فوجی تربیت کے دوران شہادت کی خواہش اور اس کی جستجو کرنا اسلامی ادوار میں ہمیشہ ایک بنیادی تصور رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فوجی تربیت کے دوران شہادت کی خواہش اور اس کی جستجو کرنا اسلامی ادوار میں ہمیشہ ایک بنیادی تصور رہا ہے۔ اسلامی ادوار میں اسلحہ،جنگی حکمت عملی اور جنگی چالیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ شہادت کے حصول کی خواہش اور اس کے لیے کوشش ایک اہم ترین تصور ہوتا تھا جس کو پڑھنا،سمجھنا اور اپنی شخصیت کا حصہ بنانا انتہائی ضروری ہوتا تھا۔ شہادت کے حصول کی خواہش اسلامی افواج کو میدانِ جنگ میں جوش و جذبے سے لبریز کردیتی تھی اور انہیں ایسے اہداف کو حاصل کرنے کے قابل بنادیتی تھی جنہیں دوسری افواج ناممکن سمجھتی تھیں اور ان اہداف کوحاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتی تھیں۔ کفار افواج کے جرنیل اس مشکل سے دوچار رہتے تھے کہ ان کی افواج کے سپاہی زندگی کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسی فوجی حکمت عملی نہیں اپنا سکتے تھے جس میں زیادہ جانی نقصان کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اس کے برخلاف اسلامی افواج کے جرنیلوں کو ایسی فوج میسر تھی جو میدانِ جنگ کو ایک ایسے سنہری مو قع کے طور پر دیکھتے تھے جس کے ذریعے انہیں وہ اعلیٰ ترین انعامات مل سکتے تھے جو کسی بھی روح کی تمنا ہوسکتے ہیں۔
شہادت کے حصول کی خواہش مسلم افواج کو مضبوطی و استقامت کے ساتھ میدان جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑی افواج کے سامنے ڈٹے رہنے کا حوصلہ اور فتح حاصل کرنے کی قوت فراہم کرتی تھی۔ اسلامی دور کے فوجی افسران افواج میں خدمات انجام دینے کو اس نظر سے نہیں دیکھتے تھے کہ اس طرح انہیں ایک محفوظ اور عزت دار روزگار میسر آجائے گا جسے کے ذریعے وہ اپنے بچوں کے تعلیم، رہائش اور ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کرسکیں گے جیساکہ آج کے دور میں مسلم افواج کے ا فسران کے سوچ بن گئی ہے۔ اسلامی دور کے افسران کی نگاہیں صرف اور صرف اُس انعام پرمرکوز ہوتی تھی جس کا نعمل البدل یہ دنیا کسی صورت نہیں دے سکتی اور وہ تھی اس دنیا کی مختصر سے زندگی کے مقابلے میں آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی۔
اسلامی حکمرانی کے خاتمے کے بعد، ہمارے موجودہ دور میں، مسلمانوں میں شہادت کے حصول کے جذبے نے مغربی فوجی حکمت عملی بنانے والوں کو جہاں بہت زیادہ مرعوب کیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ پریشان بھی ہیں۔ شہادت کے حصول کی خواہش اور جذبے کو اب ایسے دیکھا جاتا ہےکہ شہادت کی خواہش اس شخص کی قوت اور صلاحیتوں کوکئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ اس جذبے نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ فوجی لحاظ سے مکمل طور پر مسلح اورتیار نہ ہونے کے باوجود قابض افواج کو مسلسل نا قابل تلافی نقصان پہنچارہے ہیں جیسا کہ آج ہم افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں دیکھ رہے ہیں۔ اس صورتحال نے مغرب کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ایسی جنگوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں جس میں دونوں فریقوں کے درمیان جنگی توازن میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے اور واضح طور پر دکھائی دیتا ہےکہ مسلمان سپاہیوں میں شہادت کے حصول کی خواہش انہیں دَنگ کیے ہوئے ہے۔ اور اس حقیقت کا ادراک کرنے کے بعد مغرب کی حکمران اشرافیہ یہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہے کہ اگر مسلم ممالک کی افواج میں سے کوئی ایک فوج ان پر حملہ آور ہونے کے لیے حرکت میں آ گئی تب ان کا کیا بنے گا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے بعد ایسا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔
شہادت اسلام کا ایک اہم ترین تصور ہے اور اسلامی امت کی نمایاں خاصیت بھی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ – فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتَـهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ،
"جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور( شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے”(آل عمران :170-169)۔
یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےبالکل واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگرچہ شہداء اس دنیا کی زندگی میں مارے جاتے ہیں لیکن ان کی روحیں زندہ ہوتی ہیں اور انہیں اُس ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا رز ق بھی مل رہا ہوتا ہے۔ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا کہ مسرو ق نے کہا ،” ہم نے عبد اللہ بن مسعود ؓسے اس آیت کے متعلق پوچھا،
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
"جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا،
أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ فَقَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا؟ فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ، تُرِكُوا
” شہیدوں کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ،ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جہاں چاہیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں پھر انہی قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ ان کا رب ان کی طرف متوجہ ہو کر فرماتا ہے کہ تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں پھرتے ہیں، اللہ تعالی ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستے میں دوسری مرتبہ شہید کیے جائیں۔ جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے "۔
مسلم فوجی افسران کو اپنے اُن بھائیوں کویاد کرنا چاہیے جنہوں نے غزوہ احد میں شہادت کو گلے لگایا تھا۔ مسلم فوجی افسران کو احد کے شہداء کی جانب سے ان کے لیے چھوڑے گئے پیغام پر اچھی طرح سے غور کرنا چاہیے۔ امام احمد نے بتایا کہ ابن عباس ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لَمَّا أُصِيبَ إِخْوَانُكُمْ بِأُحُدٍ، جَعَلَ اللهُ أَرْوَاحَهُمْ فِي أَجْوَافِ طَيْرٍ خُضْرٍ، تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّـةِ، وَتَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا، وَتَأْوِي إِلى قَنَادِيلَ مِنْ ذَهَبٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ، فَلَمَّا وَجَدُوا طِيبَ مَشْرَبِهِمْ وَمَأْكَلِهِمْ، وَحُسْنَ مُتَقَلَّبِهِمْ قَالُوا: يَا لَيْتَ إِخْوَانَنَا يَعْلَمُونَ مَا صَنَعَ اللهُ لَنَا، لِئَلَّا يَزْهَدُوا فِي الْجِهَادِ، وَلَا يَنْكُلُوا عَنِ الْحَرْبِ، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْا أُبَلِّغُهُمْ عَنْكُم
” جب تمہارے بھائی اُحد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹ میں رکھ دیا، جو جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں، اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سائے میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، جب ان روحوں نے اپنے کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل کر لی، تو وہ کہنے لگیں: کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہمارے بارے میں یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں او ر ہمیں روزی دی جاتی ہے تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”میں تمہاری جانب سے انہیں یہ خبر پہنچاؤں گا“،
تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی
«وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ»
” جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے "۔
لہٰذا اسلامی دور کا فوجی آفیسر صرف تہجد اورمسجد میں نماز پڑھنے کے اجر کا متمنی نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ نم آنکھو ں سے دو نوں ہاتھ بلند کر کے شہادت کی موت کی دعا کرتا تھا۔ مسلم فوجی آفیسر اور سپاہی کی دعا صرف گھر، سواری اور بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے نہیں ہوتی بلکہ وہ شہادت کی دعاکرتا ہے۔ اپنے وقت کےفوجی حکمت عملی کے ماہر معاذ بن جبلؓ جنہوں نے غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا تھا، یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ أَعْطَاهُ اللَّهُ أَجْرَ الشَّهِيدِ
” جو شخص سچے دل سے اللہ کی راہ میں مارے جانے کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا ثواب دے دے گا "(ترمذی)۔
ایک مسلم آفیسر نہ تو اس دنیا کی زندگی کے عزت و رتبے کسی خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے بھاگتا ہے بلکہ وہ صرف اور صرف شہادت کے حصول اور اس سے جڑی عزت کا شدید متمنی ہوتا ہے۔ امام احمد نے روایت بیان کی ہے کہ انسؓ نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا،
مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، لَهَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ، يَسُرُّهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا، إِلَّا الشَّهِيدُ، فَإِنَّهُ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى، لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَهَادَة
” کوئی بھی ذی روح جو فوت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے بھلائی موجود ہو ، یہ بات پسند نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں واپس جائے یا دنیا اور جو کچھ بھی دنیا میں ہے ، اس کو مل جائے ، سوائے شہید کے ، کیونکہ وہ شہادت کی جو فضیلت دیکھتا ہے اس کی وجہ سے اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اللہ کی راہ میں ( دوبارہ ) شہید کیا جائے "۔
شہادت ہی وہ واحد عمل ہے جو ایک شخص میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ وہ اللہ کی جنت کو چھوڑ کر ایک بار پھر اس دنیا میں مرنے یعنی شہید ہونے کے لیے جائے۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَأَنَّ لَهُ مَا عَلَى الأَرْضِ مِنْ شَىْءٍ غَيْرُ الشَّهِيدِ فَإِنَّهُ يَتَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ فَيُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا يَرَى مِنَ الْكَرَامَةِ
” جو شخص جنت میں جائے گا اس کو پھر دنیا میں آنے کی آرزو نہ رہے گی اگرچہ اس کو ساری زمین کی چیزیں دی جائیں لیکن شہید پھر آنے کی آرزو کرے گا اور وہ آرزو کرے گا کہ اسے دس بار قتل کیا جائے کیونکہ وہ شہادت کے درجے کو دیکھ چکا ہوتا ہے "(مسلم)۔
ایک مسلم آفیسر صرف اپنے خاندا ن کو معاشی استحکام فراہم کرنے کی جستجو نہیں کرتابلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا سارا خاندان جنت میں داخل ہو جس کی آسائشیں کبھی ختم نہیں ہوںگی ۔ ابو درداء نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يُشَفَّعُ الشَّهِيدُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ
” شہید کی شفاعت اس کے کنبے کے ستر افراد کے لیے قبول کی جائے گی "(ابو داود)۔
مسلم آفیسر دولت کے انبار جمع کرنے کے لیے ہر وقت فکرمند اور بے چین نہیں رہتا ،کہ اس کے مرنے کے بعد اس دولت سے اس کےبیوی بچے لطف اندوز ہوں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی شہادت اس کے بیوی بچوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔ ابو بکر ابن مردویہ سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہؓ نے کہا، "ایک دن رسول اللہ ﷺ نے میری جانب دیکھا اور کہا، ‘اے جابر! میں تمہیں اداس کیوں دیکھ رہا ہوں؟’۔ میں نے کہا،’اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے والد شہید ہوئے تھے اور پیچھے قرض اور اہل و عیال چھوڑ گئےتھے’۔ آپ ﷺ نے فرمایا،
أَلَا أُخْبِرُكَ؟ مَا كَلَّمَ اللهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَإِنَّه كَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا .قَالَ سَلْنِي أُعْطِكَ. قَالَ أَسْأَلُكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى الدُّنْيَا فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً، فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي الْقَوْلُ إِنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يَرْجِعُونَ. قَالَ أَيْ رَبِّ فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي
” کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا؟، جابر ؓ نے کہا: جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا: میرے بندے! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا: میرے رب! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے، انہوں نے کہا: میرے رب! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے”۔
ایک مسلم آفیسر کواپنی آخری منزل ، موت کی تکلیف، عذابِ قبر اور اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں وہ آخرت میں بخشے جانے سے محروم نہ رہ جائے۔ لہٰذا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل کی تلاش میں شہادت کی جستجو کرتا ہے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مَسَّ الْقَتْلِ إِلاَّ كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مَسَّ الْقَرْصَةِ
” شہید کو قتل سے صرف اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تکلیف تم میں سے کسی کو چٹکی لینے سے ہوتی ہے "(ابن ماجہ)۔
راشد بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک نے کہا، "اے اللہ کے رسول ﷺ ، کیوں ایمان والوں سے قبر میں امتحان لیا جائے گامگر شہید سے نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، كَفَى بِبَارِقَةِ السُّيُوفِ عَلَى رَأْسِهِ فِتْنَةً "اس کے سر پر چمکنے والی تلواروں کا امتحان ہی اس کے لیے کافی تھا”(نسائی)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلاَّ الدَّيْنَ
” اللہ تعالیٰ شہید کا ہر گناہ بخش دے گا مگر قرض کے "(مسلم)۔
اور مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ وَيُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الأَكْبَرِ وَيُحَلَّى حُلَّةَ الإِيمَانِ وَيُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ
” اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں، (۱)خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے،(۲) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے،(۳) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے،(۴) «فزع الأكبر(قیامت کی عظیم گھبراہٹ )سے مامون رہے گا،(۵) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے،(۶) بہتر(72) جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی "(ابن ماجہ)۔
اور قابل تعریف اور شاندار مسلم آفیسر وہ ہوتا ہے جس کا کردار مضبوطی سے اسلام کی بنیاد پر استوار ہو اور اس کی چوٹی یہ ہوتی ہے کہ اسے شہادت کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ تو ایسے آفیسر کو عمر الفاروقؓ کے ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے جنہوں نے ایک کے بعد ایک ایسے شاندار فوجی جنرل تعینات کیے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے کامیابیاں سمیٹ لیتے تھے۔ امام مالک نے یحیی بن سعید سے روایت کیا کہ عمر بن خطابؓ نے فرمایا،
كَرَمُ الْمُؤْمِنِ تَقْوَاهُ وَدِينُهُ حَسَبُهُ وَمُرُوءَتُهُ خُلُقُهُ وَالْجُرْأَةُ وَالْجُبْنُ غَرَائِزُ يَضَعُهَا اللَّهُ حَيْثُ شَاءَ فَالْجَبَانُ يَفِرُّ عَنْ أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَالْجَرِيءُ يُقَاتِلُ عَمَّا لاَ يَؤُوبُ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ وَالْقَتْلُ حَتْفٌ مِنَ الْحُتُوفِ وَالشَّهِيدُ مَنِ احْتَسَبَ نَفْسَهُ عَلَى اللَّهِ
"مؤمن کی قابلیت اس کا تقوی ہے۔ اس کا دین اس کی اعلیٰ نسل ہے۔ اس کا کردار اس کی اہمیت ہے۔ بہادری اور بزدلی جبلتیں ہیں جو اللہ جہاں چاہتے ہیں رکھ دیتے ہیں۔ بزدل اپنے ماں باپ کا دفاع کرنےسے بھی ڈرتا ہے اور بہادر مال غنیمت کے لیے نہیں بلکہ جنگ کے لیے لڑتا ہے۔ قتل ہونا موت کا ایک طریقہ ہے اور شہید وہ ہے جو اللہ کے اجر کے لیے خود کو پیش کرتا ہے "(الموطا)۔
وہ مسلم آفیسر اور سپاہی جو شہادت کی آرزو اور جستجو کرتا ہے اس کے لیے آگے کیا کیا نعمتیں رکھی گئی ہیں۔ آج اس کے سامنےکفار کے ہاتھوں فلسطین، افغانستان، مقبوضہ کشمیر، میانمار (برما)، شام، مشرقی ترکستان اور عراق میں مسلمانوں کی شدید تذلیل ہورہی ہے۔ جبکہ اس کے اور شہادت کے درمیان اسلامی دور کی واپسی اور بحالی حائل ہے، جب امت کے شیروں کو کھلا چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ بزدل دشمنوں پر ٹوٹ پڑیں اور وہ لگڑ بگڑ کی طرح دُم دبا کر بھاگ جائیں گے۔ اوراس وقت اُن کے سامنے نبوت کے طریقے پر خلافت کے فوری قیام کے لیے نُصرۃ کی فراہمی کی ذمہ داری موجود ہے تا کہ وہ دو حسنات میں سے ایک کو حاصل کرسکیں: کامیابی یا شہادت۔