پاکستان کی سہولت کاری کے بغیر امریکا کا افغانستان سے بوریا بستر گول ہوجانا طے ہوچکا تھا۔
بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کی سہولت کاری کے بغیر امریکا کا افغانستان سے بوریا بستر گول ہوجانا طے ہوچکا تھا۔ امریکی حکام تنقید اور تعریف کے ذریعے دباؤ ڈال کر پاکستان کو اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ امریکا کو افغانستان سے مکمل انخلا کی ذلت سے بچانے کے لیے نام نہاد افغان امن عمل میں سہولت کاری کا کردار ادا کرے۔5 فروری 2019 کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے سینٹ کی آرمز کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ، "ہم خطے کے کرداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں جیسا کہ پاکستان کہ وہ رویہ تبدیل کریں جس سے خطے کا استحکام خراب ہوتا ہے اور وہ افغانستان سمیت پورے جنوبی ایشیامیں امن کے قیام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے”۔اس نے مزید کہا کہ "جبکہ ہماری توجہ مصالحت اور خطے کے سیکیورٹی پر ہے، تو پاکستان کے پاس ایک منفرد مو قع ہے کہ وہ افغانستان کے تنازع کے مذاکراتی حل کی تلاش میں امریکا کی کوششوں کی حمایت میں کیے گئے اپنے وعدے پورے کرے”۔
سات سمندر پار ہونے کی وجہ سے امریکاہمیشہ سےافغانستان میں اپنی مہم جوئی میں پاکستان کی مقامی سہولت کاری پر بہت زیادہ انحصار کرتا آیا ہے۔ امریکا کو فوجی حملے کے لیے ایک محفوظ اور کھلی مواصلاتی لائن درکار تھی جس کے لیے پاکستان نے انتہائی اہم سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان نے امریکاکی جنگی مہم جوئی میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے فضائی راستے، ہوائی اڈے، انٹیلی جنس اور سپلائی لائنز فراہم کیں۔ جب افغان مزاحمت نے سر اٹھایا تو پاکستان نے اپنی سرزمین پر امریکا کی سرکاری انٹیلی جنس اور پرائیوٹ ملٹری کنٹریکٹر ز کا نیٹ ورک کھڑا کرنے میں سہولت کار کاکردار اد کیا۔ امریکا نے اس مدد کاشکریہ اس طرح ادا کیا کہ بھارت کی مدد سے اس نیٹ ورک کو پاکستان میں خفیہ جنگ لڑنے کے لیے استعمال کیا تا کہ پاکستان سے مزید سہولت کاری کا کردار ادا کروایا جائے۔
جب افغان مزاحمت مضبوط ہوگئی اور امریکا کے خلاف قابل ذکر کامیابیاں حاصل کرنے لگی تو پاکستان نے اپنے قبائلی علا قوں میں فوجی آپریشنز کر کے سرحد پار امریکا، نیٹو اور افغان فورسز پر حملوں کو روکنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ جیسے جیسے افغان مزاحمت شدید ہوتی گئی پاکستان نےسہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن پر ایک مضبوط دیوار کھڑی کر کے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اور اب جبکہ امریکا افغانستان سے ذلت آمیز مکمل انخلا کے بہت قریب ہے تو ایک بار پھر پاکستان سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکا اور طالبان کے درمیان بات چیت شروع کرواکر امریکا کے لیےایک سیاسی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے جس کے تحت امریکا افغانستان میں اپنے اڈوں، پرائیوٹ ملٹری کنٹریکٹرز اور با قاعدہ افواج کے ذریعے اپنی موجودگی کو بر قرار رکھ سکے۔
لہٰذا "افغان امن بات چیت ” افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو کسی صورت کم کرنے کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ اس کے اثرورسوخ کو مزید مضبوط کریں گے۔ مذاکرات امریکی افواج سے پاکستان کو لاحق خطرے میں کمی کاباعث نہیں بنیں گے کیونکہ ان مذاکرات کے ذریعے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ ان کا جانا تقریباً یقینی ہوچکا تھا ۔ مذاکرات پاکستان کو بھارت کی ممکنہ جارحیت کے خلاف اپنی ایٹمی ومیزائل صلاحیت کو بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو ں گے بلکہ اس کے ذریعے امریکا کو یہ سہولت ہو گی کہ وہ افغانستان کی دلدل سے نکل کر اطمینان کے ساتھ بھارت کو کیل کانٹے سے لیس کرسکے۔ امریکا نے میزائل ڈیفنس ریویو (MDR)میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ بیلسٹک میزائل ڈیفنس (BMD) تعاون میں اضافہ کرے گا۔ ڈی این آئی’ز کی گلوبل تھریٹ اسیسمنٹ رپورٹ(GTAR) میں بغیر کسی لگی لپٹی کے بتایا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم(MTCR)، آسٹریلیا گروپ (AG)، اور نیوکلئیر سپلائی گروپ (NSG) اور باہمی دفاعی اور نقل و حمل کے معاہدوں کے ذریعے بھارت کو ہائی ٹیک دفاعی آلات اور ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جارہی ہے۔ایک فوجی اتحاد میں عالمی طا قت کو سہولت کاری کی فراہمی ایک یکطرفہ معاملہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ بڑی طا قت کے مفادات کے حصول اور سہولت کار کے مفادا ت کے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکا –پاکستان اتحاد کو بھی اس حقیقت سے کوئی استثنا حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ اسلام استعماری اصولوں کا انکار کر کے کھیل کے اصول تبدیل کردیتا ہے۔ اسلام دوسری طا قتوں کے ساتھ فوجی اتحاد کومسترد کرتا ہے اور اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ اسلامی ریاست نہ صرف ایک اہم طاقت بنے بلکہ عالمی طا قت بنے۔ اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست صنعتی انقلاب برپا کرے تا کہ اسلحے کے لیے کسی پر بھی انحصار نہ کرنا پڑے۔ اسلام شرائط سے منسلک سودی قرضوں کو مسترد کرتا ہے اور مضبوط و آزاد معیشت کے لیے مقامی وسائل کو حرکت میں لاتا ہے۔ اسلام ویسٹ فیلین Westphalianتصور پر مبنی قومی ریاستوں کومسترد کرتا ہے جس کو بنیادی طور پر اس لیے تخلیق کیا گیا تھا کہ زبردست پیمانے پر وسیع ہوتی ریاست خلافت کومزید وسیع ہونے سے رو کا جاسکے۔ لہٰذا اسلامی ریاستِ خلافت واپس آنے کے بعد تمام مسلم علا قوں کو یکجا کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔ درحقیقت یہ و قت نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کا و قت ہے۔