فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس:
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴾ [البقرة:187]
” تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔ اللہ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، پھر اس نے تم پر عنایت کی اور تمہاری غلطی معاف فرمادی، چنانچہ اب تم ان سے صحبت کر لیا کرو، اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو۔ اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری ممتاز ہوکر تم پر واضح ( نہ) ہوجائے۔ اس کے بعد رات آنے تک روزہ پورا کرو۔ اور ان ( اپنی بیویوں ) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو۔ یہ اللہ کی ( مقرر کی ہوئی) حدود ہیں، لہٰذا ان ( کی خلاف ورزی ) کے قریب بھی مت جانا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔”(ابقرۃ2:187)
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ:
1۔ بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے کی راتوں میں شوہروں کے لیے اپنی بیویوں سے مباشرت کو حلال کردیا ہے، ہر ایک کو دوسرے کے لیے ستر بنایا ہے، میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھول سکتا ہے اور گویا ہر ایک دوسرےکے لیے بمنزلہ لباس کے ہے۔
[الرَّفَثُ]رفث اصل میں عرب کے اس قول میں سے ہے : رَفَثَ فی کلامہٖ وتَرَفَّثَ یعنی فلاں آدمی نے فحش باتیں کیں ، کھلے الفاظ میں وہ باتیں کیں جو عام طور پر اشاروں اور کنایوں میں کہی جاتی ہیں۔یہاں رفث سے مراد جماع اور ہم بستری ہے۔
2- بے شک اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کا ارتکاب کرتے ہو یعنی رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرکے اپنی جانوں پر ظلم ڈھارہے ہو۔اور اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت کی اور تمہیں معاف کیا ، چنانچہ تمہارے کیے پر پکڑ نہیں کی ،نہ ہی کوئی سزا دی بلکہ جو تم نے کیا اس سے درگزر کیا اور اب اس کو تمہارے لیے حلال بھی کردیا اب رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ہم بستری کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ابو ہریرہؓ نے روایت کی ہے ،فرماتے ہیں: كان المسلمون إذا صلوا العشاء الآخرة حرم عليهم الطعام والشراب والنساء حتى يفطروا، وإن عمر بن الخطاب أصاب أهله بعد صلاة العشاء وأن صرمة بن قيس غلبته عينه بعد صلاة المغرب فنام ولم يستيقظ حتى صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم العشاء فقام فأكل وشرب، فلما أصبح أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبره بذلك فأنزل الله: ( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) الآية "شروع میں جب مسلمان عشا ء کی نماز پڑھ چکتے تو ان کے لیے کھانا پینا اور عورتیں حرام ہوجاتیں، یہاں تک کہ افطار کرلیں۔ عمر بن الخطابؓ ایک دفعہ عشاء کی نماز کے بعد اپنی بیوی کے پاس گئے( جماع کیا ) اور صرمہ بن قیس کی مغرب کی نماز کی بعد آنکھ لگ گئی اور سو کر اٹھ نہ سکا ، آپ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ چکے تو وہ نیند سے بیدار ہوا اور کھاپی لیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا ماجرا عرض کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ "
[تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ]” اپنے آپ سے خیانت ” تَختَانُونَ”فعل کا اپنا مصدر اِختِیَان ہے اور یہ خیانت سے نکلا ہے، جیسے اکتساب کسَبَ سےنکلا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ تم اپنی جانوں سے خیانت میں مبتلا تھے اور رمضان کی راتوں میں جماع اور ہم بستری کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔
[بٰشروھن] کا مطلب مباشرت سے ہےیعنی ان سے رمضان کی راتوں میں جماع کرو۔ یہاں مباشرت کا امر اباحت کے لیے ہے اور مباشرت کنایہ ہے جماع سے،کیونکہ مباشرت کا معنی ہے : دو انسانوں کا ایک دوسرے کے جلد کو مَس کرنا۔ چونکہ جماع یا ہم بستری کی حالت میں جسموں کا ملاپ ہوتا ہے ، اس لیے اس کو مباشرت اور مجامعت کہتے ہیں۔ رمضان کی رات میں اس کی اباحت کا قرینہ یہ ہے کہ یہ امر ،حظَر (پابندی) کے بعد وارد ہوا ہے،ایسی صورت میں ممنوعہ فعل اپنی اصل یعنی اباحت کی طرف لوٹ جاتا ہے ، جیساکہ اُصول الفقہ کی کتابوں میں قرائن کی بحث میں اس کا تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔
[وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ] ” جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو "یعنی اولاد میں سے جو کچھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہیں تقسیم کرکے دیا ہے ،اُس کو تلاش کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مباشرت اور ہم بستری کا مقصدفقط شہوت رانی اور نفسانی خواہش کو پوراکرنا نہیں، بلکہ اس کا مقصد وہی ہے جو نکاح کاہے ،نکاح کا اصل مقصد بقائے نسل ہے۔ حدیث میں ہے کہ : ((تناکحو اتناسلوا فانی مفاخر بکم الامم یوم القیامۃ)) ” نکاح کیا کرو تاکہ تمہاری نسل بڑھ جائے ، میں قیامت کے دن تمہاری( کثرت کی )وجہ سے فخر کروں گا۔”(ابوداؤد:220/2، النسائی:3227،ابنِ ماجہ:1846، احمد:158/3، ابنِ حبان:338/9)۔ یہاں امر برائے نُدب ہے، اور اس میں دیا گیا حکم مندوب (نفلی)ہے، رسول ﷺ کا اولاد کی جستجو (تناسل) کی مدح کرناجیسے کہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے،نُدب کا قرینہ ہے۔
3- اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ کھانے پینے اور بیویوں سے مباشرت سے کب رُکنا واجب ہے۔ فرمایا :[حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ] "جب تک صبح کی سفید دھاری ممتاز ہوکر تم پر واضح ( نہ) ہوجائے "یعنی صبح صادق طلوع ہونے تک۔ صبح صادق وہ سفیدی ہے جو چوڑائی میں (دائیں بائیں ) اُفق پر دھاگے کی مانند نمودار ہوتی ہے، یہ رات اور دن کے درمیان حدِ فاصل ہوتی ہے۔ اس سفیدی سے تھوڑی دیر پہلےاُفق کے قریب عمودی شکل میں ایک اور سفیدی اپنی جھلک دکھاچکی ہوتی ہے، یہ صبح کاذب کہلاتی ہے۔ کھانے پینے اور مباشرت کی اباحت صبح کاذب پر نہیں بلکہ صبح صادق پر ختم ہوجاتی ہے۔ ” عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے و ہ فرماتے ہیں: لما نزلت هذه الآية وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ عمدت إلى عقالين أحدهما أسود والآخر أبيض فجعلتهما تحت وسادتي، قال فجعلت أنظر إليهما فلما تبين لي الأبيض من الأسود أمسكت فلما أصبحت غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبرته بالذي صنعت فقال إن وسادك إذن لعريض إنما ذلك بياض النهار من سواد الليل” جب یہ آیت[وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ]نازل ہوئی تو میں نے دو دھاگے لیے ، ایک کالا اور دوسرا سفید ،پھر میں نے ان کو اپنے سرہانے کے نیچے رکھ دیا ، میں باربار(جاگ کر) ان کو دیکھتا رہا، پھر جب سفید اور کالے کی پہچان کر پالی تو میں( کھانے پینے یا جماع سے) رُک گیا، صبح ہوئی تو میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور رات والا ماجرا سنایا تو آپ ﷺنے فرمایا: پھر تو تمہاراسرہانہ کافی لمبا چوڑا ہے( کہ اس کے نیچے رات اوردن سماجاتے ہیں ) کالے اور سفید دھاگےسے دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی مرادہے۔” (بخاری:4149، 4150، مسلم:1824،ابو داؤد:2002، درامی:1632)۔
4- [ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ]” اس کے بعد رات آنے تک روزہ پورا کرو "اللہ سبحانہ مطالبہ فرماتے ہیں کہ ہم روزہ رات تک رکھ کرپورا کریں ،جس کا مطلب ہے کہ دن کا روزہ رات کے کسی نہ کسی جز میں داخل ہونا چاہیے ، خواہ وہ جز بہت کم ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ دن کی بالکل آخری گھڑی رات کی اولین گھڑی سے متصل ہوتی ہے لہٰذا دن کا روزہ مکمل کرنے کے لیے رات اور دن میں کوئی نہ کوئی ملاپ ضروری ہے، جس کا مطلب ہے کہ روزہ رات شروع ہونے تک ہونا چاہیے تاکہ افطار کرنا صحیح ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، إذا أدبر النهار من هنا وأقبل الليل من هنا فقد أفطر الصائم "جب ادھر سے دن چلا جائے اور ادھرسے رات آجائے تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہوجاتا ہے”(بخاری:1818، مسلم:1841)۔
اسی وجہ سے مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب"جس چیز کے نہ ہونے سے واجب ادا نہ ہوسکتا ہو تو وہ بھی واجب ہوتی ہے” کا قاعدہ یہاں بھی جاری ہوگا۔ لہٰذا رات کا کوئی جز داخل ہوئے بغیر خواہ بہت کم ہی کیوں نہ ہو، دن کا روزہ مکمل کرنا ناممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے فقہا کے اس قول کی:الغایۃ تدخل فی المغیا"کسی چیز کی انتہا اسی چیز میں سمجھی جاتی ہے”۔مثلاً قرآن میں ہے : [فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ]"اپنے چہروں کو دھوؤ،اوراپنے ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوؤ”(المائدہ 5:6)۔ ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب دھوتے وقت کہنیوں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ دھویا جائے۔یہ اسی قاعدےکے مطابق ہے۔
5- [ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ] اس کے بعد اللہ سبحانہ ایک اور حکم بیان فرماتے ہیں ، یہ حکم اعتکاف میں
بیٹھنے والے کے استثنا کا ہے یعنی معتکف مباشرت کی اجازت سے مستثنیٰ ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا کہ رمضان کی رات میں عورتوں کے ساتھ مباشرت اور ہم بستری مبا ح ہے۔ آیت کے اس حصہ میں بیان فرماتے ہیں کہ اس میں معتکف شامل نہیں۔ معتکف جب تک اعتکاف میں رہے، اس کے لیے جماع حرام ہے۔ بعض مسلمان ایسا کرتے تھے کہ اعتکاف کے دوران اپنے گھروں میں چلے جاتے اور کبھی اپنی بیویوں سے مباشرت کر لیتے اور پھراعتکاف مکمل کرنے کے لیے غسل کرکے مسجد میں آجاتے ، پس یہ آیت نازل ہوئی اور ان پر اعتکاف مکمل کرنے تک اس فعل کو حرام کردیا گیا۔
[وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ] "جبکہ تم مسجد وں میں اعتکاف کیے بیٹھے ہوں۔” لغت میں اعتکاف کے معنی ہیں ؛ ایک جگہ میں تنہاالگ تھلگ ہوکر رہنا اور وہیں کا ہوکر رہنا۔ شرعی اصطلاح میں اعتکاف کے معنی ہیں: مخصوص اعمال کے لیے مسجد میں ٹھہرے رہنا۔
اعتکاف کو مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے،جیساکہ آیت میں ہے، یہ اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہوتا ہے۔ مگر اعتکاف میں یہ شرط عورتوں پرلاگو نہیں ہوتی، یہ خطاب مردوں سے ہےاور تغلیب کے ذریعے بھی اس میں عورتوں شامل نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ تخصیص کا قرینہ موجود ہے۔ قرینہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: [ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ] ” ان سے مباشرت نہ کرو” اس کا مطلب ہے کہ [وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ] کے مخاطب حقیقت میں مرد ہیں ، اس میں عورتیں شامل نہیں۔ اسی بنا پر عورت کے اعتکاف کے لیے مسجد شرط نہیں بلکہ وہ اپنے گھر میں اعتکاف کرے گی۔
رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایاکرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں اعتکاف سنت میں سے ہے اور اس میں بڑا اجر ہے۔
6- اس کے بعد اللہ تعالیٰ آیت کا اختتام فرماتے ہیں ، اس میں یہ بیان کرتے ہیں کہ روزے کے جو احکام ذکر ہوئے یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں ، یعنی گویا یہ حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل ہیں،پس کوئی اسے تجاوز کرے گا تو وہ حق سے نکل کر باطل کے دائر ے میں داخل ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا قول[فَلاَ تَقْرَبُوهَا] ” ان ( کی خلاف ورزی ) کے قریب بھی مت جانا "اس پر دلیل ہے کہ اللہ کے حرام کردہ امور کو سرانجام دینے کی ممانعت شدید ہے۔ کیونکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کرنا اس کو عملاً کرنے کی ممنوعیت میں مزید شدت کا تقاضا کرتا ہے۔
جس طرح اللہ سبحانہ نے روزے کے احکامات بیان فرمائے اور اس کی حدود متعین کیں جن سے تجاوز کرنا درست نہیں، اسی طرح وہ تمام احکام بھی بیان فرمائے جو لوگوں کے امور سے متعلق ہیں اور انہی احکام کی پیروی میں اللہ کے غصے اور اس کے عذاب سے بچاؤ پوشیدہ ہے اور انہی احکام پر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور نعمتوں کے حصول کا راستہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
"اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں”
(البقرۃ 2:187)