مغرب کے حکمران، دانشور اور انتہا پسند اسلام اور اس کی حرمات کی توہین کے عادی ہو چکے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ ان کو روبیضہ (احمق ) مسلم حکمرانوں کی جانب…
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مغرب کے حکمران، دانشور اور انتہا پسند اسلام اور اس کی حرمات کی توہین کے عادی ہو چکے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ ان کو روبیضہ (احمق ) مسلم حکمرانوں کی جانب سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا، نہ ہی مسلم افواج کی جانب سے جنہیں ان حکمرانوں نے بیڑیاں ڈال رکھی ہیں اور نہ ہی علماء کی جانب سے ، جن کو ان حکمرانوں نے اپنے مغربی آقاؤں کے خلاف آواز بلند کرنے سے روک رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کے صدر میکرون کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دنیا بھر میں اسلام بحران کا شکار ہے اور اس نے مساجد کے خطیبوں اور اماموں کو حکم دیا کہ وہ صرف وہ بات کریں جو میکرون کی خوشنودی کا باعث ہو اور جو کرپٹ مغربی تہذیب کو بے نقاب نہ کرے۔
بغور جائزے سے ایک شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ مغربی تہذیب، جس نے فرانسیسی انقلاب کے بعد جنم لیا، دنیا بھر میں ناکام ہو چکی ہے اورجس میں فرانس بھی شامل ہے۔ لبرل سیکولر آئیڈیالوجی نے تمام انسانیت کو بدحالی اور بدترین مشکلات کا شکار کردیا ہے۔ اس آئیڈیالوجی نے انسانیت کو کمر توڑغربت، تباہ کن جنگوں، خوفناک بیماریوں اور بدترین تنازعات میں دھکیل دیا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ 1924 عیسوی بمطابق 1342 ہجری میں خلافت کے خاتمے کے بعد دنیا پر مغربی سیکولر تہذیب کی ایک صدی سے بھی کم عرصے کی غالب حکمرانی نے انسانیت کو ان خوفناک بیماریوں، بحرانوں اور تباہیوں کا شکار کردیا ہے۔
جہاں تک فرانس کا خصوصی طور پر تعلق ہے تو اس نے افریقہ کے لوگوں کی خون پسینے کی کمائی کو لوٹ کر انہیں غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ایک استعماری طفیلی ریاست ہے جواپنی محنت اور کوشش کے بجائے دوسروں کی محنت پر پلتی ہے۔ اس بات کا اعتراف فرانس کے سابق صدر فرانسوئس مِٹرانڈ (François Mitterrand) نے 1957 میں صدر بننے سے قبل کیا جب اس نے کہا، "افریقہ کے بغیر اکیسویں صدی میں فرانس کی کوئی تاریخ نہ ہوتی”۔ مارچ 2008 میں فرانس کے ایک اور سابق صدر یاک شیراک نے کہا، "افریقہ کے بغیر فرانس گر کر تیسری دنیا کے رتبے میں پہنچ جائے گا”۔ اگرچہ فرانس ایک پلی ہوئی جونک(leech) کی طرح ہے جو افریقہ کے بھر پور غذائیت بھرے خون کو چوس رہا ہے لیکن اس کے باوجود فرانس کی 67 ملین آبادی میں سے 9 ملین افراد غربت کا شکار ہیں، جن میں ایک تہائی بچے شامل ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے کچھ علاقوں میں غربت کی شرح چالیس فیصد تک ہے۔Ipsos/Secours Populaire 2018 کی رپورٹ کے مطابق فرانس کی 21 فیصد آبادی، جو تقریباً 14 ملین بنتی ہے، خوراک کی قلت کا شکار ہے اور انہیں ایک دن میں تین متوازن کھانے نصیب نہیں ہوتے۔
درحقیقت فرانس نہ صرف مغرب کے متعین کردہ ‘ تیسری دنیا کے ممالک ‘ بلکہ جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گرچکا ہے۔ ہم جنس پرستوں نے گرجا گھروں میں دکانیں کھول رکھی ہیں، بچوں کی معصومیت ختم ہو رہی ہے اورہم جنس شادیوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔ شادی کے رشتے کے بغیر جنم لینے والے بچوں کے حوالے سے فرانس یورپ کا لیڈر ہے کیو نکہ 60 فیصد بچے ایسے گھروں میں پیدا ہورہے ہیں جہاں والدین شادی شدہ نہیں ہیں۔ بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی اس قدر بڑی تعداد کی وجہ سے انہوں نے”ناجائز بچے” کی اصطلاح ہی ختم کردی ہے کیونکہ اب وہ اکثریت میں ہیں۔ بالغ عمر میں شادی سے قبل پاک دامنی نہ ہونے کے برابر ہیں اور اسقاط حمل (abortion) کی بلاکسی روک ٹوک کے مکمل اجازت ہے جبکہ اسقاط حمل کی گولیاں لڑکیوں کے اسکولوں میں کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں۔ جب فرانس کے سیکولر ازم نے خالق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، کے وجود کا بالواسطہ انکار کیا تو اس کے نتیجے میں ایک روحانی خلاء اور بحران پیدا ہوا اور دو سو سے زائد گرجا گھر اس لیے بند ہوگئے کیونکہ وہاں آنے والوں کی تعداد بہت کم ہوگئی تھی۔ پس فرانس اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں میں بھی ذلت کے بدترین درجے پر اتر چکا ہے۔
یہ مثالیں تو اصل مسائل کے انبار کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہیں ۔ میکرون جس مغربی نظام کی سربراہی کررہا ہے ، الفاظ اُس نظام کی پیدا کردہ کرپشن، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور بحران کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیوند لگا کر ٹھیک کرنے کے لیے کی جانے والی سرتوڑ کوششوں کے باوجود، مغربی اشرافیہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوتی جارہی ہے کیونکہ یہ ناکامی بہت وسیع اور واضح ہوچکی ہے۔
لیکن اس کے باوجود میکرون کی ڈھٹائی ہے کہ وہ یہ دعوٰی کرنے کی ہمت کررہا ہے کہ اسلام بحران کا شکار ہے! اگر میکرون میں ذرہ برابر بھی سچائی کو سہنے کی ہمت ہوتی تو ہم اسے وہ کڑوا سچ سناتے جس کو سننا اسے پسند نہیں۔ اگر اسے اپنے لوگوں سے ذرہ برابر بھی ہمدردی ہوتی تو وہ یہ تسلیم کرلیتا کہ اس کی تہذیب دیوالیہ ہوچکی ہے اور ان سے مدد مانگتا جو فرانس کو ایک نئی زندگی دےسکتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے فرانس کے بادشاہ فرانکوئیس اول نے اس سے پہلے مدد مانگی تھی اور اسے عثمانی خلیفہ سلیمان العظیم نے مدد فراہم کر کے 1526 عیسوی میں اسپین کے بادشاہ چارلس پنجم کی قید سے آزادی دلائی تھی۔
حقیقت میں تو مغرب اور اس کی تہذیب، اور فرانس، اس کی آزادیاں اور انقلاب ،بحران کا شکار ہےنا کہ اسلام کیونکہ اسلام تو زمین و آسمان کے مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اسلام دنیا میں تیرہ سو سال کے عرصے تک نافذ رہا ہے۔ جہاں جہاں اسلام نافذ رہا ، امن و سکون وہاں قائم رہا ۔ اسلامی تہذیب کوسوائے گمراہ، جاہل اور بے رحم مغربی صلیبیوں کے کسی بھی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج انسانیت اور اسلامی امت کو اسی طرح کے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ آج کا امریکا گمراہ اور جاہل یورپ ہی کی ایک نئی وسعت ہے۔ اگرچہ مغربی اشرافیہ یہ دعوی کرتی ہے کہ مسلمان اسلام کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ دعوی ایک دھوکہ ہے۔ درحقیقت مسلمانوں کے بحران کی وجہ مغرب ، جس میں فرانس بھی شامل ہے،کی جانب سے ان کی گردنوں پر مسلط کیا گیا استعماری نظام اور ایجنٹ حکمران ہیں۔ مغربی استعماریت کی جانب سے مسلط کی گئی کرپٹ مغربی تہذیب اور اقدار مسلمانوں میں بدبودارقوم پرستی اور قبائلیت کے جذبات بھڑکاتی ہیں جس نے مسلم دنیا میں بحران پیدا کررکھا ہے۔
ہم جانتے ہے کہ آخر کیوں میکرون نے اسلام کے متعلق یہ بیان دیا۔ درحقیقت وہ اسلام کے دوسرے جنم کو دیکھ رہا ہے جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کی صورت میں ہوگا۔ وہ اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے جس تہذیبی خلاء کو جنم دیا ہے اس کو کسی دوسرے انسان کی بنائی آئیڈیالوجی سے پُر نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی بنائی آئیڈیالوجی اپنی ہر شکل میں ناکام ہوچکی ہے۔ اسلام وہ واحد آئیڈیالوجی ہے جو اس خلا کو پُر کرسکتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام ایک درست آئیڈیالوجی ہے جو انسانوں کے خالق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، کی جانب سے ہے، جو اکیلا یہ جانتا ہے کہ اس نے کیا کیا پیدا کیا، اور وہ سب سنتا اور دیکھتا ہے۔ ہم اور مغرب کے قائدین، جس میں میکرون بھی شامل ہے، یہ جانتے ہیں کہ اسلامی امت نے اسلام اور مسلمانوں کو ایک بار پھر عظمت کی بلندیوں پر لے جانے کا تہیہ کر لیا ہے اور اس راہ میں شاندار قربانیوں دی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ امت اس دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام بہت جلد واپس حاصل کر لے گی۔
اُس وقت دنیا عملاً مغربی سرمایہ دارانہ افکار کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کو جان اور سمجھ لے گی جب وہ اس کے بلمقابل اسلام کا عملی نفاذ ہوتا ہوا دیکھے گی۔ اُس وقت انسانیت یہ چاہے گی کہ کاش اسلام اس سے پہلے ہی ایک ریاست و حکومت کی صورت میں آگیا ہوتا۔ اسلام دین فطرت و دین حق ہے، یہ عدل و انصاف کا دین ہے، یہ رحمت اور ہدایت کا دین ہے اور یہ سکون اور اطمینان کا دین ہے۔ اسلام دلیل پر کھڑا ہے، جو باطل کی تردید واضح دلائل کے ساتھ کرتا ہے۔ اور چونکہ مغرب کے قائدین دلیل کا جواب دلیل اورفکر کا جواب فکر سے دینے سے قاصر ہیں، لہٰذا انہوں نے جھوٹ، دھوکہ، فریب ، انتشار اورحقائق کو مسخ کرنے کی راہ اختیار کررکھی ہے۔ لیکن انہیں یہ سب کچھ کرنے کا اس وقت تک موقع ملے گا جب تک اسلام کی ڈھال ، نبوت کے نقش قدم پر خلافت، بحال نہیں ہوتی، اور جو بہت جلد واپس آرہی ہے، ان شاء اللہ۔
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ
” اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے، (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے”(روم، 5-4)
بلال المہاجر، پاکستان، الراعیہ میگزین شمارہ 308