ہر قوم کے ہیروز ہوتے ہیں اور وہ قوموں کی یاداشت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں…
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: بلال المہاجر
ہر قوم کے ہیروز ہوتے ہیں اور وہ قوموں کی یاداشت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے بہت بڑے کام کیے ہوتے ہیں جو صرف کوئی ہیرو ہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اقوام بھی جن کے پاس حقیقت میں کوئی ہیروز نہیں ہیں، جیساکہ امریکہ، وہ بھی چوروں اور ڈاکوں کو کے مجرمانہ ماضی کو چھپا کر اور حقائق وتاریخ کو مسخ کر کے ، انہیں ہیروز کا درجہ دے دیتی ہیں۔ جہاں تک اسلامی امت کے ہیروز کا تعلق ہے تو ان کی کوئی مثال دوسری اقوام میں نہیں ملتی۔ ان کی یاد اس امت میں اور اس امت کے دشمنوں میں بھی ہمیشہ موجود رہی ہے اور رہے گی۔ یہ ہیروز ہیں ہمارے آقا محمدﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنھما۔ اور اس امت کی یادوں میں ہمیشہ رہنے سے بھی بڑھ کر جو امتیاز انہیں حاصل ہے وہ یہ کہ وہ ہمیشہ اس جنت میں اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس عزت سے رہیں گے جو زمین و آسمان کے درمیان موجود فاصلے جتنی وسیع ہے۔ ان کو یہ مقام ملنا ان کا حق ہے کیونکہ انہوں نے بہادری، قربانی اور جدوجہد کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِي "اور جو مہاجرین و انصار، سابق و مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے”(التوبۃ:100)۔
ان ہیروز میں رسول اللہﷺ کے ساتھی، انصار کے سربراہ اور ان کے سیاسی و فوجی رہنما، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی ہیں جنہوں نے جزیرۃالعرب کی تاریخ بدل ڈالی جس پر اسلام کے ظہور سے قبل روم اور فارس کی چھاپ تھی۔
ان کی مختصر زندگی بڑے بڑے کاموں اور بہادری و جوش وجذبے سے بھر پور تھی۔ یہ بات ان کی سوانح حیات سے بالکل واضح ہے جس کا آغاز مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اسلام کو قبول کرنے سے شروع ہوا جنہیں رسول اللہﷺ نے مدینہ اسلام کی ترویج کے لیے بھیجا تھا۔ ایک دفعہ اسد بن زرارہ، مصعب بن عمیر کے ساتھ بنو الاشحل اور بنو ظفر کے علاقے میں گئے۔ سعد بن معاذ کا تعلق بنو الاشحل سے تھا اور اسد بن زرارہ ان کے ننھیالی بھائی تھے۔ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر اس وقت اپنے قبیلے، بنو عبد الاشحل کے سردار تھے اور دونوں اپنے قبیلے کی طرح بت پرست تھے۔ مصعب بن عمیر کی جانب سے اسلام پیش کیے جانے پر اسید بن حضیر نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسید نے مصعب سے کہا:” اپنے پیچھے ایسے آدمی کو چھوڑ آیا ہو جو اگر تمہاری پیروی کرلے تو اس کے تمام لوگ بھی اس کی پیروی کریں گے۔ میں ان کو فوراً تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ وہ سعد بن معاذ ہیں”۔ پھر اسید وہاں سے چلے گئے، اور کچھ دیر بعد سعد بن معاذ ان دونوں کے پاس پہنچے۔ سعد بن معاذ نے اسد بن زرارہ سے کہا :”اے ابو امامہ، اگر ہمارے درمیان تعلق نہ ہوتا تو تم مجھ سے ایسے پیش نہیں آسکتے تھے۔ کیا تم ہمارے علاقے میں ایسے پیش آؤ گے جسے ہم پسند نہیں کرتے؟” مصعب نے ان سے کہا: ” کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ بیٹھ جائیں اور ہمیں سن لیں؟ جو آپ سنیں گےاگر وہ آپ کو اچھا لگے تو آپ اسے قبول کرسکتے ہیں اور اگر آپ کو اچھا نہ لگے تو آپ اسے چھوڑ سکتے ہیں”۔ سعد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بہت مناسب بات ہے اور بیٹھ گئے۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی وضاحت کی اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد خود ان کی اپنی روایت کے مطابق انہوں نے کہا، "اللہ کی قسم، ان کے بولنے سے قبل ہم نے ان کے چہرے پر اسلام ، چھلکتی تمانیت کی وجہ سے، دیکھ لیا”۔ سعد نے کہا، "کتنا زبردست اور خوبصورت یہ رستہ ہے! اس دین میں داخل ہونے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے؟” انہوں نے ان کو بتایا کہ وہ اور ان کپڑےپاک و صاف ہوجائیں، پھر حق کی گواہی یعنی کلمہ پڑھیں دیں اور نماز ادا کریں۔
سعد بن معاذ کا اسلام میں داخل ہونا تقلیدی یا نقلی نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی ایسا فیصلہ تھا جو بغیر سوچے سمجھے کیا گیا ہو۔ وہ اس وقت مسلمان ہوئے جب انہوں نے مصعب بن عمیر سے یہ جان لیا کہ اسلام دین حق ہے جو انسان، حیات اور کائنات کے خالق کی جانب سے ہے۔ ان کا اسلام میں داخل ہونا ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کا داخل ہونا تھا۔ انہوں نے تصورات اور حقائق پر بحث کی اور ان پر یقین آجانے کے بعد اس پر ایمان لائے۔ لہٰذا اسلام ان کادین اور نظریہ حیات بن گیا اور دنیا ان کے نظروں میں حقیر بن گئی۔ اپنے ایمان اور رسول اللہﷺ کی حمایت میں انہوں نے عظیم قربانیاں دیں۔ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے یہاں تک کہ اسلام ایک ریاست کے صورت میں بالادست قوت بن گیا اور لوگ بڑی تعداد میں دین میں داخل ہونے لگے۔ اس بات کا ثبوت ہمیں ان کے اس کام میں نظر آتا ہے جو انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے کیا۔ وہ شہر کے ایک فوجی کمانڈر اور رہنما کے پاس گئے تا کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہوجائیں اور وہ تھے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ جان لیا کہ اسلام کو اہل قوت سے نصرۃ کی ضرورت ہے۔ تو سعد نے اہل قوت میں شامل افراد کی حمایت کے لیے کوشش شروع کردی اور اس کام کو نہ تو التوا میں ڈالا اور نہ ہی اسے دوسروں کے سپرد کیا۔
سعد اور انصار میں ان کے ساتھیوں کی جانب سے آپﷺ اور اسلام کی کامیابی کی یقین دہانی کے بعد رسول اللہﷺ نے مدینہ ہجرت کی ۔ ہجرت کے بعد بھی سعد کے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے اللہ کے سامنے کیے اپنے وعدے کی لاج رکھی۔ جب مسلمان میدان بدر میں کفار کا سامنا کرنے کے لیے نکلے تو رسول اللہﷺ نے انصار سے مشاورت کی اور سعد نے کہا:”ہم آپ پر ایمان رکھتے ہیں، آپ کے حق کو تسلیم کرتے ہیں، اور ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہم تک سچائی لائے، اور ہم نے آپ سے سننے اور اطاعت کرنے کا عہد کیا؛ لہٰذا جہاں آپ جانا چاہتے ہیں جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں؛ اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا، آگر آپ ہمیں سمندر کو پار کرنے کا کہیں اور آپ اس میں ڈوب جائیں، تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں ڈوب جائیں گے؛ کوئی بھی مرد پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اپنے دشمن کا سامنا آنے والے کل کریں۔ ہم جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ آپ کو ہمارے ذریعے وہ دیکھائے جو آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو، تو ہمیں اللہ کی حمایت میں لے چلیں”۔ رسول اللہﷺ ان کے خطاب سے بہت خوش ہوئے اور میدان جنگ میں سعد نے اوس قبیلے کے جھنڈے کو اٹھایا اور بھر پور طریقے سے لڑے۔ سعد غزہ احد میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک ہوئے اور جب افراتفری میں مسلمان اِدھر اُدھر ہوگئے تو بھی آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ کھڑے رہے اور زبردست بہادری کا مظاہرہ کیا۔
ہیرو کا جانا کس عام انسان کے جانے جیسا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں اور جنت ان کے آنے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ اور ایسا ہی ہمارے ہیرو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا جب وہ غزہ احزاب میں لگنے والے ایک زخم کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ انہوں نے ایک چھوٹی ذرہ بکتر پہن رکھی تھی جو ان کے اعضاء کو نہیں چھپا سکتی تھی۔ جب مسلمان جنگ میں لڑ رہے تھے تو مشرکین میں سے ایک شخص، العرقہ، نے سعد بن معاذ پر تیر چلایا جس نے ان کے ہاتھ کی ایک شریان کو کاٹ ڈالا اور ان کے زخم سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ رسول اللہﷺ نے زخم کو بند کیا لیکن وہ کھل گیا اور رسول اللہﷺ نے پھر اس زخم کو بند کیا۔ یہ دیکھ کر سعد نے کہا، "اے اللہ اس وقت تک میری جان نہ لیں جب تک میں بنو قریضہ کا اختتام نہ دیکھ لو”۔ اور پھر ان کے زخم سے خون کا ایک قطرہ اس وقت تک نہ نکلاجب تک سعد کے فیصلے کا اطلاق بنو قریضہ پر کر نہ دیا گیا۔ اس کے بعد سعد نے کہا، "اے اللہ، یقیناً آپ جانتے ہیں کہ مجھے اس بات سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں آپ کے لیے ان لوگوں سے لڑو جو آپ کے رسولﷺ کا انکار کرتے ہیں اور انہیں نکال دیتے ہیں(ان کے آبائی جگہ سے)۔ اگر قریش سے ہونے والی جنگ کے حوالے سے ابھی کچھ باقی ہے تو میری زندگی کو قائم رکھیں تا کہ آپ کی راہ میں ان سے لڑسکوں۔ اے رب، میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ان کے اور ہمارے درمیان جنگ ختم کردی ہے۔ اگر آپ نے ایسا کردیا ہےتو میرا زخم کھول دیں اور میری موت ہوجائے”۔ اس کے بعد ان کا زخم کھل گیا یہاں تک کے خون کے بہہ جانے سے سعد کا انتقال ہوگیا۔
یقیناً ہیروز کا جانا کسی دوسرے کے جانے کی طرح نہیں ہوتا۔ ابن سعد نے اور انہوں نے عاصم بن قطادہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا،”رسول اللہﷺ سو گئے اور جبرئیل آئے اور انہیں جگایا اور کہا، کیا آج کی رات آپ کی امت کا کوئی فرد انتقال کرگیا ہے کہ جنت کے لوگ ان کے انتقال پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا، لا أعلم إلا أن سعداً أمسى دنفاً (مريضاً)، ما فعل سعد "میں نہیں جانتا سوائے اس کے کہ سعد بیمار ہوگئے تھے، تو سعد کا کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا، "اے اللہ کے نبی ان کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لوگ آئے تھے اور اپنے گھر لے گئے”۔ پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز ادا کی اور لوگوں کے ساتھ چل پڑے”۔
لوگ ان کی جانب اس قدر تیزی سے بھاگے چلے جارہے تھےکہ ان کے جوتوں کے تسمے ٹوٹ گئے اور ان کے کندھوں سے چادریں گر پڑیں۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے اللہ کے نبی، لوگ تھک گئے ہیں، آپ نے جواب دیا، إني أخشى أن تسبقنا إليه الملائكة كما سبقتنا إلى حنظلة ” مجھے اندیشہ ہے فرشتے ہم سے پہلے ان تک پہنچ جائیں گے جیسا کہ اس سے پہلے حنظلہ کے ساتھ ہوا تھا”۔ امام بخاری جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا، اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ” سعد بن معاذ کی موت کی وجہ سے اللہ کا تخت لرز گیا”۔
تخت کے لرز جانے کے متعلق ابن ہجر نے اپنی کتاب
فتح الباری میں اس کی تشریح ایسے کی ہے کہ،”لرز جانے کا مطلب ان کی روح کے آنے پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشی و مسرت ہے”۔
اے اہل قوت و نصرۃ!
سعد بن معاذ کے عمل نے مسلمانوں کے دل ان کی محبت سے بھر دیے۔ ان کا نام لیا جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ زبان ان کے لیے دعا نہ کرے۔ کوئی ایمان والا ایسا نہیں جو یہ سنے کہ اللہ کا تخت لرز گیا اور اس کی آنکھیں آنسووں سے بھر نہ جائے، اورکیا یہ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو؟ یقیناً کسی آدمی کی عظمت اس کے اخلاص اور اس کے اہداف کے بلندی میں ہے۔ وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں چاہے کیسی ہی صورتحال کیوں نہ ہو۔ اور وہ انہیں حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہیں چاہے کتنے ہی خوفناک صورتحال کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔۔۔۔ یقیناً آپ ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب مہاجرین اور انصار کی دعوت ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے۔ تو ہمارے بھائی بن جائیں، یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے تحفہ ہے جو آپ کو پیش کیا جارہا ہے۔ تو اس سے اپنا منہ نہ موڑیں ۔ اے اللہ کے حمایتیوں، اپنے دین کی عظمت کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اپنی امت اور اپنی عظمت کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اس دین کے لیے نصرۃ فراہم کرو، اس کام کو کرنے میں جلدی کرو جس پر اجر عظیم ہے اور ان چند لوگوں میں شامل ہوجاؤ جن کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ * أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ * فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ * ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ * وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ "اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔ وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں ہیں۔ (بہت بڑا) گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا۔ اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے”(الواقع:14-10)۔