیسے نسل پرستی کا تعلق بڑھتا ہے، تو اس کے حامل افراد دوسرے لوگوں سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ انہیں خود سے مختلف سمجھتے ہیں۔ اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسلی شناخت کو واضح کرسکیں۔ جو کوئی گروہ اس ایک "خوبی” کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے تو وہ گروہ احساس برتری کا شکار ہوجاتا ہے جس کا اظہار اُن گروہوں کے خلاف جبر اور تعصب کے ذریعے کیا جاتا ہے جو اس گروہ سے مختلف نظر آتے ہوں۔ اس طرح یہ تعلق ایک تباہ کُن تعلق بن جاتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کرتے ہیں۔
یہ اسلام ہی ہےجو اس بحران کا حل دیتا ہے کیونکہ اسلام ہی اس کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔ اسلام میں یہ بات واضح ہے کہ ایک مسلمان کی شناخت دوسروں پر یا کسی دنیاوی ادارے پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اس کی حفاظت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قران کے ذریعے کی ہے۔ یہ قرآن ہے جو انسان کی ہر دنیاوی معاملے رہنمائی کرتا ہے، انسان کے مقصد حیات یا اس کی شناخت کے حوالے سے ہر قسم کے شک کو ختم کرتا ہے اور اسے یاد دہانی کراتا ہے کہ قیامت کے دن اس کی بنیادی خصوصیات ، جیسا کہ اس کی خوبصورتی، اس کی ذہانت، اس کی طاقت وغیرہ کی تعریف نہیں کی جائے گی، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نگاہ میں بہترین خصوصیات، نیکی اور تقویٰ ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں یاد دہانی کرائی ہے، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ " لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے "(الہجرات، 49:13)۔
یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کفر اور اسے تسلیم کرنے والوں سے نفرت کرنے کا حکم دیا ، تو اس کے باوجود ہمیں غیر مسلموں کے ساتھ انصاف کے ساتھ معاملات کرنے کا حکم دیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ " جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے "(الممتحنہ، 60:8)۔
اور اسی لیے احمد سے روایت ہے کہ عبداللہ ابن رواحہ ؓنے خیبر کے یہود سے کہا تھا، "اے یہود، میری نظر میں تم سب سے قابل نفرت مخلوق ہو۔ تم نے اللہ عزوجل کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ کے متعلق جھوٹ بولا، لیکن تمہارے لیے میری نفرت مجھے تمہارے ساتھ ناانصافی کرنے پر مجبور نہیں کرے گی”۔
اس طرح اسلام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایمان والے اس قدیم اورگھٹیا جذباتی ذہنیت کا شکار نہ ہوں، بلکہ اسلام نے ایمان والے کی ذہنیت ،شخصیت اورکردارکی تعمیر اس طرح سے کی ہے کہ اس کا دل جہالت اور تعصب سے پاک ہوجائے۔ اسلام ایمان والوں کو شیطانیت سے محفوظ بناتا ہے اور ان میں صداقت و راست بازی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور وہ سب کے ساتھ شفاف معاملات کرتے ہیں اور محبت سے پیش آتے ہیں۔
اسلام واضح طور پر ایک مکمل اور سچا دین ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔
#WhatDoesIslamSay
#IslamicYouth