اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی حقیقت کی سٹڈی شعوری ہونا چاہیے ،اور ضروری ہے کہ یہ مطالعہ جذبات سے ہٹ کر کیا جائے…
بسم الله الرحمن الرحيم
حامد عبد العزیز -مصر
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی حقیقت کی سٹڈی شعوری ہونا چاہیے ،اور ضروری ہے کہ یہ مطالعہ جذبات سے ہٹ کر کیا جائے۔ لازم ہے کہ سیاسی حقیقت(واقع) کے بارے میں رائے یا حکم ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہو۔ اس انداز سے کہ ہم حقیقت کو اُسی طرح دیکھیں اور سمجھیں،جیسے کہ وہ ہے، نہ کہ جیسے ہم اس کا ہونا دیکھناچاہتے ہیں۔ اور اس کے بارے میں حکم یا رائے اسلامی عقیدے پر مبنی ہونا چاہیے ،ڈانواں ڈول عقیدے پر نہیں، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہےکہ اشخاص و افکار پر حکم ایسے اٹل ضابطے پر استوار ہو جس کی اساس اسلامی عقیدہ ہو ، ورنہ ہم شعورو آگاہی کھو بیٹھیں گے اوراہل ِعالم ہمیں تباہیوں کی طرف ہنکاتے چلے جائیں گے،جب کہ ہم نیک شگونی میں مست اور زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے،حالات ہمیں اس طرح دکھائی دیں گے جیسے کوئی شخص بادل کو دیکھے اور وہ گمان کرے کہ یہ برسنے والے بادل ہیں، مگر ہویوں کہ اس بادل میں سے دردناک عذاب برآمد ہوجائے، یا حالات ہمیں ایک سراب کی مانند دکھائی دیں جس پرپیاسے شخص کو پانی کا گمان ہوجاتا ہے۔۔۔ اور یہ بالکل قابلِ قبول نہیں کہ اُمت کسی کو اپنے ساتھ دھوکہ دہی کی اجازت دے اور اس کے حالات اس نہج تک پہنچادے کہ جہاں وہ اپنے وسائل،اثاثوں اور صلاحیتوں کو صَرف کرتی رہے ،اپنا وقت لگاتی رہے اور آس باندھے کامیابی کی آرزوئیں لے کر بیٹھی رہے،مگر بالآخر ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے،ایسا کسی طور مناسب نہیں۔ بالخصوص جبکہ اس کے پاس اپنے رب کی عظیم کتاب موجود ہے ،اس نے اس کو ہدایت اور روشنی بنا کر نازل کیا، ایسی کتاب کہ جب تک اُمت اسی سے اپنےپیمانے بنائے گی ، اپنے لیے احکامات اخذ کرے گی اور اپنے افکار و خیالات کی بنیاد اسی پر رکھےگی،یہ اُمت کبھی بھی راستہ نہیں بھولے گی۔ یقینا ًسابقہ ادوار میں اُمت جعلی اور کھوٹی قیادتوں کے گرد اکٹھی ہوتی رہی،ان قیادتوں نے کھوکھلی پالیسیوں کے ڈھول بجا بجا کر امت کو اپنے پیچھے لگائے رکھا اور مبالغہ آمیز القابات کےنعرے لگوائے ، باوجودیکہ یہ قیادتیں اُمت کو پے درپے ہزیمتوں سے نہ بچاسکیں، نہ کسی حملہ آور کے ہاتھ کو روک سکیں، بلکہ ان قیادتوں نےاُمت کو تباہیوں کے دہانے لا کھڑا کیا اور امت کے دشمنوں کے مفاد کی خاطر امت کے ہی اہم اور ناگزیر مسائل سے کھلواڑ کھیلا، مصفطیٰ کمال سے لے کر جمال عبد الناصر اور یاسر عرفات تک سب نے یہی کیا ، پس ترک صدر اردوگان کے معاملے میں بھی کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔
1952 میں ترکی نیٹو(نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ) کا رُکن بنا جسے 4/ اپریل 1949 کو واشنگٹن میں قائم کیا گیا تھا۔ ترکی کے نزدیک یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس سے اس کی (مغربی) شناخت کو استحکام حاصل ہوگا،اور اس کا دفاع اور سیکورٹی طویل عرصے کے لیے یقینی بن جائے گی۔ جون 2005 میں ترکی نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملٹری جنرل سٹاف کی عمارت میں TMMM کا صدر دفتر قائم کیا ۔یہ تشکیل ان قراردادوں کے دائرے میں کی گئی جو اس طرح کے بلند سطحی مراکز بنانے کے لیے پاس کی گئی تھیں ، ان مراکز کا کام یہ تھا کہ یہ قرار داد پاس کروانے والوں کی رہنمائی کریں گے،نیز ترکی نے ستمبر2002 میں پراگ میں دہشت گردی کے قدیم و جدید خطرات سے نمٹنے کے لیے منعقد ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں اس منصوبے پر کام کیا تھا۔ یہ صدر دفتر ایک بین الاقوامی فوجی ادارہ ہے،جس میں نیٹو کے سات ممبر ممالک بشمول ترکی کے آفیسرز کام کرتے ہیں،یہ دفتر شہری ملازمین اور نیٹو کے رُکن ممالک اور اس کے ساتھ شریک ممالک کے درمیانے اور اونچے درجے کےافسران کو مختلف تقریبات میں خدمات فراہم کرتاہے۔یہ مرکز متعدد موضوعات کے حوالے سے سرگرمی جاری رکھنے کے لیے سیمینار،کانفرنسیں اور ورکشاپ وغیرہ منعقد کرواتا رہتا ہے، مثلا دہشت گردوں کے مالیاتی وسائل کا خاتمہ،خود کش حملہ آوروں کا مقابلہ اور میڈیا اور دہشت گردوں کے درمیان تعلقات اور دہشت گردی کی نظریاتی(آئیڈیا لاجیکل) بنیادوں کا مطالعہ وغیرہ۔ اسی طرح یہ مرکزنیٹو ہیڈ کوارٹر میں جاری کاموں بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے علمی تعاون اور خدمات پیش کرتا ہے۔
19 مارچ 2003 میں ترک پارلیمنٹ نے عراق پر حملے کے لیے امریکن فورسز کوترکی کے ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کا بل پاس کیا،اس وقت322 ارکانِ پارلیمنٹ نے اس کی حمایت اور202 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا، ایک رُکن نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، علاوہ ازیں ترکی نے امریکہ کو مجاہدین کو گوانتا نامو منتقل کرنے کے لیےانچرلیک ائیر بیس کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی ،یاد رہے انچر لیک ائیر بیس ترکی کے جنوب میں واقع ہے۔ان ائیر بیسز کا محض یہی ایک مقصد نہیں تھا ، بلکہ ترکی امریکا کو غذا، پانی، ایندھن اور زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے ادویات وغیرہ جیسی دیگر ضروریات بھی فراہم کرتا تھا۔ اور عراق میں موجودامریکی افواج کواکثر لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے لیے ترکی کو بطور ایک اڈے کے استعمال کیا جاتا رہا۔ ترکی نے امریکن فورسز کو عراق سے نکلنے کے لیے ترک سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کا معاہدہ بھی کیا۔
ترکی نےامریکہ کو افغانستان کے خلاف جنگ میں اپنے فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی ، اکتوبر 2001 ء کو افغانستان کے خلاف جنگ کے آغاز کے لیے 24گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر اندر ترکی نے امریکی افواج کو اپنی زمینوں اور فضاؤں کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی۔ترکی نے نیٹو کے ماتحت ایساف فوجوں(ISAF) کو مدد فراہم کرنے کے لیے 1200کے لگ بھگ اپنے فوجی بھیجے۔ ترکی نے شمالی مالی میں عالمی فوجی مداخلت میں مدد فراہم کی، آپ تصور کریں ہمارے صلیبی دشمنوں کے ہاتھوں مسلمانوں کوجس تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا،قتل ،تشدد، زمینوں پر قبضہ،عصمت دری وغیرہ جیسے تمام جرائم میں ترکی نے اپنی افواج کے بل بوتے پر ان میں شرکت کی۔
تو امریکہ اور مغربی ممالک ترکی کی طاقت اور اہم سٹریٹیجک محل وقوع کی حامل سرزمین کواستعمال کرکےاسلام دشمن (نیٹو)اتحادکےمقاصد کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں،پس امریکی طیاروں کے مسلمانوں پر اکثر حملے امریکہ کے ان اڈوں سے ہوتے ہیں جو ترکی کی سر زمین پر موجود ہیں۔ تو اگر اردوگان کا اپنی ملکی سیاست میں کسی فیصلے پر اختیار ہے تو وہ اسلام اور مسلم دشمن نیٹو اتحاد سےفی الفور نکل جاتا،وہ اتحاد کہ جس نے عراق و افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں قتل عام کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
روس کے ساتھ تعلق:
روسی استعماری توسیع، جو1783 میں کریمیا کے انضمام سے شروع ہوئی،سے زیادہ تر نقصان ریاست عثمانیہ کو نقصان اٹھانا پڑا،جس میں اس نے بحر اسود کےشمالی ساحل،بلقان اور وسط ایشیاء کے علاقے کھودیے،یوں عثمانی ریاست کی پسپائی کی وجہ سے روسی کی ان کامیابیوں، بالخصوص 1856-1854 کی کریمیا کی جنگ میں کامیابی نے، یورپ میں طاقت کے توازن کو الٹ دیا، مزید برآں آبنائے باسفورس پر کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے روسی توقعات اور عثمانی سلطنت کی مکمل تقسیم پہلی عالمی جنگ کے شروعات میں معاون ثابت ہوئی۔
جبکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ترکی غیر جانبدار رہنے میں کامیاب رہا، لیکن سوویت اتحاد کی پے در پے کامیابیوں کے باعث روس کویہ لالچ ہوا کہ وہ آبنائے باسفورس پر تسلط حاصل کرلے، اس وقت جوزف سٹالن نے آبنائے باسفورس پر سوویت ترک مشترکہ کنٹرول اور ترکی میں عسکری اڈوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔
انقرہ نے سٹالن کے مطالبات ماننے سے انکار کیا،جس کی بنا پر سٹالن نے ترکی میں کیمونسٹ انقلاب کی داغ بیل ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا ، جس کے جواب میں امریکی صدر ہنری ٹرومین نے ٹرومین آئیڈیا لوجی کی شقوں کے مطابق انقرہ کو تعاون کی پیش کی۔ 1952ء میں ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، اور مصطفیٰ کمال کا ترکی، کیمونیزم کی دشمنی کا ہیڈ کوارٹر اور مغربی اتحاد کے فوجی اڈوں میں سے ایک اڈا قرار پایا۔ لیکن سوویت اتحاد نے ترکی کو کمزور کرنے کی کوشش کبھی نہیں چھوڑی۔ گزشتہ صدی کی اَسّی کی دہائی میں اپنی واضح ترین کوششں کے دوران روس نے انقرہ کے خلاف کردستان کی لیبر پارٹی کی سول نافرمانی کی تحریک کو سپورٹ کیا ۔
پڑوسی ممالک کے حوالے سے انقرہ- ماسکو کشمکش جاری رہی۔گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں ترکی نے مغرب کے تعاون سے تاریخی اور ثقافتی تعلقات سے فائدہ اُٹھانا چاہا،تاکہ ترکی زبان بولنے والی وسطی ایشیا کی اسلامی جمہوریتوں کے محافظ کی حیثیت سےترکی روس کی جگہ لےسکے۔ اس کے علاوہ انقرہ اور ماسکو نے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کشمکش میں متحارب گروہوں کو سپورٹ کیا۔یہ کشمکش ناگورنو کاراباخ صوبے پر شروع ہوئی تھی جو 1994میں جنگ بندی معاہدے کے بعد رُک گئی تھی۔
جنوری 2002 ءمیں دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں روس نے کردستانی لیبر پارٹی کی پشت پناہی چھوڑ دی، جبکہ ترکی نے چیچنیا اور شمالی قفقازCaucasus کی دوسری جماعتوں کے حوالے سے سخت ترین موقف اپنایا ،یہ جماعتیں ترکی کی سرزمین کو کاروائیوں کے لیے استعمال کرتی تھیں۔باجودیکہ ترک قوم کی طرف سے ان جماعتوں کو بہت زیادہ ہمدردی حاصل تھی۔چنانچہ روس کو چیچنیا پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی شہ ملی اوراسے چیچن مجاہدین کی تحریکات کا قلع قمع کرنے کی ہمت پیدا ہوئی، جوروسی اثر و نفوذ سے آزادی کے لیے بر سرپیکار تھے۔
2008ء کی آمد پر روس ترکی کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کے قیام میں انرجی سیکٹر ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔2009 میں ترکی نے، جس کے پاس ہائیڈرو کاربونیٹ کے قلیل مواد کے سوا کچھ نہیں تھا،اپنے چالیس فیصد سے زیادہ پیٹرولیم در آمدات روس سے حاصل کیں ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ روس ترکی کو 57فیصد سے زیادہ قدرتی گیس فراہم کرتا ہے۔ اقتصادی تعلقات بڑھتے بڑھتے ایٹمی توانائی، تعمیرات ، سیاحت اور دیگر شعبوں تک پھیل چکے ہیں۔
29ستمبر2015 کو پیوٹن اوبامہ ملاقات کے بعد،جب امریکہ نے روس کو ملکِ شام میں براہِ راست مداخلت کا موقع دیا،تواس نے اردوگان کو ہدایات دیں کہ وہ پیوٹن کے ساتھ فضائی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بات چیت کرےجوشام کے مسلمانوں پر حملوں کے دوران روسی فضائیہ سے سرزد ہوتی رہیں گی۔کیونکہ جس فضائی اڈے سے روسی دشمن طیاروں اڑان بھرتے تھے وہ ترکی کی سرحد کے قریب تھا۔ اس کی وضاحت روسی جنرل نے رشیا ٹو ڈے پر ان الفاظ میں کیا: روسی فضائیہ کو ائیر سپیس کی تنگی کی وجہ سےطیارے اُڑانے اور اُتارنے کے دوران ترکی کی فضائی حدود میں داخل ہونا پڑے گا۔” پھر اردوگان نے اس مفاہمت کا اعلان گیا،یوں اردگان مسلمانوں کا ناحق خون بہانے میں کفر کا شریک بن کر بہت بڑی خیانت کا مرتکب ہوا۔
24 نومبر2015 کو ترک طیاروں نےترکی کی فضائی حدودکی خلاف ورزی کرنے پر ایک روسی طیارہ مار گرایا،جس کے بعد ان دونوں کے تعلقات ایک دفعہ پھر خراب ہوئے، پیوٹن نے اس کاروائی کوپیٹھ میں چھرا گھونپنا قرار دیا ، لیکن اردوگان نے ذاتی طور پر اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔اردوگان نے معاملہ کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ27جون2016 کو روس سے معذرت کی،پھر اس کے بعد دونوں نے9 اگست 2016کو سینٹ پیٹرز برگ میں ملاقات کی،اس ملاقات کے نتیجے میں روسی فضائیہ نے شام کے جابر کا ساتھ دیتے ہوئےسربراہی کانفرنس کے دوران ہی مسلمانوں پر اپنے حملے تیز کردیے اور چند دنوں میں سینکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ روس کے حملے مسلسل جاری رہے کیونکہ اسے کوئی روکنے والا نہیں،اکثریتی مسلم ملک ترکی کے صدر اردوگان سے ،بغیر کسی اعتراض کے، روس نے اس پر اتفاق حاصل کیا ،یوں اردگان نے شام کے مسلمانوں کو جھوٹ بول کر دھوکہ دیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔
یہ معلوم ہے کہ اردوگان کا ترکی اپنی پالیسیوں میں امریکہ کا ہمنوا ہے اور اردوگا ن کے دور میں ترکی کسی قابلِ ذکر معاملہ میں امریکی مدار سے نہیں نکلا، سو اس کی تمام پالیسیاں امریکی مفادات کےدائرے اندر اندر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اردوگان کو مجبور کیا کہ وہ شام میں امریکہ کے خدمتگار روس کے ساتھ مفاہمت کرے،اور روسی جنگی طیارہ مار گرانے کے موضوع کو بھول جائے جس کے بارے میں سب جانتے تھے کہ غلطی روس کی تھی۔ سب نے دیکھا کہ ترکی اور روس کے ذریعے کس طرح امریکہ نے شام میں حالات پر کنٹرول کو ممکن بنایا، بشار الاسد کی حکومت کو متبادل کی تیاری سے قبل گرائے جانے سے بچالیا اورمغربی کردار کس طرح مکمل طور پر پس ِپردہ چلا گیا یا پھرعنقریب اوجھل ہونے والا ہے۔
اتوار یکم مارچ 2020 کو ترکی نے اعلان کیا کہ ہم نے شام کے شمال مغرب میں واقع اِدلب شہر میں شامی حکومت کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا ہے،یہ آپریشن ان حملوں کے خلاف ہے جن کی وجہ سے انقرہ کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑے۔ ترکی وزیر دفاع خلوصی اکارHulusi akar نے کہا :آپریشن( سپرنگ شیلڈ) جو 24 فروری کو ادلب پر بدترین حملوں کے بعد شروع کیا گیا،کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ کا روس کا مقابلہ کرنے کے لیے ارادہ ہے نہ ہی کوئی شوق۔ باوجودیکہ روس بشار الاسد کی صدارت میں قائم شامی حکومت کی پشت پناہی کرتا ہے۔
سوچی آرٹیکلز Sochiکے نفاذ اور بین الاقوامی راستے کھولنے کے لیے اردوگان کی مسلسل کوشش ،اور اس کے لیے درکارمنظم تباہی اور گھر بدری ،سڑک کے کنارے واقع تمام شہروں اور دیہاتوں کو بشار الاسد حکومت کے حوالے کر دینا (جس کا ترکی نےسرکاری طور پراعتراف کیا) ،یہ سب اموربالکل واضح ہیں۔اس کے بعد پے درپے ترک بددیانتی کے نکات سامنے آتے ہیں ،بددیانتی اس طرح کہ اردگان کے بارے میں اچھا گمان کیا جاتا ہے،لیکن اس کا کرداریہ ہے کہ وہ شام کے بشار الاسد کی مدد کے طور پرکسی بھی ایسی تحریک کی نگرانی کر رہا تھاجو اخلاص کے ساتھ اسد کے مجرمانہ ٹولے کے خلاف برسرپیکار تھی۔
اس کے بعدامت کے حوصلے کو توڑنے کے لیے بمباری اور گھر بدری کی شدید قسم کی مکرر لہریں اُٹھیں، تاکہ امت کو امریکہ کے ڈیزائن کردہ سیاسی حل پر قائل کیا جاسکے۔ پھر اردوگان اس خونریزی کو بند کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔فضا باربار کے غیر سنجیدہ اور سرسری اختلافات کے تبادلے سے کبھی خالی نہیں رہتی، تاکہ خیانت پر پردہ ڈالا جاسکے، اختلافات بھی بعض سطحی باتوں سے آگے نہیں گذرتے ۔ جب کہ ترکی بلا کسی جھجک یا شرم کے کھل کہتا ہے کہ وہ سوچی معاہدے کی طے کردہ حدود تک واپس لوٹنے کے لیے روس پر دباؤ ڈالے گا،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روس کے لیے وہی چیز قانونی بنانے پر تلا ہوا ہے جو پہلے سے مسلّمہ اور مانی ہوئی ہے ، جبکہ اسی دوران بلکہ اس کے بالمقابل ترکی اور روس کے درمیان تجارتی سامان کے تبادلے اور ہم آہنگی کی سطح بھی بلند سے بلند ترہوتی جاتی ہے۔ گویا ہم خرید وفروخت کا سامان ہیں۔ پھر حکومت پر ترکی طیاروں کی بمباری کے ڈراموں کا مرحلہ آتا ہے، جن کا مطلب فقط اتنا تھا کہ اپنی گرتی ساکھ کو دوبارہ بڑھاسکے، اور لوگوں کو ایک دفعہ پھر اپنی زہریلی رسی کے ساتھ چمٹنے پر ابھارے۔اصل سوال جو اس موقع پر پیش کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ سابق ادوار کے ان شامی علاقوں کا انجام کیا ہوا جہاں جنگ میں تخفیف کی گئی تھی اور جن کے امن وتحفظ کی ضمانت دی گئی تھی اور ان علاقوں کے باشندوں کا کیا ہوا؟ کیا وہاں دوبارا بشار الاسدحکومت کا تسلط قائم نہیں ہوا اور وہاں کے باسیوں کو اپنے گھر چھوڑ کر شمال کی طرف نقل مکانی نہیں کرنا پڑا؟
بلا شبہ روس اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ملک ہے، اس نے مسلمانوں کو چیچنیااور افغانستان میں قتل کیا اور اب شام میں یہی کھیل کھیل رہا ہے، اس نے کوئی ایسا میزائل یا اسلحہ نہیں چھوڑا جس کا تجربہ اس نے شام کی عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں پر نہیں کیا، اور شام کے تمام اطراف میں اس کے قتل عام کی کاروائیاں اب تک جاری و ساری ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں دشمنوں اور ظالموں کی طرف جھکنے سے ڈرایا ہے، اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو آگ کی وعید سنائی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:( وَلَا تَرۡكَنُوٓاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنۡ أَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ)” اوراے مسلمانو! ان ظالموں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا ،کہیں دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے ، اور تمہیں اللہ کو چھوڑ کرکوئی اور دوست میسر نہ آئیں، پھر تمہاری کوئی بھی مدد نہ کرےگا”(ہود113)۔
اردوگان کو کس قسم کا اسلام درکار ہے:
اردوگان نے اپنی ایک تقریر میں ،جو اس نے 2018/03/08 کوعورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد ایک جلسے میں کی تھی، کہا تھا،” اسلام کا نفاذ چودہ پندرہ صدیاں پرانے احکامات کےنفاذ سے نہیں ہوگا ،بلکہ اس کا نفاذ جگہ، وقت اور حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے، اور اسی میں اسلام کا حسن پوشیدہ ہے”۔ تو اسلام کے بارے میں جب اردوگان کی یہ رائے ہے کہ اسلام کو موجودہ دور سے ہم آہنگ بنانے کے لیے اس میں تجدید کی ضرورت ہے تو پھراس کے چاہنے والے کس قسم کے تدریجی اسلام کی بات کرتے ہیں؟ اور وہ کس قسم کی خلافت ہے جس کو کبھی اردوگان قائم کرسکے گا؟ اس نے تو اپنے ملک میں سیکولر نظام نافذ کیا ہوا ہے،جس کا اسلام کے ساتھ ادنی ٰسا بھی تعلق نہیں، اور اردگان بھی انہی بنیادوں پر کھڑا ہے جس پر سرمایہ دارانہ کفریہ نظام کھڑے ہیں۔ جس بات سے تصویر بالکل واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ترکی کے لوگوں کی غالب مسلم اکثریت اپنے عقائد اور زندگی کے حوالے سے اپنے اختیار کردہ تصورات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، مگر یہ سب ریاست اور دین کی جدائی کی بنیاد پر ہے۔ پس اگر کوئی مسلمان شراب پیتا ہے، یا زنا کا مرتکب ہو، چوری ، قتل کرے یا مرتد ہوجائے، تو اس پر شرعی سزائیں اور حدود جاری نہیں کیے جاتے۔ حتیٰ کہ ہمیں ترکی کے بعض سیاحتی مقامات پر وہ کچھ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس کو جنسی سیاحت کہاجاتا ہے، اردوگان کو کوئی احساس نہیں کہ ایک حاکم کی حیثیت سے شریعت اس پر لازم کرتی ہے کہ وہ اس کو روکے۔ حکومت کی نسبت سے جہاں تک بات ہے تو ترکی میں ہرکام اب بھی اتا ترک کے طرزِ حکومت پر ایسے ہی ہورہا ہے جیسےاردوگان کے حکومت میں آنے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔فرق صرف اتنا ہے کہ اتا ترک کا اختیار کردہ سیکولرازم اول نمبر کا اسلام دشمن اورمذہب سے دشمنی پر مبنی تھا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس نے عربی میں اذان پر پابندی لگائی تھی،اکثر مساجد کو بند کردیا تھا،حجاب پر پابندی لگائی تھی اور قرآن کو بھی ترک زبان میں ترجمہ کر کے جاری کر دیا۔اردوگان کا اختیار کردہ سیکولرازم مذہب سے دشمنی پر مبنی نہیں اور چونکہ اکثریتی لوگ مسلمان ہیں، تو اس تبدیلی کا مسلمانوں کے دل پر اچھا اثر پڑا، ترک مسلمانوں کے ہاں اس کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، بالخصوص جب اس کے دور اقتدار میں انہیں ان دینی اور مذہبی شعائر کو ادا کرنے کا موقع دیا گیا جن سے وہ پہلے محروم تھے، اس نے ان کے لیے بہت سی بند مساجد کھول دیں۔ بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ہاں اس کو پذیرائی حاصل ہوئی،اور وہ اس تبدیلی کو اس نظر سے دیکھنے لگے کہ گویا یہی وہ شرعی تبدیلی ہے جس کی ضرورت ہےاور مطلوبہ شرعی تبدیلی کے لیے اس کا حوالہ دینے لگے۔جس وجہ سے اس پر لوگوں کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ،وہ یہ تھی کہ سیکولر طبقہ اس کی تمام نقل و حرکت کا مخالف رہا اوریہ لوگ اس کے ہر کام سےخاصا خوف محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ اتا ترک کے ورثے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔چونکہ عام مسلمان کا مؤقف جذباتی ردِعمل پر مبنی تھا ، تو اس لیے بھی مسلمانوں کا اس پر اعتماد بڑھا اور انہوں نے اس کی حمایت کی۔ یہ بات انتخابات میں اس کی کامیابی سے ظاہر ہوئی، فوج کے خلاف اس کی حمایت میں دیکھی گئی اور حکومتی تختہ الٹنے کی مخالفت میں اس کا ساتھ دیکر ظاہر ہوئی۔
بلا شبہ جس کو اردوگان کے مقابل سیاستدانوں ،فوجیوں ، صحافیوں اورمفکرین کی گرفتاریوں، تعاقب،اور معطلیوں کے بارے میں معلوم ہو، وہ اردوگان کی اپنی حکومت کے استحکام اور حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے اردوگان کی زبردست کوششوں کو بخوبی جان سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ان دیگر اختیارات کو بھی شامل کیا جائے جن کو اردوگان بعد میں آنے والے آخری انتخابات اور دستوری ترامیم کے بعد اپنے لیے مخصوص کر لینے کے قابل ہوا، تو اردوگان کی طاقت اور ملک میں اس کے تسلط کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اس قوت اور قابلیت کے بالمقابل اسلام اور مسلمانوں کو بے یار ومددگار چھوڑنے والا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔چنانچہ ترکی میں نظام حکومت بدستور سیکولر ہے بلکہ ترک حکومت اسلام کے داعیوں سے لڑتی ہے ،ان کو جیلوں میں سالہا سال تک قید کیے رکھتی ہے۔ آپ جب کبھی اردوگان کے دھوکے میں آئے ہوئے اسلام کی چاہت رکھنے والے مسلمانوں سے بحث کریں کہ اردوگان اسلام کے ذریعے حکومت کیوں نہیں کرتا، تو وہ یہ کہہ کر جواب دیتے ہیں ،” اردوگان یکدم تبدیلی نہیں لا سکتا ،اس کے مخالفین بہت زیادہ ہیں۔ "
یہاں ایک بڑا سوال ہے ، کہ جب اردگان کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اس نے فوج میں سے اپنے لاکھوں مخالف فوجیوں اور سیاستدانوں کو پابند سلاسل کیا، دیگر لاکھوں کا تعاقب کیا، جرنیلوں اور فوج کے بڑے بڑے کمانڈروں کو تتر بتر کیا ، اور اب تک مسلسل اپنے مخالفین کا ایسی سختی سے پیچھا کرتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی ، یہ سب کچھ اپنے لیے اور اپنی پارٹی کے لیے ، تو کیا اسلام ، جس سے لوگ محبت کرتے ہیں، اس کا حق دار نہیں کہ جتنا اس نے اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے کیا ،کچھ اس کے لیے بھی کرے؟! تو کیا وہ اپنے لیے اور اپنے دبدبہ کے لیے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، جو اس نے کیا، اور جس اسلام کے باعث لوگوں نے اس کو منتخب کیا ، اس کے لیے وہ نہیں کرسکتا ؟
یقیناًجو واضح حقیقت کو دیکھنا چاہتا ہے ،اس کے لیے اس سوال کا جواب آسان ہے ، اور وہ یہ کہ اردوگان نہ تو اسلام کا نفاذ چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوشش کرتا ہے اور فقط مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور مسلم سرزمینوں میں استعمار کی سازشوں کو آگے لے جانے کے لیے اسلام کے پیچھے چُھپتا ہے یعنی وہ جھنڈا اور چھتری استعمال کرتا ہے، جس کو عام لوگ پسند کرتے اور خواہش رکھتے ہیں ، یعنی اسلام۔
(تَبۡصِرَةٗ وَذِكۡرَىٰ لِكُلِّ عَبۡدٖ مُّنِيبٖ)
"ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بصیرت اور نصیحت ہے”۔ (ق، 8)
مجلہ الوعی، شمارہ 408