‘اسلام کا معاشی نظام’ کتاب میں زمین کے موضوع کے مطالعے اور اس سے متعلق دلائل جاننے کے بعد یہ بات مجھے واضح ہوئی کہ زمین عشری یا خراجی ہی ہوسکتی ہے…
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ,
یہ زمین کے متعلق سوال ہے جو درج ذیل ہے:
‘اسلام کا معاشی نظام’ کتاب میں زمین کے موضوع کے مطالعے اور اس سے متعلق دلائل جاننے کے بعد یہ بات مجھے واضح ہوئی کہ زمین عشری یا خراجی ہی ہوسکتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ خراجی زمین کا اصل ہمیشہ ریاست کا ہوتا ہے جبکہ اس سے ہونے والے فوائد فرد کو ملتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی اس میں کافی دلائل موجود تھے۔ سوال صفحہ نمبر 136پر مزکور بنجر زمین کا احیاء کرنے سے متعلق ہے جس کے متن میں یہ درج ہے۔۔”جو کوئی خراجی علاقے کی بنجر زمین پر کاشت کرتا ہےجہاں پر اس سے پہلے کوئی خراج عائد نہیں تھا اگر وہ مسلمان ہے تو وہ زمین اور اس زمین کے رقبےاور اس کے فوائد کو اپنے تسلط میں رکھ سکتا ہےاور اگر وہ غیر مسلم ہے تو صرف اس کے فوائد پر ہی اس کا تسلط ہوگا”۔ تو جو خراجی زمین کی اصل کے تسلط کے ضمن میں پہلے بیان ہو چکا ہے اوراب اس پیراگراف میں بیان ہوا ہے اس سے میں کیسے مطابقت قائم کروں؟ اور خاص طور سے جب آخری پیراگراف میں کوئی دلائل موجود نہیں ہیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
ابو تقی ال مقداسی کی جانب سے
ختم شدہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،
زرعی اور بنجر زمینوں کے متعلق علیحدہ احکامات ہیں جو کہ شرعی دلائل کی بنیاد پر ان کے ضوابت کو قائم کرتے ہیں۔ ہم ان کی وضاحت درج ذیل طریقے سے کریں گے:
اوّلاً: زرعی زمین کے دلائل جو یہ ہیں :
1: مسلم نے حضرت جابر سے روائت کی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، فِيمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ، وَالْغَيْمُ الْعُشُورُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ ” ندی یا بارش سے سینچی زمین پر عشر(دسواں) عائد ہوگا اور پانی کے پہیے کےذریعہ کرنے پر نصف عشر عائد ہوگا”(یہی حدیث کچھ اس طرح بیان بھی ہوئی ہے”ندی یا بارش سے سیراب کی گئی زمین پر عشر (دسواں)اور جانوروں کے ذریعے سیراب کی گئی پر بیسواں حصہ لاگو ہوگا) ۔ یہ متن عام ہے اور یہ ساری زرعی کاشت کی عشری زمینوں پر عائد ہوتا ہےجب تک کہ اس عام کو خاص کرنے کا کوئی متن موجود نہ ہو۔
2: فتوحات کے بعد مفتوحہ زمینوں کے متعلق مسئلہ پیش آیاجو کہ اس عام متن سے باہر تھا اور ان کے لئے خراج عائد کیا گیا۔ ابو عبید فرماتے ہیں کہ،حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَبِلَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَيْنِ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ قَبِلَ إِسْلَامَهُ، وَأَحْرَزَ إِسْلَامُهُ نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا الْأَرْضَ، فَإِنَّهَا فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ، مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ لَمْ يُسْلِمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ فِي مَنَعَةٍ” یزید بن ہارون نے ابو ذب اور انہوں نے اظّہری سے بتایا کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ نے بحرین کے مجوس سے جزیہ وصول کیا۔ اظّہری نے کہا’جس نے بھی ان میں سے اسلام قبول کیا ان کا اسلام قبول کر لیا گیا اور اسلام کی قبولیت نے ان کی جان اور مال کے تحفظ کو قائم کر دیا سوائے ان کی زمین کے۔ اس لئے کہ یہ زمین مسلمانوں کے لئے فئے ہے کیوں کہ انہوں نے شروعات میں اسلام قبول نہیں کیا جب وہ امن میں تھے”۔سواد(عراق) کی انہیں زمینوں کے متعلق حضرت عمر نے یہی فیصلہ کیا جب انہوں نے کہا”لوگوں کی زمینوں کو ان کو لوٹا کر اس پر خراج لگانا ہی مجھے زیادہ درست معلوم ہوا۔۔”
عام کے حکم کا اطلاق اس کی عمومیت پر ہوتا ہے۔”دارالاسلام کی ہر زرعی عشری زمین پر زکوۃ عائد ہے۔” احکام شرعیہ کے مطابق یہ اس عام متن کےباہر نہیں ہوگا جب تک کہ ‘خراجی زمین ‘کے متعلق کوئی دوسرا شرعی متن اس کو خاص نہ کرے۔ یعنی دارالاسلام کی ہرزرعی زمین عشری ہے جب تک کہ کو ئی خاص دلیل اس خاص زمین کے بارے میں اشارہ نہ کرے۔یہ ہماری کتب میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
دوئم: بنجر زمین سے متعلق مندرجہ ذیل دلائل شامل ہیں۔
1 : البخاری حضرت عائشہ سے روائت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، مَنْ أَعْمَرَ أَرْضًا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ فَهُوَ أَحَقُّ "جو کوئی ایسی زمین کی کاشت کرتا ہے جو کسی کی نہیں ہے تو اس پر اس کا حق ہے”۔
ترمزی میں ایک حدیث درج ہے جو حضرت سعید بن زید سے مروی ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ "جو کوئی بنجر زمین کا احیاء کرتا ہے تو وہ اس کی ہے”۔ یہ حدیث ابو داؤد میں بھی درج ہے۔
جو کوئی زمین کااحیاء کرے وہ اس کی ہے اور یہ متن عام ہیں۔اگر وہ عشری زمین کا احیاء کرتا ہے تو وہ اس کا مالک ہے اور اگر وہ مسلمان ہے تو وہ عشری ہی رہے گی جس پر زکو ۃ واجب ہوگی۔ اور اگر اہل ذمّہ نے اس کا احیاء کیا ہے تو اس پر خراج عائد ہوگا یہ اس لئے کیونکہ کافر پر زکوۃ عائد نہیں ہوتی مگر زرعی زمین ہونے کے ناطے وہ غیر محصول نہیں رہ سکتی۔ زکوۃ یا خراج اس پر ضرور عائد ہوگا۔
اگر خراجی زمین کا احیاء ہوا ہے تو زمین خراجی ہوگی، چاہے اس کا احیاء کرنے والا مسلمان ہو یا اہل ذمہ کا کافر۔۔۔یہی ‘الخراج ‘ کے مصنّف ابویوسف کا قول ہے جب انہوں نے کہا”الحسن ابن عمارہ نے اظہری سے اور انہوں نے سعید بن مصیب سے روائت کی کہ حضرت عمر نے فرمایا” جو کوئی بنجر زمین کا احیاء کرتا ہے وہ اس کی ہے، اور جو کوئی اس پر باڑ لگا لیتا ہے اس کا اس پر تین سال کے بعد کوئی حق نہیں”۔ ابو یوسف فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُس بنجر زمین سے متعلق ہے جس پر کسی کا مالکانہ حق نہ ہو۔ تو جو کوئی اس کااحیاء کرے وہ اس کی ہو جاتی ہے اور وہ اس پر کاشت کر سکتا ہے، کرائے پر دےسکتا ہے،اس سے نہر کھود سکتا ہے اور اپنے مصالح کے مطابق اس پر کچھ بھی تعمیر کر سکتا ہے۔ اگر وہ عشری زمین تھی تو وہ اس پر عشر(زکوۃ ) دے گا اور اگر وہ خراجی زمین تھی تو وہ اس پر خراج دے گا۔
نتیجتاً اگر ایک مسلمان عشری علاقے میں ایک زمین کا احیاء کرتا ہے تو وہ عشری ہوگی اور وہ اس کے رقبے اور اس کے فوائد کا مالک ہوگا؛ اور وہ اس کی پیداوار کا دسواں یا اس کا نصف اس کی زکوۃ دے گا۔ اور اگر اہل ذّمہ کے کسی فرد نے اس کا احیاء کیا ہے تو اسی طرح وہ بھی اس کے رقبے اور اس کے فائدے کا مالک ہے اور وہ اس پر خراج دے گا کیوں کہ اس پر زکوۃ عائد نہیں ہوتی۔ یہ اسلام کا معاشی نظام کتاب کی اس ضمن میں تشریح ہے۔”جو کوئی عشری بنجر زمین کا احیاء کرتا ہے تو وہ اس کے رقبے اور اس کے فوائد کا مالک ہےچاہیں وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان۔ اس زمین پر مسلم زمین دار پر اس کی کھیتی اور پھلوں پر زکوۃ عائد ہوگی اگر وہ نصاب تک پہنچتی ہے۔ جبکہ غیر مسلم خراج دے گا نہ کہ عشر کیونکہ وہ اہل زکوۃ میں سے نہیں ہے اور زمین کو بغیر عشر یا خراج لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اور اگر وہ خراجی زمین کا احیاء یا کاشت کرتا ہے تو وہ اس کی ہےاور زمین خراجی رہے گی یعنی زمین کے فوائد کا تو وہ مالک ہے لیکن اس کے رقبے کا نہیں۔اس پر خراج عائد ہوگا اور اگر اس کی کاشت مسلمان نے کی ہے تو اس کی پیداوار پر زکوۃ لگے۔لیکن اگر اس کی کاشت اہل ذّمہ (کافر) نے کی ہے تو اس پر خراج ہی لگے گا-یہ اسلام کا معاشی نظام کتاب کی اس سے متعلق تشریح ہے:”جو کو ئی خراجی علاقے کی بنجر زمین کی کاشت کرتا ہے جہاں پر اس کے بنجر ہونے سے پہلے اس پر خراج لگ چکا ہے تو وہ صرف اس کے فائدے کا مالک ہے رقبے کا نہیں چاہے زمیں دار مسلمان ہو یا غیر مسلمان۔ایسے زمیں دار پر خراج دینا واجب ہے کیونکہ وہ مفتوحہ زمین ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ خراج رہے گا چاہے وہ مسلمان کی ملکیت میں ہو یا غیر مسلم کی۔
2: عشری اور خراجی زمین کا احیاء کرکے اس پر ملکیت قائم کرنا اس عمومی متن سے باہر نہیں ہے۔ اس طرح عشری کا حکم عشری کے ضمن میں ہے اور خراجی کا خراجی کے تعلق سے ہے جب تک کہ کوئی مخصوص حکم مخصوص معاملے میں اس کے خلاف نہ ہو۔ خراجی علاقے کی بنجرزمین کی کاشت کا تجزیہ کرنے پر یہ معاملہ منکشف ہوتا ہے جوکہ یہاں کے ایک معاملے کے متعلق متن میں مزکور ہے کہ زمین ایک مسلمان کے احیاء (کاشت)کرنے پر عشری بن جاتی ہے۔ یہ اس حالت میں ہے جب بنجر زمین خراجی علاقے میں ہو اور اس پر پہلے کوئی خراج عائد نہ کیا گیاہو۔جو متن اس معاملے میں نشاندہی کرتے ہیں وہ ذیل ہیں۔
ا : جب مسلمانوں نے عراق کی زمین فتح کی تو عمرنے زرعی زمین پر خراج لگایا۔عراق میں بنجر زمین بھی تھی مگر عمر نے اس پر خراج نہیں لگایاجس میں وہ زمین بھی شامل تھی جس پر بصرہ اور اس کے گرد ہ نواح کو قائم کیا گیا۔ جب مسلمانوں نے اس زمین کا احیاء کیا تو اجماع صحابہ سے وہ زمین عشری بن گئ۔اس طرح سے وہ بنجر خراجی زمین جس پر پہلے سے خراج نہیں لگا اس عمومی حکم سے استثنا ہے اور اس کا ایک مسلمان کے ذریعہ کاشت یا احیاء اس کو عشری بناتاہے جبکہ وہ طاقت سے فتح کیے ہوئے خراجی علاقے میں ہو۔ یہ ایک سے زیادہ نصوس میں مذکورہے جس کا ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔
-العنایہ فی شرح الہدایہ میں بنجر زمین کی احیاء(کاشت) کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث کے ضمن میں یوں درج ہے:” جو کوئی بنجر زمین کا احیاء کرے تو ابو یوسف کے مطابق اس کو اس کے دائرہ عمل کی مناسبت سے دیکھا جائےگا۔ اگر اس کا دائرہ عمل خراجی تھاتو وہ خراجی ہوگی اور اگر اس کا دائرہ عمل عشری تھا تو وہ عشری ہوگی۔ بصرہ کے متعلق خراجی کا قیاس ابو یوسف – شاگرد ا مام ابو حنیفہ – کا تھا کیوں کہ اس کا دائرہ عمل خراجی سے نزدیک تھا جس پر عمرنے خراج عائد کیا حالا نکہ وہ زمین قیاس کے خلاف مسلمانوں کے کاشت(احیاء) کرنے کے بعد عشری بن گئی۔ اس کی بنیاد اجماع صحابہ ہے۔ العنایہ فی شرح الہدایہ کے مصنف نے لکھا ہےکہ”بصرہ کی زمین کے متعلق یہ قیاس تھا کہ وہ خراجی ہونی چاہیے کیونکہ اس کا دائرہ عمل خراجی کے نزدیک ہے،جبکہ صحابہ نے اس پر عشر عائد کیا اس لئےان کے اجماع پر قیاس کو چھوڑ دیا گیا۔
-اسی کے مثل دارالمختار و حاشیہ میں ابن عابدین کا قول ملتا ہے”ابو یوسف کے مطابق بصرہ کی زمین قیاس کی بنا پر خراجی ہے کیونکہ اس کا دائرہ عمل خراج کے نزدیک ہے مگر قیاس کو اجماع صحابہ کی بنیاد پر رد کر دیا گیا”۔
ان سب سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ بصرہ کی بنجر زمین پر شروع میں خراج عائد نہیں تھامگر مسلمانوں کے ذریعے اس کی کاشت اور احیاء کرنے سے وہ عشری بن گئی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بنجر زمین جس پر خراجی علاقے میں ہونے پر خراج عائد نہ ہو وہ مسلمانوں کے کاشت و احیاء کرنے سے عشری بن جاتی ہے۔ اگر اس کو کوئی غیر مسلم کاشت کرےتو متن حدیث کی عمومیت کی بنا پر وہ خراجی ہی رہے گی۔ ‘ اسلام کا معاشی نظام ‘ کتاب کے مطابق تشریح یہ ہے: "جو کوئی خراجی علاقے کی بنجر زمین پر کاشت کرتا ہےجہاں پر اس سے پہلے کوئی خراج عائد نہیں تھا اگر وہ مسلمان ہے تو وہ زمین اور اس زمین کے رقبےاور اس کے فوائد کو اپنے تسلط میں رکھتا ہے اور اگر وہ غیر مسلم ہے تو صرف اس کے فوائد پر ہی اس کا تسلط ہوگا۔ مسلمان زمین دار کو اس پر عشر دینا ہوگا اور اس پر کوئی خراج نہیں ہوگا جبکہ غیر مسلم مالک کو خراج دینا ہوگا جیسے کہ فتح کے وقت وہاں کے کفّار پر خراج عائد تھا۔
اس طر ح سے آپ کو آپ کے سوال کا جواب ہی نہ ملا بلکہ بنجر زمین کی کاشت سے متعلق ساری فروعات کی وضاحت بھی ہوگئی۔ اللہ آپ کا محافظ رہے۔
آپ کا بھائ
عطا بن خلیل ابو الرشتہ
2 محرم 1438ہجری
3 اکتوبر2016
ختم شد