آج ہم فرانس میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تہذیبوں کا تصادم ہے…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انجینئر معیز، پاکستان
آج ہم فرانس میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ بہت عرصے سے مسلم دنیا کو اس کی حکمران اشرافیہ اور دانشور اس بات پر مجبور کرتے آرہے ہیں کہ وہ بقائے باہمی کے تصور کے تحت اسلامی اور مغربی تہذیب کے درمیان سمجھوتہ کر لےاور مغربی تہذیب کو چند ترامیم کے ساتھ قبول کرلے۔ خلافت کے انہدام کے بعد سے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں مسلم دنیا پر ایک ایسا نظامِ حکمرانی تھوپاگیا ہے جو کہ درحقیقت مغربی سیاسی سوچ پر مبنی حکمرانی کا نظام ہے لیکن جس میں کچھ اسلامی اقدار کا تڑکا لگایا گیا ہے تا کہ مسلمان اسے اسلامی نظام سمجھ کر قبول کرلیں۔ مثال کے طور پرجب یہ کہا جاتا ہے کہ آزادیِ رائے کی کچھ حدود و قیود ہونی چاہیے تو در حقیقت یہ مغربی تہذیب کو بنیاد بنا کر بحث کا ایجنڈا سیٹ کرنا ہے۔ آزادیِ رائے کی حدود وقیود کا تعین کرنے کا مطالبہ یہ فرض کر کے کیاجاتا ہے کہ مسئلہ آزادیِ رائے کے تصور کو چیلنج کرنا یا مسترد کرنا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس کے غیر محدود اور بے محل استعمال کا ہے۔ یہ موقف اس فکری جبر کا ایک حصہ ہے جس کو مغربی زدہ مسلم اشرافیہ نے مسلم دنیا پر مسلط کیا ہواہے۔ اس موقف میں آزادیِ رائے کی سیاسی سوچ کو چیلنج نہیں کیا گیا بلکہ "مخصوص صورتحال” میں صرف اس کے استعمال کو مسئلہ سمجھا گیا ہے۔ لہٰذا احتجاج اور بحث کا مقصد صرف یہاں تک محدود رہتاہے کہ مغربی دنیا سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے اقدار کے نفاذ پر دوبارہ غور کریں۔ اس مسئلہ کو اس نظر سے دیکھنا غلط اور ناقص ہے۔
مغربی تہذیب مذہب سے نفرت کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ آزادیِ رائے میں یہ آزادی کس سے آزادی ہے ؟ مسلم دنیا کی مغرب زدہ سیاسی و دانشور اشرافیہ یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ آزادی کسی کی بھی طرف سے، خصوصاً ریاست کی جانب سے مسلط کی گئی”جابرانہ پابندیوں” سے عمومی آزادی ہے۔ آزادی رائے کی یہ تاویل جھوٹ ا ور دھوکے پر مبنی اور قطعی طور پر غلط ہے۔ آزادیِ رائے میں آزادی، مذہب کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں سے آزادی ہے۔ یورپ کی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اس حقیقت سے واقف ہے۔ سیکولر ازم کا تصور، جو کہ ریاست اور کلیسا (چرچ) کی جدائی کا تصور ہے، جدید مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ عیسائی یورپ کی مذہب کے ساتھ کشمکش نے اسے ایک نئے طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جہاں اس نے سیاسی میدان میں مذہب سے بغاوت کا اعلان کر دیا ۔ یوں یورپی آبادی کی سیاسی زندگی پر مذہب کو پابندی عائد کرنے کا کوئی اختیار نہ رہا۔لہٰذا لبرل ازم اور مغربی تہذیب کی روح مذہب مخالف ہے۔ یہ سوچ مغربی تہذیب کی بنیاد ہے اوراسی سوچ کی مغرب ترویج کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمانوئل میکرون، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے برباد کرے، نے یہ اعلان کیا کہ :”(فرانس) اپنےکارٹونوں سے دستبردار نہیں ہوگا”۔جب سے یورپی اشاعت کاروں کی جانب سے توہین رسالت پر مبنی کارٹون شائع کیے گئےہیں تب سے اب تک تین فرانسیسی صدور نے "توہین رسالت” کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ فرانسیسی عدالتوں نے چارلی ہیبڈو کو قانونی تحفظ فراہم کیا جب کچھ مسلمانوں نے چارلی ہیبدو کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا ۔ اور اس سے پہلے 2015 میں یورپ اور مغربی دنیا نے چارلی ہیبڈو سے اظہار یکجہتی کے لیے اس نعرے کے ساتھ مارچ کیا : "میں چارلی ہوں”، جو کہ مسلمانوں کی حرمات کو کھلا چیلنج اور ان پر حملہ تھا۔
وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا مغربی تہذیب ، اس کے سیاسی و حکومتی نظام اور اس کی اقدار کو مسترد کردے۔ مسئلہ آزادیِ رائے کا نفاذ اور اس کی حدودوقیود کا نہیں بلکہ آزادی رائے بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ اسلام گالی دینے ، غیبت کرنےاور دوسرے مسلمانوں پر تہمت لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمان تو اسلام کی دعوت کےعلمبردار ہوتے ہیں۔ ہم اچھی بات یعنی خیرکا حکم دیتے ہیں اور بری بات یعنی منکرسے روکتے ہیں۔ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم منکر کا حکم دیں۔ اسلام تو ہمیں منکر کے سامنے خاموش رہنے تک کی اجازت نہیں دیتا۔ تو ہم کس آزادی رائے کی بات کررہے ہیں؟ ہمارے پاس رائے دینے کے حوالے سے واضح اور تفصیلی احکامات موجود ہیں جو قرآن و سنت سے اخذ کیے گئےہیں۔ ہماری قدر آزادیِ رائے نہیں بلکہ وہ رائے ہے جس کے اظہار کا قرآن و سنت نے ہمیں حکم دیا ہے۔
یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا مغربی تہذیب کو مسترد کردے اور اپنی تہذیب کی بحالی کے لیے کام کرے جو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جب ہمارے پاس ریاست کی طاقت ہوگی تو ہم رسول اللہﷺ کی ناموس کی حفاظت توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف عسکری قوت استعمال کر کے کریں گے۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ میکرون جیسے ملعون یا کوئی بھی اپنی سر زمین پر بھی توہین رسالت کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں ۔ جی ہاں، یہی ہمارا موقف ہے اور ہم اس پر ہی کھڑے ہیں۔ ان سب کے خلاف جنگ کی دھمکی یا پھرعملاً جنگ جو ہمارے نبی پاک ﷺ کی توہین کرنے کی جرات کرے۔