الجزیرہ کی 2 مارچ کی خبر کے مطابق مغربی چین میں مشرقی ترکستان سنکیانگ صوبے میں چینی افواج اکٹھا ہورہی ہیں…
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:
الجزیرہ کی 2 مارچ کی خبر کے مطابق مغربی چین میں مشرقی ترکستان سنکیانگ صوبے میں چینی افواج اکٹھا ہورہی ہیں اور رپورٹ کے مطابق: ” دودن قبل چینی حکام نے چین کے شمال مغربی علاقے میں واقع سنکیانگ صوبے کے ارمکی شہر میں تقریباً دس ہزار فوجیوں کو تعینات کیا ہے جہاں پر یوغر نسل کے مسلمان اکثریت میں بستے ہیں۔ یہ علاقہ مسلسل بڑھتے ہوئے تنازعے کا شکار ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے زبردست فوجی طاقت کا مظاہر ہ کیا اور درجنوں ٹینک اور اسلحہ سے لیس بکتر بند کاروں اور اوپر سے نگرانی کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹرکی پریڈ کی گئی۔ یہ اس خطے میں اپنی نوعیت کا نہایت بڑا طاقت کا مظاہر ہ تھاجو اس سے قبل بھی اسی سال دیگر علاقوں جیسے حوتن، کاشغر اور آکسو وغیرہ میں دیکھے گئے ہیں”۔ تو کیا چین اس خطےمیں مسلمانوں کے نئےسرے سے قتل عام کی تیاری کررہا ہے؟ شکریہ
جواب:
یوغر مسلمانوں کے متعلق خطے میں چینی مقاصدکی تفصیلات کو واضح طور پرجاننے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اس معاملے میں مسلم یوغری باشندوں اور چین کے درمیان جاری تنازعے کے پس منظر کو بھی مختصر طورپرجان لیں:
1- اس خطے میں مسلمانوں اور چین کے درمیان تصادم نیا نہیں ہے بالخصوص 1863کے بعد، مشرقی ترکستان جو مسلمان ممالک سے بعید مشرق میں واقع ہے۔اس خطے پر کئی بار چینیوں کی جانب سے قتل عام کے واقعات گزرچکے ہیں۔ 1949عیسوی میں ہوئی جھڑپوں کے دوران دس لاکھ سے زائد مسلم افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کمیونسٹ چین کے سربراہ ماؤ زے تنگ کے دور میں مشرقی ترکستان پر قبضہ کرکے اس خطے کی خود مختاری چھین لی گئی اور اس کا الحاق کرکے زبردستی جمہوریہ چین میں داخل کرلیا گیااور خطے کو مسلم آبادی سےخالی کرایاگیا اور انہیں چین کے مختلف اندرونی خطوں میں دھکیل دیا گیا۔
اس کے باوجود یوغر مسلمانوں کے حوصلے پست نہ ہوئے اور انہوں نے چین کےسامنے سرتسلیم خم نہ کیاجیسا کہ اس سے پہلے بھی ان کی مزاحمت 1933 اور 1944کے دوران انقلابات کی شکل میں ابھرکے سامنےآئی تھی اورچینی قبضے کے خلاف بغاوتوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے جیسا کہ 2009 سے یہ دوبارہ شروع ہے۔
2- چین کے حکام کی یوغر مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کی وجہ ان کا مذہب اسلام سے تعلق ہی ہے۔ چین اپنا سب سے زیادہ قہرمسجدوں پربرساتا ہے۔ چین نے تقریباً25 ہزار مسجدیں مسمار کرڈالی ہیں اور اس بڑے خطے میں صرف 500 مساجد ہی باقی بچی تھیں۔ آج چین نے اپنی معیشت میں کمیونزم کو نصف سے زائدحد تک ختم کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک مذہب کے نشان و رجحان کو اپنا شکار بناتا ہےبالخصوص نوجوان نسل میں، اور اس خطے میں چین کی یہی اصل پالیسی رہی ہے۔
3۔ چونکہ یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالامال ہےخاص طور پر اس علاقے میں تیل کی دریافت ہوئی ہے جس کو چین سنکیانگ یعنی نو آبادیات کہتا ہے اور چین نے اس علاقے کے یوغر باشندوں کو خطے سے صاف کرنا شروع کیا اور ان کو چین کے اندرونی دیہاتی علاقوں کی طرف دھکیلا گیا اور چین کے ہان نسل کےباشندوں کو لاکر یہاں بسایا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ اس خطے میں یوغر باشندوں کی تعداد 10 ملین ہے جوان کی کل آبادی کا صرف 40 فی صد ہےاور خطے کے جنوب میں اندرونی دیہی علاقوں میں مسلمانوں کا ارتکاز بڑھتا جارہا ہے۔ یہ خطہ بہت غریب ہے بالخصوص اس کےجنوبی علاقے اور دیہی علاقے جہاں ہان نسل کے چینی باشندوں کی تعداد کم یا بالکل بھی نہیں ہے۔
4۔ان سب کے باوجودمشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی جانفشانی جاری ہی رہی جس کی وجہ سےان کی زندگیوں میں اسلام کے شعائر و مظاہر دوبارہ ظاہر ہونا شروع ہوگئےخاص طور پر دیہی علاقوں میں اورخطے میں ہمیشہ بدامنی چھائی رہنے لگی اورچین سے الگ ہونے کی مستقل مطالبے کو لے کرریاست کے خلاف تشدد کی واقعات اور بمباری کی وجہ سے خطہ عدم استحکام کاشکاررہا ہےچنانچہ چین کا یہ خطہ ریاست میں اندرونی طور پر سب سے کمزور رہا ہے۔ اس خطے میں چین یوغرمسلمانوں کی زندگیوں اور ان کی تہذیب پر مسلسل تفصیلی نگرانی رکھتا ہےاورچین نے ان کے خلاف رات کے اندھیروں میں ہونے والی قتل اور گرفتاریوں کی جابرانہ کارروائیوں پر نگرانی کرنے سےمیڈیا پر پابندی لگائی ہوئی ہےاورچین وہاں سے فرار ہونے والےاورمظالم کے خلاف آوازاٹھانے والے یوغرمسلمانوں کا سراغ رکھتا ہے اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر وہ عالمی سیکوریٹی چینل کے ذریعے کئی افراد کو گرفتاربھی کرچکا ہےبالخصوص وسط ایشیاء کے ممالک اور پاکستان کے ذریعے۔
5۔اور اسلام چونکہ یوغر مسلمانوں کے دلوں میں بسا ہوا ہےتو اس بات نے چین کےظالموں کے دلوں میں خوف پیدا کررکھا ہے۔ چین نے اپنا یہ خوف ظاہر کیا جب چین کےمحکمہ مذہبی امور کےسربراہ اوراعلیٰ ترین افسروانگ زوان Wang Xuanنے قومی کانفرنس برائے چینی اسلامی لیگ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتہاء پسندی کی یہ آیڈیالوجی اندرونی علاقوں میں داخل ہورہی ہے اور چینی صدر زائی جن پنگ President Xi Jinpingنے چینی مسلمانوں کوغیرقانونی قرار دی گئی مذہبی دراندازی(مذہب کے بڑھتے اثرات) کے خلاف مزاحمت کرنے کی اپیل کی (Al Misry Al Youm, 29/11/2016 چین کے سرکاری اخبار چائنا ڈیلی کے حوالے سے)۔
اور چین کےخوف کی تصدیق روسی نیوز چینل رشیا ٹوڈے کی1/3/ 2017 کی اس رپورٹ سے ہوجاتی ہے: ” چین نے متعدد دفعہ خبردار کیا ہے کہ سنکیانگ اور دیگرعلاقوںمیں دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے باہر کی طاقتیں ملوث ہیں جس کی وجہ سے چینی حکام کو ان کے خلاف سخت چھاپے مارنے کی مہم چلانی پڑرہی ہے”۔
6۔مسلمانوں میں مساجد کی تعمیر حوالے سے جوجوش وخروش موجود ہے اس کی وجہ سے خطے میں دوبارہ ہزاروں مسجدیں قائم ہونے لگیں ہیں اور اسلامی افکار پنپ رہے ہیں۔ چین نےخطے میں اس تہذیبی انقلاب کو روکنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اس کے لئے اسلامی شعائر پر پابندی لگاتا ہےاور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ نئی مہم کی تیاری اور ارادہ رکھتا ہےاور یہ مہم اب تک اس طرح ظاہر ہوئی ہے۔
ا- پاسپورٹ کی ضبطی: بی بی سی کی 24/11/2016 کی رپورٹ کے تحت چینی حکام نے سنکیانگ خطے کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے پاسپورٹ پولیس کے پاس جمع کرائیں۔بی بی سی کےچین میں مقیم رپورٹرStefan McDonnellنے بتایا کہ پاسپورٹ جمع کروانے کا اعلان سرکاری طور پرپولیس کےذریع انٹرنیٹ پر کیا گیا اور یہ کہ سنکیانگ کےتمام شہری اب اپنا پاسپورٹ پولیس کو سونپ دیں اور پولیس ان کے پاسپورٹ اپنے قبضے میں رکھے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب خطے کے تمام شہریوں کو باہر سفر کرنے کے لئے حکام کو ایک درخواست دینی ہوگی ۔
ب- مسلمانوں کو ان کی عبادت میں ہراساں کرنا: فرانس 24 ایجنسی کی6/6/2016 کی رپورٹ کے مطابق: چینی حکام نے پیر کو ایک حکم جاری کیا تاکہ سنکیانگ کے مسلم خطے میں پبلک سیکٹر کے ملازمین اور طلباء کو رمضان کے دوران روزےرکھنے سے روکا جائےاورساتھ ہی ہوٹلوں کو کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ 2015 سے چینی حکومت نے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے۔ 24 نیوز ایجنسی نے 18/6/2015 کو رپورٹ کیا کہ چینی حکام نے سنکیانگ خطے میں شہریوں ، ملازمین، طلباء اوراستادوں کو رمضان کے روزے رکھنے سے منع کیا ہےاور یہ کہ رمضان کے دوران ہوٹلوں کوکھلا رکھا جائے اور Paul صوبے میں سرکاری حکام کو حکم نامہ بھیجا گیا کہ رمضان کے دوران وہ روزے اوردیگر مذہبی رسومات میں حصہ نہ لیں(ایک مقامی گورنمنٹ ویب سائیٹ پر جاری کردہ رپورٹ کے حوالے سے)۔
ج- اسلامی شعائر رکھنے والوں کا تعاقب اور گرفتاریاں: اس سرخی "چین مسلمانوں کے پیچھے "کے ساتھ۔۔داڑھی اور حجاب پہننے والوں سے متعلق خبر دینے والوں کو انعام کی منظوری سے متعلق الدیار نیوزپیپر کی چین کے مقامی اخبار کے حوالےسے 23/02/2017کی رپورٹ بتاتی ہے: چین نے ان لوگوں کے لئے ایک ہزار یوان YUAN (275 euros) کا انعام رکھا ہے جوچین کے شمال مغربی علاقے میں واقع سنکیانگ خطے میں داڑھی رکھنے والے جوان مرداورحجاب پہننے والی عورت کے متعلق خبر دیں اور چین کےہان اور یوغر مسلمانوں کے درمیان تنازع کی صورتحال بنی ہوئی ہے اور مقامی روزنامے حوتن ” Hotan”کے مطابق حوتن شہر جس میں حال ہی میں سیاسی بدامنی واقع ہوئی تھی اس کے حکام نے 100 ملین یوان (13.7 million euros) کا فنڈ مختص کیا ہے جو دہشت کردی کے خلاف لڑائی لڑنے کا انعام ہوگااورکسی حملے کا سراغ لگانے واے کو یہ انعام 5 ملین یوان تک دیا جائے گا یا وہ جوفسادیوں کو زخمی کریں یا قتل کریں یا قابو میں کریں ۔
7۔اوپر بیان کی گئی ان تمام باتوں سے بہت ممکن لگتا ہے کہ چین مشرقی ترکستان کے یوغر مسلمانوں کے خلاف جارحیتی مہم کی تیاری کررہا ہواور کسی بھی وقت اس پر عمل درآمد کیا جائے اورچین یہ بہانہ بناکر کہ خطے میں ریاست کےخلاف تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں ایک بڑی مہم چھیڑ دے۔ خطے میں ہزاروں فوجیوں اور اسلحہ بند گاڑیوں اورکاروں اور ہیلی کاپٹروغیرہ کو متحرک کرنے کے بعد سنکیانگ کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریڑی Chen Chuan Jo نے کہا کہ فوج کی تعیناتی خطے میں امن اور استحکام کی خاطر کی گئی ہےبالخصوص کئی وارداتوں کے بعدجو اس سال مختلف علاقوں میں ہوئی ہیں۔(Al Jazeera Net, 2/3/2017)
8۔یہ بات ہمارے لئے بڑی تکلیف دہ ہے کہ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی آنکھوں اور کانوں کے سامنے چینی ظالمانہ کارروائیاں یوغر مسلمانوں پر انجام دی جائیں اور وہ تمام ظلم کے خاتمے کے لئے کوئی دباؤ نہ ڈالیں اور ایسا اس لئے ہوا کیونکہ ان کو ایک کرنے والی ایسی ریاست کے بغیر کروڑوں مسلمان بکھرے پڑے ہیں جو امت کی ریاست ہوتی ہےاسلام کی ریاست ہوتی ہے۔ ایسی خلافت راشدہ نہیں ہےلہٰذا ہر ایک مسلمان پر، جو لائق ہو ، جدوجہد کے ذریعے اسے دوبارہ واپس قائم کرنا فرض ہےاورخلیفہ کا انتخاب اور مقرر کرنا فرض ہےجوذمہ داری کے ساتھ مسلمانوں کے امورکاانتظام کرے اوران کی حفاظت کرے اوراس کی پشت پر امت لڑےجیسا کہ بخاری کی حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ «وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ» "بے شک امام ڈھال ہے جس کے پیچھے لڑاجاتاہے اور تحفظ حاصل ہوتا ہے "۔ اس کے بعد چین یاچین کے علاوہ کوئی یہ ہمت نہیں کرسکے گا کہ مسلمانوں کو تکلیف بھی دے کیونکہ وہ جان لے گا کہ ان کے خلاف جارحیت کی گئی تو اس سے دوگنا زیادہ طاقت سے ان کی جارحیت کا جواب دیا جائے گا اور اللہ تمام طاقت کا مالک اور قادر ہے۔
دوسراسوال : حالیہ دنوں میں برصغیر پاک و ہند میں میزائل تجربوں کی کافی سرگرمیاں ہوئیں۔ اس سال یکم مارچ 2017کو بھارت نے فضاء میں میزائل کو مارگرانے کے system of interceptor missiles میزائل پروگرام کا تجربہ بحر بنگال میں اڑیسہ کے ساحل سے دور عبدالکریم جزیرے پر کیا ۔ پاکستان نے 2200 کلومیٹر تک مار کرنے والےابابیل میزائل نظام کا تجربہ کیا جو multiple warheads کئی ہتھیارایک ہی دفعہ میں اس پر رکھ کر لانچ کرسکتا ہے۔ کیا یہ میزائل تجربات بھارت و پاکستان کےدرمیان نئی ہتھیاروں کی دوڑ ہے؟ ان تجربات کےکیا علاقائی اثرات ہوں گے؟ جزاک اللہ خیر
جواب: بھارت اور پاکستان کے میزائل تجربات ، ایٹمی جنگ میں بقاء وغلبہ حاصل کرنےکی خاطرSecond Strike Capability یا دوسراحملہ کرنے کی قابلیت حاصل کرنے کی کوشش ہےاور اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو مختصراًجان لینا چاہیے۔
1۔ریاستیں ایٹمی ہتھیاردو وجوہات کی بناء پر حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں: پہلی وجہ ، یہ روایتی فوجی قابلیت اور برتری کو دوگنا کرنے کی خاطرہے ۔ مثال کے طورپر شمالی کوریا اس رجحان کی تصدیق کرتا ہےاور وہ ایٹمی ہتھیاروں کو ضروری سمجھتا ہے جنوبی کوریا کی روایتی فوجی قوت پر غالب آنے اور امریکہ کو طیش دلانے کے لئےجس کے ہزاروں فوجی جنوبی کوریا کے غیرفوجی علاقے Demilitarized Zoneمیں موجود ہیں۔ دوسری وجہ، یہ ایٹمی طاقتوں کا سامنا کرنے کی خاطرہے۔مثال کے طور پر جب سوویت یونین چین کوکوریا کی جنگ کے دوران ایٹمی تحفظNuclear Umbrella فراہم کرنے میں ناکام ہواتو چین ایٹمی ہتھیاروں کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھاجس کے نتیجے میں بھارت نے اپنےایٹمی پروگرام کو آگے بڑھایا اور نتیجتاً پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام کیا چنانچہ تینوں ریاستیں اب ایک دوسرے کے ساتھ ایٹمی برابری حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ کسی بھی ایٹمی حملے کے اندیشہ کو ختم کیا جاسکے۔(Waltz, K. (1981). The Spread of Nuclear Weapons: More May Be Better: Introduction. The Adelphi Papers, 21 (171), pp.383-425)
2۔البتہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کا رکھنا ہی ایٹمی دشمنوں کے ایٹمی حملے کےخطرے کو ہٹانے Nuclear deterrence کےلیے کافی نہیں ہے۔ ایٹمی حملے کےخطرے کو ہٹانے کے لئےضروری ہے کہ ریاستیں جو ایٹمی ہتھیار رکھتی ہیں وہ کسی بھی ممکنہ حملے کے خلاف اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت بھی کرسکیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کو لانچ کرنے کی قابلیت اور دشمن کی ایٹمی تنصیبات وہتھیاروں کو نشانہ بنانے کی قابلیت کو First Strike کہتے ہیں اور ایٹمی حملے کو برداشت کرنے اور جوابی ایٹمی حملہ کرنے کو Second Strike کہتے ہیں یعنی ایٹمی حملے First Strikeکے باوجوداپناوجود قائم رکھ پانا اور پھراس حملے سے ابھرنے کے ساتھ اتنی تعداد میں ایٹمی ہتھیاروں کا موجود ہوناتاکہ حملے پر غالب آسکیں اور اس کوایٹمی تثلیث Nuclear Trinity کہتے ہیں اور یہ تب قائم ہوتی ہے جب ریاست کے پاس آبدوزیں( سب میرینز) موجودہوتی ہیں جس کے ذریعے وہ ایٹمی حملہ کر سکتی ہے،کیونکہ آبدوز کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہےاور اس میں قابلیت ہوتی ہے کہ وہ جوابی کارروائی کے ذریعے دشمن کی فضائیہ کو ناکارہ بنادے۔
3۔ Nuclear deterrenceاچھے طریقے سےتب کام کرتی ہے جب دونوں طاقتوں کے پاس Second Strike Capability موجود ہوتی ہے۔اس سے دونوں کو نقصان کا اندیشہ رہتا ہےاور اس اندیشے سے ہی ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ کرنےFirst Strike سے باز رہتا ہےاور ایٹمی ماہرین جنگ اس کو Mututal Assured Destruction-MAD یعنی دونوں کی یقینی بربادی کہتے ہیں اس طرح روایتی ہتھیاروں کے بالمخالف ایٹمی ہتھیاروں کا کارآمد ہونا تب طے ہوتا ہے جب اس کے ذریعے سے دشمن کوایٹمی حملہ کرنے سے روکا جاسکے۔
4۔چونکہ بھارت پاکستان نے ایٹم بم تجربات 1998 میں کیے تھے چنانچہ ایٹمی سائنسدان، ماہرین جنگ اور سیاستدانوں نے اوپر بیان کی گئی ایٹمی حکمت عملی کے نظریے کو عملی طور نافذ کرنے کی کوشش کی اور دونوں فریق مانتے ہیں کہMutually Assured Destruction -MAD کے نظریہ کی بناء پر برصغیر میں امن قائم ہےاور یہی وجہ میزائل ٹیکنالوجی کی زبردست تیاری اور ایٹمی ہتھیاروں کو کم وزن اورکم حجم پر بنانے اور اس کے اطراف میں درکار دیگرانتظامOperations کی کوششوں کےپشت پر کارفرما ہے ۔ مزید ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ Nuclear Deterrence کے نقطہ نظرسے دونوں ممالک کےحالیہ میزائل تجربات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پچھلی دہائی کے دوران دونوں ممالک نے میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی حاصل کی ہے اور First Strike کی قابلیت حاصل کرلی ہے البتہ حالیہ سرگرمیاں Second Strike کی قابلیت حاصل کرنے کی کوشش ہے اور اس کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔
ا- آبدوز سے میزائل لانچنگ نظام Submarine-launched ballistic missile (SLBM): 9 جنوری 2017 کو پاکستان نے بحر ہند میں ایک نامعلوم مقام پر "بابر-3” میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ، جوپانی کے اندرسے450 کلومیڑ کے فاصلے پر موجود ہدف کا نشانہ بنانے کے لیے فائر کیا گیاتھااور اس کو سمندر میں کیا گیا تاکہ ظاہر نہ ہوسکے۔ پاکستانی فوج نے کہا کہ وہ "بابر-3” میزائل کا تجربہ کررہے تھے جس کی وجہ سے اسلام آباد کو Second Strike کی قابلیت ملتی ہے۔
https://www.wsws.org/en/articles/2017/02/28/inpk-f28.html
البتہ پاکستان کے پاس ایٹمی آبدوز نہیں ہے اوراس کو ڈیزل اور الیکٹرک سے چلنے والی آبدوز میں” بابر-3″ میزائل کولے کر چلنا پڑتا ہےجس کے پاس پانی میں لمبے عرصہ تک رہنے کی قابلیت نہیں ہے۔” بابر-3 "پاکستان کابھارت کے”k4 ” میزائل سسٹم کا جواب ہے جوہندوستان کےsubmarines-launched ballistic missile (SLBM) سسٹم سے لانچ کیا جاتا ہےاور اس کو مئی 2014 میں 3000 کلومیڑ کی حد تک ہدف کا نشانہ بنانے کے لیے لانچ کیا گیا تھااور یہ پاکستان اور چین میں مارکرسکتا ہے اور اس طرح بھارت اور پاکستان دونوں Second Strike کی قابلیت رکھتے ہیں۔
ب-Multiple independently targetable reentry vehicles (MIRV): بھارت نے دسمبر2016 اور جنوری 2017 میں دو میزائل تجربات کیے تھے ، جس میں پہلا’اگنی-5’تھاجو سطح سے سطح پر مار کرنے والا بلاسٹک میزائل ہےجو ایٹمی ہتھیاروں کی فوری مستعدی کے لئے ہے اوردوسرا ‘اگنی-5′ میزائل کثیر مقصدی ایٹمی ہتھیاروں کو5000 کلومیڑ دوری تک لے جانے والا بلاسٹک میزائل ہے۔ اس کے علاوہ جنوری 2017 میں دہلی نے’اگنی-4’ کا تجربہ کیا تھا جو 4000 کلومیڑ مار کرنے والا میزائل سسٹم ہے۔ ‘اگنی-5’ میزائل سسٹم چین کےاندرموجود ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس سال پاکستان نے ابابیل میزائل سسٹم کاتجربہ کیا جو ایک multiple independently targetable reentry vehicles MIRV سسٹم ہے اور پاکستانی آرمی کے جاری کردہ بیان کے مطابق : "ابابیل کو ٹیسٹ کرنے کا پہلاآپریشن کامیاب ہوا جو 2400 کلومیڑ کی حد تک سطح سے سطح پر مار کرنے والا بلاسٹک میزائل سسٹم ہے جو MIRV ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک ساتھ کئی ہتھیاروں کو لے جاسکتا ہےاور دشمن کے ایک ساتھ کئی مقامات کو تفصیلی طورپر نشانہ بنا سکتا ہےاور دشمن کے ریڈار کو ڈھیر کرسکتا ہے: https://www.dawn.com/news/1310630
پاکستان نےابابیل میزائل اس طرح ڈیزائین کیا ہے جو بھارت کے بلاسٹک میزائل ایٹمی شیلڈ یعنی میزائل سے بچنے کے چھتری کے نظام پر حاوی آجائے۔
بھارت نہایت تیزی سے Interceptor Missiles جیسے کہ’ایشون’ کی تیاری میں ہےتاکہ پاکستان کے ممکنہ ایٹمی میزائل کو فضاء میں مارگرائے، البتہ MIRV ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک ایٹمی میزائل کئی میزائلوں میں تبدیل ہوجاتا ہےجو Missile Interceptor System کو ناکارہ کردیتا ہے۔
5۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ Second Strike کے استعمال کے قابل ہونے کے لئے ہےجو بھارت کے دشمن یعنی چین کے ساتھ ایٹمی توازن کو ختم کردے گا جبکہ چین اس وقت ایٹمی Deterrence پر بہت کم توجہ دے رہا ہےاور بھارت کے تیزرفتاری سے MIRV ٹیکنالوجی اور ایٹمی آبدوزکی تیاری نے بھارتی سربراہوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں اور بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ اب بھارت دونوں محاذوں یعنی چین اور پاکستان سے ایک ساتھ لڑ سکتا ہے۔
http://www.ibtimes.co.uk/india-prepared-two-front-war-pakistan-china-says-new-army-chief-1599031
بھارت کے’اگنی-5’کے تجربے نے چین کو طیش دلایا ہےاور چینی وزارت خارجہ کےترجمان Chunying نے کہا ہےکہ :”اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا قانون واضح ہے کہ کیا بھارت ایٹمی ہتھیاروں کو لے جانے کی قابلیت رکھنے والے بلاسٹک میزائلوں کی تیاری کرسکتا ہے یا نہیں” اور چینی وزارت خارجہ نے مزید بیان دیا کہ’اگنی-5′ کی تیاری کےذریعے بھارت چین کے مقابل آنے کی تمنا کررہاہے۔
6۔ بھارت، اشتعال انگیزی کی یہ پالیسی امریکی حمایت کے بغیر نہیں اختیار کرسکتا ہےجو2005 میں قرار پائے 123 معاہدے کے تحت ، سویلین ایٹمی ری ایکٹر کی غرض سے ایٹمی ایندھن کی بلاروک ٹوک فراہمی کے ذریعے تعاون ہے جس کے ذریعے بھارتی ایٹمی پروگرام میں ایٹمی ایندھن استعمال کیا جارہا ہےاور ٹرمپ انتظامیہ نےواضح اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پچھلی امریکی انتظامیہ کےمنصوبوں کے مطابق ہی آگے بڑھے گا۔ مزید 8فروری 2017 کو امریکی سیکریٹری دفاع جنرل جیمس میٹس James Mattis نے بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے ساتھ فون پر ہونےوالی گفتگو کے دوران بھارت کی پچھلے سال کی دفاعی پیش رفت کے متعلق تعریف کی اور دفاع کے میدان میں دونوں ملک کے درمیان جاری تعاون و اشتراک پر زور دیا اور کہا کہ نئی انتظامیہ پوری طرح متوجہ ہے تاکہ اس پر مزید تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے۔
https://www.wsws.org/en/articles/2017/02/15/inus-f15.html
امید ہے کہ امریکہ برصغیر میں جاری اس ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو استعمال کرے گا تاکہ چین کو بھی اس دوڑمیں الجھائے اورچین کی توجہ کو معاشی سرگرمیوں سے ہٹاکر فوجی سرگرمیوں کی طرف لےجائےتاکہ چین کومنہدم کیا جاسکے جس طرح امریکہ نےسوویت یونین کو تبا ہ کیا تھا۔ اس وقت تک چین ایٹمی دفاع یا Nuclear Deterrence پر کم سے کم توجہ کے ساتھ کام کررہا ہےاور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے سے انکار کررہا ہے۔
12 جمادی الثانی 1438 ہجری
11 مارچ 2017