حکمران کے انحراف کے خلاف لڑنا
بسم الله الرحمن الرحيم
استاد شايف صالح الشرادی- صنعاء
حکمران کے انحراف کے خلاف لڑنا
یہ منحرف حکمران کا تختہ الٹنے کے لئے ہتھیاروں کا استعمال ہے ، جوان لوگوں کی رائے کے مطابق کہ جو حکمران کے خلاف بغاوت کریں اس کا مستحق ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے۔ اس کی بہت ساری اقسام ہیں اور ان میں سے بعض کا ذکر حزب التحریر کے بانی اور ممتاز عالم دین شیخ تقی الدین النبہانی کی تصنیف کردہ کتاب ’’ اسلام میں حکمرانی کا نظام ‘‘ میں بھی آیا ہے :
حکمران کا انحراف کیا ہے؟
حکمران کا انحراف اس وقت ہوتا ہے جب وہ اسلام کے فرائض کو ترک کردے ، خواہ وہ اپنے ذاتی طرز عمل میں ہو یا داخلی یا خارجی پالیسی میں جس کے ذریعے وہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہو۔ وہ انحرافات یہ ہیں:
1) حکمران کا گناہوں کا ارتکاب کرنا
2)حکمران کا شہریوں کو گناہوں کا حکم دینا
3) حکمران کا برائیوں کا ارتکاب کرنا جس میں دولت ، عہدوں ، ملازمتوں اور مراعات کی اجارہ داری شامل ہے جووہ باقی تمام امت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے لیے، اپنے خاندان ، اپنے رشتہ داروں اور اپنے قریب کے لوگوں کے لئے کرتا ہے ۔
4) افراد کو مار پیٹ کر ، سزا دے کر اور ان کے مال کو ضبط کرکے انہیں نقصان پہنچانا۔
بخاری اور مسلم نے عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره مالم يؤمر بمعصية، فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة (بخاری ۷۱۴۴، مسلم ۱۸۳۹) ” مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے ۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے ، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا "۔
کسی حکمران کے انحراف کے خلاف لڑنا اللہ کی راہ میں جہاد ہے، اگر حکمران پہلے ہی کفر اختیارکرچکا ہو۔ جہاں تک وہ حکمران جو اسلام کی بجائے کفر اختیار نہیں کرچکا ، صرف انحراف کا مرتکب ہوتا ہے، اس کے ساتھ موزوں سلوک محکمہ المظالم کی عدالتوں کے ذریعہ اسے سزا دینا ہے تاکہ اسے ہٹایا جاسکے ۔ اور ایسے معاملے میں کہ اگر وہ اتھارٹی سے جڑا رہےاور اپنے حامیوں کی مدد سے تنازعے کا آغاز کرےتو اس کے خلاف لڑنا بغاوت کے خلاف لڑنا کہلائے گا ۔ اس طرح کی لڑائی جائز سمجھی جائے گی ، البتہ جہاد کے شرعی معنی کے مطابق ،اس کو اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں جہاد کے طور پر نہیں دیکھا جائےگا۔
۷۔اسلامی ریاست کے قیام کے لئے لڑنا
چونکہ اسلامی ریاست کا وجود ختم ہوچکا ہے ، اور اس کے انہدام کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ، لہٰذا آج اسلامی ریاست کو دوبارہ قائم کرنے کا طریقہ وہی ہوگا جو رسول اللہ ﷺ نے اسے قائم کرنے کے لئے اپنایا تھا۔ اس کے مراحل یہ ہیں:
۱۔اسلامی ممالک کے علاقوں میں ایسی فضا پیدا کرنا جو اسلامی دعوت کا مثبت جواب دےجب تک کہ یہ ایک ایسی عوامی رائے پیدا نہ کر دے جو اس دعوت کی حمایت کرے ، اور اس دوران اس کا مطالبہ کر نا جس کی طرف یہ دعوت بلاتی ہو یعنی اسلامی افکار اور نظام ، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے لیے حمایت کی تیاری بھی کرنا یعنی نُصرہ حاصل کرنے اور قربانیاں دینے کی تیاری ،جن کی اس کام کے لئے ضرورت ہے۔
۲۔ وہ ریاست جو اسلامی دعوت پر لبیک کہتی ہے اس میں اپنے زمانے کے اعتبار سے ضروری رجحانات اور شرائط موجود ہوتے ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مدینہ کے معاملہ میں تھا۔ تب اہل نُصرہ کی تلاش کی جاتی ہے ، جو اس قابل ہوں اور خود کو اس اقتدار کے سپرد کرنے کے لئے رضامند بھی ہوں جس کے ہاتھ پر وہ اسلامی ریاست کے حاکم کی بیعت کریں ، اور جو قوت وہ اہل نصرہ رکھتے ہوں وہ داخلی سطح پر نئے حالات کے خلاف اٹھنے والی ہر بغاوت کو قابو کر سکے اور کسی بھی ممکنہ بیرونی طاقت کا مقابلہ کرسکے جو اس نئی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
۳۔جب یہ اہل نُصرہ جمع ہوجائیں اور اس شخص کی بیعت کر لیں جسے وہ حاکم کے طور پر منتخب کریں ، اورحاکم اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کرے اور موجودہ نظام کو تبدیل کردے اور اس کی جگہ پر ایک اسلامی نظام قائم کردے ، اور اس طاقت کو استعمال کرے جو وہ اہل نصرہ رکھتے ہیں تا کہ اس کے خلاف سختی سے حملہ کرے جو کوئی بھی اللہ کے نازل کردہ قانون کے خلاف جنگ کرنے کی کوشش کرےاور جو اس علاقے کی عوامی رائے مطالبہ کرتی ہو۔
اگر اقتدار کے دیگر مراکز اس نئی صورتحال کے بارے میں خاموش رہیں اور خلیفہ کی بیعت کرلیں تو پھر اقتدار کی منتقلی پر امن انداز میں ہوتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تختہ پلٹنے پر ہوا کہ مختلف عہدے رکھنے والے لوگوں میں سے کچھ اسلامی احکامات کے نیچے اور اسلامی ریاست کے مفاد میں اپنے عہدوں پر قائم رہے۔
اگر اقتدار کے کچھ مراکز بغاوت کرتے ہیں اور نئی تشکیل شدہ ریاست پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بیعت عقبہ ثانیہ سے متعلق شرعی نص ان لوگوں کے خلاف لڑنے کے جواز کی تصدیق کرتی ہے جو تنازعات پیدا کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ نئی صورتحال کی حفاظت کی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایسی صورت میں اقتدار کا تختہ پلٹنے کا عمل خونی ہوگا لیکن شرعی نصوص اس کی اجازت دیتی ہیں۔
آج اسلامی ریاست کے قیام کا یہی طریقہ ہے۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے لڑنے سے متعلق شرعی حکم یہی ہے جیسا کہ اس کا ثبوت بیعت عقبہ ثانیہ سے ہے جس کی بنیاد پر نبی ﷺ نے اسلامی ریاست قائم کی تھی۔
جہاں تک اسلامی ریاست کے قیام کے دوران یا اس کے بعد اس کے خلاف اٹھنے کے حکم کا تعلق ہے تو یہ حرام ہے۔ اگر فوج کا کوئی گروہ اپنے کمانڈروں کے حکم کے تحت اسلامی ریاست کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسلامی ریاست پر ان کا مقابلہ کرنا واجب ہے کیونکہ اب وہ باغی قوتیں قرار دی جائیں گی جنہوں نے اسلامی ریاست کے اقتدار سے انحراف کیا۔ ان سے لڑنا ایسی بغاوت کے خلاف لڑنا ہے جس نے خلیفہ کی اطاعت چھوڑ دی ہو ۔ یہ لڑائی جائز ہے اور اگرچہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں ہے ، لیکن جو شخص اسلامی ریاست کی صفوں میں لڑتا ہوا مارا جاتا ہے وہ صرف آخرت کے شہدا میں شامل ہوتا ہے اور اسے آخرت میں شہید ہونے کا اجر ملتا ہے۔
۸۔ اسلامی سرزمینوں کی وحدت کے لئے لڑنا
اسلامی سرزمینوں کو ایک ہی ریاست کی حیثیت سے ایک ہی امام کے اختیار میں ہونا چاہئے جو مسلمانوں کا خلیفہ ہے جو ان پر اسلام کے مطابق حکمرانی کرتا ہے۔ اس دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک امت کے طور پر اس کے ماتحت ہونا چاہئے ، ایک واحد قومیت کے طور پر اور انہیں متعدد حکمرانوں کے تحت تقسیم نہیں کیا جانا چاہئے نہ ہی ایسی اقوام کے طور پر سمجھا جانا چاہئے جو ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔
جہاں تک اسلامی ریاست تلے مسلمانوں کی وحدت کی فرضیت کا تعلق ہے، تواللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران ۳:۱۰۳) "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو”۔
مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے نہیں بنیں گے سوائے اس کے کہ وہ ایک ایسی ریاست یعنی خلافت کے تلے ایک اکائی کی مانند اکٹھے ہو جائیں جو اندرونی طور پر زندگی کے تمام معاملات میں اسلام کے ذریعے حکمرانی کرے اور بیرونی سطح پر دعوت اور جہاد کے ذریعے نور اور ہدایت کے پیغام کو دنیا تک لے کر جائے جو اس ریاست کے دوسری ریاستوں کے ساتھ تمام تعلقات کو استوار کرے۔ اسلام ایک ریاست تلے مسلمانوں کی وحدت کو اور اس ریاست کے تحفظ کو فرض قرار دیتا ہے اور اس ریاست کی مختلف اکائیوں اور ریاستوں میں تقسیم کو حرام قرار دیتا ہے۔ اس کے بہت سے دلائل ہیں جیسا کہ مسلم نے ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما (مسلم ۱۸۵۳) ” اگر دو خلفاء کی بیعت ہو جائے تو بعد والے کو قتل کر دو”،مسلم نے عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية (مسلم ۱۸۵۱)” اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (خلیفہ کی) بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا”، مسلم نے عرفجہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:إنه ستكون هنات وهنات، فمن أراد أن يفرق أمر هذه الأمة وهي جميع؛ فاضربوه بالسيف كائناً من كان (مسلم ۱۸۵۲) "میری امت میں کئی بار هنات ہوں گے ، تو متحد مسلمانوں کے شیرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو "۔ هنات هنہ کی جمع ہے اور یہاں اس لفظ سے مراد آنے والے فتنے ہیں۔ مسلم عرفجہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد يريد أن يشق عصاكم أو يفرق جماعتكم فاقتلوه (مسلم ۱۸۵۲) ” جب کوئی شخص آئے اور تمہارے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے جبکہ تم ایک شخص (کی امامت) تلے متحد ہو تو اس شخص کو قتل کر دو”،ان دلائل سے یہ واضح ہے:
۱۔ایک ہی خلیفہ کی بیعت ہر مسلمان کی گردن پر ہونی چاہئے ، خلافت ایک واحد اکائی ہے ، اور مسلمانوں کے لئے ایک سے زیادہ خلیفہ ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
۲۔ان لوگوں کے خلاف لڑنا واجب ہے جو خلیفہ کو بیعت نہیں دیتے یا ان لوگوں کے خلاف جو مسلمانوں کی وحدت میں رخنہ ڈالتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کئی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۳۔ اسلامی سرزمینوں کو ایک کرنے کے لئے لڑنا متعدد وجوہات کی بنا پر فرض ہے۔
الف- جو لوگ جائز خلیفہ کی اطاعت سے باز رہتے ہیں وہ باغی ہیں اور ان سے اس طرح لڑا جانا چاہئے جس طرح باغیوں سے لڑا جاتا ہے۔
ب۔وحدت اسلامی فرائض میں سے ہے
ج- مسلمانوں کی سرزمین سے تعلق رکھنے والا خطہ جو خلافت کے ماتحت ہونے سے انکار کرتا ہے وہ اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ کے ذریعے حکمرانی کے تحت رہے گا اور یہ شریعت کے مطابق حرام ہے۔
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے مابین وحدت کے لئے لڑنا شریعت کے مطابق فرض ہے۔ اور یہ جائز ہے لیکن شرعی مفہوم کے مطابق یہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں ہے۔
مسلمانوں کے مابین لڑائی کی ممانعت (فتنہ کی جنگ ، قتال الفتنہ)
اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کے مابین لڑائی کو مسلمانوں کے دو یا زیادہ گروہوں کے درمیان ایک غیر شرعی تنازعہ گرداناجاتا ہے۔ فتنہ کی لڑائی کا اطلاق مختلف قسم کی لڑائیوں پر ہوتا ہے:
پہلی صورت : لڑائی میں صحیح (المحق) کا غلط (المبطل) سے ممتاز نہ ہونا ۔ یہاں فتنہ کی لڑائی ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو اس مسلح تصادم میں جہالت یا خلفشار کی وجہ سے یا عصبیت کی خاطر یا کسی اور مقصد کے لئے حصہ لیتے ہیں۔ یہ لڑائی حق کو باطل سے ممتاز نہیں کرتی۔ جہاں تک تصادم والی اصل جماعتوں کا تعلق ہے تو انہیں ان کے اسلحہ استعمال کرنے کے مقصد کی بنیاد پر مبنی بر انصاف یا پھر حد سے تجاوز کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات متصادم جماعتیں ان وجوہات سے لاعلم ہوسکتی ہیں جنہوں نے انہیں شروع میں لڑائی تک پہنچایا ۔ لہٰذا اس معاملے میں ان کی لڑائی فتنہ کی لڑائی ہے ، اور انہیں اس سے باز رہنا چاہئے۔ مسلم نے ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تذهب الدنيا حتى يأتي على الناس زمان لا يدري القاتل فيما قتل، ولا المقتول فيما قتل. فقيل كيف يكون ذلك؟ قال: الهرج، القاتل والمقتول في النار (مسلم ۲۹۰۸) ” قسم اس کی جس کے ہاتھ میری جان ہے دنیا ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ لوگوں پر ایک دن آئے گا کہ مارنے والا نہ جانے گا اس نے کیوں مارا اور جو مارا گیا وہ نہ جانے گا کیوں مارا گیا۔“ لوگوں نے کہا: یہ کیوں کر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمومی قئل و غارت کی وجہ سے ، قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں”۔
دوسری صورت: دو گروہوں کا ایک دوسرے سے بلاجواز تنازعہ کرنا اور ان میں سے کسی کے پاس بھی توجیہ نہ ہونا۔
تیسری صورت: اقتدار کے لئے دو فریقوں کے مابین ناجائز تصادم یعنی اختیار کے حصول کے لئے لڑنا۔
فتنے کی لڑائی روکنے میں صلح کروانے والوں کا کردار:
۱۔ان کے مابین مفاہمت اور دو گروہوں کے مابین جنگ بندی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا (القرآن ۴۹:۹) ” اگر مسلمانوں میں سے دو گروہ لڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرا دو”
۲۔اگر دونوں میں سے ایک گروہ حق پر ہو اور دوسرا حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو دوسرے گروہ کے مقابلے میں حق والے گروہ کی حمایت کرنا فرض ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ (القرآن ۴۹:۹) "تو اس (گروہ) کے خلاف لڑو جو حد سے تجاوز کرے حتیٰ کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر واپس آ جائے”۔
۳۔اگر دونوں گروہ ظالم ہیں اور اسلامی ریاست ان سب سے لڑنے اور ان پر قابو پانے کے قابل ہے تو پھر اس پر یہ واجب ہے ، کیونکہ وہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں۔
۴۔اگر اسلامی ریاست تصادم میں شامل فریقین میں سے ایک ہے ، تو ظالم گروہ پر قابو پانے کے لئے ریاست کی حمایت کرنا واجب ہے۔
لوگوں کے حالات کے اختلافات کے مطابق فتنے کی جنگ کی تمام صورتوں سے متعلق حکم شرعی
اول: متصادم جماعتوں کے مابین جاری لڑائی میں کسی مسلمان کی شرکت کا شرعی حکم
فقہی آراء میں اس بات پر اتفاق ہے کہ فتنے کے دوران لڑائی کو چھوڑ دینا فرض ہے سوائے اس صورت کہ جب لڑائی ظلم اور بغاوت کے خلاف کی جا رہی ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (القرآن ۱۷:۳۳) ” اور کسی کو قتل نہ کرو جس کو اللہ نے حرام کیا ہے، سوائے حق کے”، مسلم میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كل المسلم على المسلم حرام: دمه، وماله، وعِرضه (مسلم ۲۵۶۴)، ” ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا سب کچھ حرام ہے: اس کا خون، اور اس کا مال، اور اس کی عزت”
در حقیقت ، شرعی نصوص اختلافات کے خاص حالات کی نشاندہی کرتی ہیں جو مسلمان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس دعوے کے ساتھ لڑائی چھوڑ دیں کہ :
۱۔میدان جنگ سے دور رہنے اور جہاں تک ممکن ہو سکے غائب رہنے کا لازم ہونا۔ مجمع الزوئد میں طبرانی کی جندب بن سفیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ادخلوا بيوتكم وأخملوا ذكرهم (مجمع الزوائد ۱۲۳۳۶) ” اپنے گھروں میں رہو اور ان (گروہوں)کی طرف توجہ نہ کرو”
۲۔ اپنا سامان لے کر اپنے آپ کو سب سے الگ تھلگ کر لینے کا حکم ۔ حاکم کی مستدرک میں ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فإذا نزلت (أي الفتنة) فمن كان له إبل فليلحق بإبله، ومن كان له غنم فليلحق بغنمه، ومن كان له أرض فليلحق بأرضه (مستدرک للحاکم ۸۳۶۱)” جب کوئی تنازعہ پیدا ہو جائے تو جس کے پاس اونٹ ہے تو اسے چاہیے کہ اس کو لے کر چلا جائے۔ اور جس کے پاس بھیڑہے اسے چاہیے کو اس کو لے کر چلا جائے۔ اور جس کے پاس زمین ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کو لے کر چلا جائے”۔
۳۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔ بزار نے ابو بکرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا اقتتلتم على الدنيا، فالقاتل والمقتول في النار (مسند البزار ۳۶۳۷، ۳۶۴۲) ” جب تم اس دنیا کے لئے ایک دوسرے سے لڑو گے تو قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں جہنم میں جائیں گے”۔
دنیا کے مفادات کو حاصل کرنے پر ہونے والے تنازعات کو ایسے دو گروہوں کے مابین تنازعہ قرار دیا گیا ہے جو کہ حق پر نہ ہوں۔ اور اس کو فتنے کی لڑائی کی ایک صورت کہا گیا ہے۔
۴۔ اسلحہ کو تباہ کرنے کا حکم۔ یہاں مقصد لڑنے سے بچنے کی تاکید کرنا ہے ، اس طرح کہ اسلحہ کی موجودگی کسی بھی مرحلے میں اسے لڑنے میں استعمال کرنے کا لالچ نہ دے۔ امام شوکانی کی نیل الاوطار کی بعض روایات میں ہے کہ : كسروا فيها قسيكم (ترمذی ۲۲۰۴، نیل الاوطار ۵ ّ ۳۹۲) ” اپنی کمانوں کو توڑ دو”۔
یہاں توڑنے کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں نہیں آیا بلکہ یہ استعارہ کے طور پر آیا ہے کہ اسلحہ کو اپنی دسترس سے دور رکھنا چاہیے یا اس کو وقتی طور پر بیکار کر دینا چاہیے کیونکہ کفار سے لڑنے کے لئے اسلحہ کو محفوظ رکھنا جائز ہے۔
دوئم: ایک مسلمان کا فتنے کی لڑائی کے دوران متصادم جماعتوں سے اپنے دفاع کا حکم شرعی جس دفاع کا وہ حقدار ہے، اگر وہ اس کے لئے سنجیدہ ہے۔
فتنے کی لڑائی کے دوران ہتھیار ڈالنے اور اپنے دفاع کو ترک کرنے کے حکم کے بارے میں کئی آرا ہیں:
۱۔ اپنا دفاع کرنا مکروہ ہے
۲۔ اپنا دفاع کرنا مباح ہے
۳۔ اپنے دفاع کو ترک کرنا مندوب ہے
۴۔ ہتھیار ڈالنا اور اپنے دفاع کو ترک کرنا فرض ہے
۵۔ اپنا دفاع کرنا فرض ہے
اس میں مضبوط رائے یہ ہے کہ فتنے کی جنگ کے دوران ہتھیار ڈال دینا اور اپنے دفاع کو ترک کرنا مباح کا حکم رکھتا ہے۔ یہ ترجیح اس فقہی قائدے پر مبنی ہے کہ )أن الأمر بعد النهي يدل على الإباحة( یعنی “حرمت کے بعد کا (اس فعل کو کرنے کا)حکم اباحت کی طرف اشارہ کرتا ہے”۔ اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارشاد میں یہ حرمت ہے کہ: وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (القرآن ۱۷:۳۳) ” اور کسی کو قتل نہ کرو جس کو (قتل کرنا) اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سوائے حق کے”۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد کہ: وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (النساء،۲۹) ” اور اپنے آپ کو قتل مت کرو”۔
یہ کسی شخص کا اپنے آپ کو قتل کرنے یا دوسروں کو اپنے آپ کو قتل کرنے دینے کی ممانعت اور دوسروں کو قتل کرنے کی ممانعت سے متعلق ہے۔ پھر شرعی نصوص میں لڑائی کو لازمی طور پر ترک کرنے کی طلب کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ کہا گیا کہ "كسروا فيها قسيكم” "اپنی کمانوں کو توڑ دو” (ترمذی) اور "قطعوا اتھارکم” "اپنی کمانوں کی تاروں کو کاٹ دو”(ترمذی) اور "اضربوا بسيوفكم الحجارة” "اپنی تلواریں پتھروں پر مار دو "(ابن ماجہ)اور” ثلق ثوبك على وجهك "” اپنا لباس اپنے چہرے پر ڈال دو "اور” كن كخير ابني آدم "” آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر والے بن جاؤ” (ابو داؤد)۔
یہ واضح کرتا ہے کہ ہتھیار ڈالنے اور کسی کے ظلم کے دوران اپنا دفاع کو ترک کرنے اور فتنہ کی لڑائی کے دوران اپنا دفاع ترک کرنے کا حکم مباح ہے ۔ تاہم یہ مطلقاً ہر صورتحال میں جائز نہیں ہے بلکہ یہ فتنے کی جنگ کی صورتحال تک ہی محدود ہے۔ اگر یہ ایسے فساد کی طرف لے جاتا ہے جو کہ اپنے دفاع کو ترک کرنے سے پیدا ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے تو اس معاملے میں اپنے دفاع کا حکم واجب کا ہے جس کی بنیاد عام شرعی قائدےجیسے لا ضرر ولا ضرار”نہ نقصان پہنچانا ہے نہ نقصان اٹھانا ہے” اور يختار أهون الشرين "دو برائیوں میں سے کم کو منتخب کرنا” ہیں۔ فتنے کی جنگ جہاد کے بالکل برعکس ہے۔ جہاد اللہ سبحانہ وتعالی کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے کفار سے لڑنا ہے یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہی غالب ہوجائے۔ جہاں تک فتنہ کی بات ہے ، یہ مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ لڑائی ہے ، اور جب تک فتنہ موجود رہتا ہے ، دین اللہ کے علاوہ کسی اور کا ہوتا ہے اور حاکمیت اس کے دشمنوں کی ہوتی ہے۔
مسلم علاقے جیسے یمن ، لیبیا ، عراق وغیرہ میں جاری جنگیں فتنے کی جنگیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں اطراف کے گروہ باطل پر ہیں اور ان کے مابین تنازعہ صرف اقتدار اورطاقت کی خاطر ہے۔ نہ تو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعہ حکمرانی کرنا اور نہ ہی کافروں کے ایجنڈے کو نافذ کرنا کسی بھی طرح جائز ہے۔ ایسی جنگیں حرام ہیں اور ہم پر واجب ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے اس کا پردہ فاش کریں ، مسلم دنیا میں مغربی ریاستوں کے مابین تصادم کی حقیقت کو آشکار کریں اور یہ واضح کریں کہ مسلمان اس تنازعے کا ایندھن ہیں جس کے فائدہ اٹھانے والے کافر اور ان کے ایجنٹ ہیں۔ یہ تنازعہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک نبوت کے طریقہ پر خلافت راشدہ کی واپسی نہیں ہوگی۔ اس فتنہ سے نکلنے کے لئے یہ واجب ہے کہ طاقت رکھنے والے لوگ اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ حکومت کرنے کے اس تنازعے کا حصہ بننے والی افواج کی مدد سے اورہم خیال انقلابی لوگوں کی مدد سے تبدیلی لا کر وہ اہلِ نصرۃ بن جائیں جو نبی ﷺ کے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ قائم کریں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (القرآن ۴۲:۱۳) "اسی نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے۔ الله جسے چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے”۔
مجلہ الوعی شمارہ352