عالمی سطح پر امتِ مسلمہ پر وقوع پزیر ہونے والے واقعات کے متعلق پاکستان کے مسلمانوں کا ردعمل اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں میں فکرِ اسلامی اپنے معیار…
بسم الله الرحمن الرحيم
عالمی سطح پر امتِ مسلمہ پر وقوع پزیر ہونے والے واقعات کے متعلق پاکستان کے مسلمانوں کا ردعمل اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں میں فکرِ اسلامی اپنے معیار، اہمیت اور جامعیت کے لحاظ سے بڑھتی جارہی ہے۔ عرب حکمرانوں کی جانب سے فلسطین پر قابض یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنے کے اعلانات پر پاکستان کے مسلمانوں کا ردعمل اس قدر پُرزور تھا کہ پاکستان کے حکمران کو مسلسل اس بات سے انکار کرنا پڑرہا ہے کہ وہ بھی اسی سمت میں پیش رفت کررہے ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ فلسطین کے متعلق صیہونی خواہشات کے خلاف عثمانی خلافت کا جواب امت میں بھر پور طریقے سے گردش کرتا رہا اور یہ موضوع بھی زیر گفتگو رہا کہ کہ اسلام مسلم سرزمین سے دستبردار ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔اسی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی یہی اظہار خیال کیا جارہا ہے اور یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ افواجِ پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کا آغاز کریں۔
رسول اللہﷺ کی ناموس پر ہونے والے حملے میں فرانسیسی حکومت کی سرپرستی کے خلاف بھی پاکستان کے مسلمانوں نے اپنا بھرپور ردعمل دیا۔ مظاہروں کے ساتھ ساتھ منظم طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا اور فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بات بھی دیکھی گئی کہ رسول اللہﷺ کی ناموس کے متعلق پہلی جنگ عظیم سے قبل کا واقعہ امت میں گردش کرتا رہا، جب برطانیہ اور فرانس کی طرف سے ایسے ہی حملے کے خلاف عثمانی خلافت نے بھرپور ردعمل دیا تھا۔لوگوں نے توہین رسالت کے مسئلے پر عثمانی خلافت کی جانب سے فوجی کارروائی کی دھمکی اور موجودہ حکمرانوں کے کمزور ردعمل کا موازنہ بھی کیا۔
جب یورپ میں اسلام کے خلاف جارحانہ طرزِ عمل اختیار کیا گیا، جس کی سربراہی فرانس کررہا ہے جبکہ برطانیہ اس کو آگے بڑھا رہا ہے، تو مسلمانوں نے وسیع پیمانے پر مغرب کی لبرل اقدار کی اور انسانیت کو اچھی زندگی فراہم کرنے میں ان اقدار کی ناکامی کی مذمت کی اور اسلامی قوانین کی حمایت کی جو ذاتی اور خاندانی زندگی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی و معاشرتی معاملات پر اسلام کے نقطۂ نظر کو اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خلافت کے خاتمے سے قبل،جس کے انہدام کواس رجب1442 ہجری میں سو سال ہوجائیں گے، اسلامی فکر زیادہ نمایاں نہیں تھی اور جو اسلامی فکر سامنے آتی بھی تھی تو وہ غیر مربوط ہوتی تھی۔
اسلامی فکر کی مکمل بحالی کا عمل ابھی جاری ہے لیکن جو بات خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ یہ صحیح راہ پر گامزن ہے۔ اسلامی امت میں دوبارہ نئی زندگی کی روح نہیں ڈالی جاسکتی جب تک وہ اسلامی فکر کو مکمل طور پر گلے نہ لگالے۔ اسلامی فکر کو مکمل طور پر گلے لگانے کا مطلب یہ ہے کہ امت ہر مسئلہ کو اسلام کے پیمانے کی نظر سے دیکھے اور اسی بنیاد سے اس کے حل کا مطالبہ بھی کرے۔ جیسے جیسے امت اسلام کی جانب پلٹ رہی ہے ویسے ویسے مسلم دنیا کے حکمران مسلمانوں کی شکایات، خواہشات اور ان کے مطالبات کے حوالے سے بیکار ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ حکمران مضبوطی کے ساتھ موجودہ ورلڈ آرڈر سے جڑے ہوئے ہیں جسےمغربی لبرل آئیڈیالوجی (نظریے)کی بنا پر تشکیل کیا گیا ہے۔ مغرب اور موجودہ اسلامی دنیا کے حکمران، دونوں، اس بڑھتی ہوئی خلیج کو نہ صرف محسوس کررہے ہیں بلکہ اس کے خطرے سے پریشان بھی ہیں، اور اسی لیے حکمران اس خلیج کو کم کرنے کی کوشش میں کہیں دیوانہ وارلوگوں سے التجائیں کررہے ہیں تو کہیں مسلمانوں پر ظلم وجبر کا رستہ اختیار کررہے ہیں اوراس کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔
اس وقت مسلم دنیا کی صورتحال غیر مستحکم ہے اور ا س کو اسی حالت میں آگے نہیں چلایا جاسکتا۔ مسلمانوں کو یا تو اپنے اس تصور سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اسلام ایک مکمل طرز زندگی ہے یا پھر حکمرانوں کو گھر جانا پڑے گا۔ اس وقت معاملات ایک موڑ پر آکر پھنس کر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں ، جس کی وجہ سے اہل قوت ، جس میں افواج اور انٹیلی جنس ادارے دونوں شامل ہیں، پر شدید دباؤہے۔ عملی طور پر ان اہل قوت کا حکمرانوں کے ناقابل قبول موقف کے ساتھ کھڑے رہنا ہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے تعطل ختم نہیں ہورہا، خصوصی طور پر پاکستان میں جہاں مسلمان افواج کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں، لیکن عمران خان کو اقتدار میں رکھنے کی وجہ سے افواج مسلمانوں کی تنقید کا سامنا کررہی ہیں۔
اس سال رجب 1442 ہجری کو خلافت کے خاتمے کو سو سال پورے ہونے جارہے ہیں اور پانی سر سے گزچکا ہے۔ یقیناً اُس فوج کو عظیم عزت حاصل ہو گی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کو بحال کرنے کے لیے سب سے پہلے نُصرۃ فراہم کرے گی۔ صرف اور صرف اسی صورت میں مسلمانوں کی اسلامی فکر اور حکمرانوں کی پالیسیوں اور ایکشنز کے درمیان ، اور شریعت کے قوانین اور آئین کے درمیان موجود تضاد ختم ہوگا اورپائیدار ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا گیا
مصعب عمیر – پاکستان