چار سال اور 9 مہینے پہلے 11مئی 2012،بروز جمعہ میرے شوہر نوید بٹ کو ہمارے تین معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے دن دیہاڑے سیکورٹی اہلکاروں نے اغوا کرلیا ۔وہ دن اور آج…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: مسز نوید بٹ
چار سال اور 9 مہینے پہلے 11مئی 2012،بروز جمعہ میرے شوہر نوید بٹ کو ہمارے تین معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے دن دیہاڑے سیکورٹی اہلکاروں نے اغوا کرلیا ۔وہ دن اور آج کا دن، ہمیں ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔نوید بٹ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی پُر امن جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے اس پیارے وطن پاکستان میں مکمل اسلامی نظام یعنی نبی ﷺ کے طریقہ پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کا مطالبہ کرنا تھا۔ان کی دعوت زبانی اور تحریری طور پر تھی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی مکہ میں اسلام کی دعوت محض فکری اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے دی جس کے نتیجے میں مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی اور ہجرت ِ مدینہ رونما ہوئی۔ مکہ میں آپؐ اور آپؐ کے اصحابِ مبارکہ رضی اللہ عنہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ حتیٰ کہ ایک بار حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور کچھ دیگرصحابہ رضی اللہ عنہم نے آپﷺ سے درخواست کی کہ انہیں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جائے؛انہوں نے کہا:”اے اللہ کے رسولؐ! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل وحقیر ہو گئے”۔ لیکن آپؐ نے منع فرما دیا اور فرمایا: "إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ، فَلا تُقَاتِلُوا” ” مجھے عفو ودرگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے) لڑائی نہ کرو”۔( مروی ابنِ ابی حاتم،النسائی، الحاکم) یہی وجہ ہے کہ نوید نے آپؐ کی سنتِ مبارکہ کی پیروی کرتے ہوئے موجودہ نظام کے خلاف محض فکری اور سیاسی جدودجہد کا بیڑہ اٹھایا اور ہتھیار کے استعمال سے اجتناب کیا کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے ۔
میرے شوہر نےامریکہ کی یونیورسٹی آف اِلینوئے، شکاگو سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ شکاگو میں ہی ایک معروف کمپنی کے ساتھ منسلک رہے۔لیکن ان کے ذہن میں ہمہ وقت مسلمانوں اور اپنے وطن کے تحفظ کی امنگ رہتی تھی۔
انہیں اپنے وطن پاکستان کی تاریخ سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ 1947 میں بننے والے اس ملک کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی، اور یہ جانیں انہوں نے صرف اس لئے قربان کیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ یہاں مدینہ کی طرز پر اسلامی ریاست قائم ہو۔یہی وجہ ہے کہ اپنی ماؤں، بہنوں کی عصمتیں لٹا کر اور اپنے بچوں کی جانیں گنوا کر بھی جب کٹے پھٹے جسموں کے ساتھ وہ ہجرت کر کے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے تھے تو فرطِ عقیدت سے سجدے میں گر جاتے تھے اور اس مٹی کو چوم لیتے تھے۔ اس تاریخی حقیقت کے علاوہ، نوید اس بات پر بھی یقینِ محکم رکھتے تھے کہ پاکستان کو اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے اُن تمام وسائل سے نوازا ہے جن کے درست استعمال سے پاکستان حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ اور مسلمانوں کی محافظ ریاست بن سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میرے شوہر نے اپنی امریکہ کی پُرتعیش اور آرام دہ زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان میں خلافت کے قیام کے لئے اپنا دن رات ایک کر دیا۔ ان کا آئیڈیل رسول ِپاکﷺ کی ذاتِ مبارکہ تھی۔ اور انہی کی اتباع میں نوید بٹ نے تحریروں اور تقاریر کے ذریعےعوام اور خواص کو اسلام کے مکمل نفاذ کے لئے قائل کرنے کی مہم شروع کی۔ وہ ایک عالمی اسلامی سیاسی تنظیم حزب التحریر کےترجمان کی حیثیت سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، کالم نگاروں، صحافیوں اور ٹیلی ویژن کے اینکروں سے ملتے تھے اور ان سے پاکستان میں اسلام کے مکمل، جامع اور یکمشت نفاذ کے معاملے پر گفتگو کرتے تھے۔انہوں نے بے شمار پریس ریلیزز جاری کیں، جن میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں اور ظلم کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی غداری، سازشوں اور کفار کے ساتھ ان کی ملی بھگت کو بھی بے نقاب کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے رسول اللہ ﷺ نے قریشِ مکہ کے نظام اور لیڈروں کے ظلم کا پردہ فاش کیا تھا۔ اسی وجہ سے مشرف نے 2003 میں اپنےامریکی آقاؤں کے حکم پر حزب التحریر پر پابندی عائد کردی۔ اور یہ بھی بعینہ اسی طرح جیسے قریش نے آپؐ کا مقاطعہ کیا تھا اور مسلمانوں سے ہر قسم کا تعلق قطع کردیا تھا۔
میرے شوہر نوید بٹ ایک نہایت نرم دل اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ وہ اپنے پورے خاندان کے چہیتے ہیں۔ ان کی بہنیں اور بھائی ان کی جدائی میں غم سے نڈھال ہیں۔ ہمارے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا ان کے اغوا کے وقت صرف دو سال کا تھا۔ آج وہ اپنے ابو کے بارے میں سوال کرتا ہے تو میں اسے کہتی ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں قید ہیں۔ اور اللہ ہی ان کو رہا کرائے گا۔ میری بیٹی اپنے والد کو ہر وقت یاد کرتی ہے اور دعائیں مانگتی ہے کہ وہ جلد رہا ہو جائیں۔نوید تمام امت اور پاکستان کے مسلمانوں کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کے باعث میں نے انہیں راتوں کو جاگتے دیکھا ہے۔ ان کی بے چینی میں اس وقت اضافہ ہو جاتا تھا جب وہ مسلمانوں کا بے دریغ بہتا ہو ا لہواور ہمارے حکمرانوں کی اس ظلم پر مجرمانہ خاموشی دیکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کلمہءِ حق بلند کرنے سے باز نہ آئے۔ اور یہی حکمرانوں کی نظر میں ان کا جرم بن گیا۔ ان کی جگہ کوئی اور دنیا دار شخص ہوتا تو کب کا یہ مشن چھوڑ کر محض کسبِ معاش میں الجھ گیا ہوتا۔ مگر انہوں نے تو اسلام کی دعوت کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
آج اسی "جرم” کی پاداش میں وہ لاپتہ ہیں۔ ان کے اغوا کو چار سال اور 9 مہینے ہو گئے ہیں۔اور صرف وہی نہیں ، اب تو ایک لمبی فہرست ہے اُن بے گناہ مخلص مسلمانوں کی جو اس پاک سرزمین پر اللہ پاک بزرگ و برتر کے پاک نظام کو نافذ کرنے کی خواہش رکھنے کے جرم میں پابندِ سلاسل ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر نوید بٹ نے کوئی جرم کیا تھا تو ان پر کوئی مقدمہ چلا کر سزا کیوں نہ دی گئی؟ آخر اُن کا اور اُن کے خاندان کا جرم ہے کیا ؟ آج ملک کو سستے داموں بیچنے والے ،دشمنوں سے چوری چھپےاور کھلے عام دوستیاں کرنے والے، کرپشن کے ریکارڈ توڑنے والے اور پانامہ لیکس کے ملزمان دیدہ دلیری سے دندناتے پھرتے ہیں، جو عوام کی خون پسینے کی کمائی گزشتہ ستر سالوں سے لُوٹ رہے ہیں، اور اسی وقت میں میرے شوہر کو محض حق کی آواز بلند کرنے پر غائب کر دینا ظلم کی انتہا نہیں؟ وہ بلاشبہ ضمیر کے قیدی ہیں۔
میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں ، وکلاء اور سیاستدانوں سےمخاطب ہوں ۔ آپ میں سے اکثریت نوید کی اس فکری اور سیاسی جدوجہد سے باخبر ہیں۔ وہ بحیثیت ترجمان حزب التحریر آپ لوگوں سے ملتے رہتےتھے۔ انہوں نے نہ صرف آپ کو متعدد خطوط لکھے بلکہ خود آپ کو حزب التحریر کی کتابیں اور تحریری مواد فراہم کیا۔ نوید کا اس سب میں کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا اور نہ اس کے بدلے انہیں آپ سے کچھ چاہئے تھا۔ وہ اس پر خار راستے پر کسی مالی یا دنیاوی فائدے کے لیے نہیں چل رہے تھے۔ان کی خواہش محض یہ تھی کہ آپ قیامِ خلافت کی اس جدوجہد میں شامل ہو جائیں جو آپ سب پر بھی فرض ہے۔میں آپ سے کہتی ہوں کہ آپ اس خوف سے باہر نکلیں اور حزب التحریر کے نام اور کام پر کھل کر مباحثہ کریں۔ اور اس کے ممبران بشمول میرے شوہر نوید بٹ کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کریں۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بہادری سے نہ تو ہماری زندگی کے دن اور نہ ہی ہمارا رزق کم ہو گا بالکل ویسے ہی جیسے بزدل کی بزدلی سے اس کی زندگی کے دن اور رزق طویل نہیں ہوجاتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ، أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ "حق بات کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کا خوف مت کرو کیونکہ حق بات بیان کرنے سے نہ تو تمہاری زندگی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی رزق میں کوئی نقصان ہوگا "(احمد)۔
میں آپ سب سے سوال کرتی ہوں کہ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہء حق بلند کرنا آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ درحقیقت آپ سب کی ذمہ داری نہیں جو حزب بھی ادا کر رہی ہے؟ اگر آپ اسی طرح حزب التحریر کے نام کا ذکر کرنے سے بھی خوف کھاتے رہیں گے؛جبکہ اس کی دنیا بھر میں خلافت کے قیام کے لئے قربانیوں کا ذکر تو دور کی بات ہے؛ تو نہ تو آپ کی ذاتی زندگیوں میں کوئی بہتری آئے گی اور نہ ہی ملکی یا عالمی سطح پر حالات بہتر ہو سکیں گے۔ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا آپ پر فرض ہے ورنہ آپ اس وقت کیا جواب دیں گے جب جلد قائم ہونے والی خلافت آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی؟ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ قیامت کے روز خود کواللہ کے غضب سے بچانے کے لئے کیا عُذر پیش کر یں گے؟
اور اہلِ اقتدار اور اہلِ طاقت سے میرا مطالبہ ہے کہ میرے شوہر نوید بٹ کو فی الفور رہا کیا جائے۔ وہ پہلے ہی5سال اپنے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ چکے ہیں۔میں اِن اہلِ اقتدار کو مظلوم کی بد دعاؤں سے خبردار کرتی ہوں کہ یہ وہ دعا ہے جو براہِ راست، بغیر کسی رکاوٹ اور پردے کے، اللہ سبحانہُ و تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میری اصل امید اور آسرا محض اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور بے شک اللہ اپنے نیک بندوں کو رسوا نہیں کرتا۔