حقیقی تبدیلی کے لیے عوام میں پھیلی مایوسی کا رخ اس جانب موڑنے کی ضرورت ہے
جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع مل جانے کے بعد ایک جانب اقتدار کے ایوانوں میں زبردست خوشی کی لہر دوڑ گئی جس نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے لیے راستہ ہموار کردی ہے تو دوسری جانب مسلمانوں میں عمومی طور پر شدید مایوسی کے جذبات پیدا ہوئے۔ جنرل باجوہ کو ایک ایسے فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہو ں نے عمران خان کے سیاسی مخالفین اور میڈیا کو زبردست دباؤ میں رکھ کر انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھایا ۔ اس طرح جنرل باجوہ نے خود کو ایسے پیش کیا کہ وہ حکومت کی انتہائی غیر مقبول پالیسیوں سے مکمل طور پر متفق ہیں اور ان کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ہونے والی عدالت کی کارروائی کے دوران اس حکومت سے مایوس عوام میں یہ امید پیدا ہوگئی کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے جارہی ہے اور ساتھ ہی عمران خان کے اقتدار کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو اس کے نتیجے میں ایک زبردست مایوسی پھیل گئی جو کہ حکمرانوں کی خوشی کے بالکل برعکس ہے۔
عوام میں اس حکومت کے حوالے سے پھیلی شدید مایوسی ختم نہیں ہو گی کیونکہ جن وجوہات کی وجہ سے یہ پیدا ہوئی ہے وہ وجوہات اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کی معیشت کو قربان کردینے اور امریکا کی ہدایت پر بھارت کی جارحیت اور بدمعاشی کے سامنے "تحمل” کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا سودا ، یہ وہ دو اہم ترین معاملات ہیں جن پر یہ حکومت اپنی روش تبدیل نہیں کرے گی۔ اس طرح موجودہ صورتحال کے حوالے سے عوام کی ناامیدی اور مایوسی میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ مایوسی بڑھ بھی رہی اور پھیل بھی رہی ہے جس کا ثبوت خیبر پختونخوا میں شعبہ صحت ، پنجاب میں تجارت اور سندھ میں صفائی کے شعبے سے منسلک افراد کے مسلسل احتجاج اور مظاہرے ہیں۔ لیکن اس صورتحال کے باوجود حقیقی تبدیلی ہمارے ہاتھ سے پھسلتی رہے گی اگر ہم ان شخصیتوں پر آنکھیں بند کیے رکھیں جو ہمیں مایوس کرتی ہیں اور ان پالیسیوں سے نظریں ہٹائے رکھیں جو ہمیں تباہ و برباد کررہی ہیں۔ جب تک یہ صورتحال برقرار رہے گی خلا بڑھتا رہے گا اور کوئی تعمیری چیز اسے پُر نہیں کر پائے گی۔
حقیقی تبدیلی کے لیے عوام میں پھیلی مایوسی کا رخ اس جانب موڑنے کی ضرورت ہے جو ہماری بدحالی اور ذلت و رسوائی کا حقیقی اور بنیادی سبب ہے۔ اور وہ بنیادی سبب جمہوریت کا نظام ہے۔ جمہوریت نے انسانوں کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ خود مختار اسمبلیاں بنا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو نظر انداز کر دیں۔ یہ اسمبلیاں ایسی سرکردہ شخصیات کے کارخانے ہیں جو استعماری طاقتوں کے خدمت گزار ہیں اور اور ان کی پالیسیوں کو نافذ کرتے ہیں اور اس بات کا مشاہدہ مسلمان خلافت کی تباہی کے بعد کئی دہائیوں سے پوری مسلم دنیا میں کررہے ہیں۔