واقع: طویل انتظار کے بعد آخر کار بائیڈن کو امریکا کے صدارتی انتخابات میں کامیاب قرار دے دیا گیا، جس پر ٹرمپ کی ناگواری اور فکرمندی عیاں تھی…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: عبد المجید بھٹی
واقع: طویل انتظار کے بعد آخر کار بائیڈن کو امریکا کے صدارتی انتخابات میں کامیاب قرار دے دیا گیا، جس پر ٹرمپ کی ناگواری اور فکرمندی عیاں تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن نے انتخابات چوری کیے ہیں لیکن سینئر ری پبلکن اراکین نے ٹرمپ کی جانب سے صدارتی عہدے پر ابرجمان رہنے کی کوششوں سے خود کو دور رکھا ہے۔ بائیڈن نے وعدہ کیا ہےکہ، "وہ ایسا صدر بنے گا جو تقسیم نہیں بلکہ متحد کرنا چاہتا ہے”(1)۔ کیا بائیڈن کے ہم آہنگی اور زخموں پر مرہم رکھنے پر مبنی پیغام پر عمل ہوگا؟
تبصرہ: بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے ہیڈکواٹر پر اپنی حمایتیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "ترقی کرنے کے لیے ہمیں اپنے مخالفین کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ ختم کرنا ہوگا۔ وہ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ امریکی ہیں”(2)۔ بائیڈن نے مزید کہا، "یہ وقت ہے امریکا کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ بائیڈن نے وعدہ کیا "تمام لوگوں کے اعتماد کے لیے وہ اپنے تمام کوششوں کو بروئے کار لائے گا۔ لوگوں کا اعتماد جیتا جائے گا”(3)۔
جب بائیڈن کے بلند بانگ باتوں کا ریپبلیکن کے ووٹروں کے تصورات اور خیالات سے موازنہ کیا جاتا ہے ، جوان انتخابات میں بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ دینے آئے، تو امریکا کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بات کوئی بہت ہی دور کی بات معلوم ہوتی ہے۔ ٹرمپ کی حامیوں نے کووڈ-19 کے متعلق سائنسی حقائق کو مسترد کیا ، سفید فام نسل پرستی پر مبنی اقدار کو اختیار کیا، سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے کی مہم کو امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور سازشی مفروضوں پر یقین رکھا۔ تقریباً 50 فیصد ریپبلیکن ووٹرزاس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ٹرمپ ایک نجات دہندہ ہےجو جنسی لذت کے حصول کے لیے بچے فراہم کرنے والے خفیہ شیطانی گروہ کو ختم کرنے میں مصروف ہے جسے ڈیموکریٹک سیاست دان اور مشہور شخصیات چلاتے ہیں(4)۔
لیکن اس سے بھی زیادہ جو بات ریپبلیکن ووٹرز کو متحرک کرنے کا باعث ہے وہ لیبرل اقدار کا زبردست حملہ ہے جس کے علمبردار ڈیموکریٹ ہیں کیونکہ عیسائی اقدار ان میں گہری جڑیں رکھتی ہیں اور وہ اس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی ووٹروں کا 20 فیصد عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے افراد پر مشتمل ہے اور ان کے ووٹ امریکا کے وسط مغربی اسٹیٹس اور سونگ اسٹیٹس میں کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ رائے شماری کے سروے کے مطابق 75 فیصد سفید فام عیسائی مبلغین نے اس سال ٹرمپ کو ووٹ دیے ہیں جبکہ چار سال قبل یہ تعداد 81 فیصد تھی۔ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ میں کی جانے والی حالیہ تعیناتی کی عیسائی مبلغین کی بڑی تعداد نے حمایت کی(5)۔ قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان موجود اس قدر گہری خلیج کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ 1980 سے یہ خلیج موجود ہے جس کی وجہ سے ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن واشنگٹن میں ایک ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ آئیڈیالوجیکل فالٹ لائنز نے سیاست کو تقسیم کردیا ہے۔
ٹرمپ کے بعد امریکا میں کووڈ-19 کی وجہ سے قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان خلیج میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا کیونکہ عدم مساوات امریکی معاشرے کے ہر پہلو میں پھیلتا جائے گا۔ صرف معاشی عدم مساوات ہی کئی لبرل اسٹیٹس ، جیسا کہ کیلیفورنیا اور مشرقی ساحل پر موجود اسٹیٹس،کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کردے گا کہ وفاقی حکومت کو دیا جانے والا ان کا ٹیکس قرضوں میں ڈوبی ریپبلیکن اسٹیٹس کو لبرل اقدار پر قدامت پسند اقدار کی فوقیت کا دعوی کرنے کا حوصلہ تو فراہم نہیں کررہا۔
اس صورتحال میں یہ بات بہت مشکل نظر آرہی ہے کہ بائیڈن کی فتح قوم کے زخموں کو پھرنے کا باعث بنے گی۔ بائیڈن اپنے پیشرو کے طرح ملک میں اور بیرون ملک لبرل ازم کی حاکمیت کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا، اور اس کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ قدامت پسندوں اور لبرلز کے درمیان پرتشدد تصادم ہوجائے، ایسا تصادم جو امریکی سیاست اور معاشرے کو مستقل بنیادوں پر توڑ پھوڑ دے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ صورتحال دنیا میں امریکا کی بالادستی کو محدود کردے گی اور دوسری بڑی طاقتوں کو موقع فراہم ہوگا کہ وہ امریکا کی اندرونی سیاست سے فائدہ اٹھائیں۔
اگر صورتحال ایسے ہی آگے بڑھتی رہی تو مسلم دنیا پر مسلط جابروں کو امریکی حمایت میں کمی آجائے گی اور اس طرح وہ جو ایک بار پھر خلافت راشدہ کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں انہیں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اپنی کوشش کو کئی گنا بڑھا دینا چاہیے۔ اگرچہ مسلم دنیا میں کئی لوگ بائیڈن کی کامیابی کے مضمرات کو دیکھنے سے قاصر ہیں بلکہ غلامانہ ذہنیت کی بدولت وہ تو اسلام کی واپسی کے امکانات کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔
حوالاجات:
[5] https://www.theguardian.com/us-news/2020/nov/06/white-evangelical-christians-supported-trump